
عام بیماریاں اور ان کے اسباب
ذرائع میں کئی عام بیماریوں کا ذکر کیا گیا ہے:
مسوڑھوں کی بیماریاں (پیریڈونٹائٹس)
: یہ مسوڑھوں کا ایک سنگین انفیکشن ہے جو دانتوں کے ارد گرد کے نرم بافتوں کو متاثر کرتا ہے۔ اگر علاج نہ کیا جائے تو یہ ہڈی کو تباہ کر سکتا ہے جو دانتوں کو سہارا دیتی ہے، جس سے دانت ڈھیلے ہو جاتے ہیں یا گر سکتے ہیں۔ اس کی ممکنہ علامات میں مسوڑھوں سے خون بہنا، لالی، درد، یا سانس کی مسلسل بُو شامل ہیں۔ مسوڑھوں کی بیماری انسانیت کی چھٹی سب سے عام دائمی بیماریوں میں سے ایک ہے، جو تقریباً 1.1 ارب لوگوں میں موجود ہے۔
ذیابیطس (ٹائپ 2):
مسوڑھوں کی بیماری سے اس کا دو طرفہ تعلق ہے؛ پیریڈونٹل بیماری کے مریضوں کو ذیابیطس ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور ذیابیطس کے مریضوں کو بھی پیریڈونٹل بیماری ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک شخص ذیابیطس کا شکار ہے۔
دل کی بیماریاں
: پیریڈونٹائٹس سے سوزشی اجزاء اور بیکٹیریا خون کے ذریعے جسم میں سفر کر کے دل کو متاثر کر سکتے ہیں، جس سے جمنے بن سکتے ہیں اور اسکیمک دل کے مسائل سے لے کر دل کے دورے تک کے نتائج ہو سکتے ہیں۔ مسوڑھوں کے کچھ جراثیم دل کے اندرونی بافتوں کو متاثر کر کے متعدی بیماری اینڈو کارڈائٹس کا سبب بن سکتے ہیں۔ یورپ میں دل کے امراض 40 فیصد اموات کی بڑی وجہ ہیں اور یومیہ 10 ہزار افراد اس کا شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی اموات میں سے 30 فیصد دل کی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ہائی بلڈ پریشر، جس کی وجہ اکثر نمک کا زیادہ استعمال ہے، امراض قلب مثلاً دل کے دورے اور اسٹروک کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
دائمی بیماریاں (عام طور پر):
ذیابیطس اور دل کی بیماری جیسی دائمی بیماریاں طویل مدتی حالتیں ہیں جن کے لیے مسلسل طبی انتظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ جسمانی حدود (درد، تھکاوٹ، نقل و حرکت کے مسائل)، جذباتی تکلیف (ڈپریشن، اضطراب)، طرز زندگی میں تبدیلیوں کی ضرورت، مالی بوجھ، اور سماجی اثرات (تنہائی) کا باعث بن سکتی ہیں۔
تپ دق (ٹی بی)
: عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹ کے مطابق، 2023 میں یہ کوویڈ-19 کی جگہ اموات کی سب سے بڑی وجہ بن گئی۔ یہ ایک مہلک متعدی بیماری ہے۔ پاکستان دنیا میں ٹی بی کے کیسز کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہے۔
ہائی بلڈ پریشر:
یورپ میں 30 سے 79 سال کی عمر کے تین میں سے ایک بالغ فرد ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے، جس کی وجہ اکثر نمک کا زیادہ استعمال ہے۔
ہیپا ٹائیٹس (بی اور سی):
پاکستان میں ڈیڑھ سے دو کروڑ افراد ہیپا ٹائیٹس بی یا سی کا شکار ہیں۔ ان بیماریوں کے پھیلنے کی اہم وجوہات میں سے رہن سہن کے طور طریقے شامل ہیں۔
انسانی میٹا پینو وائرس (ایچ ایم پی وی):
یہ بنیادی طور پر نظام تنفس کو متاثر کرنے والا وائرس ہے جس کی علامات عام نزلہ زکام اور فلو جیسی ہوتی ہیں۔ یہ وائرس چین میں پھیل رہا ہے، خاص طور پر 14 سال اور اس سے کم عمر کے بچوں میں، اور ملائیشیا اور بھارت میں بھی کیسز سامنے آئے ہیں۔ زیادہ تر مریض گھر پر ہی ٹھیک ہو جاتے ہیں، لیکن بچوں، بزرگوں اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد میں سنگین پیچیدگیاں جیسے نمونیا کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ یہ متاثرہ فرد سے تعلق، آلودہ سطحوں کو چھونے، کھانسنے، چھینکنے یا ہاتھ ملانے سے پھیلتا ہے۔
ایم پوکس (منکی پوکس):
