قدرتی خوبصورتی کے لئے جڑی بوٹیاں اپنے لئے ہربل شیمپو،کلینرز۔کریم۔غسل مرکب اور اسی طرح کی بہت سے اشیاء گھر پے بنائیں۔ روزمیر ی کلیڈ اسٹار قدرتی خوبصورتی کے لئے جڑی بوٹیاں اللہ وحدہ لاشریک ہے جس نے اپنی پیامبر بھیج کر انسانیت کی عقل کو جلاء بخشی۔اور رحمت ہو ان سچے کھرے لوگوں کو خاتم النبیین کا ساتھ نبھانے کی ہمت بخشی۔ خوبصورتی ہر ذی روح کی پسندیدہ چیز بنادیا مرد و خواتین تو رہے ایک طرف عام جانداروں میں اسحس کو رکھ دیا کہ خوبصورتی وبدبصورتی میں تمییز رکھ سکیں۔زمانہ قدیم سے ہی خوبصورتی اور جسمانی رعنائی کو برقرار رکھنے کے لئے مختلف قدرتی جڑی بوٹیوں اور دستیاب وسائل سے مرکبات استعمال کرنے کا رجحان رہا ہے۔خواتین اس بارہ میں زیادہ حساس واقع ہوئی ہیں۔یہ کسی ایک خطے یا ملک تک محدود نہ تھے کرہ ارض پر اس کے شواہد و نظائر موجود ہیں۔ قدرتی خوبصورتی کے لئے جڑی بوٹیاں پاک و ہند اور یونان میں جڑی بوٹیوں کا استعمال زیادہ رہا ہے۔لیکن دیگر ممالک بھی پیچھے نہ تھے۔گوکہ کاروباری مسابقت نے کیمیکلز اور تالیفی ادویات کی مارکٹنگ کی گئی۔اور قدرتی،فطری انداز علاج کو معتوب کیا گیا۔جبری طورپر ایک غیر فطری طریقہ علاج کو مسلط کیا گیا ہے۔لیکن حقیقت مصنوعی انداز اور حربوں سے چھپ نہیں سکتی۔ یہ بھی پڑھئے ’خوبصورتی‘ حاصل کرنے کے قدیم طریقوں اور رسموں کی واپسی یہ انگریز مصنف کی کاوش ہے جوکہ قابل قدر کتاب ہے۔معالجین اور عام لوگوں کے لئے فائدہ مند ہے۔اس کتاب میں سہل الحصول نکات و نسخے بیان کئے گئے ہیں۔جنہیں خواتین گھروں میں بلکہ اپنے کچن میں تیار کرسکتی ہیں۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچول سکلزپاکستان کا نصبالعین ہے کہ بہترین ،پر مغز کتب کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں احباب کی خدمت میں پیش کرتا رہے گا۔امید ہے اہل ذوق اس کاوش کو پسند فرمائیں گے۔اس کتاب میں بشری تقاضے مطابق خطاء و سہو رہ گئی ہوتو مطلع فرمائیں تاکہ درستگی کی جاسکے۔ از ۔۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان
کتاب العمدۃ فی الجراحت 2
کتاب العمدۃ فی الجراحت (جلد دوم)(اردو ڈیجیٹل ایڈیشنتالیف۔امین الدولہ ابو الفرج ابن القف المسیحی(1233۔۔1285ء)(630۔۔685ھ)۔۔۔۔۔۔۔۔ابن القف، ان کے کارنامے اور ان کی تصانیف ابن القف کی زندگیابن القف کی تخلیقاتابن القف کی سرجری پر العمدہ کی کتابابن القف کے مضامینابن القف کی زندگیابو الفراج ابن القف 630 ہجری – 1233 عیسوی میں ایوبی بادشاہ الناصر صلاح الدین داؤد کے دور میں پیدا ہوا تھا ، وہ اپنے والد کے ساتھ شام کے شہر سرخد میں چلا گیا، جہاں ان کا تبادلہ دیوان ال میں کام کرنے کے لیے کر دیا گیا۔ شہزادہ عزالدین ایبک کے دور میں سرخاد اپنی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا تھا۔ ان کے والد ابن ابی عصیبہ کے دوست تھے، جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں: “ان کے والد، موفق الدین، میرے ایک دوست تھے، جو ان کی محبت کا اثبات کرتے رہے، اپنی محفلوں کی قیمتی چیزوں کی حفاظت کرتے رہے۔ اور اس کی صحبت کی دلہنیں عربی کے علم میں ممتاز تھیں، اس نے اس کے تمام ماخذات اور شاخوں کو تحریر کیا ہے، اور وہ اس کے دور اور شان کے ہدف تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کے پاس وہ خوش قسمتی ہے جو نظر کی خوشی ہے، اور تمام ممالک اور خطوں میں کوئی مصنف اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ سدرخد میں ابو الفراج ابن القف نے طب کی تعلیم کا آغاز ابن ابی عصیبہ کے ہاتھ سے کیا۔ طبی صنعت میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا تھا، جیسے کہ ہپوکریٹس کے مقالات حنین اور الفاسلو، اور اس کے علم کا تعارف وہ جانتے تھے کہ ان کے معانی کی وضاحت کیسے کی جائے، ان کے اصولوں کو سمجھا جائے، اور اس کے بعد علی نے لکھا ابوبکر محمد ابن زکریا الرازی کا علاج، وہ بیماریوں کی اقسام اور جسم میں بیماریوں کی سنگینی کے بارے میں کیا جانتے تھے، اور انہوں نے مصائب کے علاج اور مصائب کے علاج کے بارے میں تحقیق کی، اور وہ اس کی ابتدا اور ابواب کو جانتے تھے۔ اور اس کے اسرار اور اس کے نتائج کو سمجھ لیا، اس لیے وہ ابن ابی عصیبہ کے نامور طالب علم ہیں، جو 668 ہجری میں اپنی کتاب “The Eyes of News in the Class of Doctors” سے دنیا کو روشن کرنے کے بعد وفات پا گئے۔ “اس کے بعد ان کے والد امیر کے دربار میں کام کرنے کے لیے 1252ء میں دمشق چلے گئے اور ابو الفراج کے علم کا دائرہ وسیع ہو گیا ۔ وہ عظیم الشان نوری بیمارستان تھا جسے نورالدین محمود بن عماد الدین زینگی نے تقریباً ایک صدی قبل دمشق میں داخل ہونے کے بعد تعمیر کیا تھا، اس بیمارستان کی تعریف ابن جبیر اور ابن بطوطہ جیسے کئی مورخین اور سیاحوں نے کی تھی۔ یہ اسلام کی شان اور اس کے اداروں کی زینت ہے۔ صالحیہ دمشق کے ایک خوبصورت مضافاتی علاقے میں بمرستان القیمری تھا جس نے اپنے دروازے شہزادہ سیف الدین یوسف بن ابی الفرس القیمری کی سخاوت کی بدولت کھولے جن کی وفات 654ھ/1256ء میں ہوئی تھی۔ دمشق کی عظیم الشان مسجد کے قریب بیمارستان باب البرید کی تعریف کی، اس ترقی یافتہ ماحول اور اس کے پاس موجود سائنسی اداروں میں نوجوان ابن القف نے اپنی تعلیم اور طبی تربیت مکمل کی تاکہ اس پیشے پر عمل کیا جا سکے۔ دمشق میں ابن القف نے اپنے زمانے کے بہترین پروفیسروں سے طبی علم حاصل کیا۔ حسن الغنوی الداریر نے حکیم نجم الدین ابن المنفخ اور علی موفق الدین یعقوب الثمیری سے اقلید کی کتاب بھی پڑھی۔ الدین الاردی، اور اس نے اس کتاب کو اس فہم کے ساتھ سمجھا جس نے اس کے بند بیانات کو کھولا اور اس کی شکلوں کا مسئلہ حل کردیا۔ ابن القف کی تخلیقات اس دور میں تاتاریوں نے حملہ کیا، اور بغداد کی تباہی کے بعد، ہلاگو نے لیونٹ میں اپنی پیش قدمی جاری رکھی، اور لیونٹ کے حالات بہتر تھے، اس لیے سب نے تاتاریوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا، اور ابو الفراج ابن القف۔ اردن کے قلعہ اجلون میں ڈاکٹر مقرر ہوئے اور وہاں اس نے 1271-1272 میں طب پر کتاب الشافعی لکھی، اس کی شہرت پھیلنے کے بعد وہ دمشق واپس آئے اور اس کے محافظ قلعہ میں خدمات انجام دیں اور وہاں کئی کتابیں لکھیں: جامع الرضا فی سال 1274 میں صحت اور بیماری کا تحفظ۔الکلیات ابن سینا کی کتاب قانون سے 1278 چھ جلدوں میں۔سرجیکل انڈسٹری کے کام میں میئر آف ریفارم کی کتاب ، جسے سال 1281 میں سرجیکل انڈسٹری میں میئر کے نام سے جانا جاتا ہے۔کتاب اصول اصول شرح الفصل 1283-1284۔تیسرے قانون پر بات چیت ، اشاروں کی کوئی وضاحت نہیں تھی، ایک مسودہ تھا، اور مراکشی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں اور مکمل نہیں ہوئیں۔ابن القف کا انتقال دمشق میں 685ھ میں باون سال کی عمر میں ہوا۔ ابن القف کی سرجری پر العمدہ کی کتابجہاں تک ان کی کتاب العمدہ فی السرجری کا تعلق ہے، یہ عرب میں سرجری میں مہارت رکھنے والی پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے ، اگر عالمی نہیں، تو ابن القف کتاب لکھنے کی وجہ کے بارے میں تعارف میں کہتے ہیں: “کچھ کے بعد ہمارے زمانے کے جراحوں نے مجھ سے اس صنعت کے معاملے میں اس فن کے ماہرین کی عدم دلچسپی کی شکایت کی اور ان میں سے ایک کو صرف چند مرہموں کی ترکیب اور ان کے اجزاء کو ایک دوسرے میں شامل کرنے کا علم تھا۔ اور اگر کوئی اس سے پوچھے کہ یہ کون سی بیماری ہے جس کا تم علاج کر رہے ہو، اس کی وجہ کیا ہے، اور تم نے اس علاج سے اس کا علاج نہیں کیا، اور اس کے ہر اجزاء کی طاقت کیا ہے، تو اس کے پاس کچھ نہیں ہو گا۔ اس کا جواب، سوائے اس کے کہ وہ کہے گا، “میں نے اپنے استاد کو اس تصویر کی طرح میں اسے استعمال کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے اسے استعمال کیا۔” پہلی جلد کا مطالعہ کیجئےپھر اس نے کہا، “یہ اس کے علاوہ ہے جو میں بیماریوں، اسباب اور علامات کے امتزاج کے بارے میں جانتا تھا، اور یہ کہ شفا دینے والے کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کیا
تاریخ طب و اخلاقیات
تاریخ طب و اخلاقیات اردو ڈیجیٹل ایڈیشن۔( تالیف :۔ڈاکٹر اشہر قدیر صدر کلیات فیکلٹی آف یونانی میڈیسن جامعہ ہمدرد نئی دہلی ۔۔طب ایک شریف علم اور ہر ایک کی ضرورت کا ہنر ہے جوبھی اس سے وابسطہ ہوگا اس کی عزت وشہرت مال و دولت میں اضافہ ہوگا لیکن اس فن کے میدان میں اترنے کے لئے اخلاقی طورپر کچھ حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں ۔جنہیں اخلاقیات طب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ہر زمانے کے اساتذہ نے اپنے اپنے ماحول اور ضرورت کے تحت اخلاقیات مقرر کیں۔ہزاروں سالوں سے یہ سلسلہ یوں ہی چلا آرہا ہے۔مذاہب و ادیان نے بھی اخلاقیات طب کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ہر طبیب کو اس کا مطالعہ کرنا اہمیت رکھتا ہے۔آپ جس قوم و ملک کے اطباء کی خدمات سے استفادہ کریں ان لوگوں کی اخلاقیات وقواعد کا بھی احترام کریں۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان بہترین اور پرمغز کتب کے ڈیجیٹل ایڈیشنز پیش کرنا اپنا اعزازسمجھتا ہے۔ادارہ ہذا کے منتظمین کارکنان مبارکباد کے مستحق ہیں کہنایاب کتب اپنے قارئین کے لئے پیش کرنے میں حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیئے کتاب الاغذیہ ابن زہر،غذا پر بہترین کتاب اس کتاب میں بابلی آشوری۔مصری ہندی۔ایرانی وہ تمام تہذیبیں جو صفحہ ہستی سے اپنا وجود کھوچکی ہیں۔لیکن ان کی طبی خدمات اور اخلاقیات آج بھی اتنی ہی افادیت کی حامل ہیں جتنی ہزاروں سال پہلی تھیں۔ سخنہائے گفتنی نحمد اللہ تعالیٰ نصلی علی رسولہ الکریم۔صلوٰہ وسلام انبیاء و اتقیاء بالخصوص خاتم النبیین ﷺپر اور آپ کی آل و اولاد اصحاب پر،ان اہل علم پر جنہوں نے اپنی زندگی کی قیمتی او ر صحت مند ساعتیں فلاح انسانیہت کے لئے وقف کیں۔اپنی راحت والی گھگڑیوں کو مشقت میں تبدیل کرکے انسانیت کے لئے راحت و تندرستی کا سامان مہیا کیا۔۔ طب ایک شریف علم اور ہر ایک کی ضرورت کا ہنر ہے جوبھی اس سے وابسطہ ہوگا اس کی عز یہ بھی پڑھئے کتاب الفاخر فی الطب دوم وشہرت مال و دولت میں اضافہ ہوگا لیکن اس فن کے میدان میں اترنے کے لئے اخلاقی طورپر کچھ حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں ۔جنہیں اخلاقیات طب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ہر زمانے کے اساتذہ نے اپنے اپنے ماحول اور ضرورت کے تحت اخلاقیات مقرر کیں۔ہزاروں سالوں سے یہ سلسلہ یوں ہی چلا آرہا ہے۔مذاہب و ادیان نے بھی اخلاقیات طب کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔یہ کتاب ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ہر طبیب کو اس کا مطالعہ کرنا اہمیت رکھتا ہے۔آپ جس قوم و ملک کے اطباء کی خدمات سے استفادہ کریں ان لوگوں کی اخلاقیات وقواعد کا بھی احترام کریں۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان بہترین اور پرمغز کتب کے ڈیجیٹل ایڈیشنز پیش کرنا اپنا اعزازسمجھتا ہے۔ادارہ ہذا کے منتظمین کارکنان مبارکباد کے مستحق ہیں کہنایاب کتب اپنے قارئین کے لئے پیش کرنے میں حتی الوسع کوشش کرتے ہیں۔ اس کتاب میں بابلی آشوری۔مصری ہندی۔ایرانی وہ تمام تہذیبیں جو صفحہ ہستی سے اپنا وجود کھوچکی ہیں۔لیکن ان کی طبی خدمات اور اخلاقیات آج بھی اتنی ہی افادیت کی حامل ہیں جتنی ہزاروں سال پہلی تھیں۔
