پہلی جنگ آزادی میں میووں کا حصہ تحریک آزادی اور میوات مرتب کشمیری لال ذاکر پہلی جنگ آزادی میں میووں کا حصہ ڈاکٹر اعجاز احمد یسین میوڈگری کالج نوح ضلع میوات، ہریانہ (خلاصہ مضمون 1۔میوات کا علاقہ 2۔میو حریت پسند قوم 3۔1835 اور1857 کی جنگوں کا باہمی ربط۔ 4۔ہندستان کی جنگوں میں میوات کا کردار 5۔مجاہدین کا جیل پر دھاوا۔ 6۔میو خواتین کےبہادر ی کے گیت 7۔جنگ آزادی1857 کے میو ہیروز 8۔انگریزوں کے میوات پر ظالم کی انتہا 9۔ بہادر شاہ ظفر کے اشعار) میوات کا علاقہ میوات کا علاقہ ۱۸۵۷ کے وقت بنگال پریسیڈنسی کے نارتھ ویسٹ پر اونس کے دہلی ڈویژن کا حصہ تھا۔ اس کا ایک بڑا علاقہ گوڑ گاؤں ضلع میں آتا تھا۔ یہ علاقہ خاص طور پر ۱۸۵۷ کے غدر میں میو عوام کی جانبازی اور بہادری کا چشم دید گواہ رہا ہے۔ یہ عالم انسانیت کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ سارے کے سارے میوات کے گاؤں کے لوگوں نے انگریزی ظلم وستم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہو اور اپنی سرزمین سے ان کی حکومت کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی ہو۔ ان کے اس کام کیلئے انکو دُنیا کے سب سے زیادہ مہذب کہے جانے والے لوگوں کے ہاتھوں بہت ہی گھناؤنے اور تباہ کن ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑا جس کا پورے ہندوستان کی تاریخ میں کوئی جواب نہیں۔ میو حریت پسند قوم میو جو ایک حریت پسند قوم ہے پرانے زمانے سے کاشتکاری ہی ان کا پیشہ رہا ہے۔ کئی سالوں سے یہ قوم انگریزی سرکار کی نظام برتری اور ظلم وستم کے شکار تھے۔ وہ اپنے ہی گھر میں اور اپنی ہی زمین پر غلامی کی زنجیروں سے جکڑا ہوا محسوس کر رہے تھے اور جب بھی انہیں غلامی سے نجات پانے کا موقع ملا وہ اس میں کود پڑے۔ 1835 اور1857 کی جنگوں کا باہمی ربط اس کی تاریخی مثال ۱۸۳۵ کی ہے جب میووں نے انگریزوں کے خلاف ایک نا کامیاب کوشش کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سازش میں فیروز پور جھر کا کے نواب شمس الدین سیدھے طور پر ملوث تھے لیکن کریم خان اور انیا میو نے انگریز ایجنٹ ولیم فریزر کو مارنے میں نواب کا ساتھ دیا تھا جس میں نواب اور کریم خان کو پھانسی ہوئی تھی۔ ہندستان کی جنگوں میں میوات کا کردار اسکا پورے میوات پر گہرا اثر پڑا اور یہ بھی ایک وجہ تھی جس میں ۱۸۵۷ء کے دوران پورے میوات کے لوگوں نے اپنی ساری طاقت انگریزی سامراج کیخلاف جھونک دی(تاریخ میو چھتری442)۔ جب ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی کی شروعات پہلے میرٹھ اور بعد میں دہلی سے ہوئی تو تقریباً ۳۰۰ مجاہدین آزادی جو تیسری ہلکی گھوڑ سوار فوج سے تعلق رکھتے تھے، نے ۱۳ مئی ۱۸۵۷ء کو گوڑ گاؤں پر حملہ کر دیا۔ اس وقت گوڑ گاؤں کا کلکٹر اور ضلع مجسٹریٹ ولیم فورڈ نے پٹودی کے کچھ سواروں کی مدد سے بجو اسن گاؤں کے قریب انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوا کیونکہ اس وقت تک مجاہدین کے ساتھ بہت سے مقامی میو، جاٹ اور اہیر شامل ہو گئے تھے۔ مجاہدین کا مقابلہ نہ کر پانے پر فورڈ بھونڈی، پلول اور ہوڈل ہوتا ہوا متھر ابھاگ گیا۔ گوڑ گاؤں میں مجاہدین کو ایک بڑی رقم (۷۸۴۰۰ روپئے) (کے،سی یادو ہریانہ اتہاس1یومسنسکرتی حصہ2 نئی دہلی1992ص105)ہاتھ لگی ساتھ ہی ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ بھی ہاتھ لگا۔ مجاہدین نے ۲۵ انگریزوں کو ہلاک کر دیا اور سرکاری مالگزاری کے کاغذات کو جلا دیا۔ مجاہدین کا جیل پر دھاوا۔ مجاہدین نے جیل پر بھی دھاوا بول کر سارے قیدیوں کو چھڑالیا۔(3) سارے مجاہدین نے ملکر پورے ضلع کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو پورے علاقے کا بادشاہ تسلیم کیا ۔ مؤرخ شمس الدین شمس کے مطابق بہت سارے میں مجاہدین نے علی حسن خان میو کی قیادت میں گھا سیٹرا کے قریب فورڈ کی فوج سے لڑائی لڑی اور انہیں ہرا کر متھرا بھاگنے پر مجبور کر دیا۔(4) ۲۰ /مئی ۱۸۵۷ء کو پنھانا، پنگواں ہتھین ، نگینا ، نوح، فیروز پور جھر کا ، رو پڑا کا، کاما، ڈیگ، بھرت پور، دوسا اور الور کے چودھریان نے ایک مہا پنچایت کی اور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اپنا رہنما تسلیم کیا۔( ۵) مئی کے آخر تک تقریباً سارے میوات کے دیہات آزاد ہو چکے تھے اور ان کا نظام ان گاؤں کے چودھریان نے سنبھال لیا۔(6) لیکن اب بھی میوات کے قصبوں میں انگریزوں کے وفادار موجود تھے اور یہاں پر حملے کی ذمہ داری صدر الدین میو نے لی۔ میووں کے جم غفیر کے ساتھ صدر الدین نے خاص طور پر خانزادے اور سرکاری افسران کو نشانہ بنایا۔ ان مجاہدین نے بڑی آسانی سے تاؤڑو، سوہنا، فیروز پور جھر کا، پنھانا اور پنگواں کو اور ان کے نظام کو اپنے قبضے میں کرلیا۔(7) اوراسے مجاہدین کا مرکز بنایا۔ یہاں مجاہدین میں میو اور گوجر دونوں شامل تھے(9) ۔ نوح میں علی حسن خان میواتی اور بہت سارے ان کے میوسا تھیوں نے حملہ کیا مگر یہاں مقامی پولیس اور خانزادے جو انگریزوں کے وفادار تھے مجاہدین کیلئے کافی مشکلات پیدا کیں ۔ مگر میووں کی تعداد خانزادوں کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی اس لئے کامیابی میووں کو ہی ملی اور خانزادے برُی طرح سے ہارے اور کافی تعداد میں مارے گئے ۔( 10) نوح میں مجاہدین کی جیت نے میوات میں انگریزی حکومت کو پوری طرح ختم کر دیا۔ میوات کے لوگ آزادی پاکر کافی خوش تھے ۔ عورتیں بہادری کے گیت گاتی تھیں۔ ان گیتوں کے بول کچھ اس طرح تھے۔( 11) میو خواتین کےبہادر ی کے گیت کد جائیگو فرنگی یا بی رج میں سو۔ چڑیا چڑ نگلا سب مروایا ، مورا ما رو بڑ میں سو ، کدَ جائیگو فرنگی یابی رج میں سو” جنگ آزادی1857 کے میو ہیروز نصف جون ۱۸۵۷ء میں جے پور ریاست کا سیاسی ایجنٹ ڈبلیو ۔ایف۔ ایڈن چھ ہزار فوج اور سات تو پوں کے ساتھ میوات ہوتے ہوئے دہلی جارہا تھا۔ راستے میں میووں نے اسے بہت تنگ کیا۔ اس لئے ایڈن نے دہلی سے پہلے میوات کو جیتنے کو ترجیح دیا۔(13) میووں نے مہراب خان
10 Disadvantages of Adding Lemon to Your Tea
