O youth of Mayo nation
Need to move forward
میو قوم کا جوان اے
آگے بڑھن کی ضرورت ہے
O youth of Mayo nation
Need to move forward
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میو قوم اپنو مزاج راکھے ہے،
الگ سو نفسیاتی خدوخال راکھے ہے
آگے بڑھن کی صلاحیت راکھے ہے۔
صدین سو مشکلات جھیلن والی میو قوم کو آج بہتر وسائل ملنو
آگے بڑھن کی سوچ اور مل بیٹھنو۔ کوئی اتفاقی بات نہ ہے
ای قدرت کو عمل ہے،جومیو قوم سو کام لینو چاہے
جو قوم جتنی مشکلات سو گزرے ہے
واکی ذہنی سطح اتنی ہی اُونچی رہوے ہے
وائے پتو رہوے ہے کہ مشکلات میں کیسے زندگی بسر کرنی ہے
جب غربت سو پیچھے مالی آسودگی ملے ہے تو فضول خرچی نہ کرے ہے
ہمارا باپ دادن میں ای خوبی موجود ہی کہ وے کم وسائل میں
بہتر زندگی گزارن کو سلیقہ جانے ہا۔
فضول خرچی کو سوچ بھی نہ سکے ہا
اُنن نے روکھی سوکھی کھاکے اپنا مرلہ محفوظ راکھا۔
زبان کا چٹورا پن سو بچا رہا۔
اپنا باپ دادا کی وراثت محفوظ راکھی۔
لیکن میون سو ایک غلطی ہوئی کہ
انن نے اپنی اولاد کو ای سبق نہ پڑھائیو
کہ زندگی کیسے گزاری جاوے ہے۔
کم وسائل میں زیادہ کام کیسے کرسکاہاں؟
محنت کے بجائے نئی نسل کو آرام و ہڈ حرامی کو ماحول مہیا کرو
جاسو ایک نقصان ای ہوئیو کہ پرانی راویات دُھندلی پڑگئی
قوم عمل کمزور ہوگئی۔اور مشقت کے بجائے ہڈ حرامی آگئی
سخت حالات میںزندگی کے گزارن کےبجائے
راحت و آرام ڈھونڈن لگا ۔
جب کائی قوم میں ای بیماری لگ جاوے ہے تو
اُو دوسران کا سہارا کی ضرورت محسوس کرے ہے
باٹ میں رہوے ہے کہ کوئی دوسرو آکے کام کرجائے
کام دوسرو کرے ۔شاباشی اُن کو ملے
وے سفارش۔دوسران کو سہارا اور پیسہ کی باٹ کراہاں
شاید قومن کی ای کمزوری رہوے ہے۔
کچھ چالاک لوگ یا کمزوری سو فائدہ اٹھاواہاں
وے قوم کی چوہدر سنبھال لیواہاں۔ اور کام کے بجائے
گپوڈ لگان لگ پڑا ہاں۔ان کی سوچ رہوے ہے کہ
چکنی چوپڑی باتن سو ۔دوسران نے مطمئن کردینگا
کام کی ضرورت نہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ قوم کا نام پے
جتنی رول مچائی جاری ہے۔
ای کام نہ ہے صرف رول ای رول ہے۔
میو قوم کوجوان پریشان ہے کہ کس کی بات پے اعتماد کرے؟
ہرکائی نے اپنو اپنو توُ توُ پکڑراکھو جائے بجارو ہے
ہر کائی کے پئےفرضی کام کی ایک لمبی لسٹ ہے
واکو کریڈٹ لینو چاہے۔وائے کیش کرارو ہے
جتنو کام بھی ہے۔ اُو شاید چند تصویرن میں ہے
زمینی حقائق الگ ہاں۔
یا شور میں کان پڑی سُنائی نہ دے ری ہے
