علوم مخفی کی ضرورت

0 comment 52 views

علوم مخفی کی ضرورت
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

Advertisements

حضرت مولانا اللہ یار نے تو ان علوم کو تصوف کی ضد قرار دیا ہے مگر جو چیز بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائے اسے جاننے یا استعمال کرنے سے روح تصوف کو کچھ زک نہیں پہنچتا۔ الاعمال بالنیات۔ تمام کام نیتیوں کے مطابق اپنا مفہوم رکھتے ہیں۔

معاشرتی نفسیات

سونیت اگر نیک ہو اور اس عمل کی سرانجام دہی میں شرک کا پہلو نہ نکلتا ہو تو اسے عمل میں لانا بعض اوقات فرض ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ ہمارے ہاں ہر ساس یہ بجھتی ہے کہ بہو اس پر جادو کراتی ہے۔ ہر بہو بھی جوابا یہ یقین رکھتی ہے کہ ساس نے اس پر کالا علم کرایا ہے ۔ ان پڑھ ہی نہیں پڑھے لکھوں میں بھی یہ اعتقاد پایا جاتا ہے۔ سواب ایک انسا شخص، جوان افراد کی روحانی مدد کرنا چاہتا ہے، وہ جانتا ہے کہ ساس یا بہو کی بیماری میں مسلسل اس منفی سوچ کا ہاتھ ہے جو دن رات اس خاتون پر مسلط رہتی ہے۔
اگر چند بتیاں یا چند نقش نیک نیتی کے ساتھ اسے تھما کر یہ یقین دلا دیا جائے کہ ان کے اثر سے وہ ٹھیک ہو جائے گی اور آئندہ بہو کے خلاف ساس یا ساس کے خلاف بہو نقش تعویذ کرانے کی بجائے سچے دل سے اسے چاہنے لگے گی تو یہ نقش تعویذ ان خواتین کو دے دینا میں فرض منصبی سمجھتا ہوں کیونکہ انھیں یقین دلانے کا اور کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔ البتہ یہ تلقین بھی روحانی معالج کا فرض ہوتی ہے کہ آئندہ یہ خواتین ایک دوسرے کے بارے میں غلط نہ سوچیں۔ اس مثال سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ساس بہو صرف وہم میں ہی گرفتار ہوتی ہیں۔ نہیں، ایسا نہیں۔ بعض حالات میں یہ حقیقت بھی ہوتی ہے کہ ساس بہو یا اور رشتوں پر ، وہ دوستی کے ہوں یا دشمنی کے ، ایسے عملیات ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے کرائے جاتے ہیں۔ البتہ ان کی اوسط پندرہ فیصد تک ہے، پچاسی فیصد وہم ہوتا ہے۔

