چوتھی کونٹ ۔رائو تحسین میو لاہور بار کی سیٹ۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو،میوقوم انگڑائی لے ری ہے اور اپنا حقوق چھین ری ہے۔زمانہ کا دریا میں اپنی شکل دیکھ کے یائے پتو چل رو ہے بکری نہ بلکہ ای تو شیر کو بچہ ہے۔۔بچپن میں دادی ،نانین سو کہانی سُنے ہے ۔بڑی بوڑھی بات کہوے ہی۔تو سارا بچہ دھیان اوڑپاس بیٹھ کے بڑا خلوص سو سنے ہا۔اُن باتن میں کچھ ایسی بھی بات رہوے ہیں شہزادہ شکار کھیلن جاوے ہوتو واسو جہو جاوے ہو کہ تین نُکرن میں جائیو چوتحی کونٹ مت جائےنہیں تو پتھر کو بن جاگو۔ میوقوم کا سپوت اب چوتھی کونٹ جاکے بھی شکار کھیل را ہاں۔کوئی صوبائی میں الیکشن لڑو ہے تو کوئی قومی اسمبلی میں لٹھ گاڑی کھڑو ہے۔۔ہم کال ایسامیو سپوت نوجوان وکیل سو ملِن گیا جانے لاہور بار کی سیکرٹری شب جیت لی ہے۔سکرٹی شپ کہا ہے ایک شیر نے خطرناک جنگ جیتی ہے۔عام کونسلر کی سیٹ جیتنو بھی بھاری ہے،پھر لاہور بار جو وکیلن کو گھونسلہ ہے اور وکیل وے چیل رہوا ہاں جن کاگھونسلہ میں ماس نہ رہوے ہے۔ان کے پئے سو 2024۔2025 کی سیکرٹری شپ چھین لی۔یا سیٹ کے مارے جھُج کرتے کرتے دھولا آجاواہاں۔رائو تحسین میو نے چھوٹی سی عمر میں جیت لی۔اللہ یا جوان میو کی حفاظت فرمائے اور نظر بد سو بچائےیا میں کوئی شک نہ ہے کہ ای سیٹ ایم این اے کی سیٹ پے بھاری ہے۔ جب ہم نے ان کی جیت کو سُنو تو اپنے آپ مبارک باد دینا کے مارے پائوں اٹھتا چلا گیا۔۔راؤ تحسین شریف کی جنرل سیکرٹری لاہور مبارک دی۔سردار افضل میو ۔قاری حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو،مشتاق احمد میو امرالیا،حافظ جاوید میوتنویر الحسن میو ایڈوکیٹعمران بلا میوشوکت علی میو ایڈوکیٹشکر اللہ میو صدائے میوات نےسعد ورچوئل سکلز کا مہیں سو پھولن کو گلدستہ پیش کرو۔ای گلدستہ رائو محمد شریف میو(والد محترم رائو تحسین) نے وصول کرو۔رائو شریف میو زندہ دل انسان ہے ۔ان سو مل کے ایسو لگے ہے کہ کائی نگوٹیا سو مل راہاں ،رائو شریف نے زور دے کے کہو تم ہمارا نامن کے ساتھ میو کیوں نہ لکھو ہوَ کہا ہم نے تم میو نہ سمجھو ہو؟رائو تحسین سو نہ مل سکا لیکن واکا باپ رائو شریف نے جا انداز سو ملاقات کری دِل خوش ہوگئیو۔اب ایسو لگے ہے کہ میون نے چوتھی کونٹ دھونڈلی ہے ۔ایسی نونٹن میں آتاجاتا رہینگا۔
عملیات میں حاضرات کی حقیقت۔
عملیات میں حاضرات کی حقیقت۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوحاضرات عملیات کی دنیا کا مشہور عمل ہوتا ہے اور اس شعبہ میں ضخیم کتب لکھی جاچکی ہیں۔ اس کے ماننے والے دنیا بھر میںموجود ہیں،حاضرات کی مختلف صورتیں دنیا بھر میں رائج ہیں۔جنگلات کے باسیوں سے لیکر متمدن ترین ممالک تک اس پر یقین کرنے والے موجود ہیں۔https://youtu.be/86ulDu5Y54sاس کا نفسیاتی اور حقیقی تجزیہ اس ویڈیو میں کیا گیا ہے دوچار بلاگر نے اپنے بھی شئیر کئے ہیں۔یہ ویڈیو عاملین اور عوام الناس کے لئے رہنما ثابت ہوگی ،اس طریقہ سے آپ بھی حاضرات کی حقیقت تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
