شاہین عمل۔طب جدید کی اشاعت خاص
یہ بات کو روشن کی طرح واضح ہے کہ ہمارے ملک کی قدیمی طب ” وید ک ہے۔ بعدہ طب یونانی کا دور یونانی مسلمانوں کے ساتھ شروع ہو کر اسلام کے حملوں کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ مگر یہ یو نانی طب بھی اس ملک کی ہی طب بن کر رہ گئی کیونکہ اس کی ادویات بجائے یونان سے آنے کے اس ملک میں تیار ہونے لگ گئیں سینکڑوں برس تک دونوں طبوں (یعنی ویدک اور یونانی طب) نے مل کر ملک کی خاطر خواہ خدمت کی ۔ بلکہ جنگوں میں جب کہ توپ اور بندوق کا رواج شروع ہوا ۔ تواس وقت بھی ان دونوں طبوں کے عامل گولیوں اور چھروں کو انسانی جسم سے نکالنے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کے فرائض ادا کرتے رہے ۔
جب سے ایلو پیتھی نے اس ملک میں قدم رکھا جس کو عروج بگڑے اس ملک میں تقریباً سو برس گزر چکے ہیں ۔ ابھی تک اس کی ادویات تو در کنار بلکہ روئی اور بیٹیاں تک یورپ سے چلی آرہی ہیں۔ جن کا خرچ کروڑوں روپیہ اٹھتا ہے ۔ اگر یہی ادویات ہمارے ملک میں تیار ہونے لگ جائیں ۔ تو ہزار ہا آدمیوں کی بیکاری دور ہو جائے۔ اور دوسرے ادویات وغیرہ کا نرخ ارزاں ہو جائے ۔ تجربہ اسبات کا شاہد ہے کہ دیسی علاج کی نسبت ایلوپیتھی کا علاج گراں پڑتا ہے ۔ یہی وجہ ہے۔ کہ75 فی صدی مریض دیسی طبیبوں کے زیر علاج رہتے ہیں ۔ چونکہ ہمارا ملک بہت ہی غریب ہے جس کی فی کس آمدنی کا اندازہ روزانہ چھ پیسے سے زیاد ہ نہیں لہذا چار آنے ، چھ آنے یا بارہ آنے کہاں سے لائے؟ ۔ اس کو مجبور ادیسی طبوں کی طرف رجوع ہونا پڑتا ہے۔ اور پڑتا رہے گا ۔ میں گورنمنٹ سے پرزور استدعا کرتا ہوں ہو۔ کہ وہ دیسی طبوں کو ترقی دینے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے
جو کہ ایسے ملک کی خدمت کر رہی ہے۔ جو دوسرے ملکوں سے غریب ہے۔ جس طرح قدرت نے بیماری کی کئی ایک ادویات پیدا کر دی ہیں۔ اسلئے کہ اگر ایک دوائی نہ ہے ۔ تو دوسری سہی ۔ اگر دوسری نہ ملے تو تیسری سے کر کام چلایا جائے۔ اس طرح میرے خیال میں جس قدر بھی علاج کے طریقے ملک میں ہوں۔ بہترہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے ۔ کہ جب مریض ایلو پیتھی کے علاج سے ناکام رہا۔ اور اسنے دیسی طب کی طرف رجوع کیا ۔ تو وہ صحت یاب ہو گیا۔ اس طرح جب کوئی مریض دیسی طب سے
صحت یاب نہ ہوسکا تو۔۔۔۔