10 Disadvantages of Adding Lemon to Your Tea اپنی چائے میں لیموں ڈالنے کے 10 نقصانات 10 عيوب لإضافة الليمون إلى الشاي الخاص بك (1. دانتوں کی حساسیت۔2. پیٹ کی تکلیف3. منہ کے زخموں کی جلن4. لوہے کے جذب پر اثر5. جلد کی حساسیت6. دل کی جلن کا خطرہ7. ادویات کے ساتھ تعامل8. ممکنہ الرجک رد عمل9. تامچینی کٹاؤ 10. Gastroesophageal Reflux Disease (GERD) بڑھ جانا) حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو تعارف جب چائے کے ذائقے اور ممکنہ صحت کے فوائد کو بڑھانے کی بات آتی ہے، تو بہت سے لوگ لیموں کے ذائقے اور تازگی کے اضافے کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اگرچہ لیموں واقعی آپ کی چائے میں ایک خوشگوار موڑ ڈال سکتا ہے، لیکن اس بظاہر معصوم امتزاج سے پیدا ہونے والے ممکنہ ضمنی اثرات سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ اس آرٹیکل میں، ہم آپ کی چائے میں لیموں شامل کرنے کے 10 ضمنی اثرات کا جائزہ لیں گے اور اعتدال میں اس جوڑی سے لطف اندوز ہونے کے بارے میں بصیرت فراہم کریں گے۔ 1. دانتوں کی حساسیت لیموں کی تیزابیت وقت کے ساتھ دانتوں کے تامچینی کو ختم کر سکتی ہے، جس سے دانتوں کی حساسیت میں اضافہ ہوتا ہے اور گہاوں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اس کو کم کرنے کے لیے، اپنے دانتوں کے ساتھ براہ راست رابطے کو کم کرنے کے لیے لیموں سے بھری چائے کو بھوسے کے ذریعے پینے پر غور کریں۔ 2. پیٹ کی تکلیف حساس پیٹ والے افراد کے لیے، لیموں میں تیزابیت تکلیف کا باعث بن سکتی ہے، جس سے ایسڈ ریفلکس یا بدہضمی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ڈی کیفین والی چائے کا انتخاب کریں اور ان علامات کو بڑھانے سے بچنے کے لیے لیموں کی مقدار کو محدود کریں۔ 3. منہ کے زخموں کی جلن لیموں میں تیزابیت منہ کے زخموں یا السر کو بڑھا سکتی ہے، لیموں والی چائے کا استعمال ان حالات کا شکار لوگوں کے لیے تکلیف دہ بناتا ہے۔ اگر آپ کے منہ میں زخم ہیں تو، یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپ اپنی چائے میں لیموں شامل کرنے سے گریز کریں جب تک کہ وہ ٹھیک نہ ہوں۔ 4. لوہے کے جذب پر اثر لیموں میں وٹامن سی کا مواد، جبکہ کئی طریقوں سے فائدہ مند ہے، چائے میں پودوں پر مبنی کھانوں سے نان ہیم آئرن کے جذب ہونے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اگر آپ آئرن کے ذریعہ چائے پر انحصار کرتے ہیں تو اسے لیموں کے بغیر پینے پر غور کریں یا آئرن بڑھانے والے غذائی اجزاء سے بھرپور متنوع غذا کو یقینی بنائیں۔ 5. جلد کی حساسیت کچھ افراد کو لیموں والی چائے پینے پر جلد کی حساسیت میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے خارش یا خارش ہو سکتی ہے۔ یہ ان لوگوں میں زیادہ عام ہے جن میں لیموں کی الرجی ہے یا جلد کی حساس حالت۔ 6. دل کی جلن کا خطرہ لیموں اپنی تیزابیت کی وجہ سے بعض افراد میں جلن کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر آپ کو جلن کا خطرہ ہے تو، لیموں کے بغیر چائے پینے یا کم تیزابیت والے لیموں کی اقسام کا انتخاب کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ 7. ادویات کے ساتھ تعامل لیموں بعض دواؤں کے ساتھ تعامل کر سکتا ہے، ممکنہ طور پر ان کی تاثیر کو کم کر سکتا ہے یا منفی ردعمل کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر آپ دوا لے رہے ہیں تو، باقاعدگی سے لیموں والی چائے پینے سے پہلے اپنے ہیلتھ کیئر فراہم کنندہ سے مشورہ کریں۔ 8. ممکنہ الرجک رد عمل نایاب ہونے کے باوجود، کچھ لوگوں کو لیموں جیسے کھٹی پھلوں سے الرجی ہو سکتی ہے۔ الرجک رد عمل جلد پر خارش، سوجن، یا شدید صورتوں میں سانس لینے میں دشواری کے طور پر ظاہر ہو سکتا ہے۔ محتاط رہیں اور الرجی کی علامات ظاہر ہونے پر استعمال بند کردیں۔ 9. تامچینی کٹاؤ لیموں کی تیزابیت دانتوں کے تامچینی کو کمزور کر سکتی ہے، اور لیموں والی چائے زیادہ پینا تامچینی کے کٹاؤ میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اپنے دانتوں کی صحت کو بچانے کے لیے لیموں کے استعمال کو محدود کرنے پر غور کریں۔ 10. Gastroesophageal Reflux Disease (GERD) بڑھ جانا GERD میں مبتلا افراد کو لیموں کے تیزابی مواد کی وجہ سے خراب علامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیموں والی چائے GERD والے لوگوں میں تیزابیت اور تکلیف کو متحرک کر سکتی ہے، لہذا اعتدال کلیدی ہے۔ نتیجہ اگرچہ آپ کی چائے میں لیموں کا اضافہ بلاشبہ ذائقہ کو بڑھا سکتا ہے، لیکن ممکنہ ضمنی اثرات کے بارے میں ذہن سازی کے ساتھ اس جوڑی سے رجوع کرنا بہت ضروری ہے۔ دانتوں کی حساسیت سے لے کر معدے کی تکلیف تک، ان 10 ضمنی اثرات سے آگاہی آپ کو متوازن اور صحت مند انداز میں لیموں والی چائے سے لطف اندوز ہونے میں مدد دے سکتی ہے۔ اکثر پوچھے گئے سوالات Q1: اگر میرے دانت حساس ہیں تو کیا میں اب بھی لیموں والی چائے سے لطف اندوز ہو سکتا ہوں؟ A: بالکل، لیکن اپنے دانتوں کے ساتھ رابطے کو کم کرنے کے لیے تنکے کے استعمال پر غور کریں۔ Q2: کیا چائے میں ذائقہ شامل کرنے کے متبادل طریقے ہیں؟ ج: جی ہاں، آپ منفرد ذائقے کے موڑ کے لیے پودینہ جیسی جڑی بوٹیوں یا دار چینی جیسے مصالحے کے ساتھ تجربہ کر سکتے ہیں۔ Q3: اگر مجھے GERD ہے تو کیا مجھے لیموں سے مکمل پرہیز کرنا چاہئے؟ ج: ضروری نہیں، لیکن لیموں والی چائے کو اعتدال میں استعمال کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے تاکہ علامات بڑھنے سے بچ سکیں۔ Q4: کیا چائے میں لیموں دوائیوں میں مداخلت کر سکتا ہے؟ A: لیموں کچھ ادویات کے ساتھ تعامل کر سکتا ہے، لہذا اگر آپ فکر مند ہیں تو اپنے ہیلتھ کیئر فراہم کنندہ سے مشورہ کریں۔ Q5: میں لیموں والی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے دانت کے تامچینی کی حفاظت کیسے کر سکتا ہوں؟ ج: لیموں والی چائے پینے کے بعد اپنے منہ کو پانی سے دھونے پر غور کریں اور منہ کی صفائی کا ایک اچھا معمول برقرار رکھیں۔
Vascular drugs. Benefits and harms.
