میو قوم کا لوگ ڈیٹا کی اہمیت کیوں نہ سمجھ را ہاں؟
میوآن لائن میو ڈائریکٹری ۔وقت کی ناگزیر ضرورت
Why don’t the people of the nation understand the importance of data
Meo Online Meo Directory – An Indispensable Need of Time
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔
ہر قوم اپنا مستقبل کا بارہ میں منصوبہ کرن میں مصروف ہے۔اپنی طاقت اپنا وسائل۔کاروبار افرادی قوم مستقبل کی منصوبہ بندی۔مسائلن کا حل کا مہیں سوچنو۔نوجوان نسل کے مارے لائحہ عمل تیار کرنو۔کچھ بھی تو دکھائی نہ دیوے ہے۔جا قوم اے اپنی تعداد اور وسائلن کو ای پتو نہ ہے اُو دنیا میں کیسے کوئی کردار ادا کر سکے ہے؟
مسائلن کا حل کے مارے بہتر معلومات کو ہونو بہت ضروری ہے۔مانو کہ کوئی اللہ کو بندہ میو قوم کے مارے کچھ بہتر کرن کو سوچے یا منصوبہ بنائے کہ کیسے قوم کو بھلو ہوسکے ہے۔تو وائے پتو ہوئے کہ ضرورت مندن کی تعداد کہا ہے؟اگر کائی کے گھر مہمان آواں جب تک وائے پتو نہ ہوئے کہ ان کی تعداد کہا ہے ؟اُو کیسے کھانا پینا کو بندو بست کرسکے ہے؟۔مہمان کم ہاں یا زیادہ وائی کی مناسبت سو توتواضح کو بندوبست کرے گو۔کم ہاں تو تھوڑو کھانا ۔زیادہ ہاں تو زیادہ بندو بست۔ یہ کچھ میو قوم کی ترقی کے مارے کرنو پڑے گو۔
پاکستان کی آبادی میں میون کی تعداد۔ کائی اے کوئی اندازہ نہ ہے
آبادی کا لحاظ سو دنیا کا پانچوواں بڑو ملک پاکستان میں پہلی مرتبہ ڈیجیٹل مردم شماری کو آغاز ہو چکےہے جہاں کاغذ اور قلم کا روایتی استعمال اے ترک کرکے ٹیبلیٹس اور آن لائن ایپلیکشنز استعمال کراجانگا۔
ملک بھر میں کری جان والی یا مشق پے 34 ارب روپے لاگت آئے گی اوریکم مارچ سو شروع ہون والا یا عمل سو توقع ہی کہ یکم اپریل تک مکمل ہو جائے گا۔
لیکن پاکستان میں دوسرا کامن کی طرح یامیں بھی بہت سا خدمشات کو اظہار کرو گئیو ہے۔اور حتمی نتائج آج تک شائع نہ کرا جاسکا۔
گوکہ ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) جاکو قومی مردم شماری کرانا کو کام سونپاوگئیو ہو کا مہیں سو سچی بات نہ بتائی گئی ہے۔نہ جانے ابھی کتنی مشق باقی ہے۔
پاکستان میں اب تک 1951، 1961، 1972، 1981، 1998 اور سنہ 2017 میں مردم شماری ہو چکی ہے۔
سنہ 2017 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی تقریباً پونے 21 کروڑ ہے۔ لیکن افسوس کی بات ای ہے میو قوم نے کوئی دلچسپی نہ دکھائی اور گمنامی میں چلی گئی۔آج ہمارے پئے کوئی مستند ڈیٹا موجود نہ ہے۔
ڈیجیٹل مردم شماری کو طریقہ کار
اب تک یا عمل میں شمار کنندگان ہر گھر کو دورہ کرکے اور کاغذی فارم بھرےہا لیکن اب حکومتی نمائندگان کا ہاتھن میں ٹیبلیٹس لیے گھر گھر جا کے معلومات کو اندراج کراہا ں۔
یا کے مارے ادارہ شماریات پاکستان نے ایک لاکھ 26 ہزار شمار کنندگان بھرتی کراہاں اور اتنا ہی ٹیبلیٹس خریداہاں۔
ہر شمار کنندہ مردم شماری کا دو بلاکس سو معلومات جمع کرناکو انچارج ہو ۔
’بلاک‘ مردم شماری کےمارے جغرافیائی اکائی ہے، جو 200-250 گھرن پے مشتمل ہے۔یا وقت ملک میں 185,509 مردم شماری بلاکس ہاں۔
حتیٰ کہ جو افراد قومی شناختی کارڈ نہ بھی راکھاہاں وے بھی یا مردم شماری میں گنا گیاہاں۔
مردم شماری کے مارے کہا قسم کی معلومات جمع کری گئی ہی؟
