Superstitions prevalent in the world
اقوام عالم میں رائج توہمات
الخرافات السائدة في العالم
حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی:سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ
کاہنہ نو لاہور
توہمات
نوع انسان کو جادو، تسخیرجن، شمن منت ، فال گیری ، حاضرات ،ارواح غیب بینی اور نظربد کے تو ہمات قدیم بابل سے ورثے میں ملے ہیں۔ وضاحت کے لئے چند روزمرہ کے توہمات کا ذکر ہے محل نہ ہو گا۔
بارش نہ ہو تو کسی نیک آدمی پر پانی لنڈھایا جاتا ہے، باری کا بخار نہ اترتے توعورتیں کسی کانٹے دار جھاڑی سے ہمکنار ہوتی ہیں یا چرائے ہوئے مرغے کا گوشت کھایا جاتا ہے ،کسی کے سر پہ آسیب کا سایہ ہو تو اس کے سر پر چھاج پھٹکتے ہیں اور جھاڑ پھونک کرتے ہیں پھونک مار کر اپنی برکت دوسرے آدمی میں منتقل کر دی جاتی ہے ،عورتیں کسی شخص کے چہرے کے گرد اپنی باہمی پھیلا کر اور پر اپنے ہاتھوں کو اپنے سرتک لا کر گویا اس کی بلائیں اپنے سرسے لیتی ہیں،
وسطی ہند میں درخت کاٹنے سے پہلے لکڑ ہارا درخت سے معافی مانگتا ہے ،
آئرلینڈ میں سرخ بالوں والا شخص منحوس سمجھا جاتا ہے، لوگ تیرہ نمبر کی نشست پر بیٹھنے سے گھبراتے ہیں مبادا ان پر کوئی آفت ٹوٹ پڑے۔ کھانے کی میز پر نمک گر جائے تو اسے کس سانچے کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔
ہندو جادو لکشمی دیوی کی پوجا اس کے سامنے برہنہ ہو کہ کرتے ہیں جب کہ رام کے بت کے سامنے پورے کپڑے پہن کر جاتے ہیں۔
ہمارے ہاں چوری کا سراغ لگاتے وقت کوزہ پھراتے ہیں جب کہ ایران ہمیں اس مقصد کے لئے قران گردانی کی رسم ہے، چوری کا سراغ لگانے کے لئے کسی کر نجی آنکھوں والے لڑکے کو جادو کا کاجل لگایاجائے تو وہ چوری کا مال دیکھ لیتا ہے۔
جس آدمی کے پاس چنتامنی پتھر ہو وہ امیر کبیر ہو جاتا ہے۔ شیر کا ناخن نظر بد سے محفوظ رکھتا ہے وغیرہ۔
مندرجہ بالا توہمات قانون سبب و مسبب سے آزاد ہیں اور ان وقتوں سے یادگار ہیں جب
چاروں طرف جہالت کا گھٹاٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا اور سائنس نے ابھی فطرت کے قوانین دریافت نہیں کئے تھے۔ جادو بھی اس ہمہ گیر اور اتھاہ جہالت کا کرشمہ تھا۔ جادو کی دو معروف قسمیں ہیں ۔ سفید اور کالا۔ سفید جادو میں نیک روحوں سے رجوع لاکرفائدہ پہنچایا جاتا ہے ، کالے میں بدروحوں سے استمداد کر کے کسی کوضر رپہنچا تےہیں ۔
شہر بابل جادو کا گڑھ تھاجہاں سے جادو کے ٹونے ٹوٹکے دنیا بھر کے علاقوں میں پھیل گئے۔جنگلی اقوام میں کوئی شخص بیمار پڑ جائے تو کہتے ہیں اس پر جادو کر دیا گیا ہے۔
ہسپانیہ جیسے مہذب ملک میں آج کل بھی عوام مریض کو ڈاکٹر کے بجائے کسی جھاڑ پھونک کرنے والے پادری کے پاس لے جاتے ہیں۔