یہ منکی پوکس وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے اور ڈبلیو ایچ او نے اسے عالمی صحت عامہ کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ یہ اصل میں جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا، لیکن اب انسانوں سے انسانوں میں بھی منتقل ہوتا ہے۔ یہ متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطے (جنسی تعلقات، جلد سے جلد کا رابطہ، قریب بیٹھ کر بات کرنا/سانس لینا)، آلودہ چیزوں کو چھونے، اور متاثرہ جانوروں کے ساتھ رابطے سے پھیلتا ہے۔ علامات میں بخار، سر درد، سوجن، درد، اور دانے شامل ہیں۔ نئی قسم (کلیڈ ون بی) زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے اور بچوں اور بڑوں میں زیادہ سنگین بیماریاں اور اموات کا سبب بن سکتی ہے۔
ملیریا:
یہ مچھر (مادہ اینوفیلیز) سے پھیلنے والا ایک متعدی مرض ہے جو پلازموڈیم نامی جرثومے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ دنیا بھر میں لاکھوں افراد کو متاثر کرتا ہے اور ہر سال 1 سے 3 ملین اموات کا سبب بنتا ہے، جن میں زیادہ تعداد افریقی بچوں کی ہے۔ غربت اس کے پھیلاؤ سے منسلک ہے اور ترقی پذیر ممالک کی معیشت میں رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔ علامات میں بخار اور سر درد شامل ہیں، جبکہ شدید حملے میں اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے۔ مون سون کے دوران ٹھہرے ہوئے پانی میں مچھروں کی افزائش سے ملیریا پھیل سکتا ہے۔
مون سون کی دیگر بیماریاں
: مون سون میں ڈینگی (مچھروں سے پھیلتا ہے)، چکن گونیا (مچھروں سے پھیلتا ہے)، پیٹ کا انفیکشن (غیر صحت بخش کھانے، کم مائع مصنوعات)، ہیضہ (آلودہ خوراک/پانی، صفائی کی کمی)، ٹائیفائیڈ (آلودہ خوراک/پانی)، وائرل بخار (موسم کی تبدیلی)، اسہال (غیر صحت بخش خوراک/پانی)، انفلوئنزا (موسم کی تبدیلی)، اور لیپٹوسپائروسس (جانوروں سے انسانوں میں) جیسی بیماریاں عام ہو سکتی ہیں۔
بیماریوں کی روک تھام
ذرائع میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے مختلف سطحوں پر اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے:
عام احتیاطی تدابیر:
صحت مند طرز زندگی کو اپنائیں:
متوازن غذا (پھل، سبزیاں، دبلی پتلی پروٹین، سارا اناج، کم چکنائی والی دودھ کی مصنوعات) کھائیں، باقاعدگی سے ورزش کریں، کافی نیند لیں، اور سگریٹ نوشی اور زیادہ شراب نوشی جیسی مضر عادات سے پرہیز کریں۔ چربی اور تیل کی مقدار کو محدود کریں۔
صفائی اور حفظان صحت کا خیال رکھیں:
اپنے ہاتھوں کو اکثر صابن اور پانی سے کم از کم 20 سیکنڈ تک دھوئیں۔ گندے ہاتھوں سے آنکھوں،

ناک یا منہ کو چھونے سے گریز کریں۔ ذاتی حفظان صحت کی عادات پر عمل کریں۔
محفوظ خوراک اور پانی کا استعمال کریں:
ابلا ہوا یا صاف پانی پئیں اور اس میں پھل اور سبزیاں دھوئیں۔ مون سون کے دوران سڑک کے کنارے کھانے پینے سے گریز کریں۔ گھر میں بنے کھانے کو ڈھکن سے ڈھانپ دیں۔ آلودہ خوراک اور پانی ہیضے اور ٹائیفائیڈ کی وجہ بن سکتے ہیں۔
تناؤ کو کنٹرول کریں:
تناؤ کو سنبھالنے کے لیے صحت مند طریقے تلاش کریں، جیسے گہری سانس لینے کی مشقیں، مراقبہ، یوگا، یا ایسی سرگرمیوں میں مشغول ہونا جن سے آپ لطف اندوز ہوں۔ پھیپھڑوں کی صلاحیت بڑھانے کے لیے سانس کی مشقیں کریں۔
بیمار افراد سے فاصلہ رکھیں
: بیمار افراد کے بہت زیادہ قریب جانے سے گریز کریں۔ اگر خود بیمار ہوں تو دوسروں کو چھونے سے گریز کریں اور ممکن ہو تو گھر میں رہنے کو ترجیح دیں۔ کھانستے اور چھینکتے وقت اپنے منہ اور ناک کو ڈھانپیں۔ کھانے پینے کے برتن دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے سے گریز کریں۔
باقاعدہ طبی معائنہ کروائیں:
چیک اپ، اسکریننگ اور دواؤں کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے صحت کی دیکھ بھال کے پیشہ ور افراد سے باقاعدگی سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ ابتدائی پتہ لگانے اور بروقت مداخلت پیچیدگیوں کو روک سکتی ہے۔
ٹیکنالوجی کا استعمال کریں:
خود نظم و نسق، ادویات کی یاد دہانیوں اور سپورٹ نیٹ ورکس تک رسائی کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور ہیلتھ کیئر ایپس کا فائدہ اٹھائیں۔ جدید ٹیکنالوجی جیسے ٹیلی میڈیسن اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس صحت کی سہولیات کی رسائی کو بہتر بنا سکتی ہیں۔
منھ کی صحت اور اس سے منسلک بیماریوں کی روک تھام:
اچھی منھ کی صحت برقرار رکھیں: یہ مجموعی صحت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
مسوڑھوں سے خون بہنے کو نظر انداز نہ کریں: اسے معمول نہ سمجھیں۔
مسوڑھوں کی بیماری کا علاج کروائیں: روایتی، غیر جراحی علاج ذیابیطس کے مریضوں میں میٹابولک کنٹرول کو بہتر بنا سکتا ہے۔
دانتوں کو باقاعدگی سے برش اور فلاس کریں: یہ علمی تنزلی کے ممکنہ تعلق کے تناظر میں بھی اہم ہے۔
منھ کو ایک مدافعتی رکاوٹ کے طور پر دیکھیں: اس کی دیکھ بھال ضروری ہے۔
منھ میں رہنے والے مائیکروبس کا خیال رکھیں۔
دندان سازی اور ادویات کو مربوط کریں: تاکہ جسم کو ایک نظام کے طور پر دیکھا جا سکے۔
مخصوص بیماریوں سے بچاؤ:
ملیریا، ڈینگی، چکن گونیا : ٹھہرا ہوا پانی ہٹا دیں۔ مچھر دانیاں لگائیں اور مچھر بھگانے والی کریم استعمال کریں۔ مچھروں کو ختم کریں۔
ہیضہ، ٹائیفائیڈ، اسہال، پیٹ کا انفیکشن: آلودہ خوراک اور پانی سے بچیں۔ صفائی اور حفظان صحت برقرار رکھیں۔
ایم پوکس: ویکسین کا استعمال بیماری کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ متاثرہ افراد کو الگ تھلگ رکھیں جب تک زخم ختم نہ ہو جائیں۔ صحت یاب ہونے کے بعد 12 ہفتے تک جنسی تعلقات میں احتیاط (جیسے کنڈوم کا استعمال) کریں۔ وائرس کمیونٹی میں ہو تو علامات والے کسی شخص کے ساتھ قریبی رابطے سے گریز کریں۔
ایچ ایم پی وی اور دیگر تنفسی وائرس: ہاتھوں کو باقاعدگی سے دھوئیں۔ چہرے کو چھونے سے گریز کریں۔ بیمار افراد سے فاصلہ رکھیں۔ کھانستے/چھینکتے وقت منہ ڈھانپیں۔ کھانے کے برتن شیئر نہ کریں۔ بیمار ہونے پر گھر پر رہیں۔
نظام صحت کی سطح پر روک تھام:
صحت کے نظام کی کمزوریوں کا جائزہ لیں اور انہیں دور کریں۔
آبادی کے لحاظ سے انفراسٹرکچر (ہسپتال، ڈاکٹر) کی کمی کو پورا کریں۔
صحت کے بجٹ میں اضافہ کریں۔
ویکسینیشن، صفائی ستھرائی اور بہتر غذا کے بارے میں عوامی آگاہی کی مہمات چلائیں۔ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوائیں۔
سرکاری اور نجی شعبے کی شراکت داری کو فروغ دیں۔
’ون ہیلتھ‘ کے جامع نقطہ نظر کو اپنائیں:
یہ لوگوں، جانوروں اور ماحولیات کی صحت پر مرکوز ہے اور مستقبل کے وبائی امراض سے بچانے کا واحد طریقہ ہے۔ جانوروں کا مضبوط صحت نظام ابھرتی ہوئی متعدی بیماریوں (ای آئی ڈی)، زونوسس اور اینٹی مائیکروبیل ریزسٹنس (اے ایم آر) کے خطرات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ اس میں جانوروں کی بیماریوں کی نگرانی، تحقیق و ترقی، اور ویٹرنری خدمات کو مضبوط بنانا شامل ہے۔
خلاصہ
یہ کہ، بیماریوں کی روک تھام کے لیے انفرادی سطح پر بہتر حفظان صحت، صحت مند طرز زندگی اور غذائیت، اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنا اہم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، صحت کے نظام کو بہتر بنانے، رسائی بڑھانے، اور ’ون ہیلتھ‘ جیسے جامع نقطہ نظر کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