ادارہ شماریات پاکستان کاچیف شماریات ڈاکٹر نعیم الظفر نے بتایو کہ شمار کنندگان ہر پاکستانی شہری سو اُن کا رہن سہن، عمر اور جنس کے علاوہ دیگر معلومات جمع کری گئی
مثلاً ان کے گھر میں کمران کی تعداد، بنیادی سہولیات، رہائش پذیر لوگن کی تعداد وغیرہ۔
دیگر معلومات یا شخص کی تعلیم، ملازمت، مذہب اور اگر کوئی معذوری ہے تو وا کا بارہ میں ہوواں۔
ڈاکٹر نعیم الظفر کو کہنوہو کہ ’پاکستان میں آج تک ایک بھی معاشی مردم شماری نہ کروائی گئی۔‘
ان کو مزید کہنوہو کہ ’ملک کی نشوونما، ترقی اور منصوبہ بندی کے مارے معاشی مردم شماری بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پے یاسوتم نے پتو چلے کہ ہے کہ کن شعبان میں حکومت اے روزگار بڑھان میں مدد یا مزید انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔
معاشی مردم شماری کائی بھی ملک کی معیشت کو ایک جامع پیمانہ ہے جو یا کی صنعتوں متفرق شعبوں اور منڈین کا بارہ میں اعدادوشمار فراہم کرے ہے۔
انڈیا میں اب تک سات اقتصادی مردم شماری کراوائی جا چکی ہاں جبکہ پاکستان نے ابھی تک ایک بھی نہ کراوائی ہے۔
پی بی ایس پہلی بار ایسو ڈیٹا جمع کرن کی سوچے ہے، جا سو ملک میں موجود معذوری کی اقسام کا بارہ میں تفصیلی معلومات جمع کرن کی کوشش کری گئی ہے۔
خود شماری ایپ کہا ہے؟
وے پاکستانی شہری جو چاہوا ہاں کہ فیلڈ شمار کنندگان اُن کے گھر نہ آواں وے اپنی تفصیلات درج کرانا کےمارے اپنا موبائل نمبرن کو استعمال کرتے ہوئے پی بی ایس کا بنائے ایک ویب پورٹل میں لاگ ان کر سکاہاں۔
ایک بار جب مذکورہ فرد مردم شماری کا فارم مکمل کر کے جمع کروا دے گو تو واکو ایک کیو آر (QR) کوڈ جاری کرو جائے گو۔
پھر جب کوئی فیلڈ شمار کنندہ وا کے گھر جائے گو توو ائے محض ای کوڈ کو سکین کروانو ہوئے گوجاسو ڈیٹا کی تصدیق کو عمل شروع کرو جاسکے۔
ایک بار جب پی بی ایس اس ڈیٹا کی تصدیق کر لئے گو تو یاشخص اور یاکا گھر والان
کو مردم شماری میں شمار ہو جائے گو۔
پاکستان میں مردم شماری مکمل،’غیر حتمی نتائج کے مطابق آبادی 21 کروڑ‘
ڈیٹا جمع کرن سو بعد کو مرحلہ
پی بی ایس نے اسلام آباد میں کورونا وائرس وبا کا عروج کے دوران قائم کراگیا NCOC کی طرز پے ایک مرکزی کنٹرول روم قائم کروہو۔
ھیں تک کہ اگر کائی علاقہ میں رابطہ کا مسائل کی بنا پے ٹیبیلٹس آف لائن بھی ہوواں تو بھی مردم شماری کی معلومات جمع کری جائیں گی ھو بعد میں مرکزی کنٹرول روم کو منتقل کر دی جاسکے ہی۔
’پہلے معلومات مرتب کرن میں برسوں لگ جاوے ہا، اب ٹیکنالوجی کی بدولت ای کام جلد ہو جاوےہے۔
پاکستان کے علاوہ کئی ممالک ایران اور مصر وغیرہ بھی اپنی مردم شماری کےمارے ڈیجیٹل طریقہ کار اپنا چکا ہاں۔ انن نےیا طریقہ کار کے مارے کم از کم دو سال کی منصوبہ بندی کری اور لانچ کرن سو پہلے کم از کم چار یا پانچ پائلٹس کوانعقاد کرو۔
پی بی ایس کو 2021 کے آخر میں ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے اپنی حتمی منظوری مل گئی تھی اور اس وقت سے اس نے صرف ایک پائلٹ کروایا ہے۔
مردم شماری
مردم شماری:’پاکستان کی آبادی پونے 21 کروڑ سے زیادہ‘
25 اگست 2017
انڈیا میں بڑھتی آبادی
اقوامِ متحدہ: نومبر تک دنیا کی آبادی 8 ارب ہو جائے گی