The relationship and difference between Unani medicine and modern science

طب یونانی اور جدید سائنس کے درمیان تعلق اور فرق
The relationship and difference between
Unani medicine and modern science
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
حکمت (طب یونانی) کا تصور اور اصول
حکمت محض کوئی دیسی ٹوٹکہ یا گھریلو نسخہ نہیں ہے۔ یہ ایک قدیم، سائنسی اور فطری طبی سائنس ہے۔ حکمت جسمانی و ذہنی نظام کے درمیان توازن کو بحال کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ یہ طریقۂ علاج صدیوں پر محیط تجربات، مشاہدات، اور فطرت سے مطابقت رکھنے والے اصولوں پر مبنی ہے۔ حکیم اجمل خان، بو علی سینا، اور امام رازی جیسے اطباء نے اس علم کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔
حکمت کے نزدیک صحت صرف بیماری سے محفوظ رہنا نہیں، بلکہ جسم، ذہن اور روح کا باہمی توازن اور ہم آہنگی بھی ضروری ہے۔ جب یہ توازن بگڑتا ہے تو بیماری جنم لیتی ہے۔ لہٰذا، علاج کا بنیادی مقصد جسم کے اس بگڑے ہوئے توازن کو بحال کرنا ہوتا ہے، نہ کہ صرف بیماری کی علامات کو دبا دینا۔ طب یونانی میں علاج کی بنیاد جسم کے مزاج پر منحصر ہے، جس کا تعین عناصر (مٹی، پانی، ہوا، آگ) اور اخلاط (خون، بلغم، صفراء، سوداء) کے تناسب سے ہوتا ہے۔ علاج بالضد (Ilaj bil Zid) کے اصول پر مبنی ہوتا ہے، یعنی بیماری کے سبب یا متاثرہ عضو کے مزاج کے متضاد ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ طب یونانی میں جسمانی اعضاء کو بھی مختلف مزاجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور ادویات بھی مزاج رکھتی ہیں۔ طب یونانی میں علاج کے لیے بنیادی طور پر قدرتی ذرائع استعمال ہوتے ہیں جن میں نباتات (پودے)، حیوانات (جانوروں سے حاصل شدہ چیزیں)، اور معدنیات شامل ہیں۔
جدید سائنس کا نقطہ نظر اور دریافتیں

جدید میڈیکل سائنس جسم انسانی میں پائے جانے والے معدنی نمکیات اور کیمیکل پر تحقیق کرتی ہے۔ یہ نمکیات اور وٹامنز جسم میں بنیادی اعضاء کی نشوونما اور ہارمون سسٹم کو فعال بنانے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ ان کی کمی یا زیادتی سے پیچیدہ امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔ جسم میں مختلف عناصر جیسے آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن، نائٹروجن، فاسفورس، کیلشیم وغیرہ ایک خاص تناسب سے پائے جاتے ہیں۔ معدنی نمکیات ہڈیوں، دانتوں، پٹھوں کی نشوونما، خون میں شامل ہونے، رطوبت کے دباؤ کو ٹھیک کرنے، غذائی اجزاء کو جذب کرنے، فضلات کو خارج کرنے، تیزابیت کو متوازن رکھنے، حرکت قلب کو برقرار رکھنے، اعصابی قوت کو قائم رکھنے اور خون کو منجمد ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
جدید تحقیق نے دل کے اندرونی نروس سسٹم کو دریافت کیا ہے جو ایک چھوٹے دماغ کی طرح کام کرتا ہے اور دھڑکن کو خود منظم کرسکتا ہے۔ اسی طرح، مردہ دماغ میں گلیال خلیات (زومبی جینز والے) دریافت ہوئے ہیں جو موت کے بعد بھی کچھ وقت تک سرگرم رہتے ہیں۔ بچوں کی ذیابیطس کے حوالے سے جینیاتی عوامل، امیونو تھراپی، مصنوعی لبلبہ، اور صحت سے متعلق ادویات پر تحقیق ہو رہی ہے۔ ماہواری کے درد کے لیے یوگا، مخصوص غذاؤں سے پرہیز، ایکوپنکچر، میگنیشیم کا استعمال اور ذہنی تناؤ میں کمی جیسے طریقے بھی زیر بحث ہیں۔
حکمت اور جدید سائنس کے درمیان تعلق اور فرق