سالنامہ ۱۹۴۷ء گنج جواہرات
سالنامہ ۱۹۴۷ء گنج جواہرات امسال ہم اپنے معاونین کرام سے معذرت خواہ ہیں ۔ کہ ہم گرانی دونا یابی کاغذ کی وجہ سے ہم حسب وعدہ شاندار سالنامہ پیش نہیں کر سکے مگر باوجود تمام تکالیف کے ہم نے اپنی سابقہ روایات کو بر قرار رکھتے ہوئے سالنامہ پیش خدمت کر دیا ہے۔ یہ سالنامہ موجودہ زمانہ کی ضروریات کے لحاظ سے بقامت کہتر و بقیمت بہتر ہے ۔ اور امید ہے کہ ہمارے ناظرین کرام اس سے مستفید ہوں گے اور اپنی موجودہ ضروریات کو پورا کر کے دعا خیر سے یاد فرمادیں گے۔یہ سالنامہ صنعت و حرفت – عطاری اور تجارتی رازوں کا ایک مرقع بےنظیر ہے ۔ موجودہ کساد بازاری میں گھریلو صنعتوں کو فروغ دینے کے لئے یہ پروگرام مرتب کیا گیا ہے کہ ہمارے وہ احباب واطباء کرام جو اپنا گھر بار چھوڑ کر بے خانماں ہو گئے ہیں ، مشرق سے مغرب اور مغرب مشرق میں پہنچ گئے ہیں ۔ اُن کے لئے یہ رسالہ ایک لاجواب اور بینظیر تحفہ ثابت ہو گا۔وہ ان صنعتوں میں سے کسی کو شروع کر دیں۔بفضل تعالیٰ وہ کامیاب رہیں گے۔عوام کا خیر خواہ .حکیم عبدالرحیم جمیل گجرات کتاب کے لئے یہاں کلک کریں
مریضوں کی نفسیات اور معالجین
مریضوں کی نفسیات اور معالجین انسانی نفسیات کو سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔یہ اس وقت اور بھی زیادہ پیچیدہ عمل ہوجاتا ہے جب مخاطب ضرورت مند ہو اور غلط بیان سے کام لے رہاہو۔رحم کرنا ترس کھانا مہزب معاشرہ کی بنیادی اکائی ہوتا ہے لیکن اس راہ سے شاطر لوگ ناجائز فوائد سمیٹتے ہیں۔جب کہ معالج نے کاروبار کرنا ہوتا ہے،اس بارہ میں معالجین کے لئے چند ہدایات دی گئی ہیں اس ویڈیو کو دیکھنے سے کچھ باتیں سمجھ میں آجائیں گی۔
صحیفہ ہمام بن منبہ۔میواتی ترجمہ
صحیفہ ہمام بن منبہ۔میواتی ترجمہ (الصحیفۃ الصحیفۃ)میواتی زبان میں ترجمہسیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات جو اُنن نے اپنا شاگرد ہمام بن منبہ۔ؒ سولکھوائی ہیحکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میوصحیفہ ہمام بن منبہ۔میواتی ترجمہالحمد اللہ رب العالمین وصلی اللہ علی النی الکریم۔وعلی آلیہ وصحبہ وازواجہ وذریاتیہ وبارک وسلمسب بھلائی اور اچھی بات وا بابرکت ذات کا ہاتھ میں ہاں جا نے ہماری رہنمائی اور رہبری کے مارے اپنو نبیﷺ اپنی کتاب کے ساتھ بھیجو۔واکو پاکیزہ امانت دار ساتھ دیا کہ اُنن نے ساری بات پاری کی پوری ہم تک پہنچا دی۔ای کتاب (قران کریم)ایسی مکمل اور پوری ہی کہ کوئی بات اوجھل نہ رہی ۔ہاں ہرآدمی کی عقل ایک جیسی نہ رہوے ہے۔کچھ بات کھول کے بھی سمجھانی پڑاہاں۔جب نبیﷺ کائی بات اے سمجھاوے ہے۔اور کھول کے بیان کرے ہے تو سمجھنانااور سمجھنا میں آسانی پیدا ہوجاوے ہے۔ صحیفہ ہمام بن منبہ۔میواتی ترجمہمیو قوم دیندار بھی ہے اور دینی باتن نے دھیان سو سُنے بھی ہے۔اللہ نے اِن سو دین کو کام لئیو ہے۔آج بھی بہت بڑی تعداد میں علماء حفاظ قراء۔مساجد و مدارس کا خدام۔معاونین۔عوامی طور پے دین دار طبقہ موجود ہاں۔جو اپنا اپنا انداز اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق دین کی خدمت میں مصروف ہاں۔اللہ تعالیٰ کائی سو کتنی خدمت لیوے ہے۔واکی مرضی ہے۔بہت دنن سو میو علماء اور میو ادبی تنظیمن کا لوگ کوشش میں ہا کہ قران کریم کا میواتی ترجمہ (الحمد اللہ راقم الحروف نے1998 میں مکمل کرلئیو ہو) سو پیچھے حدیث کی کتابن کو بھی میواتی میں ترجمہ کرو جائے۔لیکن ابھی تک کوئی حدیث کی کتاب دکھائی نہ دی ہے کہ میواتی میں واکو ترجمہ کرو گئیو ہوئے۔بابائے میواتی عاصد رمضان میو۔اور مفتی حامد محمود راجا۔مشتاق احمد میو امبرالیا۔شکر اللہ میو جیسا میو قوم کا سپوتن نے ادبی و معاشرتی،قلمی ۔تعلیمی خدمات سر انجام دی ہاں۔ان کو اپنو خدمات کو ریکارڈ ہے۔اِن دونوں نے کئی بار کہو کہ سلسلہ احادیث کو بھی میواتی ترجمہ شروع ہونو چاہئے۔مصروفیت اور روزی روٹی کی بھاگ دوڑ میں مفید کامن کے مارے کم ہی وقت نکلے ہے۔اللہ نے توفیق دی ہے کہ ۔دنیا میں سبن سو پہلے لکھی جان والی حدیث کی کتاب ()کو میواتی میں ترجمہ کرو جائے۔الحمد اللہ ای خواہش اللہ نے پوری کردی ہے۔صحیفہ ہمام ابن منبہ۔ کا بارہ میں وکی پیڈا جیسے مشہور ویب سائٹ پے لکھو ہے۔صحیفہ ہمام ابن منبہ جاکو اصل نام الصحیفۃ الصحیحہ ہے۔ ای ہمام بن منبہ، ابوہریرہ (صحابیرسولﷺ) کو شاگردہے۔ جانے (جا میں 138 حدیث درج کری ہاں) لکھ کے اپنا استاد ابوہریرہ (وفات:58ھ) کے سامنے پیش کر کے یا کی تصحیح و تصویب کروائی ہی۔ گویا ای صحیفہ سن 58 ہجری سو بہرحال پہلے ہی ضبط تحریر میں لایو گیوہو۔ یاکو ایک قلمی نسخہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے سن 1933ء میں برلن کی کائی لائیبریری سو ڈھونڈ نکالو۔ اور دوسرو مخطوطہ دمشق کی کائی لائیبریری سو۔ پھر ان دونوں نسخان کو تقابل کر کے 1955 ڈاکٹر حنمید اللہ رحمہ اللہ ء میں حیدرآباد دکن سو شائع کرو۔یا میں کل 138 احادیث ہی۔سعد ورچوئل سکلز پاکستان جو کہ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کو ذیلی ادارہ ہے (ای میرا بیٹا سعد یونس المتوفی9ستمبر2022)نے بنائیو ہو ۔یاکا اغراض و مقاصد میں ای بات شامل ہی کہ روزانہ میواتی زبان میں کچھ نہ کچھ ضرور لکھو جائے ۔الحمد اللہ دوسال کا عرصہ میں کئی کتاب میواتی زبان میں لکھی جاچکی ہاں۔ای کتاب(صحیفہ حمام بن منبہؒ)بھی وائی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔موئے خوب پتو ہے میو قوم میں موسو بھی بہتر جانن والا علم والا لائق سو لائق لوگ موجود ہاں۔جب تک وے کوئی کام نہ کراں یائی سوکام چلا لیو۔