Eastern people toil in the field of operations
مشرقی لوگوں کی میدان عملیات میں محنت
Eastern people toil in the field of operations
الناس الشرقيون يكدحون في ميدان العمليات
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
مشرقی لوگ کتنے بھی مادہ پرست ہوجائیں پھر انہیں کسی نہ کسی انداز میں روحانی لوگوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔عملیات ایک ہنر و فن ہیں۔جو دیگر فنون کی طرح اساتذہ کرام کی نگرانی میں سیکھے جاتے ہیں۔لیکن آج پریس اور میڈیا کا دور ہے عملی مواد ہر ایک دسترس میں آچکا ہے عملیاتی کتب مفت میں ڈائون لوڈ کے لئے دستیاب ہیں۔لیکن استاد کی جگہ بہر حال خالی رہتی ہے۔ہر فن کے کچھ رموز ایسے ہوتے ہیں جنہیں اساتذہ کے جوتوں میںبیٹھ کر سیکھا جائے تو آسانی سے سمجھ میں آجائے ہیں۔
ہمارے ہاں عمومی طورپر عملیات چلوں وظائف اور تعویذات سکھانے کا نام ہے۔
کچھ وظائف کرا دئے جاتے ہیں،،شرائط اس قدر تنگ و سخط ہوتی ہیں کہ عام لوگ اس میدان میں آنے کا سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
چلہ وظائف تلقین کرنے کا عجیب انداز اختیار کیا جاتاہے
ایک مخصو ص عبارت یا الفاظ مخصوص تعداد میں پڑھنے کی تلقین کردی جاتی ہے۔
ساتھ میں کچھ ان دیکھے ڈر و خوف والی باتیں بھی بتادی جاتی ہیں کہ چلہ کے دوران اس قسم کے فلاں فلاں شکل و صورت میں خوف ذدہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔
بتانے والا بتاکر فارغ ہوجاتا ہے سالک بیک وقت چومکھی لڑائی لڑتا ہے۔
ایک تو پرہیز وں کا خیال اور پابندی۔
دوسرا عبارت کی تصحیح۔
تیسرا تعداد کا شمار۔
چوتھا ان جانا خوف جس کا کوئی وجود نہیں ہوتا
،جس سے سالک ہمہ وقت لرزاں و ترساں رہتا ہے۔
چلہ وظائف خدا خدا کرکے مکمل ہوجاتا ہے۔
لیکن اثرات کیسے پیدا ہوں اس چلہ کی کامیابی کا ٹیسٹ کیسے کیا جائے۔
ساتھ میں اجازت کی دم اور لگا دی جاتی ہے۔
قصہ کوتاہ استاد کو معلوم ہوتا ہے کہ چلہ میں اثرات کیسے پیدا ہوتے ہیں
نا شاگرد پوچھنے کی جسارت کرسکتاہے۔
عقیدت و اعتماد کی بنیاد پر یہ سلسلہ نسل در نسل آگے بڑھتا رہتا ہے۔
سینکڑوں عملیاتی کتب اس وقت مارکیٹ میں موجود ہیں۔
ان میں ملتے جلتے اعمال دئے گئے ہیں۔
کچھ کتب میں حالات کے بدلائو کی وجہ سے پرانے اعمال حذف کرکے
ان کی جگہ حالات حاضرہ کے مطابق لکھ دئے گئے ہیں۔
لیکن کسی کتاب میں یہ بحث دیکھنے کو نہیں ملی کی عملیات کام کیسے کرتے ہیں؟
کونسا عمل کس قوت کام دے گا۔یا یہ عملیات کن قوانین کے تحت موثر ہوتے ہیں ۔
چلہ وظائف محنت کے باوجود کام کیوں نہیں دیتے؟
البتہ موکلات کی تعداد،ان کی شکل و صورت کیسے ہوگی،ان سے کونسے کام لئے جاسکتے ہیں؟
یا کونسے امور ہیں جن کے کرنے سے عمل ختم ہوجاتا ہے؟
دوسری اہم بات پرہیزوں کی ہے جس کی ہر کتاب میں طویل فہرست لکھی ہوئی ملتی ہے۔
بغور مطالعہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہمزاد موکلات اور جنات کو نہیں
بلکہ عامل کو قابو کرنے کے طریقے بتائے جارہے ہیں۔
ستم بالائے ستم کہ کچھ اعمال میں شرط ہوتی ہے
ساری زندگی پرہیزوں میں گزارنی پڑے گی نہیں تو عمل ضائع ہوجائے گا۔
تعویذات کی حقیقت۔اور اثرات۔
عملیات کی دنیا میں تعویذات کا اہم کردار ہے ۔
برصغیر میں بہت کم ایسے مقامات ملیں گے جہاں لوگوں کے بازو یا گلے یا بٹوے میںکوئی تعویذ/پڑھاہوا دھاگہ،کسی نیک بندے کی کوئی نشانی موجود نہ ہو۔
انسان تو رہے ایک طر ف گاڑیوں اور دفاتر و مکانات کی نکروں کونوں اور درازوں میں تعویذات ملیں گے۔
ان لوگوں کا خیال ہے کہ تعویذات برکت کا سبب ہیں اور آفات و بلیات کو ٹالتے ہیں۔
مصائب و ناگہانی سے محفوظ رکھتے ہیں۔
اسلام سے ان کا کتنا تعلق ہے؟
رسول اللہ ﷺسے کوئی ریاضی کے فارمولے
یا مثلث و مربع۔مسدس کے تعویذات و گراف کا ثبوت نہیں ملتا ہے۔
جب دوسری یا تیسری صدی میں یونانی علوم و فنون کے تراجم ہوئے
تو ان علوم و فنون سے آشنائی ہوئی جن سے دیگر اقوام روسناش تھیں۔
ان میں ریاضی اور اس کی مختلف اقسام بھی تھیں۔
اہل ہند بھی اس سے واقف تھے۔
بنیادی طورپر تعویذات ریاضی کی اقسام میں سے ہیں،
کچھ لوگوں نے آیات قرانیہ اور اسماء اللہ الحسنی و دیگر ادعیہ کی کے اعداد نکال کر ان کے فوائد تحریر کئے ہیں۔
اس فن پر کئی ایک کتابیں لکھی گئی ہیں۔
اردو میں کاش برنی کی کتب میںعامل کامل حصہ اول۔دوم۔ قواعد عملیات۔۔۔۔۔
وغیرہ فنی لحاظ سے بہترین کتب ہیں۔
جن میں اعداد نکالنے پھر انہیں خاص ترکیب سے خانوں میں پُر کرنے ان کے کام لینے کے طریقے لکھے گئے ہیں،جب انسان کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ تعویذات کی چال اور اقسام کس مقصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے تو تعویذات کے اثرات معلوم کرنے کے لئے ایک راستہ ہموار ہوجاتا ہے۔
جب کسی کے گھر میں کوئی تعویذ نکلتا ہے تو ہنگامہ برپاء ہوجاتا ہے۔
لوگ عاملین سے ملتے ہیں کہ ہمارے گھر میں تعویذات ملے ہیں۔
اگر عامل تعویذات کے چال (آتشی،بادی۔آبی۔خاکی)
اور اقسام(مثلث۔مربع مخمس وغیرہ کا علم رکھتا ہوگا تو آسانی سے بتاسکتا ہے
کہ یہ تعویذات کس مقصد کے لئے لکھا گیا ہے۔
کیونکہ تعویذات کی پہچان چال اور اقسام سے کی جاتی ہے۔
اس فن کے ماہرین کا کہنا ہے اگر تعویذ کو ٹھیک چال کے ساتھ سادہ گنتی سے ہی پر کردیا جائے
تو موثر ہوتا ہے۔
نقش بھرنےکےبنیادی اصول
عاملین نے نقوش کی بہت سی قسمیں بیان کی ہیں ۔
مگر بنیادی نقش تین ہی ہیں۔مثلث،مربع مخمس اس کے علاوہ
مسدس، مسبع، مثمن وغیرہ کی اقسام انہی کے اضافے سے پیدا ہوئی ہیں ۔
یہی وجہ ہےکہ مثلث،مربع مخمس تینوں نقوش کی زکوۃ ادا کرنےکےبعدکسی
اورنقش کی زکوۃاداکرنےکی ضرورت نہیں رہتی،
نقش بھرنےکےلئے مندرجہ ذیل امور کاجانناضروری ہے
۔1۔اعدا طبعی۔۔۔2۔اعدادطرح ۔۔۔3۔اعداد تقسیم۔۔4۔اعدادکسر۔۔5۔خانہ کسر
اعداد طبعی۔
۔۔ نقش کےجتنےخانے ہوں ان پر ایک بڑھادیں اور پھر نصف اعداد لےکر ایک ضلع کے خانوں سے ضرب دے اعدادطبعی حاصل ہوں گے ۔
اعدادطرح
۔۔نقش کےتمام خانوں کوشمار کریں.خانوں کی جوتعداد ہواس میں ایک کم کردیں ۔
باقی کونصف کرلیں. اور ایک ضلع کے خانوں سے ضرب دیں ۔
اعداد طرح نکل آئیں گے ۔مثلاً مثلث کے کل خانے 9 ہے. ایک کم کیاتو 8 ہوئےپھرنصف کیاتو 4رہ گئے. اسےایک ضلع کےخانوں سےضرب دیا4×3=12 ہوئے لہٰذا 12 اعدادطرح حاصل ہوہے ۔
عدد تقسیم۔
نقش کےایک ضلع میں جس قدرخانے ہوں ان کو دیکھو وہ کتنے ہیں. بس وہی عدد تقسیم ہے. مثلاً مثلث نقش کے ایک ضلع میں تین ہی خانےہیں. ۔
پس معلوم ہوگیا کہ نقش مثلث کاعددتقسیم 3پرگا. نقش مربع کے ایک ضلع میں 4 خانے ہوتے ہیں تو مربع کاعدد تقسیم 4 ہوگا اسی طریق سے تمام نقوش سمجھ لیں
۔ اعداد کسر:۔
نقش مثلث ہویا مربع یامخمس یا مسدس ہوجب کسی اسم یَا آیت کےاعداد نکالیں گے توسب سے پہلے اس میںسےاعدادطرح تفریق کریں گے پھر باقی کو عددتقسیم سے تقسیم کریں گے۔برابر تقسیم نہ ہونے کی صورت میں جو باقی بچے گا اسے عددکسر کہتے ہیں ۔
۔خانہ کسرہ۔جس خانے میں کسر ڈالی جائے وہ خانہ کسر کہلاتا ہے
خانہ کس معلوم کرنے کا آسان طریقہ۔
پہلے نقش کے ایک ضلع کے خانے دیکھو وہ کتنے ہیں۔مثلاً مثلث کےایک ضلع میں تین خانےہوتے ہیں اور مربع کے 4 ہوتےہے، اورمخمس کے 5خانے ہوتے ہے ۔اب جوکسر باقی بچےاس کوایک ضلع کےخانوں سےضرب دیں ۔
نقش کےکُل خانوں کو شمار کرکےاس میں ایک کااضافہ کر دیں اس کےبعدضرب شدہ عدداس میں سے تفریق کردیں، تفریق کے بعدجوعددآئے وہ کسر کےلئےخانہ استعمال ہوگا، مثلاً مثلث کی کسر2آرہی ہےاور یہ معلوم کرناہے کس خانے میں ڈالی جائے تو حساب یہ ہے2×3=6 چونکہ نقش کے کل خانے 9 ہیں اس میں ایک بڑھایا10ہوگئے۔ اب10میں سے ضرب شدہ، عدد منفی کئے تو 4باقی رہے ۔ پس معلوم ہوا 2کسرکےلئےچوتھاخانہ استعمال ہوگا
اصولی طور پر نقش کی 2 قسمیں ہیں۔
1۔طبعی۔۔اس میں عدد 1سےشروع ہوکرآخری خانہ تک برابر گنتی ہوتی ہے اسی کے ذریعہ ہمیں نقش کے چال (رفتار ) کا پتہ چلتا ہے
2:وضعی۔۔۔اعداد مطلوبہ کو قاعدہ کے مطابق تقسیم کرکے نقش طبعی کی رفتار سےپُر کرتے ہیں
نقش مثلث کو پر کرنے کا قاعدہ یہ ہے۔
کہ جس اسم الھی کانقش بنانا ہو اس میں سے قانون کے 12عدد منفی کریں ۔12 عدد منفی کرنے کے بعدجو اعداد باقی رہےاسے3پر تقسیم کریں گے اورخارج قسمت کو پہلے خانے میں رکھ کر چال کے اعتبار سےہر خانے میں ایک کا اضافہ کرتے چلے جائیں گے
.