ذرائع کے مطابق، حکمت اور جدید سائنس کے درمیان ایک بڑھتا ہوا تعلق موجود ہے۔ جہاں صدیوں تک مغرب نے مشرقی طب اور حکمت کو نظر انداز کیا، اب جدید سائنسی تحقیق نے انہی روایتی طریقوں کو نئی اہمیت دی ہے۔ ہربل ریسرچ سینٹرز قائم ہو رہے ہیں اور جڑی بوٹیوں پر جدید بنیادوں پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ ہربل پراڈکٹس کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے، جو قدرتی علاج کی طرف لوگوں کے رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔
جدید سائنسی تحقیق نے حکمت میں استعمال ہونے والی کئی قدرتی چیزوں کے فوائد کی تصدیق کی ہے۔ مثال کے طور پر:
ہلدی میں موجود کرکومن کے مثبت اثرات اور کینسر خلیات کو تباہ کرنے کی صلاحیت کی تصدیق ہوئی ہے، جو حکمت کے گرم و خشک مزاج کے اصول سے ہم آہنگ ہے جو سوزش جیسی کیفیات کو دور کرتا ہے۔
اجوائن کے بیکٹیریا کے خلاف اثرات اور دمے میں نرمی کی تصدیق ہوئی ہے، جسے حکمت میں معدہ، جگر، اور پھیپھڑوں کی صفائی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تلسی کو ذہنی سکون، ڈوپامائن کے توازن، اینٹی ڈپریسنٹ اثرات اور نیند کی بہتری کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، جو حکمت میں اس کے دماغی سکون اور دل کی تقویت کے استعمال سے مطابقت رکھتا ہے۔
دارچینی خون میں شکر جذب ہونے کے عمل کو سست کرتی ہے اور انسولین کی حساسیت بڑھاتی ہے، جسے طب یونانی میں مصلح معدہ و جگر اور بلغم و رطوبت کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
جن سنگ جیسی جڑی بوٹیوں پر پاکستان اور چین میں تحقیق کی دریافت کا ذکر ہے۔
عالمی ادارہ صحت (WHO) اور FDA بھی روایتی طریقہ علاج سے استفادہ حاصل کرنے اور اسے صحت کی ابتدائی دیکھ بھال میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی ممالک جیسے جرمنی، سعودی عرب، برطانیہ، روس، چین اور امریکہ میں جڑی بوٹیوں اور ہربل ادویات کا استعمال عام اور مقبول ہو رہا ہے۔ چین اور اسلامی/طب یونانی میں گہری مماثلت ہے اور چین کم خرچ قدرتی ادویات تیار کر رہا ہے۔
تاہم، حکمت اور جدید سائنس کے درمیان کچھ بنیادی فرق بھی ہیں:
مقصد علاج:
ایلوپیتھی میں علامات اور نشانیوں کے علاج کو فوقیت دی جاتی ہے تاکہ بیماری کے اسباب کا علاج کیا جا سکے۔ اس کے برعکس، ہولسٹک میڈیسن (جس میں طب یونانی شامل ہے) میں مرض کی بنیادی وجہ کے علاج پر توجہ مرکوز ہوتی ہے، جس میں مزاج، اخلاط کے بگاڑ، اور اعضاء میں تبدیلی کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔
شفا کا نظریہ:
ہولسٹک میڈیسن اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ انسانی جسم میں بیماری کو قدرتی طور پر دور کرنے کی موروثی صلاحیت ہوتی ہے اور نباتاتی ادویات اس عمل میں مددگار ہوتی ہیں۔ ایلوپیتھک طریقہ علاج زیادہ تر ڈاکٹر کی رائے اور معالجاتی تجویز پر انحصار کرتا ہے۔
اثرات
: ایلوپیتھی میں فوری لیکن عارضی تدارک ہوتا ہے، جبکہ ہولسٹک میڈیسن میں علاج آہستہ مگر دیرپا ہوتا ہے۔
استعمال شدہ مواد:
ایلوپیتھی میں کیمیائی مرکبات استعمال ہوتے ہیں جن کے مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔ ہولسٹک میڈیسن میں قدرتی ادویات استعمال ہوتی ہیں جن کے عموماً مضر اثرات نہیں ہوتے۔ طب یونانی میں ادویات کا استعمال موسم، عمر اور مزاج کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے مضر اثرات کم ہوتے ہیں۔
ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ حکمت اپنے ہی دیس میں نظر انداز ہوئی۔ اس کی وجوہات میں جعلی حکیموں کا طبقہ جس نے اسے کاروبار بنایا اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کا مغربی نظامِ طب کو زیادہ اہمیت دینا شامل ہیں۔ اس کے باوجود، پاکستان میں طب یونانی اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہے اور لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