جب کوئی بہتر کوشش سامنے آئے توائے لے لئیو۔ ممکن ہے کچھ لوگ ادبی بانکپن کو مظاہرہ کراں اور میرا طرز تحریر میں اُنن نے بے ادبی یا مناسب الفاظ کی کمی دکھائی دئے۔تو معاف کریو۔ کیونکہ جو زبان یا الفاظ یا ترجمہ میں استعمال کراہاں۔جیسے لفظ(آپ ) کی جگہ(تو)لکھو ہے کیونکہ میو قوم کو طرز تکلم یہی ہے۔ترجمہ اصل کلام نہ رہوے ہے ۔البتہ سمجھانا کی ایک کوشش رہوے ہے۔اور سمجھانا کو طریقہ ہرکائی کو اپنو ہے۔موئے جو الفاظ میو قوم کا طرزتکلم کے مطابق مناسب دکھائی دیا۔لکھ دیا۔اگر میرو طرز تحریر نامناسب لگے توواکی رائے سمجھی جائے۔جو بہتر لکھ سکے ہے۔واکے مارے میدان خالی ہے۔اور کرن کے مارے بہت سو کام باقی ہے۔لنگوٹ باندھو۔کود پڑو۔میو ادب تہاری باٹ دیکھ رو ہے۔میواتی زبان میںمیری کئی کتاب پہلے سو موجود ہاں۔جن میں۔(1)قران کریم کو میواتی ترجمہ۔(2)میواتی کھانا(3)گچوڑاور کچود(4)میو سو ملاقات(5)یہ سب کہا جاواہاں؟(6)مہیری۔وغیرہای سلسلہ قد تک چلے پتو نہ ہے۔ای کتاب چھپے کہ نہ۔میں تو اپنا حسہ کو کام کررو ہوں۔جب کام ہوجائے گو تو چھپوان والا بھی مل ہی جانگا۔چھپوان والا مل جانگا لیکن لکھن والا کم کم ملنگا۔جو جاکو کام ہے اپنائے کردئے۔
یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ
یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ: مولانا ابن الحسن عباسی (تبصرہ: محمد زبیر) ذوقِ مطالعہ، مراتبِ کمال کی تحصیل اور مدارجِ علم کی تکمیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نصاب میں شامل کتب، انسان میں مطالعہ کی استعداد اور امہاتِ الکتب سے استفادے کی صلاحیت پیدا کر کے گویا اس کے ہاتھ میں علم کے لامحدود خزانوں کی کنجی دے دیتی ہیں۔ اب یہ انسان کے ذوقِ مطالبہ پر منحصر ہے کہ وہ کس قدر علمی جواہر و لآلی سے اپنا دامن بھرتا ہے۔لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وہ مطالعہ جو انسان کی تہذیبِ نفس، ترقی علم اور رفعتِ کمال کا سبب بنتا ہے ،وہ محض ”کتاب خوانی و ورق گردانی“ نہیں ہے۔ چنانچہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ بعض لوگ کثیر المطالعہ اور وسیع المعلومات نہ ہونے کے باوجود علمی رسوخ و تعمق کے اعتبار سے قابلِ رشک مقام پر ہوتے ہیں اور اس کے برعکس بعض لوگ شرتِ مطالعہ اور وسعتِ معلومات کے باوجود اپنے مطالعہ و معلومات سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت تک سے محروم ہوتے ہیں اور تابہ رسوخ و تعمق چہ رسد؟ اور معلوم ہے کہ علم کی دنیا میں اصل مطلوب بفحوائے ”والراسخون فی العلم“ رسوخ اور تعمق ہے۔ دراصل مطالعہ ایک فن اور تکنیک کا نام ہے اور دیگر فنون کی طرح اس کے بھی کچھ اصول ہیں جنہیں ملحوظ رکھ کر ہی اپنے مطالعے کو مفید اور کار آمد بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ اور مشکل یہ ہے کہ یہاں کوئی ایسے لگے بندھے اصول نہیں ہیں جنہیں عمل میں لا کر ہر شخص اپنے مطالعہ کو علم آموز اور بصیرت افروز بناسکے، بلکہ مختلف مزاجوں اور طبیعتوں کے حامل افراد کیلئے مطالعے کے اصول الگ الگ ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ایک شخص کیلئے مطالعے کا جو طریقہ بے حد مفید ہے، دوسرے شخص کے لیے وہ طریقہ چنداں مفید نہ ہو۔ اندریں حالات، مطالعے کے باب میں اپنے لیے درست سمت کے تعین اور مفید طرز کے انتخاب کی صورت یہ ہے کہ جن شخصیات نے اپنی زندگیاں علم کیلئے وقف کردی ہوں، اپناآپ کتابوں میں کھپا دیا ہو، دنیا اور اس کے تنعمات کو حصول علم کیلئے تج دیا ہو اور خود کو”فکر ایں وآں“سے آزاد کر کے مطالعہ ہی کے ہو کر رہ گئے ہوں، ان سے راہ و رسم بڑھائی جائے۔ ان کے تجربات سے استفادہ کیا جائے اور ان کی رہ نمائی اور مشوروں کی روشنی میں جادۂ مطالعہ طے کیا جائے۔لیکن معلوم ہے کہ ہر شخص مقدر کا ایسا سکندر اور قسمت کا اتنا دھنی نہیں ہوتا کہ اسے ایسی شخصیات تک براہِ راست رسائی حاصل ہو، لہٰذا اس گتھی کے سلجھاؤ کی سب سے عمدہ صورت بس یہی رہ جاتی ہے کہ ایسی علمی شخصیات کے احوال، تجربات، مشاہدات اور تجاویز پر مشتمل کتب تالیف کی جائیں تا کہ تازہ واردانِ بساطِ مطالعہ ان کی روشنی میں اپنا مطالعاتی سفر اس راہ میں در پیش مشکلات سے بچتے ہوئے جاری رکھ سکیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائیں ہمارے روشن دلانِ سلف کو، کہ انہوں نے اس ضرورت کا ادراک کیا اور مختلف اوقات و اَد وار میں اس موضوع کو اپنی قلمی جولانیوں کی جولان گاہ بنایا۔ ”مشاہیر اہلِ علم کی محسن کتابیں“ (از علی میاں ؒ)، ”مطالعہ کیوں اور کیسے؟“ (از مولانا رحمت اللہ ندویؒ) اور مختلف رسائل کے مطالعہ نمبر اسی سلسلۃ الذھب کی خوبصورت کڑیاں ہیں۔ حال ہی میں ہمیں داغِ مفارقت دے کر جانے والے ادیبِ شہیر حضرت مولانا ابن الحسن عباسی ؒ کے زیر ادارت شائع ہونے والے رسالے ”النخیل“ (کراچی) کا مطالعہ نمبر موسوم بہ ”یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ“ اس موضوع کی مصنفات، مؤلفات میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ عباسی صاحب کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا آغا ز کس کتاب سے ہوا لیکن ہمارے مطالعے میں سب سے پہلے ان کی شہرہ آفاق کتاب ”متاع وقت، کاروانِ علم“ آئی اور ہمیں یہ نقشِ اولین ایسا پسند آیا کہ پھر ”کرنیں“، ”التجائے مسافر“، ”کتابوں کی درس گاہ میں“ وغیرہ ذالک من الکتب کا مطالعہ ذوق و شوق سے کیا،نیز زمانۂ تدریس میں اُن کی درسی شرح سے استفادہ ہوتارہا اور آج کل ان قلمی گلکاریوں کا نقش آخر یں ”یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ“ ہمارے زیر مطالعہ ہے جس میں عالم اسلام کے ستر سے زائد اصحابِ علم و فضل و ارباب قرطاس و قلم کے مطالعاتی احوال و تجربات، خود ان کے قلم سے مندرج ہیں۔ مولانا عباسی مرحوم نے ”النخیل“ کے مطالعہ نمبر کیلئے مختلف علمی شخصیات کے نام، ان کی علمی و مطالیاتی زندگی کے احوال کے متعلق، پانچ سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ ارسال کیا جس میں ان کے ذوقِ مطالعہ کے آغاز، ارتقا، پسندیدہ موضوعات، کتب اور مصنفین کے متعلق استفسار کیا گیا اور نئے لکھاریوں اور مطالعہ کرنے والوں کے لیے رہنما اصول بتلانے کی استدعا کی گئی۔ ان سوالات کے جواب میں بعض حضرات نے ایجاز و اختصار کے ساتھ اور بعض نے طوالت و اطناب کے ساتھ اپنے احوال، تجربات اور راہِ نوشت وخواند میں ”خضر راہ“ کا کام دینے والے اصولوں پر مشتمل مضامین تحریر فرمائے اور یوں ”النخیل“ کا یہ مطالعہ نمبر معیاری و ادبی تحریروں کا ایک ایسا گلدستہ بن گیا ہے جس کا ہر مضمون ”رنگ و بوئے دیگر“ رکھتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ایک اس خاص نمبر کے تعارف پر مشتمل مولانا عباسی مرحوم کی ایک تحریر ہے اور اس کے بعد چند ہندوستانی علمائے کرام کے مکاتیب بطورِ تقریظ مندرج ہیں۔ کتاب کا باقاعدہ آغاز ہمارے دوست اور ”النخیل“ کے معاون مدیر مولانا بشارت نواز صاحب کے مضمون سے ہوتا ہے جو کہ ”مطالعہ کے موضوع پر ترتیب دی گی کتابوں پر ایک تعارفی نظر“ کے عنوان سے معنون ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، اس مضمون میں مطالعہ کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں اور مختلف رسائل کے خصوصی نمبرات کا تعارف نہایت عمدگی اور خوبصورتی سے کرایا گیا ہے جسے پڑھ کر مطالعۂ کتب کا ایک ولولۂ تازہ دل میں پیدا ہوتا ہے۔ مولانا عبدالمتین عثمان منیری (بھٹکل، کرنائک، انڈیا) کا مضمون ”مطالعۂ کتب، کیوں اور
میو قوم کی سنی گئی۔الیکشن2024۔
میو قوم کی سنی گئی۔الیکشن2024۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میومنتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی//سعد ورچوئل سکلز پاکستان//آن لائن میو ڈائریکٹری۔دنیا کو اصول ہے ہیں وہی جی پائے گو جامیں قوت برداشت ہوئے گی۔میو قوم قوت برداشت کا لحاظ سے سو ایک جری قوم ہے۔جو مشکل سو مشکل تر حالات میں جینا کو سلیقہ جانے ہے۔۔تاریخ میں میو قوم ہزاروں سال سو اپنا زندہ ہونا کو ثبوت دیتی آری ہے۔آج بھی لٹھ کی کھود پے اپنی بات منوانا میں کائی سو پیچھے نہ ہے۔البتہ دنیاوی لحاظ سو اپنا حقوق حاسل کرن کو جو ڈھنگ ہے ابھی پوری طرح ان کی سمجھ میں نہ آئیو ہے۔سیاسی لحاظ سے الیکشن 2024 ایک وردان ثابت ہورو ہے۔اور پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعتن میں ای بات زور پکرتی جاری ہےکہ میو قوم کی اپنی اہمیت ہے جائے نظر انداز کرنو ممکن نہ ہے۔میو قوم تمام نظام ہائے زندگی میں اپنو بہترین کردار ادا کرراہاں۔گوکہ سوچ بدلتی سی بدلے ہے۔پہلے میو لوگ جب سرکاری نوکری لگے ہا تو اپنا اپ اے عمومی طورپے دُبکاوے ہا۔