مصری طب Egyptian Medicine
مصری طب Egyptian Medicine تعارف * دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں مصر کی تہذیب (Egyptian Civilization) بیحد مشہور ہے جس کا سبب مصری تہذیب سے متعلق معلومات کی کثرت ہے۔ صدیوں پرانے مصری اہرام (Pyramids of Egypt) ، مقبرے (tombs) اور پرانے کھنڈرات کو کھودنے سے جوشتی تختیاں (clay tables)، بردی نوشتے (papyri) ، حنوط شدہ لاشیں (mummies) اور دیگر نوادرات (antiques) ملے میں ان سے قدیم مصری تہذیب و تمدن اور علوم و فنون پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ مصری تہذیب کے تعلق سے بعض آثار و شواہد ایسے ہیں کہ جن سے قدیم مصر میں رائج طریقہ ہائے علاج کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ جس کو تاریخ طب میں مصری طب کے نام سے درج کیا گیا ہے۔ مصری طب کے ابتدائی نظریات قدیم مصریوں کا نظریہ صحت و مرض : قدیم مصر، BC 6000 میں جادو اور سکر جیسے پر اسرار علوم کا بہت زور تھے۔ چنانچہ ابتداء میں مصری طب کی بنیاد بھی جادو اور سحر جیسے فرسودہ نظریات پر مشتمل نظر آتی ہے۔ زندگی اور موت سے متعلق قدیم مصریوں کا یہ عقیدہ تھا کہ زندگی لافانی ہے اور کوئی بھی جاندار خود نہیں مرتا جب تک کہ مرض یا کسی حادثہ کے سبب موت واقع نہ ہو۔ اہل مصر مرض اور کسی ناگہانی حادثہ کو بھوت، پر بیت اور بدروحوں کا سایہ سمجھتے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ اگر بھوت پریت اور بدروحوں سے حفاظت ممکن ہو جائے تو پھر موت لاحق نہیں ہوسکتی۔ طریقہ علاج ظاہر ہے جب مرض کا سبب شیطانی طاقت اور بدروحوں کا سایہ سمجھا جاتا تھا تو علاج بھی جھاڑ پھونک اور ٹونے ٹوٹکوں سے کیا جانا لازم تھا۔ مصریوں نے انسانی جسم کو چھتیس (36) حصوں میں تقسیم کیا تھا اور ہر حصے کی صحت کا محافظ کوئی ایک دیوتا تصور کیا جاتا تھا اور ہر حصے میں لاحق مرض کا سبب بھی کوئی شیطانی طاقت ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ ابتدائی مصری طب میں علاج و معالجہ کے تعلق سے مختلف دیوتاؤں کا ذکر ملتا ہے۔ مرض پیدا ہونے کی صورت میں صحت کے دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی جس میں تھی۔ تمام صحت کے دیوتائوں میں سب سے زیادہ مقدس اور شفار بخش و یوتا امحو طب (Imhotep) تھا۔ (em hetep” signifies he who cometh in peace – 1 ” یعنی جو سکون بخش – ہے۔ الحوطب کے بارے میں تحقیق یہ ہے کہ وہ بھی در حقیقت ایک انسان ہی تھا اور تاؤ (Ptab) کا وزیر اعظم تھے۔ وہ بہت بڑا عالم، فاضل ، ہیئت داں ، ساحر اور طبیب تھا۔ اس کو ہر مرض کے علاج میں مہارت حاصل تھی۔ چنانچہ معالج کی حیثیت سے مصریوں کو اخو طب سے بے پناہ عقیدت ہوگئی اور انھوں نے انکو طب کو رب الشغار (Healing God) مان لیا۔ حتی کہ اگر طب کی موت کے بعد مصریوں نے اس کے بت (statue) بنائے اور علاج کے تعلق سے اس کی پرستش عام ہو گئی۔ امجو جاب کے مندر لا علاج مریضوں کا واحد مھکا نہ تھے۔ میمفس (Memphis) کے مقام پر اکو طب کے سب سے زیادہ مندر بنائے گئے ۔ احوطب کے مسلک کا اہم ترین مقام میمنٹس ہی معلوم ہوتا ہے۔ مصری طب کی ارتقاء مصری طب کے تعلق سے جو ذرائع معلومات به شکل بردی نوشته بخشتی تختیوں اور حنوط شدہ لاشوں کے محفوظ ہیں ان کا بغور تجزیہ کرنے کے بعد ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء میں تو مصری طب جادو، سحر اور دیگر تو ہمات پر مشتمل تھی لیکن BC 3000 سے 2000BC 3000 BC کے درمیان مصریوں نے اس فن میں حیرت انگیز ترقی کرلی۔ مصری طب کی ترقی کا مختصر جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ مصری طب کے ذرائع معلومات پر ایک نظر ڈالی جائے۔ مصری طب کے ذرائع معلومات – مصری طب کے ذرائع معلومات میں بردگی نوشتوں (papyri) کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے ۔ مصری طب سے متعلق چند معروف اور اہم بر دی نوشتوں پر مختصر تبصرہ درج ذیل ہے۔ جارج ایبرس کا بروی نوشته (Georg Ebers’ papyrus) یہ مرد کی نوشته 1873 میں بمقام لکسر (Luxor) دریافت کیا گیا تھا۔ اِس وقت لیپزگ یونیورسٹی Leipzig) (University کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ طب قدیم کے تعلق سے یہ نوشتہ بہت زیادہ اہم اور مشہور ہے کیونکہ یہ مکمل طور پر طبی تحریروں کا مجموعہ ہے کہ تمام طبی نوشتوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔ یہ نہیں (20) میٹر لمبا ہے اور اس میں سترہ سو (1700) امراض اور ان کے علاج کی تفصیل ہے اس کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس زمانے میں یہ نوشتہ لکھا گیا تھا وہ BC 1553 سے BC 1550 کا زمانہ ہے۔ اس نوشتے میں جو کچھ بھی درج ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ مرتب (edit) کیا گیا ہے۔ اس میں مرتب کا واحد کام اپنے زمانے میں موجود و تمام طبی معلومات کو یکجا کرنا ہے، اس نوشتے سے کھری طب کے ابتدائی حالات پر بھی کچھ روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ایک قدیم مصری بادشاہ نیو تھومس(Tulhomsis) نے جس کا زمانہ BC 6000 کا ہے، ایک کتاب علم طب پر لکھی تھی جس کے مطابق مصری طب اپنی ابتداء میں ام تسخیر اور جادوگری پر ہی مینی تھا۔ لیکن نوشتے کی بقیہ معلومات سے مصری طب کی ترقی کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قدیم مصری علم تشریح (Anatomy) اور منافع الاعضاء (Physiology) سے بخوبی واقف تھے قلب ودماغ کو اہمیت دیتے تھے۔ قلب عضور رئیس (vital organ) سمجھا جاتا تھا اور اس کی حرکت نبض (pulse) سے معلوم کی جاتی تھی۔ قدیم مصری اعتبار کے نزدیک جسم کا اہم ترین عمل عمل تنفس (respiration) تھا وہ اس عمل کو غیر معمولی اہمیت دیتے تھے۔ دو خون کی اہمیت کو جانتے تھے ان کے نزدیک لال رنگ زندگی کی علامت تھا۔ مصری اطبار اسباب مرض میں موسموں کی تبدیلی ، سیاروں کی تبدیلی اور دیگر حیوانوں ( کیڑے مکوڑوں ) کو شمار کرتے تھے۔ جن امراض کا سبب آنکھ کے نظر نہیں آتا تھا ان میں کام چلانے کے لیے غیر مرئی کیڑے مکوڑوں کا تصور کر