افریقہ، آسٹریا، ملائشیا،شرق الہند وغیرہ کے جنگلی قبائل میں جن گیر، جادوگر ، مینہ برسانے والا ، سیانا اور عامل ایک ہی ذات میں جمع ہوتے ہیں۔
ایران میں کسی شخص پر جادو کرنا مقصود ہو تو اس کے بال ، ناخن اور پیروں کے نیچے کی خاک لے کر اُس پر کلام پڑھتے ہیں سفید مرغ کے خون سے ٹونے ٹوٹکے لکھے جاتے ہیں۔ آج کل اظہار نفرت کے لئے کسی کا پتلا جلانے کی رسم قدیم جادو سے یادگار ہے، جب کسی کو جان سے مارنے کے لئے ایسا کرتے تھے۔ جادوگرنیاں بعض اوقات منتر پڑھ کر دھاگے میں گرہ ڈال دیتی ہیں تو ان کے دعوے کے مطابق گائے بھینس دودھ دینا بند کر دیتی ہے یا مرد جنسی ملاپ کے قابل نہیں رہتا یا کسی کا پیشاب روک دیا جاتا ہے
سندھ
کہتے ہیں کہ سندھ میں جادو گرنیاں خوبصورت نوجوانوں کے کلیجے منتر پڑھ کر نکال لیتی ہیں جس سے وہ نڈھال ہو کر مر جاتے ہیں، انہیں جگر خور کہتے ہیں ۔ ہندوستان میں ہندو عورتیں جادو کرنے کے لئے کسی مخالف عورت کو مسان مرگھٹ کی ہڈیوں کی راکھ کھلا دیتی ہیں تاکہ وہ کسی موذی مرض میں مبتلا ہو جائے۔ مسان کے علاج کے لئے چوہڑے مریضیہ کے سامنے بیٹھ کر ڈھولک اور چمٹا بجاتے ہیں اور شبد گاتے ہیں۔ اگر واقعی مسان کھلائی گئی ہو تو عورت کو حال آجاتا ہے، وہ سر کے بال کھول دیتی ہے اور زور زور سے سر ملانے لگتی ہے ، اسے مسان کھیلنا کہتے ہیں۔
پنجاب میں عورتیں خاوندوں پر قابو پانے کے لئے انہیں تعویذ گھول کر پلا دیتی ہیں جس گھرمیں لڑائی کرانا مقصود ہو اس کے کسی کرنے میں تعویذ دفن کر دیتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس سے گھر میں دانتا کلکل شروع ہو جاتی ہے۔
ہندستنان
بعض جادو گرنیاں مادر زاد برھنہ گورستان میں جاکر بچوں کی نعشیں نکال لیتی ہیں اور مردوں کی ہڈیوں سے بنائی ہوئی مالا پر منتر پڑھتی ہیں کسی کوجان سے مارنا ہو تو کھوپڑی کو ہڈیوں سے بجا جا کر منہ پڑھتی ہیں۔ مغرب میں جادو گرنیاں کسی خفیہ مقام پر رات کو بل بیٹھتی ہیں۔ ایک مرتد پادری اُلٹی آیات پڑھتا ہے۔ بلی کے بچے کا خون کسی نیم برہنہ لڑ کی کے سینے پر چھڑ کا جاتا ہے۔ پھر ب مل کر شیطان کی پوجا کرتے ہیں کیوں کہ وہ جادو گروں کا استاد ہے، شیطان مت کے پیرو یورپ کے بڑے بڑے شہروں میں چھپ چھپ کر جنسی بے راہ روی کے شرمناک مظاہرے کرتے ہیں۔
پندھویں صدی میں ایک فرانسیسی جادو گر بیرن لا وال نے جادو کرنے کے لئے دو سو بچوں کاخون بہایا تھا تاکہ وہ شیطان کو اپنے قابو میں لاکر اسے کام لےسکے، آخر پکڑاگیا اور اسے سولی پرگاردیاگیا۔
ہند و جادو کو اندر جال کہتے ہیں۔ ان کی بعض رسمیں برہنہ ہو کر ادا کی جاتی ہیں مثلاجنوبی ہند میں