کالی بھیڑیں

دراصل اس کائنات میں جو کچھ ہے وہ ایک دوسرے سے مربوط ہے بلکہ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ سائنس ہی سائنس ہے۔ یہ علوم بھی اب رفتہ رفتہ سائنس کے دائرہ کار میں آتے جا رہے ہیں۔ ہم انسانوں نے بہت مدت پہلے شعوری احاطوں میں نہ آنے والے واقعات یا کیمیاوی کرامات کو سحر ، جادو اور جن ، بھوت ، پریت سمجھ رکھا تھا اور ایک ہجوم اوہام تھا جو سمٹنے میں ہی نہ آتا تھا۔ مگر اب یہ بادل چھٹتے چھٹتے درست وضاحتوں کے بعد اپنی اصل شباہتوں کے ساتھ بیچ ہمارے سامنے آنے لگا ہے۔ کتنی گڈیاں ، کتنے مندر، کتنی خانقاہیں محض کیمسٹری کے چند اصولوں اور اشیاء میں کیمیاوی رد و بدل کے نتیجے میں بڑے بڑے روحانی مرکزوں میں ڈھلے ہوے تھے۔ لوگ ان کو کاہنوں اور روحانی سربراہوں کی کرامات سمجھ کر ان کے سامنے ماتھا ٹیکتے تھے ۔ مگر آج یہ تجربات بچوں کی سائنسی کتابوں میں موجود ہیں۔ اور اب ان کو کرامات کا درجہ نہیں دیا جاتا۔
مثال کے طور پر ایک فن ہے جسے ونٹر یلو کوئزم(Winter Yellow Quiz) کہا جاتا ہے۔ آج یورپ اور امریکہ میں ہوٹل ہوٹل اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اس فن کا ماہر ہونٹ بند کر کے ایک سنج لب کھول کر گفتگو کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ یہ پریکٹس کی جاتی ہے اور اس فن کی کتب کی کتب بازار میں عام ملتی ہیں۔ لہذا ونیٹر یلو کوئزم کا ماہر ایک گڑیا یا ڈمی اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ خود ہی باتیں کرتا ہے خود ہی ڈمی کے منھ سے جواب دیتا ہے۔ بولتا وہ خود ہے مگر لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈمی جواب دے رہی ہے۔ اس فن کو ہمارے ہاں پتلیوں کا تماشا کرنے والے بھی کسی حد تک استعمال کرتے ہیں۔ وہ پتلیوں کی آواز اپنے حلق سے نکالتے ہیں مگر ہمارے ہاں اس کے مظاہرے بہت ہی کم ہیں۔ البتہ ماضی میں اس فن سے روحانی گڈیاں چلائی گئیں۔
حاضرین مجلس کے سامنے ایک لوٹا یا کوئی برتن پانی سے بھر کر رکھ دیا جاتا۔ سوال کرنے والے سوال کرتے ؟ جواب لوٹے کے اندر سے سنائی دیتا۔ اس کرامت کا مرکز ریاست جموں وکشمیر میں تھا اور یہ حضرت لوٹا پیر کے نام سے مشہور تھے اور ساٹھ ستر سال پہلے پورے ہندوستان سے لوگ اپنے سوالوں کے جواب لینے وہاں جایا کرتے تھے حالانکہ یہ محض شعبدہ تھا۔ اسی طرح فاسفورس کو پانی میں پکا کر ایسا کر لیتے کہ وہ جلد نہ جلتا، کچھ سیکنڈوں اور منٹوں کے بعد جلتا۔ وہ کسی گھر میں جاتے اور معائنہ کرتے ہوے کسی دیوار پر یہ فاسفورس لگا دیتے ، پھر چند طلسماتی الفاظ پڑھتے ، تھوڑی دیر میں یہ فاسفورس جل اٹھتا ، تب یہ کہہ دیا جاتا کہ گھر میں بسنے والا بھوت جلا دیا گیا ہے۔ آج بھی لوگ ان ڈراموں سے متاثر ہو کر لٹتے ہیں۔ افسوس کہ ہمیشہ ایسی چیزوں سے جھوٹے عامل اور فراڈ گدی نشین فائدہ اٹھا جاتے ہیں۔
بہر حال کالی بھیڑیں ہر شریف اور کار آمد فن میں پائی جاتی ہیں۔ میں نے بڑے بڑے فراڈ اور بڑے بڑے نیکو کار عامل دیکھے ہیں۔ فراڈ عامل اپنے عمل کی قیمت ہزاروں میں بتائے گا۔ پہاڑی اتو خریدنے کے لیے ، مُردے کی کھوپڑی حاصل کرنے کے لیے، ایسا کالا بکرا خریدنے کے لیے جس کا ایک بال بھی سفید نہ ہو ، چودھویں کے چاند میں گرگٹ پکڑنے کے لیے۔ ظاہر ہے آپ ان میں سے ایک چیز بھی حاصل نہیں کر سکتے لہذا آپ بے بس ہو کر عامل کو طلب کردہ رقم دے دیں گے۔ میرے پاس اکثر ایسی عورتیں ، ایسے مرد آتے رہتے ہیں جو ان فراڈ عاملوں کے ہاتھوں لٹ چکے ہوتے ہیں۔ کسی نے ہمیں ہزار، کسی نے پچاس ہزار لٹایا ہوتا ہے۔ اگر ادائیگی کرنے والا ذرا صحت مند ہو اور اپنی رقم کے مطالبے پر تشدد کا رویہ اختیار کرے تو بھی یہ چال باز پچاس ہزار میں سے دس ہزار رکھ کر باقی رقم لوٹا دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دام میں نہ آنا آپ کے بس میں ہے۔ میں بڑے وثوق سے اعلان کرتا ہوں کہ کتنا بڑا ہی عمل کیوں نہ کیا جائے خرچہ اس حد تک نہیں جاسکتا۔ یہ بڑی بڑی رقمیں یہ لوگ اپنے نائے ونوش کے لیے بٹورتے ہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو معجزات عطا کیے گئے ، اولیاء اللہ کو کرامات کی صلاحیت سے نوازا گیا۔ منجزات تو انبیاء علیالم کو رب کائنات کے عطیات ہیں مگر اہل تصوف کی نظر میں کرامات کی کوئی حیثیت نہیں ۔ کشف و کرامات کو یہ لوگ شعبدہ ہی قرار دیتے ہیں۔ روحانی مراتب حاصل کرنے میں جو سفر در پیش آتا ہے یہ اس کا ایک موڑ ہے اور صاحب ہمت اہل تصوف اس موڑ سے جلد از جلد گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ بعض اوقات اس موڑ کی کیفیات باقی سارے سفر کو برباد کر کے رکھ دیتی ہیں۔ لوگ صرف اسے ولی سمجھتے ہیں جو ان کے دل کی بات بوجھ لے یا یہ جان لے کہ وہ کیا مشکل لے کر اس کے سامنے آئے ہیں۔ بتانے والا یہ بات بتادے تو بس ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ ہجوم مکھیوں اور مچھروں کی طرح امڈ پڑتا ہے اور صورتحال بے قابو ہو جاتی ہے۔ ہر طرف سے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالب سلوک وہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے اور منزل اسے پکارتی رہ جاتی ہے۔ اس سفر کے دوران اہلِ تصوف کا ہر گز یہ عندیہ نہیں ہوتا کہ وہ دنیاوی طور پر شہرت حاصل کریں اور لوگوں کو اپنے گن گانے پر مجبور کریں۔ یہ باطن میں آنے والے اوامر ونواہی کے ہاتھ ہوتا ہے کہ وہ بعد میں کیا پیرایہ اختیار کریں ، کس ہیئت کو اپنا ئیں۔
یہ ایک مختصر سا تعارف ہے تصوف کا۔ بات لفظ کی نہیں صرف اصطلاح کی ہے۔ لہذا جہاں ہم نے اپنی سہولت کے لیے بے شمار اصطلاحوں کو اپنایا ہوا ہے اس اصطلاح کو بھی اپنانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا حقیقی مفہوم تو ”الفقر فخرى والفقر منی کا نچوڑ ہے۔ یعنی تصوف کا ما حاصل فقر محمدی صلی اللہ دین کا حصول ہے اور آخری قرار گاہ تو یہی فقر ہے۔ البتہ اس کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے اُس سارے سسٹم کے لیے لفظ تصوّف استعمال کیا جاتا ہے۔

Leave a Comment

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid

Hakeem Muhammad Younas Shahid, the visionary mind behind Tibb4all, revolutionizes education and daily life enhancement in Pakistan. His passion for knowledge and unwavering community dedication inspire all who seek progress and enlightenment.

More About Me

Newsletter

Top Selling Multipurpose WP Theme