معاہدہ بقراطیہ برائے معالجین ۔Hippocratic Oath
معاہدہ بقراطیہ برائے معالجین ۔Hippocratic Oath تعارف اس وقت معالجین مریضوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے یں ۔یا میڈیکل کے شعبے سے وابسطہ لوگوں سے جو توقعات وابسطہ ہیں،انہیں دیکھتے ہوئے معاہدہ بقراطیہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں پہلے اس خطرے کو بھانپ لیا گیا تھا کہ معالج اپنے فن و ہنر کو منفعت انسانی کے لئے استعمال کرے نہ کہ لالچ اور ذاتی اغراض کے لئے۔معاہدی بقراطیہ کے مطالعہ سے بہت سے دھندلکے دور ہوجائیں گے معالجین کے بارہ میں واضح ہوجائے گا کہ ان کے فرائض و ذمہ داریاں کیا ہیں؟ معاہدہ کی اہمیت و افادیت معاہدہ بقراطیہ جس کو عہد نامہ بقراط ، یا حلف نامہ بقراط بھی کہتے ہیں ۔ بقراط اور فن طب کے تعلق سے انتہائی اہم اور مشہور چیز ہے۔ یہ ایک عہد نامہ ہے جس کو بقراط (460-377BC) نے خود تشکیل کیا تھا، اس لئے اس کے نام سے منسوب اس عہد نامہ میں کچھ ایسی باتیں ہیں جولیسی اخلاقیات (Medical Ethics) سے تعلق رکھتی ہیں ۔ معاہدہ کی غرض و غایت بقراط کو اس عہدنامے ۔ کے تیار کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کا پس منظر یہ ہے کہ قدیم یونانیوں کے عقیدے کے مطابق ان کے مقدس دیوتا استقلی بیوس (Asclepius) کو علم طب بذریعہ الہام عطا کیا گیا تھا، پھر یہ علم بطور وراثت استقلی بیوس کی آئندہ نسلوں میں منتقل ہوتا رہا۔ اور صرف ایک خاندان کی میراث بن کر رہ گیا۔ استقلی بیوس کے خاندان کے علاوہ کسی غیر فرد کو علم طب اس لئے نہیں سکھایا جاتا تھا کیونکہ ایک تو یہ علم مقدس تصور کیا جاتا تھا ۔ دوسرے اس کا تعلق انسان کی صحت، زندگی اور موت سے تھا، چنانچہ ذراسی بھی غفلت بیش قیمت انسانی جان کے ضائع ہونے کا جب بن سکتی تھی۔ اس لئے ہر شخص کو مطب کی تعلیم کا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔ جب بقراط استقلی بیوس کی سولہویں پشت (16th generation) میں پیدا ہوا تو اس کے نانے تک استقلی بیوس خاندان کے کچھ ہی لوگ بچے تھے، جن کے پاس علم طب موجود تھا۔ بقراط نے یہ کیفیت دیکھ کر مناسب سمجھا کہ طب کی بقاء اور فروغ کے لئے ضروری ہے کہ علم طب کو ایک سے نکال کر دوسرے لوگوں تک بھی پہنچایا جائے کیونکہ یہ ایک نیک اور شریف فن ہے اورنیکی مشخص سے کرنا لازم ہے، چاہے وہ اپنا رشتہ دار ہو یا غیر ۔ چنانچہ بقراط نے یہ فن شریف دوسرے لوگوں تک بھی پہنچانے کے لئے اپنے خاندان کے علاوہ غیروں کو بھی اپنا شاگرد بنایا اور ان کو طب کی تعلیم دی ۔ مگر اس نیک کام میں بقراط کو یہ خدشہ بھی لاحق ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اس مقدس علم کو حاصل کرنے کے بعد نا اہل ثابت ہو اور اس فن کا حق ادا نہ کر پائے یا اپنے فن میں کو تا ہی کرے۔ جس سے فن داغدار ہو، اس صورت حال سے بچنے کے لئے بقراط نے ایک اہم عہد نامہ تیار کیا۔ جب بقراط کے شاکر و علم طب کی تعلیم مکمل کر لیتے تو میدان عمل میں اترنے سے پہلے بقراط ان سے اس عہد نامہ کو پڑھوا تا اور اس معاہدہ پر کار بند رہنے کا عہد لیتا۔ اس کے شاگرد خدا کو حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھاتے اور اپنے استاد سے وعدہ کرتے کہ وہ اس عہد نامے کے عین مطابق کام کریں کے۔ یعنی فن طب کی عزت و عظمت کو برقراررکھنے کے لئے ایک استاد اور شاگرد کے درمیان سے ایک معاہدہ تھا۔ معاہدہ بقراطیہ کے متن کا اردو ترجمہ Urdu Translation of the Text of Hippocratic Oath میں قسم کھاتا ہوں اس رب کی جو زندگی اور موت کا مالک ہے۔ صحت کا عطا کرنے والا ہے۔ شفار کا خالق اور علات کا پیدا کرنے والا ہے۔ میں قسم کھاتا ہوں اسقلی بیوس کی اور تمام دیوی دیوتاؤں کی ۔ حلف لیتا ہوں کہ اپنے عہد کو پورا کروں گا۔ میں عہد کرتا ہوں کہ اپنے استاد کو جس نے مجھے اس صنعت کی تعلیم دی ہے، بمنزلہ اپنے والد ہوگا، اساتذہ کی اولاد بھائی کے مثل ہوگی ، اور وہ اس فن کی ضرورت محسوس کریں گے تو بغیر اجرت کے طب کی تعلیم دوں گا۔ مریضوں کا فائدہ میرا فرض اولین ہوگا ۔ مضر اشیاء کے استعمال سے ان کو منع کروں گا ، مبلک ووا کسی کو نہ دوں گا، چاہے کوئی اصرار ہی کیوں نہ کرے اور نہ کسی کو مہلک دوا کے بارے میں بتاؤں گا ۔ عورتوں کو اسقاط حمل ادویہ ہرگز نہ دوں گا۔ میں اپنے پیشے میں پاک دامن رہوں گا۔ اگر مریض کے مثانے (bladder) میں پتھری ہوگی تو جراحت خود نہ کروں گا بلکہ مریض کو ماہر جراح (Surgeon) کے پاس بھیج دوں گا۔ مریضوں کے راز فاش نہیں کروں گا۔ جہاں بھی جاؤں گا مریضوں کی بھلائی کے کام کرنوں گا . اس کی خدمت کروں گا ۔ معاش میں اس کا حصہ لئے کام کروں گا۔ بقراط کا یہ عہد نامہ طبی اخلاقیات کی بہترین مثال ہے۔ اور ایک دستاویز ہے جو آج بھی مختلف طبی درسگاہوں میں پتھر پر کندہ ہے اور عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ے
حکیم محمد کبیر الدین۔مصنف طبیب ۔مترجم۔