Vascular drugs. Benefits and harms.؎ عروقی ادویات۔نفع و مضرات۔ Vascular drugs. Benefits and harms. أدوية الأوعية الدموية فوائدها وأضرارها. حکیم املیوات قاری محمد یونس شاہد میو خون کی نالیوں اور دوران خون کو متاثر کرنے والے مختلف عروقی حالات کی تشخیص، انتظام اور علاج میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دیسی طب میں انہین نالیوں مین خون کے بہائو کو دیکھتے ہوئے نبض سے تشخیص کی جاتی ہے۔اور انسانی جسم میں خون کے بہائو کا دبائو اور اس کی کمی زیادتی معلوم کی جاتی ہے سنٹر فار ویسکولر میڈیسن آف گلین برنی ایک سرکردہ صحت کی سہولت ہے جو مریضوں کو جامع عروقی نگہداشت فراہم کرتی ہے۔ اس مضمون میں، ہم عروقی کی عام حالتوں، عروقی صحت کی اہمیت، اور سنٹر فار ویسکولر میڈیسن کی طرف سے پیش کردہ عملی علاج کے طریقوں کا جائزہ لیں گے ۔I. عروقی صحت کی اہمیتA . ویسکولر سسٹم کا جائزہعروقی نظام خون کی نالیوں پر مشتمل ہوتا ہے جو گردشی نظام میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عروقی صحت کی اہمیت کو تسلیم کرنے کے لیے خون کی نالیوں کے کام اور ساخت کو سمجھنا ضروری ہے، ۔B،. عروقی صحت اور اس کے اثرا ت مختلف طرز زندگی اور طبی عوامل عروقی صحت کو متاثر کر سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ عروقی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ان خطرے والے عوامل کی نشاندہی بہت ضروری ہے۔ مزید برآں، علاج نہ کیے جانے والے عروقی حالات شدید پیچیدگیوں کا باعث بن سکتے ہیں، جو بروقت تشخیص اور علاج کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ دیسی حکماء کا تجربہ اس بارہ میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔اگر ٹھیک طریقت سے تشخیص کرلی جائے تو معالج و مریض دونوں کو اطمنان ہرتا ہے ۔II عام عروقی حالاتA ،. پیریفرل آرٹری ڈیزیز (PAD)پیریفرل آرٹری ڈیزیز (PAD) اس وقت ہوتی ہے جب atherosclerosis پردیی شریانوں کو تنگ کر دیتا ہے، جس سے اعضاء میں خون کا بہاؤ کم ہو جاتا ہے۔ PAD کے موثر انتظام کے لیے علامات کو پہچاننا اور مناسب تشخیص سے گزرنا ضروری ہے۔خون کی نالیوں کی تنگی کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے،اگر یہ سبب دور کردیا جائے تو خون کی نالیوں کو تندرست رکھا جاسکتا ہے بی۔۔ ڈیپ وین تھرومبوسس (DVT)ڈیپ وین تھرومبوسس (DVT) سے مراد گہری رگوں میں، عام طور پر ٹانگوں میں خون کے لوتھڑے بننا ہے۔ سنگین نتائج کو روکنے کے لیے DVT کی وجوہات، خطرے کے عوامل، علامات اور ممکنہ پیچیدگیوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ ۔C. Varicose VeinsVaricose رگیں بڑھی ہوئی اور بٹی ہوئی رگیں ہیں جو رگوں کی گردش کو متاثر کر سکتی ہیں۔ ویریکوز رگوں کے انتظام اور وینس کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے کم سے کم ناگوار طریقہ کار دستیاب ہیں۔ لیکن دیسی طب میں اس کے آسنا اور غذائی علاج موجود ہیں۔ ۔III ویسکولر میڈیسن میں تشخیصی تکنیک .A. ویسکولر الٹراساؤنڈویسکولر الٹراساؤنڈ ایک غیر حملہ آور امیجنگ تکنیک ہے جو صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کو خون کے بہاؤ کو دیکھنے اور عروقی مسائل کی نشاندہی کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ ڈوپلر الٹراساؤنڈ خون کے بہاؤ کی رفتار کا اندازہ لگا سکتا ہے اور اسامانیتاوں کا پتہ لگا سکتا ہے۔؎ ایک ماہر طبیب انگلیوں کے پوروں کی مدد سے بآسانی تشخیص کرسکتا ہے ۔B. انجیوگرافیانجیوگرافی ایک کیتھیٹر پر مبنی امیجنگ کا طریقہ کار ہے جو خون کی نالیوں کا تصور کرتا ہے۔ عروقی حالات کی تشخیص اور علاج میں انجیوگرافی کے فوائد اور استعمال کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔اگر کوشش کی جائے اور بہترین غذا کا انتخاب سے خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے چہارم علاج کے مؤثر طریقےA۔ . انجیو پلاسٹی اور سٹینٹنگانجیو پلاسٹی میں خون کے بہاؤ کو بہتر بنانے کے لیے تنگ شریانوں کو چوڑا کرنا شامل ہے، جب کہ اسٹینٹنگ میں شریانوں کی دیواروں کو سہارا دینے اور برتن کی پیٹنسی کو برقرار رکھنے کے لیے اسٹینٹ ڈالنا شامل ہے۔ یہ طریقہ کار مختلف عروقی حالات کے انتظام میں موثر ہیں۔ ناگریزی طریق علاج میں گرمی سردی کا کوئی تصور موجود نہیں نہیں ہے۔جب کہ سائنس کا قانون ہے سخت چیز کو حرارت پہنچاکر نرم کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ تنگی کا سبب سردی اور کثافت کی وجہ سے نالیوں میں تنگی پیدا ہوجاتی ہے۔یعنی جسم میں جس قدر رعارت کی ضرورت تھی موجود نہیں ہے۔اگر یہ رارت کسی بھی انداز میں پیدا کردی جائے تو مصنوعی انداز سے نالیوں کی کشادگی کی نوبت نہ آئے۔ ۔.B. تھرومبولائسز تھرومبولائسز میں متاثرہ وریدوں میں خون کے جمنے کو توڑنے کے لیے ادویات کا انتظام کرنا شامل ہے۔ یہ بعض عروقی حالات کے لیے ایک قابل قدر علاج کا اختیار ہے۔C. Endovascular Aneurysm Repair (EVAR)Endovascular Aneurysm Repair (EVAR) ایک کم سے کم ناگوار طریقہ کار ہے جس میں aortic aneurysms کے علاج کے لیے سٹینٹ گرافٹ پلیسمنٹ شامل ہوتی ہے۔ یہ مریضوں کے لیے کئی فوائد اور تحفظات پیش کرتا ہے۔ جدید میڈیکل کی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ نالیوں میں جمے ہوئے لوتھڑے کو نکال دیا جائے تو مریض کی ےکلیف دور کی جاسکتی ہے۔سابقہ سطور میں لکھا جاچکا ہے کہ سب معلوم کریں کہ لوتحرے کیوں پیدا ہوئے،اگر آپریشن کرکے لوتھرے نکال بھی دئے جائیں تو کیا گانرٹی ہے کہ دوبارہ لوتھڑے نہیں بنیں گے؟۔۔۔دیسی طریقہ علاج می ں کچھ غذائی اور دوائیں ایسی ہیں جو یہ کام آسانی سے کرسکتی ہیں اطباء کرام کو اس بارہ میںغور کرنا چاہئے۔ ۔V. جدید علاج کے اختیارات A. AtherectomyAtherectomy میں شریانوں میں تختی کی تعمیر کو دور کرنے کے لیے خصوصی آلات کا استعمال شامل ہے۔ یہ طریقہ کار عروقی حالات کو سنبھالنے اور مجموعی عروقی صحت کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے مصنوعی آلات کئے بجائے اگر جسم کا نظام ٹیک طریقے سے بحال کردیا جائے تو اس کی نوبت ہی نہ آئے ۔B. سٹیم سیل تھراپیاسٹیم سیل تھراپی عروقی شفا یابی اور مرمت کو فروغ دینے کے لیے اسٹیم سیلز کا استعمال کرتی ہے۔ جاری تحقیق عروقی طب میں علاج کے اس جدید طریقہ کی تاثیر کی تحقیقات کر رہی ہے جو بات ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ جہاں ٹھنڈک ہے وہاں مناسب حرارت پیدا کرکے مطلوبہ نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں ۔VI گلین برنی کے ویسکولر میڈیسن کے مرکز کا
Yasir Sultan Meo win. And the Meo nation lacks planning
یاسر سلطا ن میو کی جیت۔ اور میو قوم میں منصوبہ بندی کو فقدان۔ Yasir Sultan Meo win. And the Meo nation lacks planning حکیم المیوات:قاری محمد یونس شاہد میو میو قوم اپنی سادگی اور کھرا پن کی وجہ سو مشہور ہی عمومی طورپے اپنے علاوہ دوسری دنیا سو کم ہی واسطہ راکھے ہی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری قومن کی طرح میو قوم میں تاریخ ،کتاب۔لکھائی پڑھائی جیسی بات موجود نہ ہی ۔اِن لوگن کا وہی ہیرو ہا جو بات یعنی کہا نین میں ان کو بتائیا اور سنایا جاوے ہا یا پھر دھرم کا کچھ لوگ ہا۔ جن کو اہمیت دی جاوے ہی لیکن اب زمانہ بدل چکو ہے،اختلاط اقوام اور معلومات کی وسعت بہت گھنی ہوچکی ہے۔ کہن سنن کے مارےہیروز بدل چکاہاں۔میوقوم اپنا ہیروز کی قدر کرے ہے لیکن یا قوم کے پئے کوئی ایسو میکانیزم موجودنہ ہے کہ منصوبہ بندی کرکے از خود ہیروز تیار کرسکے یعنی میو قوم کے لئے ایسی منصوبہ بندی نہ ہے کہ خود اپنا ہیروز تیار کراجاواں جن پے قوم بجا طورپے فخرکرسکے۔میوقوم کے پئے خواہ زندگی کوکوئی بھی شعبہ ہوئے منصوبہ بندی نہ ہے۔کرو کرائیو کام مل جائے، بس واکے سامنے جھک جاواہاں۔وائے ساری قوم چومتی چاٹتی ڈولے ہےبہت اچھی بات ہے۔ لیکن آگے بڑھن والی قومن کی سوچ کچھ الگ رہوے ہے۔ کامیاب قوم جب کائی میدان میں کامیابی حاصل کرلیواہاں تو سوچاں کہ ای کامیابی کیسے برقرار راکھی جاسکے ہے؟ وے لوگ اُن چیزن پے غور کراہاں۔جو کامیابی کو سبب بن سکاہاں اتفاقی کامیابی حاصل ہوسکے ہے۔اصل بات تو ای ہے کہ وا کامیابی اے برقرار۔راکھو جاسکے۔ روپیہ کامانو مشکل ہے لیکن یائے باقی راکھنو اور بھی مشکل ہے۔ مثلاََ آج کال یاسر سلطان کی کامیابی جو کہ میو قوم کی کامیابی قرار دی جاری ہے پے میو قوم جلسہ، جلوس۔مینٹگز۔پنچایت۔ظہرانہ عشایہ دعوت عام، نہ جانے کائیں کائیں نام سو لوگ بھیلا کراجارا ہاں ایک سو بڑھ کے ایک پروگرام کراجارا ہاں۔ سب سو پہلے تو یاسر سلطان کو پھر سو مبارکباد کہ وانے میو قوم کو نام روشن کرو۔لیکن میو قوم واکے ساتھ کہا کرری ہے؟ کرن کو کام ای ہے کہ۔لوہا گرم ہے، میو قوم میں ٹیلنٹ بہت ہے میو قوم کا لوگ دولت لٹان کے مارے چائو بھرا پھرا ہاں کوئی مشترکہ کمیٹی بنا کے واکی نگرانی میں کوئی اکیڈمی۔کوئی کھیلن کی ترتیب ایسی بنائی جائے جامیں اور بہت سا یاسر سلطان میوجنم لے سکاہاں اعلانات ہوراہاں۔عملی قدم کائی نے نہ اٹھائیو ہے۔ جیت کا یا جوش و جذبہ سو فائدہ اُٹھا کے ہونہار جوانن کے مارے کھیل کا میدان میں کامیابی کا راستہ ہموار کراجاواں موقعہ روز ر۔روز نہ ملاہاں۔نہ ہانڈی مین بار بار اُبال آوے ہے ہماری زندگی کو تجربہ ہے ایک بار کی پنچائت ٹوٹی پھر بھیلی نہ ہووے ہے نیک چیک کتنو بھی ملوک و خوبصورت ہوئے وائے چومن چاٹن سو کوئی فائدہ نہ ہے ۔فائدہ وائے کیش کروانا سو ملے ہے یاسر سلطان میو بھی میو قوم کو چیک ہے یائے کیش کرالئیو۔ یاسو یاسر کو بھی فائدہ ہے اور میو قوم کو بھی فائدہ ہے لیکن موئے امید ہے کہ بہتری کو کوئی فیصلہ کرن کی کائی میں استطاعت نہ ہے کیونکہ ہم وے لوگ ہاں جو صرف کامیابی پے ناچ کوُد سکاہاں دوسران کی کامیابی پے معمولی سو خرچ کرکے اپنو نام بنانو چاہاں میں میو قوم کا کرتا دَھرتان سو ہاتھ باندھ کے بنتی کرو ہوں میو قوم کی نئی نسل کے مارے کچھ بہتر سوچو۔ان کو زندگی کا ایسا منصوبہ فراہم کرو جو اِنن نے مصروف راکھاں ۔نہیں تو میوقوم کی نئی پود نشہ کی دلدل میں غرق ہوتی جاری ہے۔اپنی میو قوم کی سربلندی بہتر منصوبہ بندی پے منحصر ہے۔اجتماعیت کی حقیقی روح سو بے خبر کدی ترقی نہ کرسکاہاں یا وقت میو قوم میں جو جذبہ اور خوشی موجود ہے یاسو قوم کو مستقبل بنا لئیو یاسر سلطان میو کی قدر دانی ای نہ ہے کہ یائے سِرن پے اٹھائیو ڈولو یاکی بہترین عزت افزائی یامیں ہے کہ یا کا ہنر سو فائدہ اُٹھائو جاسو آن والا وقت میں بہت سا یاسر سلطان پیدا ہوسکاہاں میو قوم کا نوجوانن کے مارے میدان بنائیو۔فنڈ جمع کرو بین الاقوامی یا حکومتی سطح پے جو پزیرائی ملی ہے وائے کیش کرائو اور یاسر سلطان میو اور یا جیسا دوسرا قومی ہیرون کو یاکی ذمہ داری دئیو کہ نیا ایتھلیٹ تیار کرو۔پتو ہوئے کہ گیمز میں میو قوم کے پئے خام مواد موجود ہے جب ضرورت پڑے گی عمارت کھڑی کرسکاہاں امید ہے میو قوم کا بڑا یابارہ مین جرور غور وفکر کرنگا۔اہل ثروت اپنی دولت کو کچھ حصہ میو قوم کے ماری مختص کرنگا۔ ای میدان دولت سو بھرو پڑو۔جتنو خرچ کروگا واسو بڑھ چڑھ کے سارای زندگی کمائوگا۔ میں ان لوگن کو شکر گزار ہوں جنن نے یاسر سلطان کی جیت میڈیا اور اپنی ذاتی کوشش کی بنیاد پے یاسر سلطان میو کی کامیابی کی خوشی کو ماحول پیدا کرو میری نگاہ میں دو شخصیات باباذادہ داکٹر اسحق میو اور شہزاد جواہر صاحب قابل ستائش ہاں۔ اور بے شمار لوگ موجود ہاں جنن نے یاسر سلطان کی پاکستان آمد سو لیکے آج تک میڈیا اور میو قوم کی محلفن کی زینت بنا راکھو ہے۔ میں ان کے ساتھ دیگر میو قوم کا درد راکھن والان سو درخواست گزار ہوں کہ یا موقع سو فائدہ اٹھائو اور میو قوم کا مستقبل اے بہتر بنائو۔
مچھر اور ملیریا۔قران و سائنس کی نظر میں۔
مچھر اور ملیریا۔قران و سائنس کی نظر میں۔
الفہرست ابن ندیم
الفہرست ابن ندیم کتاب ”الفہرست“ تراجم و تالیفات اور مختلف علوم و فنون کے بارے میں بڑی اہمیت کی حامل اور اصل االصول کی حیثیت رکھتی ہے اور اس موضوع کی یہ پہلی کتاب ہے۔ اس شہرہ آفاق کتاب کے مصنف کا نام محمد بن اسحاق بن محمد ابن اسحاق الندیم ہے، لیکن ابن ندیم کے نام سے ہی مشہور ہے۔ اس کی کنیت ابوالفرج ہے، بغداد میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک وراق تھا۔)تاريخ االسالم للذہبي: /8 ،833 معجم االدبا للحموي: /6 ،2427 لسان الميزان: /5 ،72 معجم المطبوعات العربيہ/1: 267( ابن خلدون نے وراقین کی تعریف میں کہا کہ: کتابوں کی نقل، تجلید، تصحیح وغیرہ امور جن کا پیشہ ہوتا ہے انھیں وراقین کہا جاتا ہے۔)تاريخ ابن خلدون: 1/503( 1/4 حیرت کی بات یہ ہے کہ جس شخص نے ہزاروں مصنفین و مؤلفین، ان کی تالیفات و تصنیفات، مختلف علوم و فنون اور قیمتی علمی و تحقیقی ذخائر سے پوری دنیا کو متعارف کرایا، خود اس کی زندگی کا حال یہ ہے کہ لوگ اس کے حاالت زندگی سے متعارف نہیں ہوسکے۔ سیر و تاریخ کی اکثر کتابیں اس کے ذکر ہی سے خاموش ہیں، صرف دو چار مؤلفین نے نہایت مختصر، چند سطور میں اس کا ترجمہ ذکر کیا ہے۔ اسی لیے ابن الندیم کی طفولیت، عہد شباب، تعلیم و تربیت، مشایخ و تالمذہ اور ان کے علمی رحالت و سفر، ان تمام امور سے دنیا واقف نہیں ہوسکی۔ البتہ مؤلف کی اس زیر تبصرہ کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت وسیع النظر، مختلف علوم و فنون کے بہت زیادہ جانکار اور ہر فن کی کتابوں اور ان کے مصنفین کے بارے میں کامل آگاہی رکھتا تھا۔ ابن الندیم محدثین و محققین کے نزدیک غیر ثقہ و غیر معتبر ہے۔ مؤلف کا عقیدہ اور مذہب: کسی بھی کتاب کو پڑھنے سے پہلے اس کتاب کے مؤلف کے عقیدہ اور مذہب کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے، تاکہ اگر کسی کتاب کا مؤلف فاسد العقیدہ والفکر ہو تو اس کا اثر قارئین کی زندگی اور فکر پر نہ پڑے اور اس مؤلف کے بارے میں ہم پہلے ہی سے محتاط ہوجائیں۔ جہاں تک ابن الندیم کی بات ہے تو وہ مذہبا شیعی بلکہ رافضی اور معتزلی تھے۔ ان کی تحریرات و تقریرات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو اہل سنت سے بغض و نفرت تھی جیسا کہ روافض کے یہاں یہ العالج بیماری ہے۔ ابن حجر نے کہا کہ: جب میں نے ان کی کتاب کا مطالعہ کیا تو پتہ چال کہ وہ رافضی معتزلی ہیں، اہل سنت کو حشویہ اور اشاعرہ کو مجبرہ کا نام دیتے ہیں اور ہر غیر شیعی عالم کو عامی کہتے ہیں، اس مؤلف میں عجیب و غریب بات یہ ہے کہ انھوں نے عبد المنعم بن ادريس، واقدي ، اسحاق بن بشير وغیرہ کذابین کی توثیق کی ہے اور محمد بن اسحاق، ابی اسحاق الفزاری وغيره ثقات پر کالم کیا ہے)لسان الميزان: /5 72( وفات: مؤرخین کا ان کی تاریخ وفات کے بارے میں اختالف ہے، عالمہ ذہبی نے تخمینا ان کی تاریخ وفات 391 سے 400 ہجری بتایا ہے۔)تاريخ االسالم: /8 833( جبکہ معجم المطبوعات العربيہ کے مؤلف نے ان کی وفات 385 کے آس پاس قرار دیا۔)معجم المطبوعات العربيہ: /1 267( کتاب کا مختصر تعارف: مؤلف نے اس کتاب کا کوئی عنوان نہیں رکھا ہے، صرف کتاب کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے کہ: ”یہ کتاب عرب و عجم کی ان تمام کتابوں کی فہرست ہے جو عربی زبان اور اس کے رسم الخط پر مشتمل ہیں“)الفہرست: ص 7( اور یہیں سے یہ کتاب لوگوں کے درمیان ”فہرست“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کتاب میں چوتھی صدی ہجری کے اواخر تک کے تمام علوم و فنون، ثقافت و تہذیب کا جائزہ لیا ہے اور ان کے مولفین کے مختصر حاالت اور ان کی تاریخ والدت و وفات کا ذکر کیا ہے۔ دنیا کی اولین فہرستِ کتب اور کتابوں کے اشاریے اس میں اقوام عرب و عجم کی زبان، اسلوب تحریر، ان کے رسم الخط، کتابت کی شکلیں اور مشہور خطاط و کتاب کا ذکر ہے۔ اس میں قرآن کریم کے نزول، اس کی جمع و تدوین، مشہور قراء، مفسرین اور کاتبین وحی کے بارے میں قیمتی معلومات جمع کیے گئے ہیں۔ اسالم سے قبل آسمانی کتب و صحائف کے بارے میں بھی ضروری معلومات کا ذکر ہے۔ زبان و ادب، فصاحت و بالغت، شعر و شاعری، شعراء جاہلیت اور شعراء اسالم کے طبقات وغیرہ امور سے متعلق اہم تفصیالت سپرد قلم کیے ہیں۔ علم نحو کی تاریخ، اس کی اہمیت و ضرورت، مشہور نحویوں اور ان کی اہم تصنیفات کا تذکرہ بھی شامل کتاب ہے۔ مشہور فقہا، ان کی اہم تصنیفات، علم طب، علم فلسفہ اور اس سے مسلمانوں کی دلچسپی کی ابتدا، فالسفہ اسالم، فالسفہ یونان اور ان تمام علوم و فنون سے متعلق اہم تصنیفات و تالیفات کا ذکر بھی اس کتاب میں آ گیا ہے۔ اسی طرح دنیا کے قدیم مذاہب جیسے مذاہب ہند و مذاہب چین کے بارے میں بھی دلچسپ معلومات اس میں مندرج ہیں۔ الغرض دنیا کے تقریبا تمام علوم و فنون سے متعلق بنیادی و قیمتی معلومات کے زیور سے یہ کتاب مزین ہے۔ اس کتاب کی اہمیت اور اصل االصول ہونے کا اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ابن خلقان، ذہبی، ابن حجر، صفدی، ابن قطلوبغا اور دیگر بے شمار علما و محدثین اس کتاب سے کثرت سے معلومات نقل کرتے ہیں اور اپنی کتابوں میں ثبت 2/4 کرتے ہیں۔ اس کتاب کے کئی قلمی نسخے دنیا کے متعدد کتب خانوں میں ملے ہیں۔ لیکن کوئی بھی نسخہ کامل نہیں ہے۔ ان میں سے تین نسخے زیادہ متداول، مشہور اور معتبر ہیں، اور وہ یہ ہیں: -1نسخہ شیسٹر بیٹی، یہ نسخہ آئرلینڈ کے ڈبلن شہر کے شیسٹر بیٹی الئبریری میں محفوظ ہے، اس نسخہ میں 119 اوراق ہیں، اس کا خط بہت ہی واضح اور خوبصورت ہے، اس میں شروع سے لے کر تقریبا نصف کتاب موجود ہے، لیکن اس میں باب اول کے کچھ فصول غائب ہیں، یہ نسخہ سب سے معتبر اور مولف کے نسخے سے سب سے قریب ترین سمجھا جاتا ہے۔ -2 نسخہ شہید علی پاشا، یہ نسخہ استنبول کے