جب کوئی میو قوم اُٹھ کے سوال کرے ہے تو
اُو قوم کوغدار اور شرارتی ٹہرے ہے۔
میون کی بھینس دودھ دینو بند کردیوے ہے
تو وائے کٹون کو کٹوا دیواہاں۔کہ یاسو فائدہ نہ ہے
ہم نے کتنا نکما لوگ قوم سر پے بٹھا راکھاہاں۔
چاہئے کہ انننے بھی کٹون کو دیدیواں۔
عجیب بات ہے جتنی توانائی ایک دوسرا کی ٹانگ کھچائی میں لگاواہاں
واسو آدھی بھی میو قوم کی فلاح و بہبود میں لگا واں تو بھلو ہوجائے۔
ہم نوں تو نہ کہہ را ہاں کی میو قوم کا سپوت کوئی کام ای نہ کرراہاں
کام بہت کراہاں۔لیکن قوم کا حجم کا لحاظ سے موجود ہ صورت حال
ناکافی ہے۔موجودہ صورت حال میں پالیسی بدلنی پڑنگی
کیونکہ میو قوم کی لگام ایسا لوگن کا ہاتھ میں ہے۔شاید وے
یاکی ضرورت ای محسوس نہ کراہاں۔
ایک لگا بندھا طریقہ سو ہٹنو مناسب نہ سمجھاہاں۔
ضرورت یا بات کی ہے کہ میو قوم وقت کی ضرورت محسوس کراں
انن نے سمجھنو پڑے گو کہ آج کی ضرورت کہا ہے؟
نوجوان نسل کی ضرورت کہا ہاں؟
کیونکہ ان کی پرورش جاماحول میں ہوئی ہے
اُو ویا ماحول سو بالکل الگ ہے۔
جامیں موجودہ چوہدرین نے پرورش پائی ہی۔
آگے بڑھن کے مارے تازہ دم خون
تازہ دم سوچ۔تازہ دم ٹیکنالوجی۔تازہ دم جذبہ
کی ضرورت ہے۔ماحول اور حالات کے مطابق
یاکو پتو نئی نسل کا تازہ دم خون میں موجود ہے
جتنی جلدی ہم یا ضرورت اے محسوس کرلینگا
اتنی جلدی میو قوم اُبھرے گی۔
ای کام کرنو تو پڑے گو آج نا تو کال کرنو پڑے گو
جو لوگ میو قوم کی راہ میں رکاوٹ ہاں، اُن کی زندگی میں نہ سہی
ان کی موت کے بعد ماحول اے تو بدلے ای سرے گی
اگر میو جوان سو جلدی کام لئیو گا تو جلدی آگے بڑھو گا۔
یاکی مثال گاڑی جیسی ہے۔
جب میون کی زمین بکی تو میون کے پئے منصوبہ نہ ہونا کی وجہ سو
گاڑی خریدنی شروع کردی۔
دہیج میں گاڑی دینی شروع کردی سوچ نہ ہی۔
نہ کوئی بتان والو ہو۔کہ پیسہ زندگی میں کدی کدی
ملے ہے یائے کام میں لائو یا برباد کردئیو۔تہاری مرضی ہے
اگر قوم کا بڑا کوئی ایسو ماحول پیدا کرن میں کامیاب ہوجاتا
جہاں گاڑی خریدن کے بجائے۔کاروبار کرنو
جدید ٹیکنالوجی سو کام لینو۔اور بچان کوتعلیم میں آگے بڑھنا
پے فخر محسوس ہوتو تو آج قوم کو بےپناہ پیسہ ضائع ہونا سو بچ جاتو
بیاہ شادین میں کار بجائے یا بات پے فخر کرو جاےتو کہ
قوم کی کتنی خدمت کری ہے۔
اپنی میو قوم کے مارے کہا کچھ کرو ہے؟
افسوس تو یا بات پے کہ قوم کا ابھرنا کا دنن میں
میو قوم میں بیماری کی علامات ظاہر ہون لگ پڑی۔
سبن نے پتو ہے فضول خرچی
بری بات ہے۔لیکن باز کوئی بھی نہ آرو ہے۔