منہ دکھائی میں چلو
منہ دکھائی میں چلو
۔محافظ اروائولی۔
۔از ۔۔قلم :نواب ناظم میو۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
میو قوم سدا سو بہادری وناموری اور وطن پرستی میں آگے رہی ہے
بجا طورپے اپنا بڑان پے فخر بھی کرے ہے۔فخر تو وائے پے
کرو جاسکے ہے جاکے پئے کچھ بتان کوموجود ہوئے۔
بیان کرن کے مارے حقیقی کارنامہ ہوواں
میون کی تاریخ بہادری اور سخاوت کا کارنامان سو
بھری پڑی ہاں۔بے شمار بہادر گزراہاں۔
کچھ یاد رہ گیا تو بے شمار لوگ وے ہاں جنن نے
اپنوخون میوات کا نام روشن کرن کے مارے دئیو
اور خود گمنامی کی چادر اوڑھ کے سوگیا۔لیکن اپنا خون
دے کےمیوات کانام اے جگا گیا۔اور آن والان کے
مارے تاریخ دے گیا۔بتا گیا کہ کوئی کتنو بھی بڑو ہوئے
لیکن غیرت اور وطن سو بڑو نہ ہوسکے ہے۔
اپنا بےگانان میں سو کائی نے بھی وطن مہیں میلی آنکھ
سو دیکھن کی کوشش کری ۔واکی آنکھ پھوڑ دی۔
یاکی جوبھی قیمت دینی پڑی میون نے دی۔
یا وطن پرستی میں کوئی مذہب،کوئی تعلق،کوئی لالچ
کام نہ آئیو۔اولاد تک قربان کردی ۔
میون نے بہادری۔قوم پرستی۔حق انصاف کی آواز
ہر زمانہ میں اٹھائی۔ای ریت ہمارا پرُکھن سو چلی آری ہے
عظیم قربانی ۔فتح پور سیکری کی جنگ میں بہن والو خون
ہندستان کی تاریخ کا ماتھا کو جھومر ہے۔
حسن خاں ۔رانا سانگا کی تلوار ہوواں اور
نواب ناظم کا قلم پے ان کی نوک سو بہن والو لہوہوئے
تو ۔۔محافظ اورائولی۔۔ جیسی شاہکار چیز جنم لیوا ہاں۔
ایسے لگے ہے نواب ناظم صاحب نے فتح پور سیکری
کی جنگ پہاڑ پے کھڑو ہوکے دیکھی ہے
اور اپنی زبان سو جنگ میں باجن والی کٹا کی
کہانین نے سنارو ہے۔
۔۔محافظ ارائولی۔۔ کوئی قصہ کہا نی تھوڑی ہے
ای تو اُو نقارہ ہے، جاسو نواب صاحب بے سُدھ سویا
میون نے جگان کی کوشش کررو ہے۔
میں نے محافظ ارائولی ۔پڑھی۔
اور دو تین صدی پیچھے جاکےدیدہ بصیرت سو ف
تخ پور سیکری کو میدان جنگ دیکھو
اگر روایات و تاریخی مواد کی کمی نہ ہوتی تو
حسن خان میواتی اور رانا سانگا کا گھوڑان کی ٹاپ
کانن سو سنائی دیتی۔نیزہ ،بھالا، تلوار۔توپ و تفنگ
سامنے گھومتا دکھائی دیتا۔
نواب صاحب کا قلم میں ایک میو کو لہوگراماتو دکھائی دئیو ہے
موئے یقین ہے نواب صاحب فتح پورسیکری کا میدان میں
ہوتو ضرور قلم کی جگہ تلوار پکڑے ہوتو۔لیکن ان کو قلم
صدین سو غفلت میں پڑا میون نے جگان کی کوشش
کررو ہے۔وا وقت تلوار ہی ۔آج قلم ہے۔
حسن خان نے تلوا رکو حق ادا کرو۔
نواب صاحب نے قلم کو۔
وقت اور موقع بدلو ہے۔کام ایک جیسو ہے۔
وا وقت بھی میون نے جگان کی کوشش کری گئی ہی
آج بھی ای کوشش جاری ہے۔۔۔
جو میو بھی محافظ ارائولی ۔پڑھے۔
۔ یا میں تھوڑی سیتبدیلی کرکے محافظ میو۔۔لگا دئے
تو مفہوم وسیع ہوجائے گو
۔۔محافظ اورائولی۔۔ پڑھو۔دوسران کو بھی پڑھوائو۔
محافظ اورائولی۔میون کاخون گراما کی اُو خوراک ہے
جو بھی کھائے گو۔
واکی رگن میں تازہ خون دوڑن لگ جائے گو
آج محافظ اورائولی کی۔۔منہ دِکھائی ہے۔۔
میون نے چاہے اپنا محسنن کا قرض اُتارن کے
یا اُپ گھاٹن میں ضرورجاواں۔۔
مقام:پلاک۔پنجاب انسٹی ٹیوٹ لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر لاہور
زیر اہتمام:روزنامہ سسٹم۔انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور