Unnecessary use of medicines and drugs
ادویات و منشیات کا بے جا استعمال
الاستخدام غير الضروري للأدوية والعقاقير
ادویات و منشیات کا بے جا استعمال
Unnecessary use of medicines and drugs
الاستخدام غير الضروري للأدوية والعقاقير
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی۔سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور
طریق میڈیکل میں سکون آور اور انٹی بیکٹریل وغیرہ ادویات کے بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے۔یہ بیماری کا علاج نہیں بلکہ علامات کو رفع کرنے کا سبب ہیں کیونکہ علاج وہ ہوتا ہے جسے کرنے کے بعد کسی دوا کی ضرورت نہ رہے ۔ادویات کو علامات کے رفع کرنے کے لئے تیز سے تیز تر ادویات کا بے تحاشا استعما ل انسانی صحت کو گھن کی طرح کھاتا جاتا ہے۔ان کے مضر اثرات اس قدر بھیانک ہوتے ہیں جو تادم مرگ انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔جس طرح دیگر اشیاء کو تین حصوں میں تقسیم کرکے سمجھا یا گیا ہے .
نشہ کی تین اقسام
نشہ کو بھی تین حصے میں تقسیم کیا جاتا ہے۔نشہ کبھی تو دماغ و اعصاب کو متأثر کرتا ہے ان میں بیش، بھنگ، افیون وغیر ہ ہیں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نشہ انسانی عضلات پر مستولی ہوتا ہے جیسے شراب،تمباکو۔دھتورہ،کچلہ چائے وغیرہ۔کچھ نشہ آور اشیاء انسانی غدد کو متأثر کرتی ہیں جیسے لفاح وغیرہ یوں تو نشہ کی سینکڑوں اقسام ہیں لیکن ان کے اثرات و افعال کی وجہ سے انہیں شناخت کیا جاسکتا ہے ۔ہر نشہ کے افعال ایک جیسے نہیں ہوتے مثلاََ ایک آدمی نے نشہ کیا اس پر غنودگی اور مسکن بلکہ شدت کی حالت میں بے ہوشی تک دیکھنے کو ملتی ہے ۔ دوسرے نشہ کے استعمال سے بالضد اثرات ظاہر ہو تے ہیں ۔بے خوابی جسم میں سرور کی لہریں۔لذت و مسرت کی شدت،جذبات کا بے قابو ہونا زیادتی نشہ کی صورت میں انسان بے اختیار ہنسنے لگتا ہے ۔تیسری قسم میں انسان الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے کبھی اپنے آپ کو بادشاہ تو کبھی فقیر سمجھنے لگتا ہے اور نفس امارہ کی بہت سے علامات کا اظہار ہونا شرو ع ہوجاتا ہے ۔
زہروں کا استعمال
طبیب و معالج موقع محل کے مطابق کوئی بھی دوا یا اجزائے ادویہ تجویز کرسکتا ہے طبیب خواص اشیاء کو جانتا ہے نسخوں میں استعمال ہونے والے اجزاء کی شناخت اسے کوئی بھی فیصلہ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔علم السمیات طب کی اہل ترین شاخ ہے جو منافع و مضرت کی وسیع دنیا اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔طب میں جہاں تریاق استعمال کئے جاتے ہیں وہیں پر ایک ماہر طبیب زہروں کو بھی موقع محل کی مناسبت سے استعمال کرسکتا ہے۔حاذق زہروں کو تریاق بنا کر مریضوں کے لئے سہولت پیدا کرسکتا ہے فوائد کا حصول اور نقصان سے بچاؤ ایک اہم معاملہ ہوتا ہے ۔زہر کی حقیقت یہ ہے کہ اتنی سرعت پزیر ادویہ ہوتی ہیں جن کی معمولی سا بڑھا ہوا استعمال انسان کے لئے غیر طبعی حالات پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔عام ادویات کے مقابلہ میں یہ بہت تیز اثرات کی حامل ادویہ کو زہر کہا جاسکتا ہے۔اگر موقع مناسبت سے استعمال کیا جائے تو زہر وں میں شمار ادویہ و اجزاء سے اعلی نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں۔زہروں کے گہرے اثرات انسانی جسم میں غیر طبعی علامات کے اظہار کا سبب بنتے ہیں۔یہ اتنے دوررس ہوتے کہ ان کا اثر برسوں بعد تک دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔ایک حدیث مبارکہ ہے نبیﷺ فرمایا کرتے تھے مجھے خیر میں جو زہر دیا گیا تھاوہ مجھے ہر سال تنگ کرتا ہے(صحيح البخاري (جلد6/صفحه 9)64 – كِتَابُ المَغَازِي)
ایک غلط فہمی کا ازالہ۔
کوئی بھی طریق علاج ہو مکمل علاج کے بعد کسی دوا کی ضرورت محسوس نہیں ہونی چاہئے اگر علاج کے معنی یہ ہیں کہ مریض اپنی تکلیف سے بچنے کے لئے مہینوں دواؤں کا محتاج ہوکر رہ جائے تو یہ علاج نہیں بلکہ دیسی لفظوں میں بھاڑا کہنا زیادہ مناسب ہوگا مذکورہ بالا علاج کو کسی انداز میں تسلی بخش نہیں کہا جاسکتا مخدر و مسکن منشی ادویات سے مریض کو سلایا تو جاسکتا ہے لیکن اس کی تکلیف کو رفع کرنا بہت مشکل ہے۔اگر منشیات آمیز ادویات کو اس لئے استعمال کیا جائے کہ ان سے وقتی طور پر درد میں کمی کردی جائے تاکہ طبیعت مدبرہ کو سہارے کا موقع مل جائے اس حد تک تو اجازت کی کوئی نہ کوئی صورت نکال جاسکتی ہے لیکن تسلسل کے ساتھ منشیات کا سہارا لینا عطائیت کے زمرے میں آتا ہے ۔
دوسری غلطی یہ کی جاتی ہے کہ انٹی بیکٹریل ادویات کو بکثرت استعمال کیا جاتا ہے ان ادویات کے تجویز کنندہ شاید یہ بات بھول جاتے ہیں کہ انسانی جسم میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ جو چیز بھی کچھ عرصہ تسلسل کے ساتھ استعمال کی جائے جسم انسانی اس کے ساتھ تطابق پیدا کرکے اسے اپنے جسم کا حصہ بنا لیتا ہے اس لئے یہ ادویات انسانی جسم کے نظام کو بری طرح توڑ پھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔یوں مریض ایک پوٹنسی سے دوسری پوٹنسی کی طرف ہجرت کا عمل جاری رکھتا ہے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ سب کچھ بے کار ہونے لگتا ہے تو مریض کے سٹریچر کو دھکا دیکر ہسپتال سے باہر دھکیل دیا جاتا ہے کہ اب یہ مریض لاعلاج ہے۔
خدا کے بندو !یہ کیسا ظلم ہے ؟جب تک اس کے جیب میں پیسے تھے تم نے بے دریغ ٹیسٹوں اور طرح طرح کے تجربات میں انہیں پانی کی طرح بہا دیا ۔اس کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہے۔جب دیکھا کہ جن سہاروں کی بنیاد پر دیگر طریق علاج غیر طبعی جاہلانہ اور عطایانہ قرار دیتے رہے۔ خاموشی سے سوال کرتے ہیں جناب اب وہ علمی غرور کیا ہوا؟ذہن نشین رہے کہ اگر بیکٹیریا یا انفیکشن کو دور کردیا جائے تو مریض کو مرض سے چھٹکارا مل جانا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہوتا مثلاََ ایک زخم پر انٹی بائیٹک ادویات کو استعمال کرکے اسے جراثیموں اور بیکٹیریاز سے پاک قرار دیدیا جائے تو کیا زخم بھر جائے گا؟ایسا ہرگز نہیں بلکہ زخم ابھی تک اپنی جگہ پر موجود ہے ۔اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم نے ایک بہترین دوا کو اپنے عطایانہ انداز علاج کی وجہ سے ضائع کردیا۔