میو قوم میں عزت کو معیار
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
میو قوم جسمانی اور تخلیقی لحاظ سے بہت سی قومن سو بہتر ہے۔البتہ قومی سطح پے یکجائی اور یک فکری کی ضرورت ہے۔بہت سا ایسا کام موجود ہاں جنن نے میو اپنی ناک سمجھ کے کراہاں،پورا جوش و جذبہ سو بڑھ چڑھ کے حصہ لیواہاں۔مثلاََ خرچ کرن کو جذبہ ہے،میو قوم میں بہت پائیو جاوے ہے۔جب ناک کو مسئلہ بن جاوے ہہے تو میو آپا سو باہر ہوجاواہاں۔ای بے مثال جذبہ خاص اوقات میں سر ابھارے ہے جیسے بیاہ بدو میں لوگ اپنی حیثیت سو گھنو خرچ کراہاں
یائے بھی پڑھ لئیو
یا خرچہ میں اتنو مبالغہ کراہاں کہ قرض کا بوجھ تلے دب جاواہاں۔۔جہیز ہوگئیو۔یابارات میں پیسہ لٹانو ۔ناچ گانا پے بے
تحاشہ خرچ کرنو۔بھات بھرنو۔وغیرہ۔یہ بات میون کا مزاج میں بیٹھ چکی ہاں۔یادور میں معاشرتی طورپے خرچ کو انداز بدلو ہے۔اب میو بیاہ بدون میں گاڑی مانگنا ہاں۔اَت گَت برات لیکے اواہاں۔نوسا کے اوپر روپیہ پیسہ پھینکا ہاں۔۔یہ سب کام فضولیات میں شامل ہاں،لوگ انن نے اپنی عزت یا انک سمجھا ہاں۔جہاں دیکھا ہاں کہ کوئی بات حسب توقع پوری نہ ہوئی۔اپنی کَن گھٹی تصور کراہاں۔
یائے بھی پڑھ لئیو
میری فریاد میو قوم کی پنچایت میں –
سچی بات پوچھو تو میون نے ابھی تک لفظ عزت کا مفہوم کو ای پتو نہ ہے۔عزت کہوا کائیں سو ہاں؟بات بات پے اپنی بے عزتی سمجھاہاں ۔ سب سو پہلے عزت یا بے عزتی کو معمہ حل کرنو پرے گو۔کیونکہ یاکی کوئی جامع تعریف موجود نہ ہے کہ کائیں سو عزت کہواہاں کائی سو بے عزتی؟کوئی معیار ایسو ہونو چاہے جاسو عزت اے تکلیف نہ اڑھانی پڑے.۔کوئی نہ کوئی معیار ایسو ہوئے جا کسوٹیپے عزت یا ناک پرکھی جاسکے۔
پیچھلا ہفتہ۔شکراللہ میو ۔مشتاق امبرالیا۔عمران بلا ۔
ای بھی پڑھن لائق ہے
میوقوم ابھی کچھ نہ بگڑو ہے
ایک بارات میں گیا۔ میون نے نوسہ کے مارے بھگی منگائی۔ناچن والا گھوڑا منگایا۔ بیند باجا منگایا۔چھرلی پٹاخہ۔چلایا جتنو ہوسکو اُدھم مچائیو۔پیسہ کو خوب ضیاع کرو۔جب خوب تھک گیا ۔اور جیب بھی ہلکی ہوگئی تو نوسہ کو نکاح پڑھائیو گئیو۔پھر سارا میون نے نکاح میں برکت کی دعا کری ۔جب نکاح خواح نے کہو کہ یا اللہ دلہا اور دلہن کو بوکت دے اور ان کا بیچ میں محبت محمد ﷺو عائشہ رضی اللہ عنھا نصیب کر ساران نے زور سو آؐین کہی، یا سب کچھ اے دیکھ کے میرو مونڈھ بھڑکن لگ پڑو۔کہ انن نے سب سو پہلے۔برات کو جو وقت ہو واسو لیٹ ہویا۔پھر نماز عصر و مگر ڈھول ناچ میں نکال دی ۔فضؤل خرچی کری۔یعنی قدم بقدم اسوہ رسول ﷺکی خلاف ورزی کری گاجا باجا سو کری۔اب دعا کرراہاں کہ نکاح میں برکت ہوئے؟جب نکاح خواں کو پیسہ دینا کی باری آئی تو دین فروشی اور مولبین کا گھر کا مسئلہ جیسی بات ہون لگ پڑی ۔جب مسجد مدرسہ کی باری آئی تو ہزار دو ہزار سو گھنا دینا سو میون کا پران نکلتا دکھائی دیا۔
جب اللہ سو نکاح میں برکت مانگ راہاں ۔محبت عظیم مانگ راہاں۔سنت کے مطابق چھوہاران نے پھینک راہاں۔تو عزت اور ذؒت کو معیار اپنو اپنو ہوئیو۔ایک عزت و ذلت کو معیار اللہ واکا رسول نے مقرر کرو ہے۔ایک ہم نے اپنے مارے۔تم خؤد ای دیکھ لئیو کہ میو قوم کا لچھن کہا ہوچکاہاں؟۔اگر یہی پیسہ دین یامیو قوم۔اپنو ملک اور مستحقین پے خرچ کرو جاتو۔اور خرچ کرنا کو ٹحیک انداز اختیار کرو جاتو میو قوم کہاں سو کہاں پہنچی ہوتی۔جہاں عزت ،ترقی۔اور خدا اور رسول کی خوشنودی ملے ہے وا جگہ میو خرچ کرنا سو کَنی کتراواہاں۔جہاں وسائل ۔پیسہ۔وقت کو ضیاع ہوئے وائے عزت سمجھاہاں۔۔خود ای سوچ لئیو۔کہا یہی عادات آگے بڑھن کے مارے ضروری ہاں ۔یا پھر سوچ اور عزت کو معیار بدلن کی ضرورت ہے/