حکیم محمد کبیر الدین۔مصنف طبیب ۔مترجم۔ محمد کبیر الدین Muhammad Kabiruddin تعارف علامہ محمد کبیر الدین انصاری کی شخصیت کو اگر طب یونانی کے تعلق سے مجاہد طب سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اگر بیسویں صدی (20th cent. AD) کے اوائل میں علامہ نے طبی تصنیف و تالیف کے میدان میں علمی جہاد نہ چھیڑا ہوتا تو بہت ممکن تھا کہ طب یونانی ہندوستان میں لسانی بحران سے دوچار ہو کر آج قصہ پارینہ ہو گئی ہوتی۔ جہاں علامہ نے عربی زبان میں طب پر مقالات تحریر کئے وہیں طب یونانی کی بنیادی کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ کر کے اس طب کو آئندہ نسلوں تک پہنچانے کا معقول انتظام کر دیا۔ آج طب یونانی کا نصاب تعلیم جن کتب پر مشتمل ہے ان میں زیادہ تر علامہ محمد کبیر الدین کے ذریعہ ہی تحریر کردہ ہیں۔ طب یونانی کا یہ مشہور مصنف و مترجم (1894AD) میں صوبہ بہار کے ضلع مونگیر، قصبہ شیخو پورہ میں پیدا ہوا تھا اور تمام عمر طب کی خدمت میں گزارنے کے بعد 82 سال کی عمر کو پہنچ کر 1976AD کو اس دار فانی سے رخصت ہو گیا۔ تعلیم و تربیت کبیر الدین کا تعلق ایک علمی خانوادہ سے تھا، چنا نچہ ابتدائی تعلیم گھر سے ہی شروع ہوئی جو دینی اور لسانی تعلیمات پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد حصول علم کی غرض سے ہی ترک وطن کیا اور لکھنو ، کانپور اور دہلی سے علم طب اور عربی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ یہی نہیں اپنے شوق کی بناء پرفن خطاطی میں بھی کمال حاصل کیا۔ فضل و کمال کبیرالدین بیک وقت ایک فاضل طیب، بہترین استاد اور جلیل القدر مصنف و مترجم ثابت ہوئے۔ کبیر الدین بحیثیت طبیب علمی اعتبار سے کبیر الدین طب کے ہر پہلو پر درک رکھتے تھے۔ اگر چاہتے تو طبابت میں بھی کامل ہو جاتے۔ لیکن اپنے استاد محترم جناب حکیم اجمل خاں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے طبی درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کو اپنا میدان خاص بنایا۔ کبیر الدین بحیثیت استاد طب یونانی پر مکمل عبور ہونے کی بنا پر آپ نے بطور مدرس بھی انا قام بنایا۔ انھوںنے استاد کے طور پر آیورویای یونانی بی کا یہ قرول باغ بنی دیلی، جام طیب کی قاسم جان، دہلی، نظامیہ طبیہ کالج ، حیدر آباد اور اجمل خان طبیہ کالج علی گڑھ، میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ آج بھی یہ چاروں طبی مراکز طب یونانی کی چوٹی کی درسگاہوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اور ان تمام جگہوں پر کبیر الدین کو بطور مدرس مدعو کیا گیا تھا۔ بیشک کبیر الدین ان اساتذہ میں سے تھے کہ جن کی شاگردی بھی باعث فخر و امتیاز ہوتی ہے۔ کبیر الدین بحیثیت مصنف : شاید خدا کو کبیر الدین سے طب یونانی کی تصنیف و تالیف و تراجم کا کام لینا ہی مقصود تھا، جو بعد میں اس فن کی بقاء کا سبب بنا۔ چنانچہ جب وہ مدرسہ طبیہ اگلی قاسم جان، دہلی سے طب یونانی کی تعلیم حاصل کر چکے تب ان کی علمی بصیرت دیکھ کر ان کے استاد محترم حکیم اجمل خاں نے ان کو ہدایت کی کہ وہ طبی تصنیف و تالیف کو اپنا میدان خاص بنا ئیں تو بہتر ہے۔ پھر کیا تھا استاد کی بات پر عمل کرتے ہوئے کبیر الدین نے علمی جہاد چھیٹر دیا۔ اس وقت طب یونانی کی بنیادی کتا ہیں چونکہ عربی و فارسی زبانوں میں ہی تمھیں، لہذا ان زبانوں سے واقفیت کم ہونے کی بنا پر ان تک عام طالب علم کی رسائی نہ تھی ، اس لئے کبیر الدین نے محسوس کیا کہ طب یونانی کی بقاء کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اردو تراجم کئے جائیں۔ چنانچہ آپ تن، ہن اور دھن سے ترجمے کے کام میں جٹ گئے اور انتہائی مہارت کے ساتھ اہم طبی کتابوں کے اردو تراجم کر ڈالے۔ آپ چونکہ صرف مترجم ہی نہ تھے، طبیب فاضل بھی تھے، اس لئے بعض دشوار مسائل کی تفسیر بھی آپ نے کی، اور کچھ نکات پر اپنی کامل رائے کا اظہار بھی کیا ۔ حکیم صاحب نے طب یونانی کی جن کتابوں کے تراجم کے یا ذاتی طور پر جو کتابیں یا رسائل و جرائد تحریر کئے ان کی فہرست طویل ہے۔ ذیل میں صرف ان کتابوں کی فہرست پیش کی جارہی ہے جو آپ کے ذریعہ اردو میں دستیاب ہو ئیں اور طبی نصاب تعلیم میں شامل کی گئیں۔ کلیات قانون اول اور دوم – ترجمہ کبیر اول، دوم، سوم اور چہارم ۔ افادہ کبیر اول اور دوم یاض کبیر اول اور دوم کلیات نیسی اول اور دوم، تشریح کبیر اول اور دوم کتاب الادویہ، کتاب لتكليس وغیرہ ۔ ان کتب کے علاوہ بھی علامہ نے طب کے مختلف موضوعات پر مقالات الصيد لدا ریر کئے جو ہاری اور اعلی طبی جرائد میں شائع ہوئے ۔ آپ نے خود بھی حیدر آباد سے شائع ہونے والے طبی جریدہ اسیح کی طباعت و اشاعت کے لئے مدیر اعلیٰ کے فرائض انجام دیئے ۔ مختصر یہ کہ بیسویں صدی میں طب کے علمی سفر کاسپہ سالار حکیم کبیر الدین کے علاوہ اور کوئی نہیں کہ جس نے اردو تالیفات کے ذریعہ نئی نسل کو علم طب سے روشناس کروایا۔
طبِّ اسلامی کا انسائیکلوپیڈیا القانون فی الطب
طبِّ اسلامی کا انسائیکلوپیڈیا، بو علی سینا کی شہرہ آفاق کتاب القانون فی الطب کا اردو ترجمہ القانون فی الطب علم طب، جراحی اور علم الابدان پر حکیم بوعلی سینا یا ابن سینا کی ایک مشہور تصنیف اور طبی معلومات کا سرچشمہ۔ اصل کتاب عربی میں ہے دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں اس کے تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ اس کتاب میں علاوہ جراحی و علاج معالجہ کے طب کے دیگر علوم (مثلا تشریح، فعلیات وغیرہ) کے ابواب بھی جابجا دیے گئے ہیں۔، جلد اول طب میں قانون کی کتاب کو سب سے اہم سائنسی کتابوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ تقریباً دس صدیاں پہلے لکھی گئی تھی، اور بہت سے سائنسی اور تجرباتی نظریات اور جدید تجربہ گاہوں کی دریافت سے پہلے، یہ اب بھی ایک اہم حوالہ اور بنیادی اصول ہے۔ ہسپتال میں داخل ہونے اور منشیات کی تشکیل. علاج کے کچھ طریقے جو کہ تقریباً ایک ہزار سال پہلے کے قانون میں بتائے گئے تھے اب بھی لاگو ہیں۔ جلد دوم جلد سوم۔ جلد چہارم عربی ٹیکسٹ فارمیٹ
