History Of Bluetooth
نِیلے دانت کی عجیب کہانی
History Of Bluetooth
نِیلے دانت کی عجیب کہانی
تاريخ البلوتوث
ہزار برس پرانے ایک بادشاہ کا نام”بلیوٹُوتھ“ تھا۔ اس کا ایک دانت واقعی نیلے رنگ کا تھا تو پھر سوال یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی’بلیوٹوتھ’کے بانیوں نے اس قدیم بادشاہ کے نام پر شارٹ رینج وائرلیس ٹیکنالوجی کا نام’بلیوٹوتھ’کیوں رکھا؟
آج پوری دنیا بلیوٹوتھ کی اصطلاح سے واقف ہے۔ بلکہ ہمارے لیے یہ عام سی بات ہے کہ ہمارے موبائل فونز، لیپ ٹاپس، ہینڈ سیٹس، کار ٹیپس، بڑے سپیکرز، انٹرنیٹ ڈیواسز، ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز اور مزید بیسیوں ڈیوائسز میں بلیوٹوتھ سسٹم موجود ہے۔ چونکہ یہ اصطلاح بہت عوامی ہو چکی ہے اس لیے لوگ غور نہیں کرتے کہ مشہور اصطلاحات کے پیچھے کیا کہانی ہے
چلیں.. بادشاہ بلیوٹوتھ کے متعلق جاننے سے پہلے ایک اور انکشاف ہو جائے۔ نہایت دلکش چہرا اور نام رکھنے والی امریکی اداکارہ اور سپرماڈل ہیڈی لامار کو جانتے ہیں؟ اپنے وقت پر دنیا میں سب سے خوبصورت عورت کا اعزاز حاصل کرنے والی۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ ہیڈی بنیادی طور پر کمیونیکیشنز ایکسپرٹ بھی تھی۔ وائی-فائی اور جی-پی-ایس کے علاوہ بلیوٹوتھ سسٹم بھی اُسی کی ایجاد ہے۔ جی ہاں، دنیا کی مشہور ترین تینوں ٹیکنالوجیاں
یعنی خوبصورت چہرے اتنے بھی بے وقوف نہیں ہوتے جتنا آپ سمجھتے ہیں
مگر شروع میں شارٹ رینج وائرلیس سسٹم کا نام بلیوٹوتھ نہیں تھا۔ کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ 1996ء میں تین بین الاقوامی ٹیکنالوجی کمپنیوںامریکا کی انٹیل، سویڈن کی ایریکسن اور فن لینڈ کی نوکیا کے سربراہوں کو جب پتا چلا کہ ایک خوبصورت لڑکی شارٹ رینج سسٹم ایجاد کر چکی ہے تو اِن کمپنیوں کے سربراہان نے فوری طور اس سسٹم کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ تمام تاروں اور دیگر لوازمات کے بغیر فائل ٹرانسفر اور مختلف ڈیوائسز کا استعمال ممکن تھا۔ یہاں تک کہ ہیڈ فونز میں سے بھی وائرز ختم ہو سکتی تھیں۔ چناچہ اِن کمپنیوں نے آپس میں کولیبوریشن کا فیصلہ کر لیا۔ ایک میٹِنگ کے دوران انٹیل کے ایک افسرجِم کارڈاخ نے رائے دی کہ جب تک ہم اس ٹیکنالوجی کا کوئی مناسب نام نہیں رکھتے، وقتی طور پر اِس کا نام ‘بلیوٹوتھ’ رکھ دیتے ہیں۔
کارڈاخ کا کہنا تھا کہ ہزار برس قبل (1000 بعد مسیح میں) ڈنمارک/ناروے کے وائیکنگ بادشاہ ‘ہیرالڈ’ نے شمالی یورپ کے سکینڈینیویئن ممالک کو آپس میں جوڑ دیا تھا، اُسی طرح ہماری امریکی/سکینڈی کمپنیاں ایک سسٹم کے ذریعے منسلک ہو رہی ہیں۔ اس بادشاہ کا نِک نیم ‘بلیوٹوتھ’ تھا کیونکہ اس کا ایک دانت اتنا خراب تھا کہ باقاعدہ نیلا نظر آتا تھا۔ پورے یورپ کے دوسرے بادشاہ اور اعلیٰ حکام اسے ‘بلیوٹوتھ’ ہی بولتے تھے۔ تو کیوں نہ ہم اپنے نظام کا نام ‘بلیوٹوتھ’ ہی رکھ دیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ نام ٹیکنیکل نہیں۔ اس سلسلے میں ہم ‘ریڈیو وائر’ اور ‘پین (پرسنل ایریا نیٹ ورک)’ ناموں پر مشاورت کریں گے۔
مگر ہوا کچھ یوں کہ کوئی بھی ٹیکنیکل نام رکھنے سے پہلے ہی ‘بلیوٹوتھ’ نام دنیا میں مشہور ہو گیا۔ چناچہ 1997ء میں انہوں نے اسی کو مستقل کر دیا۔
ویسے، اطلاعاً عرض ہے کہ بادشاہ ہیرالڈ بلیوٹوتھ اقوام کو آپس میں جوڑنے کا اتنا رسیا تھا کہ ناروے کے بادشاہ کو اپنی بہن تحفتاً بھیج دی۔ چناچہ بلیوٹوتھ سسٹم کا نام ‘پین’ بھی رکھا جاتا، تب بھی ٹھیک تھا۔
آپ جو بلیوٹوتھ کی علامت دیکھتے ہیں یہ قدیم سکینڈی زبان میں ‘ایچ’ اور ‘بی’ کو اکٹھا لکھا ہوا ہے۔ یعنی ہیرالڈ بلیوٹوتھ۔
مونا سکندر
2 Comments
Your comment is awaiting moderation.
Thanks for sharing. I read many of your blog posts, cool, your blog is very good.
Thanks for sharing. I read many of your blog posts, cool, your blog is very good. https://accounts.binance.com/tr/register?ref=OMM3XK51
Thanks
We will try our best to meet your expectations