Food rules. medicine
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی/سعد ورچوئل سکلز پاکستان
غذا کے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ بغیر شدید بھوک کے مریض کو غذا با لکل نہ دیں ۔ اور جب بھوک سے غذا کے لئے اصرار کرے تو اول اُسے لطیف اغذیہ مثلاً دودھ کا پانی پھلوں کا رس۔ چائے کا پانی (فتوہ) رفیق شوریہ انڈے کی سفیدی یا انڈے کی زردی کا شوربہ و غیر استعمال کرائیں اور جب ان کے بار بار کھانے سے بھی بھوک رفع نہ ہو تو انہی لطیف اغذیہ میں گھی کا اضافہ کر دیں، مثلاً دودھ گھی یا گھی والی چائے شوربے میں گھی وغیرہ اور اگر اس کے بعد بھی مریض بھوک کی شکایت کرنے تو دَ لیا۔ چاول، خشکہ ڈبل روٹی چپاتی وغیرہ دیں۔ مگر جس تر کاری کے ساتھ ان کو استعمال کرائیں ان میں گھی بہت زیادہ ہونا چاہیئے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی ذہن نشین رکھیں کہ ہر غذا کا وقفہ کم از کم چھ گھنے ضرور ہونا چاہئے ۔
یا در کھیںکہ غذا کو ہضم کرنے کے لئے حرارت کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں
Ghazai Chart by hakeem qari younas غذائی چارٹ از حکیم قاری یونس غذائی چارٹ….
اورجسم میں حرارت کی کمی کے وقت جو غذا مریض یا تندرست آدمی کھاتا ہے وہ ہضم نہ ہونے کی صورت میں اندر متعفن ہو کر باعث فساد ہوتی ہے۔ اس لئے اگر جسیم میں حرارت کی کمی ہو۔ تو سرد اغذ یہ بند کر دینی چاہئیں، کیونکہ غیر ضرورت ٹھنڈی اغذیہ مثلاً شربت لسی و غیر جسم کو سرد کر دیتی ہیں۔
یا در کہیں حرارت ایک ایسی چیز ہے جس پر زندگی کی نشو ونما کا دارو مدار ہے اس لئے طبیب کو مریض کی حرارت کو خاص
طور پر مد نظر رکھنا چاہئیے ۔
اسی طرح بغیر ضرورت مسہلات اور مدرات کا استعمال بھی منع ہے کیونکہ ان سے جسم کی حرارت کم ہوتی ہے ۔
غذا استعمال کراتے وقت درج ذیل احکام کو خاص طور پر مد نظر رکھیں ۔
(1) جب مرض رفع ہو رہا ہو ۔ اس وقت غدا پر مکمل کنٹرول ہونا چاہیئے ورنہ اگر ایسے وقت بغیر ضرورت غذا کھائی گئی تو طبعیت غذا کی طرف متوجہ ہو جائے گی جس سے حصول شفا میں رکاوٹ ہوگی
یا دوبارہ مرض شدت اختیار کر جائے گا۔ خاص طور پر باری کےبخاروں میں باری کے اوقات پر اس دن غذا بند رکھنی چاہیئے ۔ جب تک باری کا وقت گزر نہ جائے ۔
(۲) جب مریض کو بھوک زیادہ تنگ کرے اور وہ بار بار اس کی شکایت کرے تو اس کو اس قسم کی غذا دینی چاہیئے۔ جس میں مقدار کی زیادتی، مگر تغذیہ میں کمی ہو۔ مثلاً سبزیوں کا استعمال بغیر دودھ کی چائے ۔ چاول وغیرہ ۔ اور اگر اس کے بعد بھی بھوک کی زیادتی رہے ۔ تو ان میں گھی کی مقدار بڑھا دینی چاہیے ۔ ایسی کوشش کی جائےکہ اس کی غذا میں نشاستہ دار اغذیہ نہ ہوں یا بہت کم ہوں۔ کرایا جائے۔ لیکن اگر کمز وری شدید ہو ۔ تو مقوی اغذیہ قلیل مقدار میں استعمال
کرائی جائیں .
