یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ
یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ: مولانا ابن الحسن عباسی (تبصرہ: محمد زبیر)
ذوقِ مطالعہ، مراتبِ کمال کی تحصیل اور مدارجِ علم کی تکمیل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ نصاب میں شامل کتب، انسان میں مطالعہ کی استعداد اور امہاتِ الکتب سے استفادے کی صلاحیت پیدا کر کے گویا اس کے ہاتھ میں علم کے لامحدود خزانوں کی کنجی دے دیتی ہیں۔ اب یہ انسان کے ذوقِ مطالبہ پر منحصر ہے کہ وہ کس قدر علمی جواہر و لآلی سے اپنا دامن بھرتا ہے۔لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وہ مطالعہ جو انسان کی تہذیبِ نفس، ترقی علم اور رفعتِ کمال کا سبب بنتا ہے ،وہ محض ”کتاب خوانی و ورق گردانی“ نہیں ہے۔ چنانچہ مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ بعض لوگ کثیر المطالعہ اور وسیع المعلومات نہ ہونے کے باوجود علمی رسوخ و تعمق کے اعتبار سے قابلِ رشک مقام پر ہوتے ہیں اور اس کے برعکس بعض لوگ شرتِ مطالعہ اور وسعتِ معلومات کے باوجود اپنے مطالعہ و معلومات سے فائدہ اٹھانے کی اہلیت تک سے محروم ہوتے ہیں اور تابہ رسوخ و تعمق چہ رسد؟ اور معلوم ہے کہ علم کی دنیا میں اصل مطلوب بفحوائے ”والراسخون فی العلم“ رسوخ اور تعمق ہے۔
دراصل مطالعہ ایک فن اور تکنیک کا نام ہے اور دیگر فنون کی طرح اس کے بھی کچھ اصول ہیں جنہیں ملحوظ رکھ کر ہی اپنے مطالعے کو مفید اور کار آمد بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ اور مشکل یہ ہے کہ یہاں کوئی ایسے لگے بندھے اصول نہیں ہیں جنہیں عمل میں لا کر ہر شخص اپنے مطالعہ کو علم آموز اور بصیرت افروز بناسکے، بلکہ مختلف مزاجوں اور طبیعتوں کے حامل افراد کیلئے مطالعے کے اصول الگ الگ ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ایک شخص کیلئے مطالعے کا جو طریقہ بے حد مفید ہے، دوسرے شخص کے لیے وہ طریقہ چنداں مفید نہ ہو۔
اندریں حالات، مطالعے کے باب میں اپنے لیے درست سمت کے تعین اور مفید طرز کے انتخاب کی صورت یہ ہے کہ جن شخصیات نے اپنی زندگیاں علم کیلئے وقف کردی ہوں، اپناآپ کتابوں میں کھپا دیا ہو، دنیا اور اس کے تنعمات کو حصول علم کیلئے تج دیا ہو اور خود کو”فکر ایں وآں“سے آزاد کر کے مطالعہ ہی کے ہو کر رہ گئے ہوں، ان سے راہ و رسم بڑھائی جائے۔ ان کے تجربات سے استفادہ کیا جائے اور ان کی رہ نمائی اور مشوروں کی روشنی میں جادۂ مطالعہ طے کیا جائے۔لیکن معلوم ہے کہ ہر شخص مقدر کا ایسا سکندر اور قسمت کا اتنا دھنی نہیں ہوتا کہ اسے ایسی شخصیات تک براہِ راست رسائی حاصل ہو، لہٰذا اس گتھی کے سلجھاؤ کی سب سے عمدہ صورت بس یہی رہ جاتی ہے کہ ایسی علمی شخصیات کے احوال، تجربات، مشاہدات اور تجاویز پر مشتمل کتب تالیف کی جائیں تا کہ تازہ واردانِ بساطِ مطالعہ ان کی روشنی میں اپنا مطالعاتی سفر اس راہ میں در پیش مشکلات سے بچتے ہوئے جاری رکھ سکیں۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائیں ہمارے روشن دلانِ سلف کو، کہ انہوں نے اس ضرورت کا ادراک کیا اور مختلف اوقات و اَد وار میں اس موضوع کو اپنی قلمی جولانیوں کی جولان گاہ بنایا۔ ”مشاہیر اہلِ علم کی محسن کتابیں“ (از علی میاں ؒ)، ”مطالعہ کیوں اور کیسے؟“ (از مولانا رحمت اللہ ندویؒ) اور مختلف رسائل کے مطالعہ نمبر اسی سلسلۃ الذھب کی خوبصورت کڑیاں ہیں۔ حال ہی میں ہمیں داغِ مفارقت دے کر جانے والے ادیبِ شہیر حضرت مولانا ابن الحسن عباسی ؒ کے زیر ادارت شائع ہونے والے رسالے ”النخیل“ (کراچی) کا مطالعہ نمبر موسوم بہ ”یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ“ اس موضوع کی مصنفات، مؤلفات میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ عباسی صاحب کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا آغا ز کس کتاب سے ہوا لیکن ہمارے مطالعے میں سب سے پہلے ان کی شہرہ آفاق کتاب ”متاع وقت، کاروانِ علم“ آئی اور ہمیں یہ نقشِ اولین ایسا پسند آیا کہ پھر ”کرنیں“، ”التجائے مسافر“، ”کتابوں کی درس گاہ میں“ وغیرہ ذالک من الکتب کا مطالعہ ذوق و شوق سے کیا،نیز زمانۂ تدریس میں اُن کی درسی شرح سے استفادہ ہوتارہا اور آج کل ان قلمی گلکاریوں کا نقش آخر یں ”یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ“ ہمارے زیر مطالعہ ہے جس میں عالم اسلام کے ستر سے زائد اصحابِ علم و فضل و ارباب قرطاس و قلم کے مطالعاتی احوال و تجربات، خود ان کے قلم سے مندرج ہیں۔