لیکن اب سوشل میڈیا اور باہمی روابط کی وجہ سو جو لوگ پہلے میو کہلانا سو گھبراوے ہا۔وے میو ہونا پے فخر محسوس کراہاں۔یہی وجہ ہے کہ ریٹائرڈ لوگ جو اپنی سروس کے دوران اپنی قوم اے دبکاوے ہا۔اب وے میو قوم کی نمائیندگی کرنو اپنی ضرورت سمجھاہاں۔اللہ نے میو قوم کو الیکشن 2024 میں ایک بہترین موقع دئیو ہے کہ اپنی محرومین کو سود سمیت بدلہ لئیو۔اور اپنی قوم کے مارے کچھ کر گزرو۔میوقوم سو کئی جماعتن نے اپنا امید وار تھرپا ہاں۔میو قوم مشکل پسند اور مظلوم کے ساتھ سدا سو کھڑی رہی ہے۔یا مارے گھن کرا میو امیدوار۔پی ٹی آئی سو تھرپا گیا ہاں۔۔ان امیدوارن نے پچھلا سال سو بہت مشکلات دیکھی ہاں۔آج بھی جب چارو گھاں کو قہر برس رو ہےیہ لٹھ گاڑی میدا میں کھڑا ہاں۔ان سو امید کری جاسکے ہے کہ میو قوم کو دکھ درد ضرور محسوس کرنگا۔(جب یا پوسٹ اے لکھ رو ہوں تو سوشل میڈیا پے عبد الوید میو کا ڈیرہ پے پولیس چھاپہ کی مذت کی پوسٹ چل ری ہے)صدائے میو اخبار نے میون کی لسٹ جاری کری ہاں۔ان میں سو کچھ تو ہماری جان کا ہاں،جیسےسردار عظیم اللہ میو ۔ افضال عظیم پاہٹ ۔ سردار راشد طفیل ۔ ناصرہ میو ۔ عبدلوحید میو ۔ یوسف میو۔لاہور قصور سیالکوٹ جوکہ میون کا اکثریتی علاقہ ہاں میں میو قوم کی پی ٹی آئی کا پلیٹ فارم سو نمائیندگی کرراہاں۔گوکہ مسلم لیگ نون نے بھی کچھ میون کو ٹکٹ جاری کراہاں۔لیکن نون لیگ کو رویہ قابل رشک نہ ہے۔بالخصوص قصور کا علاقہ میںان کی کارکردگی سوتیلی ماں کو سو ہے۔سوشل میڈیا پے سوٹن سو پتو چلے کہ میو یا جماعت کی پالیسی سو خوش نہ ہاں۔۔امید ہے میو کائی بھی جماعت سو منتخب ہوئے،سب سو پہلے میو پھر کائی جماعت کو نمائیدہ ہے۔میو قوم اے چاہے کی علاقائی سطح پے اپنی پرے پنچایت کراں۔ایک مُٹھ ہوکے اپنا وزن اے میو قوم سو تھرپا گیا نمائیدان کا پلڑا میں دھردیواں۔اور بتا دیواں کہ میو دوستی نبھاتے جاناہاں تو اپنان کو ساتھ دینو بھی اپنا خون کو حصہ ہے۔جو لوگ صرف انجک کے مارے کائی میو کا مقابلہ پے ہاں انن نے سوچنو چاہے کہ یا مقابلہ سو ان کو فائدہ ملے یا نہ مالے لیکن میو قوم کو نقصان ضرور ہوئے گو۔اگر اب بھی اَنک نہ چھوڑی تو سمجھو۔ذات مفادات پے قوم قربان کرن والان نے قوم کدی معاف نہ کرے گی۔
نقوش، لاہور نمبر
نقوش، لاہور نمبر لاہور تاریخ قدیم کی نظرمیںلیفٹینٹ کرنل خواجہ عبدالرشیداللہ تعالیٰ کے نام کامادہ “لا” مذہبی کا قدیم ترین نا معلوم ہوتا ہے تمام مذاہب میں معمولی اختلاف سے مستعمل ہوتا رہا ہے ۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم تاریخ میں مشور شہروں کے نام اسی مادہ سے ترکیب دیئے گئے ہیں۔ سید عبد الطیف اپنی تاریخ لاہور میں ،لاہو کے نام کی مختلف شکلیں نہیں کرتے ہیں جن کا بطور پس منظر پیش کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ آئندہ مباحث میں یہ شکلیں ذہن نشین ہوکرپیش نظر رہیں ۔ یہ تراکیب مندرجہ ذیل ہیں Naqoosh Lahore Number, : مجلہ نقوش، لاہور نمبر سالِ اشاعت: 1961ء-اول :- لوہارو کے آباد کرنے والے کا نام “لوہ” تھا۔ یہ “لوہ ” رام چندر جی کا بیٹا تھا۔دوئم : وشوا بھاگا میں اس کا نام ” لُوپور بھی آیا ہے۔سوتم : راجپوتوں کی تاریخ میں اس کا نام ملوح کوٹ” بھی لکھا گیا ہے۔چہارم : فتوح البلدان کے مصنف نے اسے “الہاور: کہا ہے ۔پنجم : نزہت المشاق في افتخار الآفاق ( مصنفہ، الدریسی)میں اس کو :لوہا ور” کہہ کر پکارا گیا ہے ۔ششم: البیرونی نے اسے “لہاور ” لکھا ہے جس کو ایلیٹ نے مختلف طریق سے پڑھا ہے، مثلا لوہا دور۔ لھاور،لوھارو،اورلہور –ہفتم: امیر خسرو لاہور کو”لھانور” لکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کا ایک شعر ہے۔از حد سامانیہ تا لھا نورہیچ عمارت نیست مگر وہ قصورہشتم : سید عبدلطیف کا یہ بھی کہناہے کہ تھوموتن (THOR MTON) نےلھانور”لھانگر” کو لاہور کی بگڑی ہوئیشکل بتایا ہے ۔نہم : جامع التواریخ میں رشید الدین اسے “لا ہور” ہی لکھتا ہے۔د ہم: پٹولومی (PTOLOMY )نے اسے نہ لوبوکلا” لکھا ہے۔ ممکن ہے لوبوسے ” اور لوہ ” مراد ہو :بہرحال یہ مختصرسی فہرست ہے جو لطیف کی تصنیف لطیف میںہمہیں ملتی ہے ۔ ان میں قدیم ترین ماخذ مسلمان مورخیننے پیش کئے ہیں۔ DOWNLOAD
نقوش کا قرآن نمبر:مکمل4جلدیں
نقوش کا قرآن نمبر:مکمل4جلدیں *اہل علم جانتے ہیں کہ پاکستان کا مشہور بین الاقوامی شہرت کا حامل ماہنامہ نقوش اپنے علمی، ادبی، تاریخی، مذہبی شماروں کے لیے بہت مشہور ہے… نقوش نے اس سے پہلے رسول نمبر کئی جلدوں میں شائع کیا ہے..* یہ بھی پڑھیں Nuqoosh Lahore Number*قرآن مجید پر ہمارے اسلاف نے جو محنت کی ہے وہ ناقابل فراموش ہے . قرآن کے موضوع پر اپنے آپ میں ایک غیر معمولی نمبر ہے.. جس میں قرآن کے موضوع پر ہزاروں صفحات لکھے گئے ہیں یہ بھی پڑھئے Nuqoosh – Rasool Number DOWNLOAD VOL 1 . VOL 2 . VOL 3 .
چلہ وظائف میںکونسے لوگ کامیاب ہوتے ہیں؟
چلہ وظائف میںکونسے لوگ کامیاب ہوتے ہیں؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سننے کے لئے لاکھوں لوگ انتظار میں ہیں کہ کوئی ایسا انسان ملے جو وظائف و چلوں میں کامیابی کے لئے گُر بتادے۔یا ایسا طریقہ ظاہر کردے کہ عامل و معمول کی ضرورتیں پور ی ہوجائیں۔ عمومی طورپر ان دیکھا خوف واہمہ میں عامل کے پائوں کی زنجیر بنا رہتا ہے۔یہ ڈر و خوف آگے بڑھنے سے روکے رکھتا ہے۔جب کہ ایک عامل کو جری بہادر اور نڈر ہونا چاہئے۔بزدل اور کمزور ارادوں کے مالک لوگ کبھی کامیاب عامل نہیں بن سکتے۔اس لئے چلوں وظیفوں میں کامیابی کے لئے استاد کی تلاش کی جاتی ہے۔دوران عامل استاذ کا کیا کردار ہوتا ہے یا ہونا چاہئے۔اس پر کم لکھا اور سن گیا ہے۔اس ویڈیو میں یہی بات کھول کر بیان کی گئی ہے کہ وظآئف و چلوں میں کونسی طاقت کام کرتی ہے۔