(2) گردوں کے امراض میں محلول اغذیہ مثلاً دودھ چائے پھلوں کا رس میں اغذیہ دو وہ چائےاستعمال کر ائیں۔
11)) آنتوں کے امراض خصوصاً جب پیچش ہو تو اغذیہ خصوصاً چبا کر کھانے والی اغذیہ بند کر دینی چاہیئے ۔ اس وقت صرف دودھ کا پانی۔ انڈے کی سفید کی استعمال کرائی جائے۔
(12) نزلہ زکام کی حالت میں غذا با لکل روک دینی چاہیئے۔ البتہ گر مریض اصرارکرے تو خشک اغذیہ مثلا چنے ۔ مکئی باجرہ – انڈے ۔ پکوڑے۔ کریلے بینگن : ٹماٹر وغیرہ کھلائیں۔
(۱۳) بخار کی حالت میں غذا با لکل بند کر دینی چاہئیے۔ مریض کے شدید اصرار پر پھلوں کا رس استعمال کرائیں ۔
(14) قبض کے مریضوں کو عام طور پر غذا زیادہ مقدار میں استعمال کرائی جائے۔
خصوصاً چرپری اور مرچ مصالحے والی غذا یہی وجہ ہے کہ قانون مفرد اعضاء کے معالج دائمی قبض کے مریضوں کا علاج صرف سالن کھلا کر ہی کرتے ہیں ۔
احکام دوا
دوا استعمال کرانے سے پہلے مرض کی صحیح تشخیص کرنا ضروری ہے جب تک تشخیص و تجویز میں شک نہو دوا استعمال نہ کرائیں۔ بلکہ ایسی صورت میں بہتر یہ ہے یاد رہے کہ بھوک کی زیادتی اکثر معدے کی سوزش یا خشکی کا نتیجہ ہوتی ہے۔
(۳) بعض اوقات مریض کی بھوک بالکل بند ہو جاتی ہے ۔ اور وہ نقاہت محسوس کرتاہے ایسی حالت میں تھوڑی مقدار میں مقوی اور زود ہضم اغذیہ استعمال کرائی جائیں ، جیسے شور بہ یا انڈے کی زردی وغیرہ ان سے طاقت بھی بحال رہے گی ۔ اور ہاضمہ پر زیادہ بو جھ بھی نہیں پڑے گا۔ بھوک کی کمی بعض وقت معدے میں خمیر اوربلغم کی زیادتی سے ہوتی ہے اور کبھی ضعف جگر سے ۔
(4) جب بدن میں ضعف کے ساتھ رطوبات کی زیادتی ہوتو غذ اکی مقدار اور کیفیت دونوں کے اعتبار سے کم کرادی جائے ۔
(۵) جب جسم میں غذا کو ہضم کرنے کی استعداد زیادہ ہو جائے اور طبعیت صحت کی طرف راغب ہو تو غذا میں مقدار اور کیفیت دونوں کو بڑھا دنیا چاہئے
(6) جب آنتوں اور جگر میں خرابی ہو تو ایسی غذا استعمال کروائی جائے جو معدے میں ہی ہضم ہو جائے جیسے نشاستہ دار اور لحمی اغذیہ ۔
(7) جب معدے میں سوزش ہو تو ایسی غذائیں استعمال کرائی جائیں جن سے معدے کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ یعنی انہیں ہضم کرنے کے لئے معدہ کو زیادہ محنت نہ کرنی پڑے ۔
(۸) جب قبض شدید ہو یا سدوں کا احتمال ہو تو اس وقت غذا کے ساتھ روغنی اشیاء کا اضافہ کر دنیا چاہئیے. جیسے بھی دودھ۔ بادام روغن وغیرہ .
(۹) جب تک جسم کے اندر زہریلے مواد ہوں تو اس وقت غذا خصوصاً مقوی اغذیہ کا استعمال بند رکھنا چاہئیے ۔ جب فضلات کا اخراج ہو جائے اور اعضا میں غذا کے طلب کی استعداد پیدا ہو جائے ۔ تو اس وقت مقوی غذا کو شروع
کہ صرف غذا روک دیں اور تسلی ہونے پر دوا استعمال کر ائیں ۔
مرض کی تشخیص اور دوا کی تجویز میں ضروری امور (1) مزاج مریض اور مرض (۲) دوا کی کیفیت (۳) اوقات استعمال دوا (4) مفرد ادویہ ( ۵ ) مرکب ادویہ –
مزاج مریض
تشخیص مرض میں سب سے ضروری امر یہ ہے کہ مریض کا موجودہ مزاج کیا ہے کیونکہ بیماری کی حالت میں جو مزاج مریض کا ہوتاہے اس کے تحت علامات مرض پیدا ہوتی ہیں۔ بعنی ان علامات کا مزاج بھی وہی ہوتا ہے۔
دوا کی کیفیت اور مقدار
دوا استعمال کرنے سے پہلے اس امر کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ وہ مریض کے مزاج کے مطابق ہو۔ اس میں ذیل کی باتوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔
(۱) مزاج مرض (۲) قوت مریض (۳) عمر مریض (۴) مریض میں احتباس و استفراغ کی حالت(۵ )رہائش مریض یعنی میدانی علاقہ میں رہتا ہے یا پہاڑی یا سمندر کے نزدیکی علاقوں میں (4 ) ما حول مریض (6) موجودہ موسم ۔جب مندرجہ بالا امور کی وضاحت ہو جائے تو پھر مریض کے مزاج کے ضد کیفیت کی حامل دوا کو منتخب کریں ۔ وہ دو الجرب المجرب ہونی چاہیئے۔ مریض کی عمر قوت اور مرض کی شدت خفت کے تحت دوا کی مقدار مقرر کریں ۔