مولانا عباسی مرحوم نے ”النخیل“ کے مطالعہ نمبر کیلئے مختلف علمی شخصیات کے نام، ان کی علمی و مطالیاتی زندگی کے احوال کے متعلق، پانچ سوالات پر مشتمل ایک سوالنامہ ارسال کیا جس میں ان کے ذوقِ مطالعہ کے آغاز، ارتقا، پسندیدہ موضوعات، کتب اور مصنفین کے متعلق استفسار کیا گیا اور نئے لکھاریوں اور مطالعہ کرنے والوں کے لیے رہنما اصول بتلانے کی استدعا کی گئی۔ ان سوالات کے جواب میں بعض حضرات نے ایجاز و اختصار کے ساتھ اور بعض نے طوالت و اطناب کے ساتھ اپنے احوال، تجربات اور راہِ نوشت وخواند میں ”خضر راہ“ کا کام دینے والے اصولوں پر مشتمل مضامین تحریر فرمائے اور یوں ”النخیل“ کا یہ مطالعہ نمبر معیاری و ادبی تحریروں کا ایک ایسا گلدستہ بن گیا ہے جس کا ہر مضمون ”رنگ و بوئے دیگر“ رکھتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں ایک اس خاص نمبر کے تعارف پر مشتمل مولانا عباسی مرحوم کی ایک تحریر ہے اور اس کے بعد چند ہندوستانی علمائے کرام کے مکاتیب بطورِ تقریظ مندرج ہیں۔
کتاب کا باقاعدہ آغاز ہمارے دوست اور ”النخیل“ کے معاون مدیر مولانا بشارت نواز صاحب کے مضمون سے ہوتا ہے جو کہ ”مطالعہ کے موضوع پر ترتیب دی گی کتابوں پر ایک تعارفی نظر“ کے عنوان سے معنون ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، اس مضمون میں مطالعہ کے موضوع پر لکھی جانے والی کتابوں اور مختلف رسائل کے خصوصی نمبرات کا تعارف نہایت عمدگی اور خوبصورتی سے کرایا گیا ہے جسے پڑھ کر مطالعۂ کتب کا ایک ولولۂ تازہ دل میں پیدا ہوتا ہے۔
مولانا عبدالمتین عثمان منیری (بھٹکل، کرنائک، انڈیا) کا مضمون ”مطالعۂ کتب، کیوں اور کس طرح“ جو کہ اس کتاب کے دیباچے کے طور پر لکھا گیا ہے، ہماری ناچیز رائے میں اس کتاب کی جان اور اس گلدستۂ علم و ادب کا شہ گل ہے۔ اس مضمون میں مطالعے کے اصول و آداب اور کار آمد ہدایات نہایت مؤثر انداز میں مذکور ہیں اور پچھلے کچھ عرصے میں ایک بہت بڑی تبدیلی جو مطالعے کی کتابوں سے موبائل فون اور لیب ٹاپ سکرین کی طرف منتقلی کے حوالے سے آتی ہے، اس پر بھی سیر حاصل روشنی ڈالی گئی ہے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذ الحدیث مولانا فیصل احمد ندوی بھٹکلی کا مضمون ”میری علمی زندگی کی رُوداد“بھی خاصے کی چیز ہے، جس میں مختلف علوم وفنون کی بیسیوں کتب پر ان کی خصوصیات پر مشتمل مختصر سا تبصرہ، درجنوں مصنفین کا تذکرہ اور مطالعے کے حوالے قابلِ قدرنصائح شامل ہیں۔
ان کے علاوہ اس کتاب میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا عبدالحلیم چشتیؒ، مولانا سید محمدرابع حسن ندویؒ، حضرت مولانا مفتی زرولی خان ؒ،مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مولانا سلمان بجنوری، مفتی محمد زید مظاہری، مولانا محمد ازہرمدیر ”الخیر“،جناب عطاء الحق قاسمی اور جناب مجیب الرحمن شامی جیسی علمی و ادبی شخصیات کے مضامین شامل ہیں۔ دنیائے علم و ادب میں شہرتِ دوام کی حامل ان شخصیات کے ناموں ہی سے اس کتاب کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ع قیاس کن ز گلستانِ من بہار مرا
یہ کتاب نہ صرف یہ کہ اپنے مضامین و مشمولات کی عمدگی کے اعتبار سے قابلِ مطالعہ ہے بلکہ اس کی طباعت اور ظاہری خوبصورتی میں بھی حسنِ ذوق کا ثبوت دیا گیا ہے۔ لہٰذا لکھنے پڑھنے کا ذوق رکھنے والوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے اور یہ کتاب اس قابل ہے کہ اس کے ذریعے اپنے کتب خانوں کو زینت بخشی جائے۔
مجلس تراث الاسلام کراچی نے اس کتاب کو شائع کیا ہے اور اس کی قیمت ہے ۸۵۰ روپے۔ کتاب خریدنے کے خواہش مند حضرت درج ذیل نمبر پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ 4097744 0300