مینہ برسانے کا ایک ٹوٹکا یہ ہے کہ تین عورتیں کپڑے اتار کر کھیت میں ہل چلاتی ہیں۔ دوبیلوں کی طرح ہبل میں جُت کر اُسے کھینچتی ہیں اور تیسری ہتھی کو عام لیتی ہے۔
ظہیرالدین یار نے اپنی توزک میںمینیہ روکنے کاایک ٹوٹکا درج کیا ہے ۔
:” موسلا دھار مینہ برسنے لگا مجھے ایک ٹوٹکا معلوم تھا۔ میں نے اسے ملا علی جان کو سکھا دیا جس نے کاغذ پر لکھ کر اس کے چارٹکڑے کرکئے اور قیام گاہ کے چاروں کونوںمیں لٹکا دیا ۔ بارش اسی وقت تھم گئی ۔ ہمارے ہاں راول جوگی منتر پڑھ کر امنڈتی ہوئی گھٹا کو برسنے سے روک دیتے ہیں اسی لئے انہیں رتھ بنتھ کہتے ہیں۔ جب کہ ٹونے ٹوٹکے تمام اقوام میں رائج رہے ہیں۔ ان کا مقصد عورت کا دل جیتا اور اس پر قابو پانا ہوتاہے۔
سنسکرت میں اسی جادو کووشیکرن کا نام دیا گیا ہے ۔ لونگ پر منتر پڑھ کر عورت کو کھلا دیتے ہیںاور کھتے ہیں کہ وہ کھلانے والے پر فریفتہ ہو جاتی ہے ۔ اتھر وید میں حب کے کئی منتر دکھائی دیتے ہیں۔ ایک
منتر بطور نمونہ درج ذیل ہے.۔
میری زبان کے سرے پر شہدہو ، میری باتوں میں شہد کی مٹھاس ہو ۔
تاکہ میری پریمکا مجھ پرفدا ہو جائے اور اس کا بدن میرے قابوہ میں آجائے “
بعض مکار عامل سرمے پر دم کر کے عاشق کو دیتے ہیں اور اس سے خاصہ معاوضہ بٹور لیتے ہیں۔ اسے کہتے ہیں کہ یہ سرمہ اپنی آنکھوں میں لگا کر محبوبہ کے پاس جاؤ وہ تمہا رے پیار میں دیوانی ہو جائے گی۔
فال گیری اور غیب بینی کے طریقے بہت پرانے ہیں۔ قدیم یونانی اور ردمی گدھوں اور کبوتروں
کی اڑان سے فال لیا کرتے تھے۔
بابل
بابل میں ذبیہ کی انتریوں سے فال لی جاتی تھی ۔عرب کوے سے فال لیتے تھے اور ہجرو فراق کا ذمے دار غراب البدین (جدائی کے کوئے) کو ٹھہراتے تھے۔
ریت رسی) پر لکیریں کھینچ کر بھی فال لی جاتی تھی چنا نچہ فال گیر کو رمال کہا کرتے تھے جیسی عورتیں ناش کےپتوں ، ہاتھ کی لکیروں اور بلور میں گھور کر غیب کا حل بتلاتی ہیں۔دلنی کے مندر کی کاہنہ مستی کے عالم میں غیب کی خبر دیتی تھی۔ مصر قدیم میںآمن رع کے مندر کا بڑا کاہن پیش گوئی کیا کرتا تھا۔
ہندوستان میں برہمن اور ایران میں مُغ عیب ؟ کرتے رہے ہیں۔
محمدحسین آزاد لکھتے ہیں کہ ولا یتیوں کے دستر خوان پر اکثردیکھا گیا ہے کہ پلاؤ کے قابوں میں عجب شانہ کی ہڈی ثابت نکل آتی تو بعض اشخاص استخوان مذکور کوورق کتاب کی طرح دیکھتے ہیں اور غائب کی خبر دیتے ہیں۔ اسے شانہ بینی کہتے ہیں۔
فردوسی نے ایک فرشتے سردش کا ذکر کیا ہے جو فرید دون کو غیب کی باتیں بتلاتا تھا ۔
شمن مت کا آغاز یورال التائی سے شروع ہو کہ منگولیا ۔تبت، چین، شمالی امریکہ کے لال ہندیوں اور ملایا تک پھیل گیا۔ سائبیریا کے شمن(لغوی معنی بزرگ، سیانا)مت میں علاج امراض اور غیب کا حال بتلانے کے لئے روحوں سے رجوع لاتے تھے۔