The sacrifice of the Meo nation in a partition of India.4
The sacrifice of the Meo nation in a partition of India.4 تقسیم ہندمیں میو قوم کی قربانی۔۔4 تضحية أمة مايو في تقسيم الهند .4 (اگست کو مہینہ جہاں تاریخ پاکستان کا حوالہ سو بہت اہم ہے۔یائی طرح میو قوم کے ماعے بھی اہمیت راکھےہے۔میو اجُڑ پُجڑ کے گھر بار کنبہ خاندان سوو الگ ہوکےایک ایسا دیس کو چل دیا جہاں ان کو اپنو کوئی نہ ہو۔لیکن ایمان جذبہ اللہ اور واکارسول کی محبت ہی،یائی سلسلہ میں ای تحریر لکھی گئی ہے) میو قوم کی آزمائش میوقوم کی تاریخ آزمائش و ابتلاء سو بھرپور ہے۔ کم وسائل اور اپنا دائرہ میں رہتے ہوئے میوقوم کی جو تاریخ دستیاب ہے واسو لگے ہے اگر میو قوم کے پئے کوئی روٹ میپ ہوتو ہندستان کا نقشہ کو موجود ہ نقشہ کائی اور طرح ہوتو۔ میوقوم کی تاریخ اے سمجھن کے مارے کچھ باتن کو خیال کرلئیو جائے تو تو سمجھنا میں بہت آسانی ہوئے گی۔ہر چیز کی سمجھ صرف پڑھنا سو نہ آوے ہے بلکہ مطالعہ اور عبارت فہمی کو جداگانہ انداز اپنانو پڑے ہے۔۔ سب سو پہلے تو دیکھنو پڑے ہے کہ مورخین اور سلاطین نے میون کا بارہ میں کہا لکھو اور کونسی زبان استعمال کری ہے؟۔ لکھن والا کی اگلی پچھلی عبارات کو مطالعہ کرو۔کہا لکھن والو ایک جیسا الفاظ سبن کے مارے استعمال کررو ہے یا پھر میو قوم کے بارہ میں لکھتے ہوئے واکو لہجہ بدل جاوے ہے؟۔۔۔ دوسری بات ای ہے کہ جا زمانہ کی تاریخ لکھی جاری ہے ۔وامیں دوسری قومن کو چلن اور طرز زندگی کہا ہو؟۔۔۔وقت کا حکمران بارہ میں کہا سوچے ہا؟ جن چیزن نے لوگ میون کے بارہ میں تاریخ کا حوالہ سو بطور برائی بیان کراہاں انسانی معاشرت و جبلت میں یہ صفات کن لوگن میں پائی جاواہاں؟ میون کی بہادری۔۔ میو قوم میں شجاعت و بہادری کوٹ کوٹ کے بھری پڑی ہے/بلکہ یاکا خون میں شامل ہے جائے نکلتے نکلتے بھی کئی صدی لگ جانگی۔آج بھی بوقت ضرورت یاکو اظہار کرو جاوے ہے۔ای الگ بات ہے میون نے اپنی بہادری کا صحیح استعمال کو ہنر نہ آوے ہے۔طاقت کو بے جا اور بے وقت استعمال کرے ہے۔۔ جب ہم مورخین کی کتابن کو مطالعہ کراہاں تو دو قسم کی بات سمجھ میں آواہاں۔ وے چیز جو بادشاہ لوگن نے میون کا بارہ میں لکھی ہاں۔جیسے تزک بابری۔ وغیرہ میں لکھی ہوئی بات۔۔۔دوسری جو معاصرین نے میون کا بارہ میں لکھی ہا۔ ایک بات میں تو سب متفق ہاں کہ میو قوم بہادر ۔نڈر۔بے لوث۔دیالو ہی رہا وے القاب جو میو قوم کو دیا گیا ہاں۔ان پے آگے چل کے بات کرونگو۔ بہادر نڈر۔دیالو۔ہمدرد۔مخلص جیسی صفات والی قوم پے آزمائش نہ آنگی تو کہا آئیگو؟یہ صفات یا بات کو تقاضہ کراہاں کہ میو قوم آزمائش سو گزرے تاریخ ہند میں بے شمار قوم آئی اور گمنامی مین چھپ گئی/لیکن میو چھپ نہ سکا چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو قصہ چلو آرو ہے اور جانے کد تک چلے گو تقسیمہند اور دنیا کی سب سو بڑی ہجرت ۔اغیار سو ماتھا لگانا مین میون کو کوئی جواب نہ ہو اور نہ ہے۔ہجرت میں میوقوم کھنڈ منڈ ہوگئی۔یاکی قوم اور اجتماعت میں بٹہ لگو ۔ابھی تک غیر محسوس طریقہ سو وے زخم رِسا را ہاں۔نہ جانے ان کی کسک کد تک باقی رہے گی۔ یہ بھی پڑھئے تقسیم ہند کی مخالفت تاریخ میں لکھو ہے کہ میوات میں تقسیم ہندکے وقت امن و امان ہو۔ کائی قسم کا دنگا فساد نہ ہا۔چاروں گھاں کو امن و امان ہو۔پھر ایک سازش کے تحت فسادات کی آگ بھڑکائی گئ ۔یاکو سبب ای بتائیو جاوے ہے کہ یہ پکا مسلمان ہاں۔اور ان کی ہمدردی ہندون کے بجائے مسلمانن کے ساتھ ہاں۔ان کو ہندستان میں رہنو ہندون کے مارے خطرناک ہوسکے ہے۔ یاکو اظہار وا وقت کا وزیر داخلہ ہند ولبھ بھائی پٹیل نے میو پنچن کی ملاقات کے دوران کہو ہو۔اور روکھا انداز میں مخاطب ہوتے ہوئے کہو ۔۔اب تہارو ہین کہا کام ۔تم پاکستان چلا جائو۔۔یعنی مسلمانن نے مارے پاکستان ہے ۔ہند میں ہوئی جگہ نہ ہے۔۔اگر میو قوم پکی مسلمان۔ بہادر۔نڈر نہ ہوتی تویہ بات کیوں کہی جاتی؟یا ان سو ہندون نے کائیں کو ڈر ہوتو۔ میو قوم کو بھولو پن۔کھروپن نہ ہوتو۔اور حالات سمجھن کی کلا موجود ہوتی تو جہاں دوسری قومن نے یا تقسیم سو بے شمار فوائد حاصل کرا یہ کدی محروم نہ رہتا۔ تقسیم ہند اور تاریخ کی سب سو بڑی ہجرت میں کتنا میون نے گھر بار چھوڑا کتنا کٹابازی میں اپنی جان گنواں دی۔کتنا میو اپنا گھر کنبہ سو جدا ہوگیا۔ میون نے اپنی یا قربانی کو کدی تخمینہ لگانا کی کوشش نہ کری۔نا تاریخ میں یاکی کوئی مستند شہادت موجود ہے۔جب میون نے خود اپنی قربانی شمار نہ کری تو دوسران نے کہا پڑی کہ وے میو قوم کی تاریخ لکھتا پھرتا۔ یامیں شک نہ ہے یا مشکل وقت میں لھنو لکھانو تو دور کی بات ہے جان بچی سو لاکھوں پائے۔لیکن بعد میں بھی یا کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کری گئی۔آج تک میو قوم اپنی تاریخ اپنی تعداد۔اپنا ورثہ سو محروم چلی آری ہے۔
Mosquitoes and malaria. In the eyes of Quran and science.