چیونٹیاں کیسے بات کرتی ہیں
چیونٹیاں کیسے بات کرتی ہیں: فیرومونز، سگنلز اور اجتماعی ذہانت قران کریم کی سورہ النمل میں چنیوٹیوں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے درمیان ہونے والا مکالمہ ذکر کیا ہے۔آج جدید تحقیقات کے نیتجہ میں ثابت ہوچکا ہے یہ کوئی افسانوی بات نہیں کہی گئی تھی بلکہ وہ حقائق تھے جو اس وقت تک لوگوں سے ناواقف تھے فہرست کا خانہتعارففیرومونز: چیونٹیوں کی کیمیائی زبانفیرومونز کی مختلف اقسام اور ان کے افعالچیونٹیاں فیرومونز کا کیسے پتہ لگاتی ہیں اور اس کا جواب دیتی ہیں۔چیونٹی کی مختلف انواع میں فیرومون کمیونیکیشنچیونٹی مواصلات میں دیگر سگنلنگ میکانزمسپرش مواصلاتسمعی اور وائبریشنل کمیونیکیشنبصری مواصلاتچیونٹی کالونیوں میں اجتماعی ذہانتبھیڑ کی ذہانت اور فیصلہ سازی۔ٹاسک ایلوکیشن اور لیبر کی تقسیمموافقت اور لچک۔۔۔۔۔۔۔۔تعارفچیونٹیاں زمین پر سب سے کامیاب اور پرچر کیڑوں میں سے ہیں، جو تقریباً ہر براعظم اور ماحولیاتی نظام میں رہتی ہیں۔ وہ دلچسپ طرز عمل اور پیچیدہ سماجی ڈھانچے کی ایک وسیع رینج کو ظاہر کرتے ہیں، جس نے محققین اور فطرت کے شائقین کی توجہ یکساں طور پر حاصل کی ہے۔ چیونٹی حیاتیات کے سب سے دلچسپ پہلوؤں میں سے ایک ان کا جدید ترین مواصلاتی نظام ہے، جو انہیں انتہائی مربوط اور موثر انداز میں مل کر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس مضمون میں، ہم چیونٹی کے مواصلات کی حیرت انگیز دنیا کا جائزہ لیں گے، ان قابل ذکر کیڑوں کی زندگی میں فیرومونز، سگنلز، اور اجتماعی ذہانت کے کردار کو تلاش کریں گے۔ ہم چیونٹیوں کی کیمیائی زبان کی جانچ کرکے شروع کریں گے، مختلف قسم کے فیرومونز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جو وہ اپنی سرگرمیوں کو بات چیت اور ہم آہنگی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگلا، ہم چیونٹیوں کے ذریعہ استعمال کردہ دیگر سگنلنگ میکانزم کی چھان بین کریں گے، جیسے سپرش، سمعی اور بصری مواصلات۔ آخر میں، ہم چیونٹی کالونیوں میں اجتماعی ذہانت کے تصور پر بات کریں گے، اس بات پر روشنی ڈالیں گے کہ ان کے قابل ذکر مواصلاتی نظام کس طرح ایک نسل کے طور پر ان کی کامیابی اور ماحولیاتی چیلنجوں کی ایک وسیع رینج سے نمٹنے کی ان کی صلاحیت میں حصہ ڈالتے ہیں۔ چیونٹی مواصلات کی دنیا کے اس دلچسپ سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہوں اور ان چھوٹی مخلوقات کی ناقابل یقین پیچیدگی اور کارکردگی کو دریافت کریں جو پوری دنیا کے ماحولیاتی نظام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فیرومونز: چیونٹیوں کی کیمیائی زبانچیونٹیاں بنیادی طور پر کیمیائی سگنلز کے ذریعے بات چیت کرتی ہیں جنہیں فیرومونز کہا جاتا ہے۔ یہ کیمیائی مرکبات انفرادی چیونٹیوں کے ذریعہ جاری کیے جاتے ہیں اور ان کے گھونسلے کے ذریعے ان کا پتہ لگایا جاتا ہے، جس سے وہ اپنے ماحول، وسائل کی موجودگی اور کالونی کی حالت کے بارے میں معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔ فیرومونز کی پیچیدگی اور خاصیت چیونٹیوں کو اپنی سرگرمیوں کو مؤثر طریقے سے مربوط کرنے اور سماجی تنظیم کو برقرار رکھنے کے قابل بناتی ہے جو کہ بطور نسل ان کی کامیابی کے لیے اہم ہے۔ اس حصے میں، ہم چیونٹیوں کے ذریعے استعمال ہونے والے فیرومونز کی مختلف اقسام کا جائزہ لیں گے اور کالونی کے اندر ان کے افعال کو دریافت کریں گے۔ فیرومونز کی مختلف اقسام اور ان کے افعالچیونٹیاں اپنی کالونیوں میں بات چیت اور تعاون کرنے کے لیے فیرومونز کی ایک صف کا استعمال کرتی ہیں۔ ان کیمیائی پیغامات کو ان کے مخصوص کرداروں کی بنیاد پر کئی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ہر ایک کالونی کی تنظیم اور کارکردگی میں حصہ ڈالتا ہے۔ چیونٹیوں کے ذریعہ استعمال ہونے والے فیرومون کی کچھ سب سے زیادہ مروجہ اقسام میں شامل ہیں : ٹریل فیرومونز:چیونٹیاں اپنے گھونسلے اور کھانے کے ذرائع کے درمیان راستے کو نشان زد کرنے کے لیے ٹریل فیرومونز کا استعمال کرتی ہیں۔ جیسے ہی کارکن چیونٹیاں خوراک دریافت کرنے کے بعد کالونی میں واپس آتی ہیں، وہ دوسری چیونٹیوں کو وسائل کی طرف رہنمائی کے لیے ٹریل فیرومونز جمع کرتی ہیں۔ جیسے جیسے زیادہ چیونٹیاں فیرومونز کے ساتھ پگڈنڈی کی پیروی کرتی ہیں اور اسے مضبوط کرتی ہیں، راستہ زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے، اضافی چیونٹیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور چارہ لگانے کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔الارم فیرومونز:خطرات یا خطرات کے پیش نظر، چیونٹیاں اپنے گھونسلے کے ساتھیوں کو خبردار کرنے کے لیے الارم فیرومون جاری کرتی ہیں۔ یہ غیر مستحکم کیمیکل کالونی سے تیز ردعمل کا آغاز کرتے ہیں، چیونٹیوں کو گھوںسلا کا دفاع کرنے، گھسنے والوں کو مشغول کرنے یا نقصان سے بچنے کے لیے متحرک کرتے ہیں۔ملکہ فیرومونز:ملکہ چیونٹیاں الگ الگ فیرومون خارج کرتی ہیں جو کالونی کے اندر کارکن چیونٹی کے رویے اور تولید کو منظم کرتی ہیں۔ یہ کیمیکل ملکہ کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہیں، نئے تولیدی افراد کی نشوونما کو دبا کر اور کارکنوں کے تعاون کو فروغ دے کر کالونی کے سماجی ڈھانچے کو برقرار رکھتے ہیں۔بروڈ فیرومونز:چیونٹی کے لاروا بروڈ فیرومونز پیدا کرتے ہیں، جو کارکن چیونٹی کے رویے پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ترقی پذیر اولاد کی دیکھ بھال اور پرورش میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔ یہ فیرومونز کالونی کے اندر لیبر کی تقسیم کو بھی متاثر کر سکتے ہیں، کیونکہ بروڈ فیرومونز کے سامنے آنے والی چیونٹیاں بچے کی دیکھ بھال سے متعلق کام کرنے کے لیے زیادہ مائل ہو سکتی ہیں۔شناخت فیرومونز:چیونٹیاں گھونسلے کی شناخت کرنے اور دوسری کالونیوں سے گھسنے والوں یا چیونٹیوں کے درمیان فرق کرنے کے لیے شناختی فیرومونز پر انحصار کرتی ہیں۔ یہ کیمیکلز، جو عام طور پر چیونٹیوں کے کٹیکل یا exoskeleton پر پائے جاتے ہیں، ایک منفرد “کالونی دستخط” کے طور پر کام کرتے ہیں، جو چیونٹیوں کو اتحادیوں اور مخالفوں کے درمیان تفریق کرنے اور اپنے سماجی گروپ کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے قابل بناتے ہیں۔اوپر دی گئی مثالیں ان گنت فیرومونز کے ایک حصے کی نمائندگی کرتی ہیں جنہیں چیونٹیاں اپنی سرگرمیوں کو بات چیت اور ہم آہنگی کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ چیونٹی کے مواصلاتی نظام کے تنوع اور موافقت کو ظاہر کرتے ہوئے فیرومونز کی مخصوص اقسام اور افعال انواع کے درمیان مختلف ہو سکتے ہیں۔ چیونٹیاں فیرومونز کا کیسے پتہ لگاتی ہیں اور اس کا جواب دیتی ہیں؟۔ چیونٹیاں اپنے اینٹینا کا استعمال کرتے
كتاب ما الفارق أو الفروق
كتاب ما الفارق أو الفروق أو كلام فى الفروق بين الأمراض تالیف ابو بکر محمد بن زکریا رازی تقدیم و تحقیق :ڈاکٹر سلمان قطایہ ((اردو ترجمہ) کہی ان کہی باتیں ۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو عقل و شعور بخشا۔اس کی جلاء کے لئے انبیاء مبعوث کئے گئے۔سب سے آخر میں خاتم النبیین حضرت محدﷺ کو تشریف لائے ۔سب پر درود و سلام ہو ۔آپ کی آل و اولاد اصحآب اہل بیت و زریات پر رحمتیں ہوں۔علم ایک صفت باری تعالیٰ ہے جسے بطور انعام انسانوں کو عطاء فرماکر تجربات کی بنیاد پر اس میں جلاء بخشی کا سامان بخشا۔ہر آنے والا دن گزرے ہوئے کل سے زیادہ علم کا سبب بنتا ہے۔جتنا علم آج ہے آنے والا کل اس میں اضافہ کا سبب بنے گا۔یہی سلسلہ نامعلوم وقت سے چلا آرہا ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔ایک وقت ایسا بھی آئےگا جب ایک عام انسان اتنی معلومات کا حامل ہوگا ۔جتنا پہلے علماء ہوا کرتے تھے۔ كتاب ما الفارق أو الفروق أو كلام في الفروق بين الأمراض…arbic اس کتاب کے مطالعہ سے عام انسان کو بھی اتنی معلومات ہوجائیں گی جتنی پہلے حاذق لوگوں کو بھی نہ تھیں۔پہلی نسل کے علوم دوسری نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں ۔بعد والے ان علوم کے ساتھ اپنے تجربات کو بھی شامل کرکے آنے والی نسلوں کے لئے وراثت میں چھوڑ جاتے ہیں۔ اخذ و استفادہ کا سلسلہ یوں چلتا رہے گا۔علم الطب ایک شریف علم ہے جس کی حاجت پر طبقہ و ملک اور ہر فرد کے لئے یکساں ہے۔جب تک دنیا قائم ہے تین شعبے بھی قائم رہیں گے(1)غذاو خوراک کا سلسلہ(2)لباس و تن پوشی کا سلسلہ(3)امراض و علاج دوا کا سلسلہ۔جب تک سانس ہے انسان ان تینوں باتوں کا محتاج ہے۔اگر کوئی علم طب میں حذاقت و مہارت پیدا کرلیتا ہے تو عزت و شہرت مال و دولت اس کے قدموں کی خاک بن جاتے ہیں۔ماہر طبیب کہیں بھی چلا جائے۔اس کی ضرورت ہر جگہ موجود ہوتی ہے۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان قدیم و نایاب جواہر عملی کو آپ کے سامنے پیش کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے۔قبل ازیں سوا سے زائد کتب کے تیار کئےجاچکے ہیں ۔۔یہ کتاب اس لئے بھی اہمیت کی حامل ہے اس میں ایک جیسے امراض جن کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں کے باریک فرق کو واضح کیا گیا ہے،تاکہ طبیب تشخیص مرض اور تجویز دوا میں خطاء کرنے سے محفوظ رہے۔بسا اوقات اشباء تشخیص معالج و مریض دونوں کے لئے پریشانی کا سبب بنتی ہے۔اگر یہ کتاب زیر مطالعہ رہے گی تو اس قسم کی پریشانیوں سے بچا جاسکے گا۔اس کتاب پر جمالی نگاۃ ڈالتے ہیں۔ پهلا مقاله امراض راس سے متعلق تفریقی نکات ۔ یہ پانچ فصلوں پر مختلف امراض دماغ کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ پهلی فصل ۔دوسری فصل: مختلف امراض چشم کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ تیسری فصل: مختلف امراض گوش کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ ۔ چوتھی فصل : ناک و نتھنوں کے مختلف امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ پانچویں فصل : دانتوں کے مختلف قسم کے دردوں کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ دوسرا مقاله : آلات تنفس کے مختلف امراض کے درمیان تفریقی نکات۔ یہ تین فصلوں پر مشتمل ہے۔ پهلی فصل حلق و حجرہ کے مختلف امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ : دوسری فصل: مختلف امراض رید کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ تیسری فصل : سینے اور پہلو کے مختلف امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ تیسرا مقاله معدہ، کبد، طحال، گردہ، مثانہ اور آلات تناسل کے مختلف امراض کے در میان تشخیص فارقہ ۔ یہ چارفصلوں پرمشتمل ہے۔ پهلی فصل معدہ کے متشابہ امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ دوسری فصل: کبد و طحال کے مختلف امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ تیسری فصل: گردے اور مثانہ کے متشابہ امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ اور ۔ چوتھی فصل : آلات تناسل کو لاحق ہونے والے متشابہ امراض میں تشخیص فارقہ ۔ چوتھا مقاله : پورے بدن کو لاحق ہونے والے امراض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ ہ تین فصلوں پر مشتمل ہے۔ پھلی فصل متشابہ بخاروں کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ دوسری فصل: اورام و قروح کے متشابہ احوال و عوارض کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ تیسری فصل: ناتبین کو عارض ہونے والے متشابہ احوال کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ پانچواں مقاله : نبض اور بول کی بعض متشابہ اقسام ۔ پھلی فصل متشابہ نبضوں کے درمیان تشخیص فارقہ ۔ دوسری فصل: بول کے متشابہ احوال کے درمیان تشخیص فارقہ ۔۔ یہ تین سو زائد صفحات پر مشتمل کتاب معالجین کے لئے رہنما ثابت ہوگی۔اس میں سیرچ،کاپی پیسٹ ۔ضرووری باتوں کی نشان دہی کے لئے سہولت میسر ہے۔ایک طبیب اپنی ضرورت کے مطابق کسی بھی مرض اور تشخیصی التباس کو دور کرنے میں مدد لے سکتا ہے۔ آخر میں مطالعہ کرنے والوں سے التماس ہے کہ میرے والدیں اساتذۃ کرام۔اور میرے بیٹے سعد یونس مرحوم کو اپنی دعائوں میں ضرور یاد رکھیں ۔میرے چھوٹے بیٹے دلشاد یونس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ اس سے علمی کام لیتا رہے۔اور ادارہ کی طرف سے جاری اس علمی سلسلہ کو جاری رکھ سکے۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔ منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺ//سعد ورچوئل سکلز پاکستان۔
قتل حسین اصل میںمرگ یزید ہے
قتل حسین اصل میںمرگ یزید ہےاسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلاء کے بعد(محمد علی جوہر)حکیم المیوات۔قاری محمدیونس شاہد میو۔اہل کربلاء کی قربانیاں اس قدرعظیم ہیں اگر ان کا تخیمنہ لگایا جائے تو حساب و کتاب کام کرنا چھوڑ جائے،اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اہل کربلاء نے اپنے بچوں سمیت قربانی کی مثال قائم کی۔اس کے بعد ان کا صبر و تحمل ان قربانیوں سے بھی بڑھا ہوا تھا۔کہ امام زین العابدین ؒ تین دھیئوں سے زائد اس دنیا میں مکین رہے لیکن صبر جا دامن نہ چھوڑا۔ایک وہ طبقہ ہے جو غم و غصہ کرتا ہے مصائب پر کئی کئی گھنٹے لچھے دار بیان کرتا ہے۔مصائب و ماتم میں نت نئے نکات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اٌنی روزی روٹی سیدھی کرتا ہےدوچار گھنٹے مصائب کربلاء بیاں بیان کرکے جب فراغت ہوتی ہے تو دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے موجود ہوتے ہیں۔جنہیں بے صبری سے ٹھونسا جاتا ہے۔اس وقت غم حسین کافور ہوچکا ہوتا ہے۔رونے و رلانے والے جب مخصوص مشق سے فارغ ہوتے ہیں تو دونوں سبیللوں او نیازوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔یعنی کچھ ہی دیر میں اپنے اس سوانگ کا پردہ اپنے ہاتھوں فاش کردیتے ہیں۔کہ بیان کربلاء ۔مصائب وغیرہ دراصل ایک ٹول ہے جس کی بنیاد پر اپنے مسلک اور روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔کیونکہ حاضرین کسی بھی مسلک ومذہب سے تعلق رکھتے ہوں سب کا یہی معمول ہے۔مقصد حسین اورکربلاء سے ملنے والے سبق کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ماناکہ یہ سب کچھ غم حسین مصائب کربلاء کی وجہ سے اہتمام کیا جارہا ہے؟تو امام حسین اور وقوعہ کربلاء کیا اچانک ہوگیا تھا؟ یا پھر ایک ڈیڑھ ماہ امام صاحب کچھ نظریات لیکر میدان میں نکلے تھے؟ایک شعر عمومی طورپر لوگ لکھتے اور پڑھتے ہیں۔بالخصؤص محرم الحرام میں۔قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہےاسلام زہدہ ہوتاہے ہر کربلاء کے بعد یہ بھی پڑھ سفر کربلاء کیا جس دین کو حسین نے زندہ کیا تھا ،وہ ہمارے پاس موجود بھی ہے کہ خالی دعوئوں سے گزارا کررہے ہیں؟اگر کوئی یہ سمجھادے کہ غم حسین میں پیش پیش لوگ اس دین کی تبلیغ کررہے ہیں جسے حسین نے بچایا تھا۔اسی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔جولوگ طریقہ حسینی سے انحراف کئے ہوئے ہیں ان پر افسوس کیا جاتا ہے؟آج عاشورہ کا دن ہے کوئی بتاسکتا ہے کہ وہ کونسا دین تھا جسے حسین نے کربلاء میں اپنا خاندان قربان کرکے بچایا تھا؟۔اس کی یہی خصوصیات ہیں جو ہم لوگ اپنی زندگیوں کی اپنائے ہوئے ہیں۔جس کی تبلیغ حسین نے کی تھی؟کیا آج بھی حسین کی طرح باطل کے سامنے کلمہ حق کہنے اور سنت حسینی کو اپنائے ہوئے ہیں ۔جن کاموں کے خلاف حسین یزید کے مقابل آئے تھے،ان سے نفرت ہوچکی ہے؟ایسا ہر گز نہیں ہے ۔حق تو یہ ہے کہ نام حسین کا لیتے ہیں اور پیروی یزید کی کرتے ہیں۔۔یہی ہماری زندگی کا خاصۃ ہے۔کربلا کا بیان اپنی ضروریات یا کاروباری ۔یا مسلکی ضرورت کے تحت کرتے ہیں ورنہ ہمیں خوف ہے کہیں کوئی ایسا انسان پیدا نہ ہوجائے جو سنت حسینی کو نافذ کرے اور یزیدی طریقہ کا انکار کرے؟قصدا امام حسین کی پیروی سے انحراف کرتے ہیں۔اور یزیدی طریقہ کار کو زندگی میں اپنائے ہوئے ہیں ۔گوبات زرا ٹیڑھی اور کہنے مشکل ہے۔لیکن یہ سب کچھ حقیقت ہے۔کسی سے جھگڑنے یا بحث و مباحثہ میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔صرف چند منٹ گریبان میں جھانک لیں۔اپنے اپنے کردار اور زندگی کی روش پر توجہ کرلیں۔اگر جذبات میں آکر لکھنے والے کو منکرین حسین میں شمار کرنے کا دورہ نہ پڑے تو یہ باتیں قابل غور ہیں۔ورنہ حسین سے کون بغاوت کرسکتا ہے؟