The basic philosophy of Hajj is to solve the problems of the oppressed Muslim Ummah
حج کا بنیادی فلسفہ مظلوم امت مسلمہ کی پریشانیوں کا حل
حکیم المیوات:قاری محمد یونس شاہد میو
۔۔۔۔۔۔۔۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جہیں میرے اللہ نے اپنے گھر بلایا
تمام حاجیوں کو۔۔۔حج مبارک !
اے اللہ اس بارکت عمل کی برکت سے میرے ملک پر اپنا کرم فرما
حج کا عمل اہل اسلام کے نزدیک بنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔جسے مالی آسودگی اور خاص نصاب مال پر واجب کیا گیا ہے۔زندگی میںایک بار حج فرض ہے۔اس کے بعد جتنی بار بھی حج کیا جائے ثواب زائدہ میں شمار ہوگا۔
حج کا بنیادی فلسفہ۔
اہل اسلام کے بنیادی عقائد میں سے کچھ بنیادی اراکین میں ایک حج بھی ہے۔عبادات کو معاشرتی و معاشی انداز سے دیکھا جائے تو ایک منظم معاشرہ اور فلاحی ریاست
کا مستحکم لائحہ عمل دیکھائی دیتا ہے۔
کلمہ طیبہ(1)
(2)نماز انسان اور بندہ کے درمیا ن باہمی گفتگو راز و نیاز کا نام ہے۔
(3 )روزہ انسانی صحت اور معاشرہ میں احساس کمتری اور مالی لحاظ سے کمزور لوگوں کی بھوک بیاس اور دیگر محرومیوں سے دوچار لوگوں کے درد کے احساس کا نام روزہ ہے ۔جسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔
(4)زکوٰۃ۔یہ فریضہ خالصتا معاشرتی پہلو رکھتا ہے۔۔تاکہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم کردہ معاشرہ کے مالی طورپر کمزور حجرات کو سہارا دیا جاسکے۔اور ریاستی معاملات کے معاشی پہلو کو بہتر انداز میں سنوارا جاسکے۔
(5)حج اسلامی معاشرہ و ریاست کا وہ پہلو ہے جہاں مالی طورپر آسودہ حال لوگوں کو اس حالت میں بلایا جاتا ہے کہ وہ مالی آسودگی کے باوجود بہت سی آشائشوں کو ترک کرنے اور احکامات کو پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ایک جیسا لباس ایک جیسی حرکات و سکنات۔اور خط قانون کو روندنے پر ایک جیسے جرمانے اور مالی سزائوں کانفاذ ایسا تصور ہے جس میں انفرادیت و اجتماعیت کا اعلی تصور ابھرتا ہے۔
جہاد یہ ریاستی عمل ہے جسےریاستی سرپرستی میں کیا جاتا ہے(6)
مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ
جب سے مسلمانوں نےعبادات کی روح سے منہ موڑا ہے اور حقیقی تصور و عبادت اور اس میں چھپے زار کو بھلایا اس وقت سے روبہ زوال ہیں۔حج کا جتنا بڑا اجتماع ہوتا ہے اگر ایک فیصد بھی اس کی حقیقی روح کو سمجھ لیں تو مسلمانوںزوال کے سمجھ سکتے ہیں اور اسکا تدارک کیا جاسکتا ہے۔احتاجوں اور قرادادوں کے بجائے اگر مسلمان اپنی عبادات کی روح کو سمجھ لیں اور ان کے تقاضوں کو پورا کرلیں تو بہت سے مسائل کا بہتر حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔یہ اسلامی روح بھی ہے اور منشائے خداوندی بھی
2 Comments
[…] حج کا بنیادی فلسفہ۔ اہل اسلام کے بنیادی عقائد میں سے کچھ بنیادی اراکین میں ایک حج بھی ہے۔عبادات کو معاشرتی و معاشی انداز سے دیکھا جائے تو ایک منظم معاشرہ اور فلاحی ریاست کا مستحکم لائحہ عمل دیکھائی دیتا ہے۔ (1) (2)نماز انسان اور بندہ کے درمیا ن باہمی گفتگو راز و نیاز کا نام ہے۔ (3 )روزہ انسانی صحت اور معاشرہ میں احساس کمتری اور مالی لحاظ سے کمزور لوگوں کی بھوک بیاس اور دیگر محرومیوں سے دوچار لوگوں کے درد کے احساس کا نام روزہ ہے ۔جسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ (4)زکوٰۃ۔یہ فریضہ خالصتا معاشرتی پہلو رکھتا ہے۔۔تاکہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر قائم کردہ معاشرہ کے مالی طورپر کمزور حجرات کو سہارا دیا جاسکے۔اور ریاستی معاملات کے معاشی پہلو کو بہتر انداز میں سنوارا جاسکے۔ (5)حج اسلامی معاشرہ و ریاست کا وہ پہلو ہے جہاں مالی طورپر آسودہ حال لوگوں کو اس حالت میں بلایا جاتا ہے کہ وہ مالی آسودگی کے باوجود بہت سی آشائشوں کو ترک کرنے اور احکامات کو پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ایک جیسا لباس ایک جیسی حرکات و سکنات۔اور خط قانون کو روندنے پر ایک جیسے جرمانے اور مالی سزائوں کانفاذ ایسا تصور ہے جس میں انفرادیت و اجتماعیت کا اعلی تصور ابھرتا ہے۔ جہاد یہ ریاستی عمل ہے جسےریاستی سرپرستی میں کیا جاتا ہے(6) مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ جب سے مسلمانوں نےعبادات کی روح سے منہ موڑا ہے اور حقیقی تصور و عبادت اور اس میں چھپے زار کو بھلایا اس وقت سے روبہ زوال ہیں۔حج کا جتنا بڑا اجتماع ہوتا ہے اگر ایک فیصد بھی اس کی حقیقی روح کو سمجھ لیں تو مسلمانوںزوال کے سمجھ سکتے ہیں اور اسکا تدارک کیا جاسکتا ہے۔احتاجوں اور قرادادوں کے بجائے اگر مسلمان اپنی عبادات کی روح کو سمجھ لیں اور ان کے تقاضوں کو پورا کرلیں تو بہت سے مسائل کا بہتر حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔یہ اسلامی روح بھی ہے اور منشائے خداوندی بھی […]
شکریہ
اسلام دین فطرت ہے اگر اس کی روح کو سمجھ لیا جائے
ہم لوگ اسلام کو مسلمانوں کے طرز عمل سے پرکھتے ہیں جبکہ اسلام کی کسوٹی پر مسلمانوں کو پرکھنا چاہئے۔
اسلام سراپا حکمت اور فطرت ہے۔