Mosquitoes and malaria. In the eyes of Quran and science. مچھر اور ملیریا۔قران و سائنس کی نظر میں Mosquitoes and malaria. In the eyes of Quran and science. حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو قران کریم نے مچھر کی مثال دیکر انسانی فکر کو جھنجوڑنے کی کوشش کی ہے۔کچھ چیزوں کی تخلیق پر غور و فکر کرنے کی قران کریم نے دعوت دی ہے جیسے اونٹ،مچھر وغیرہ مچھر کے بارہ میں کچھ معلومات افزاء باتیں نقل کی جارہی ہیں۔ اگر ہم مچھر کی تخلیق پر مزید غور کریں تو ہمیں اللہ کی لامحدود طاقت کا احساس ہو جائے گا۔ مچھر کی آنکھ کی اناٹومی پر غور کریں۔ مچھر کی آنکھ ایک پیچیدہ ڈھانچہ ہے جو بہت سے مختلف حصوں پر مشتمل ہے جو مل کر کام کرتے ہیں تاکہ مچھر کو اپنے ماحول میں حرکت، روشنی اور دیگر بصری محرکات کا پتہ لگا سکے۔ مچھر کی آنکھ کے کچھ اہم اجزاء یہ ہیں: مرکب آنکھ: مچھروں کی دو بڑی مرکب آنکھیں ہوتی ہیں، ان کے سر کے ہر طرف ایک۔ ہر مرکب آنکھ ہزاروں چھوٹے لینز سے بنی ہوتی ہے جسے ommatidia کہا جاتا ہے، جو مچھر کے ماحول کی موزیک امیج بنانے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔ کارنیا: مچھر کی آنکھ کا سب سے باہر کا حصہ کارنیا ہے، ایک صاف، حفاظتی تہہ جو آنکھ کی سطح کو ڈھانپتی ہے اور آنے والی روشنی پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد کرتی ہے۔ لینس: مچھر کی آنکھ کا لینس کارنیا کے پیچھے واقع ہوتا ہے اور آنے والی روشنی کو ریٹنا پر مرکوز کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ریٹنا: ریٹنا روشنی کے حساس خلیوں کی ایک پتلی تہہ ہے جو مچھر کی آنکھ کے پچھلے حصے میں واقع ہوتی ہے۔ جب روشنی ریٹنا سے ٹکراتی ہے، تو یہ کیمیائی رد عمل کا ایک سلسلہ شروع کرتی ہے جو برقی سگنل پیدا کرتی ہے، جو مچھر کے دماغ کو بھیجے جاتے ہیں۔ آپٹک اعصاب: آپٹک اعصاب اعصابی ریشوں کا ایک بنڈل ہے جو ریٹنا کو دماغ سے جوڑتا ہے۔ یہ ریٹنا کے ذریعے پیدا ہونے والے برقی سگنلز کو دماغ تک لے جاتا ہے، جہاں ان پر کارروائی کی جاتی ہے اور بصری معلومات کی تشریح کی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر، مچھر کی آنکھ ایک ناقابل یقین حد تک پیچیدہ اور جدید ترین عضو ہے جو مچھر کو اپنے ماحول میں تشریف لے جانے اور زندہ رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے اس آیت میں مچھر کا استعمال اس خیال کو اجاگر کرتا ہے کہ اللہ کی قدرت اور علم لامحدود اور ہر چیز پر محیط ہے اور یہ کہ مخلوقات میں سے چھوٹی مخلوق بھی اس کی عظمت کی یاد دہانی کا کام کر سکتی ہے۔ جدید میڈیکل سائنس کا شعبہ بیالوجی بتاتا ہے کہ مادہ مچھر ہی کا منہ ایسے آلات سے بنا ہوا ہے کہ جس سے جلد میں سوراخ ہوتا ہے اور مادہ اپنے سٹر اسے خون چوستی ہے:Only female mosquitoes feed on blood۔مادہ مچھر اپنے حساس سینسرز کے ذریعے پینے کی ہو اور جسم کی حرارت کو محسوس کرتی ہے۔ آنکھیں ایسی ہیں کہ اندھیرے میں دیکھ سکتی ہیں ان میں لینز کی تعداد ایک سو ہے۔ 840 اس کے دانت ہیں لہذا یہ دانت پیستی ہوئی اپنے شکار پر جھپٹ پڑتی ہے۔ اس کے پر ایک سیکنڈ میں چھ سو مرتبہ حرکت کرتے ہیں جبکہ حرکت کی بھی مختلف اقسام ہیں لہذا اس خدائی ہیلی کاپٹر کی چھ سمتی حرکتوں کو قابو کرنا مشکل ہوتا ہے۔ معروف عالم اور سائنسدان علامہ راتب نابلسی کہتے ہیں: اس کے تین دل ہیں دو پیٹ ہیں یہ چیزوں کو اس کی حرارت سے دیکھتے ہیں اور اس قدر حساس ہیں کہ ہزار میں سے ایک درجہ حرارت کو بھی محسوس کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اے سی والے ٹھنڈے ترین کمرے میں بھی اپنے سوئے ہوئے شکار کو پکڑ لیتے ہیں۔ الغرض ! ان کے اندر ایسا الیکٹرانک سسٹم ہے کہ آج کا جدید ترین لڑاکا جہاز بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہاتھی میں جتنے اعضاء بڑے ہوتے ہیں مچھر کےاتنے ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ مچھر کا مزاج کیا ہے؟ طبی نکتہ نگاہ سے جب کسی چیز کا مزاض یا ترکیب اجزائی معلوم ہوجائیں تو اس سے ہونے والے فائدہ اور نقصانات کو قابو مین کیا جاسکتا ہے۔مچھروں سے ہونے والے بکاروں اور ان کے کاٹنے سے ہونے والی تکلیف کو دور کرنے والی دیسی ادویات پر غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہیہ غذائی اور دوائیں سب کی سب عضلاتی مزاج ہوتے ہیں۔دوسری بات مچھروں کی افزائش اوران کے مساکن ہیں۔یہ سب پانی یا نمی پر مشتمل ہوتے ہیں۔جہاں خشکی ہو۔یا جہاں خوشبو ہو وہاں مچھر نہیں رہتے۔مثلاََ میلریائی بخاروں اور ڈینگی وغیرہ کے غذائی اور دوائی اجزاء خشک مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔ اس لئے قیاس کہتا ہے کہ مچھر کا مزاج اعصابی ہوتا ہے اور اس کے کاٹنے سے اعصابیت کا غلبہ ہوجاتا ہے۔مثلا لیموں ۔گئودنتی۔نیم۔لونگ۔پیاز۔لہسن۔سنگترہ کا چھلکا۔وغیرہ۔اسی طرح کونین بھی عضلاتی مزاج کی حامل ہوتی ہے مچھر کاٹنے کے پیچھے کیا سائنس ہے؟ مچھر پودوں سے نیکٹر پیتے ہیں اور پھولوں کی پولینیشن میں مدد کرتے ہیں، واضح رہے کہ پولینیشن وہ عمل ہے جس میں کیڑے مکوڑوں کے ذریعے پودوں کے بیج ایک پھول سے دوسرے پھول تک پہنچتے ہیں اور نئے پھول وجود میں آتے ہیں۔ لیکن جب مادہ مچھر کو انڈے پیدا کرنے کا وقت آتا ہے تو انہیں اضافی پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پروٹین انہیں انسانوں کے خون سے حاصل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کونور میک مینیمن کہتے ہیں کہ ’جب مچھر کاٹتا ہے تو یہ دراصل خون کی نالی تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے اور جب انہیں خون کی نالی مل جاتی ہے تو وہ ریڈ بلڈ سیل اور پلازما کو چوستے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب مچھر کاٹتا ہے تو انسانی جسم کا مدافعتی نظام فوراً کاٹنے والی جگہ پر ہسٹامین بھیج دیتا ہے کیونکہ وہ مچھرکے سلائوا (saliva)کو شناخت نہیں کر پاتا اس کے نتیجے میں شدید خارش شروع ہوجاتی ہے۔ عالمی سطح پر ملیریا کی صورت حال ہے ورلڈ ملیریا رپورٹ 2020 کے مطابق، 2020 میں عالمی سطح پر
Sacrifice of Meo nation in partition of India. 4
Sacrifice of Meo nation in partition of India. 4 تقسیم ہندمیں میو قوم کی قربانی۔۔4 التضحية بأمة مايو في تقسيم الهند .4 حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میوات ایک مستقل علاقہ ہے یا کی ایک مستقل تہذیب، زبان، رسم وراج ہاں۔جوکائی دوسرا علاقہ سو نہ ملاہاں، میو قوم کابرادرانہ ، رشتہ دارانہ تعلقات ایک دوسراسو نہایت مضبوط طریقہ پےقائم ہاں اورزمینی تقسیم یاکی ان خصوصیات و روایاتن نےختم نہ کرسکی ۔ یا علاقہ پےمتعدد بار تباہی بھی آچکی ہاں۔ میو قوم کی قربانی جیسا کہ غیاث الدین بلبن کا عہد میں پھر غدر 1857ء میںدوسری تباہی آئی، یا کے بعد1947ء میں دوسری تبا ہی بھی کم نہ ہی ،لیکن ا ن تمام تباہ کارین کے باوجودای علاقہ موجود ہے۔ اتنو ضرور ہویو ہے کہ آبادی میں کافی فرق آگیو ہے۔ آبادی میو قوم کی آبادی علاقہ میوات میں تو خیر ہے ہی،ہندو پاکستان کا دوسراحصان میں بھی پھیلی ہوئی ہے ان کی مجموعی تعداد کو اندازہ تقربا ایک سو دو کڑوڑکے لگ بھگ ہے ۔1947 سو پہلے ان کی بڑی آبادی میوات میں ہی تقسیم کی وجہ سو اُو تتر بترہوگئی لاکھوں میو پاکستان ہجرت کر گیا اور علا قہ میوات میں پھر بھی میون کی کافی تعدادباقی رہی۔میوات کا علاقہ میں تعلیمی رجحان اور دیگر وجوہات کی وجہ سو کم رہو اور لکھن پڑھن کو رواج نہ ہونا کی وجہ سو۔تاریخ میں میوات اور میو قوم کا حالات ٹھیک نہ لکھا جاسکا۔ دوسران نے جو کچھ لکھو ۔اٹکل پچو سو لکھو۔یا وقت میون کی تیسری نسل جاری ہے تعلیم و وسائل سب کچھ موجود ہے لیکن ادھوری معلومات اور تخمینہ جات کی بنیاد پے تعداد بتائی جاوے ہے۔ٹھیک تعداد کائی اے پتو نہ ہے۔میری معلومات کے مطابق کوئی ایسو ادارہ بھی نہ ہے کہ م یون کی گنتی کری جاسکے۔ سعدورچوئل سکلز پاکستان کا ذمہ دارن نے یا کو احساس کرو۔اور ایک ادارہ۔میو آن لائن ڈائیریکٹری۔کانام سو ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔جو میو قوم سو اپیل کرے ہے۔میو آن لائن ڈیٹا مین اپنو نام پتو لکھوئو جاسو پتو چل سکے کہ میون کی ٹھیک تعداد کہا ہے؟اورمیون کا مادی ۔فنی۔افرادی وسائل کہا ہاں؟کیونکہ کوئی بھی قوم وا وقت تک ترقی نہ کرسکے ہے جب تک وائے اپنی طاقت۔ تعداد۔ وسائل کو اندازہ نہ ہوئے۔۔ عام میو بہت تعاون گھنا تعاون کرراہاں۔لیکن جو لوگ پڑھا لکھا،اور معتبر سمجھا جاواہاں ان کا مہیں سو بے رخی کو سامنو ہے۔یا وقت میون میں تنظیم۔جماعت۔پارٹی۔فلاحی اداران کا بارہ میں چھینا جھپٹی ہوری ہے ۔جب کہ ذمہ دارن کا مہیں سو ایسو رویہ قوم کے مارے دُکھ کو سبب ہے۔میوقوم اے یا وقت عہدان سو گھنو کام کی ضرورت ہے۔قومی و صوبائی الیکشنز سِر پے کھڑا ہاں۔میون نے اپنی تک نوں ای پتو نہ ہے کہ ان کا ووٹ کتنا اور کہاں کہاں ہاں؟۔ ۔ ای کام تو سیاسی و سماجی طورپے قائم تنظیمن کو ہو۔لیکن ایسو نہ ہوسکو۔میو آن لائن ڈائریکٹری۔کی کمیٹی نے بار بار اشہار دیا ہاں۔وٹس ایپ گروپس مین اپیل کری ہاں۔لیکن شاید ابھی قدرت اے منظور نہ ہے۔لوگ تعاون کرن پے آمادہ نہ ہاں ۔سب سو پہلے پوچھا ہاں کہ تم یا کام اے کرکے کہا کرو گا؟ اللہ کا بندائو ہم نے کہا کرنو ہے۔ایک کام تو سبن کو ہے۔جاسو من الحیث القوم غفلت برتی جاری ہے۔اگر کوئی کرن لگو ہے تو شک میں پڑ گیا ہو۔۔۔۔امید ہے یا بکھری ہوئی میو قوم کی یکجائی کو اللہ کوئی نہ کوئی بندو بست ضرور کرے گو۔
قیامت دجال،ظہور مہدیؒ پر25 مستند کتب۔
قیامت دجال،ظہور مہدیؒ پر25 مستند کتب۔ قیامت دجال،ظہور مہدیؒ پر25 مستند کتب۔ احادیث نبوی کا وہ حصہ جسے اشراط الساعۃ کا نام دیا گیا ہے قرب قیامت رونما ہونے والی علامات جن کے بارہ میں لسان نبوت سے کچھ نشانیاں بیان ہوئیں۔جن کا ظہور ہوچکا کچھ کا عنقریب ہونے والا ہے۔ان کتب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ احادیث نبویﷺ میں ان کے ظہور اور ان سے بچائو کی تدابیر بیان کی گئی ہیں۔انہیں سمجھ کر بچائو کی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