ترکستان اور ملایا میں شمن انسانوں اورورحوں کے مابین ضروری واسطے سمجھے جاتے تھے ۔شمن ہمیشہ وجد و حال کے عالم میں پیش گوئی کیا کرتا تھا۔ عقیدہ یہ تھا کہ از خود رفتگی کے عالم میں شمن کی زبان سے روحیں کلام کرتی ہیں ۔ اس حالت میں شمن کی روح اپنے بدن سے جدا ہو کہ کسی مردہ آدمی یا جانور کے قالب میں منتقل کی جاسکتی ہے۔ شمن چوری کامال معلوم کرنے اور دفینہ کی جگہ کا کھوج لگانے کے لئے بھی روحوں سے رابطہ پیدا کرتا تھا۔شمن پر بے خودی کی کیفیت طاری کرنے کے لئے بنجور جلاتے اور ڈھول پیٹا کرتے تھے جس سے شمن زور زور سے سر ہلانے لگتا اور پھر چراغ کی لو میں گھور کر غیب کی باتیں بتاتا تھا جس بدروح نے مریض کو پکڑا ہوتا وہ بھی شمن کے سامنے حاضر ہو جاتی اور وہ اپنے ہمزاد کی مدد سے اسے بھگا دیتا تھا۔
انقلاب کے بعد روسی حکومت نے سائبیریا میں شمن مت کا استیصال کر دیا لیکن سائبیریا میں آج بھی مشن مت اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔شمن اور جادوگر میں فرق ہے۔ شمن ہمزاد کی مدد سے بدر وحوں کو بھگا دیتا ہے جب کہ جادوگر منتروں کے زور سے بدارواح پر قابو پا لیتا ہے۔
افریقہ کے وحشی قبائل میں بعض جادوگر نکالی ہوئی بد روحوں کو پنجرے میں بند کر کے لئے پھرتے ہیں۔ اضلاع متحدہ امریکہ میں حاضرات ارواح اور بلور میں گھورنے کا جو چکر چلا تھا وہ لال ہندیوں کے شمن منت ہی سے ماخوذ تھا ۔
منگول شمن مت کے پیرو تھے اور شمنوں کے توسط سے آسمانوں کی روح تنگری سے رابطہ پیدا کر کے اس سے مدد مانگتے تھے، ہمارے ہاں کے عامل چلہ کاٹ کر تسخیرجن کرتے ہیں ۔ عامل کسی کھوہ میں ڈیرا جمالیتا ہے اور چالیس روز تک تسخیر جن کا افسوں پڑھتا ہے۔ اس دوران میں وہ برائے نام کچھ کھا پی لیتا ہے اکثر فاقہ کرتا ہے۔ بعض عامل پہلے روز ایک بادام کھاتےہیں اور پھر ہر روزا یک ایک بادام کا اضافہ کرتے جاتے ہیں۔ شروع شروع میں عامل کو جنات کی ڈراونی شکلیں دکھائی دینے لگتی ہیں ۔
کہتے ہیں کہ وہ ثابت قدم رہے تو چالیسویں روز شاہ جنات حاضر ہو جاتاہے اور کسی جن عامل کی خدمت پر مامور کردیتا ہے عامل جو بھی حکم دے وہ میں فی الفور بجالاتا ہے۔ یہی تسخیر جن ہے۔ عامل اپنے جن کی مددسے گمشدہ چیزوں کا احوال معلوم کر لیتا ہے۔جن مردوں عورتوں کوجن کی پکڑ ہو جائے عامل انہیں الٹا لٹکا کر سرخ مرچوں کی دھونی دیتا ہے اور بے تحاشا اس کی پٹائی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ کہتا جاتا ہے بڑا سرکش جن ہے ۔ آخرمیں پڑنے دانے جن کو حضرت سلیمان کا واسطہ دیا جاتا ہے جس سے وہ خوفزدہ ہو کر بھاگ جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جن نمک، لو ہے ، حرمل ، مہندی اور تیز روشنی سے دور بھاگتے ہیں تیز روشنی کے قریب نہیں پھٹکتے۔ بعض اوقات جن نکالنے کے لئے روٹی کی بتی بٹ کر اور اس پر دم کر کے چراغ میں جلاتے ہیں۔ اسے پتیلہ کہتے ہیں ۔
اسلامی ممالک میں یہ عقیدہ راسخ ہوچکا ہے کہ نظربد نہایت ضرر رساں ہوتی ہے ۔ اس کی تہ میں حسد ، رشک یا لالچ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کبڑے ،بونے ، لولے لنگڑے کانے، بہرے اور بد شکل آمی کی آنکھوں میں نظر بد ہوتی ہے کیوں کہ وہ ہمیشہ صحت مند اور خوبصورت لوگوں کو حسداد رشک کی نگاہ سے دیکھتے رہتے ہیں۔
اسی طرح بانجھ عورت کی نظر بڑی ضررر سال سمجھی جاتی ہے بعض اوقات بیٹوں کو نظربد سے بچانے کے لئے انہیں لڑکیوں کا لباس پہناتے ہیں اور نفرت انگیز کنموں سے پکارتے ہیں یا ان کی ناک میں بلاق ڈال دیتے ہیں۔ ہندووں میں نظر بد سے بچاؤ کے لئے آرتی اتارنے کا رواج ہے۔ ہندو بدروحوں کو بھگانے کے لئے انگلیاں چٹخاتے ہیں۔ ایران میں نظر بد سے بچنے کے لئے فیروزہ انگوٹھی میں پہنتے ہیں۔ ہندوؤں میں رسم ہے کہ بہن اپنے بھائی کی کلائی پر ساون کی کدی اتوار کو راکھی (محافظ) باندھتی ہے جو کئی رنگوں کا بٹا ہوا دھاگا ہوتا ہے جس میں پھند نے لگائے جاتے ہیں۔
عرب شیوخ کی خلیجی ریاستوں میں جو سیاح مغرب سے آتے ہیں انہیں کڑی ہدایت کی جاتی ہے کہ میزبان شیخ کے کسی بچے کی تعریف نہ کریں کیوں کہ اس سے نظر بد لگ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، ہمارے ہاں کسی کی تندرستی کی تعریف کی جائے توہ بے اختیار کہ اٹھتا ہے، میاں تھوک دینا، اگر ملنے والا تھوک دے تو نظربد کا خطرہ ٹل جاتا ہے ۔
بیس امین ڈونالڈسن ،جو ایران میں کئی برس مقیم رہیں لکھتی ہیں “اسلامی دنیا میں ہر کہیں نظر بدکا عقیدہ پایاجاتا ہے۔ ایران میں چشم زخم اور چشم زدن کی تراکیب اس سے یادگار ہیں ۔کہتے ہیں کہ بعض مردوں عورتوں کی نگاہ میں ایسی طلسماتی تاثیر ہوتی ہے کہ وہ جس شے یا شخص کوتحسین، لالچ، رشک یا حسد کی نظر سے دیکھیں اسے لازماضرر پہنچتا ہے۔ اس نوع کی آنکھوں کو چشم شور یا چشم تنگ کہتے ہیں ۔ بسااوقات نظربد رکھنے والے مردوں عورتوں کوخود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ نظر بہ رکھتے ہیں۔گھوڑں اور گائے بیلوں کو نظر بد سے بچانے کے لئے فیروزہ کے منکے پروکر ان کی گردنوں میں لٹکاتے ہیںعور تیں اپنے بچوں کو نظر بد سے بچانے کے لئےچیتے کے ناخن یا ہرن کے سینگ کا ٹکڑا چاندی میں منڈھوا کر ان کے گلے میں لٹکا دیتی ہیں۔ کسی بچے کی خوبصورتی کی تعریف کرنا نامناسب ہے کیوں کہ اس طرح نظر بد لگ جاتی ہے۔ اگر منہ سے تعریف کا کلمہ نکل ہی جائے تو ماشاء اللہ کہنا ضروری ہے “