۔نقش مربع کو پر کرنے کا قاعدہ یہ ہے۔۔
کہ جس اسم الھی کانقش بنانا ہو اس میں سے قانون کے 30 عدد منفی کریں ۔30 عدد منفی کرنے کے بعدجو اعداد باقی رہےاسے4پر تقسیم کریں گے اورخارج قسمت کو پہلے خانے میں رکھ کر چال کے اعتبار سےہر خانے میں ایک کا اضافہ کرتے چلے جائیں گے.اسی ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام نقوش پر کئے جائیں گے، نقوش میں سب سے اہم مرحلہ وہ یہ ہے کہ نقش کو پر کرنے کے بعد آخر میں پورے نقش کا پڑتال کرنا ہے.کہ آیاہم نے جن اعداد سے نقش پر کیا ہے. تمام اطراف سے برابر آرہا ہے یا نہیں. مثلاً نقش مثلث کی دوسطروں کے اعداد برابر ہے تیسری سطر میں عدد کم یا زیادہ آرہا ہے تو نقش غلط ہے
آشفتہ صاحب مرحوم لکھتے ہیں
:
میرا سال ہا سال کا تجربہ ہے کہ ۔نقوش۔طلسم۔وظیفے،دعائیں سو فی صد اپنا اثر رکھتے ہیں مگر اس یقین کے ساتھ کہ ان مین اثر ڈالنے والا خدائے عزو جل ہے۔دعائیں قبول فرمانے والا بھ وہی ہے تقدیر بدلنے والا بھی وہی ہے،مگر ہم اپنا کیس اچھے طرح پیش کرنے کی صلاحیت نہین رکھتے،روحانی آدمی ایک پاک باز وکیل ہوتا ہے جو جائز و ناجائز کو پرکھ کر آپنے آپ کو مطمئن کرتا ہے۔جب دیکھتا ہے کہ مدعی حق پر ہے تو خوبصورت پیرائے مین دربار خداوندی مین پیش کردیتا ہے(روحانیت کیا ہے 139)
تعویذات ریاضی کے فارمولے ہیں
تعویذات میں ریاضی کے فارمولے استعمال کئے جاتے ہیں۔جمع تقسیم ضرب۔ترتیب سے تعویذ کی خانہ پری۔مستقل مہارت کا کام ہے۔کچھ لوگ تو تعویذات کے فوائد میںاس قدر غلو کرتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔۔اس میں بھی دیگر شعوبوں کی طرح زکوٰہ کا تڑکا لگادیا گیا کہ کسی تعویذ سے بہرتین استفادہ کے لئے اس کی زکوٰۃ دینا ضروری ہے۔ورنہ فیض جاری نہ ہوگا۔زکوٰۃ میں متعلقہ تعویذ کو مخصوص تعداد میں لکھ کر پانی میں ڈالنا ہوتا ہے۔وغیرہ وغیرہ
۔ علوم و فنون میں تعویذات کا اپنا مقام ہے،اس کا ثبوت کسی بھی عملیاتی کتاب میں مل جائے گا۔اس لئے خیال رہے کہ تعویذات میں بھی قوت خیالیہ سے ہی کام لیا جاتاہے۔حضرت تھانوی لکھتے ہیں،اگر بے دھیانی یا ناگواری کی حالت میں تعویذ لکھا جائے تو اس کا اثر نہیں ہوتا یا کم ہوتا ہے(عملیات و تعویذات)
تعویذ بنانے والے اور اسے روایت کرنے والے لوگ قوت خیالیہ میں اس کا ایک فائدہ سوچتے ہیں اور آنے والوں کو بتادیتے ہیں کہ فلاں تعویذ کے یہ فوائد ہیں ۔پڑھنے والا بھی اپنے ذہن میں اس بات کا یقین کرلیتا ہے اس کی قوت بھی اس میں شامل ہوجاتی ہے،یوں لاتعداد لوگوں کی قوت خیالیہ مجتمع ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔۔ہم لکھ چکے ہیں کہ خیال ایک انرجی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتی البتہ اس کی شکلیں بدل جاتی ہیں۔
صوفی اقبال قمر لکھتے ہیں
:
ذہن ٹرانس میں اسی وقت جاتا ہے جب انسان اپنے اندر سے دوسری سب غیر متعلقہ سوچوں کو نکال دے اور اپنی توجہ صرف اپنے ایک ہی کام کی طرف لے جائے ایسا کرنے سے ہمارے شعور و لاشعورمیں پڑا پردہ اٹھ جاتا ہے اور ہمارا لاشعور ہماری مدد کو آجاتا ہے،
کچھ لوگوں میں یہ قدرتی صلاحیت ہوتی ہے ورنہ مشق سے یہ چیز پیدا ہوجاتی ہے اور بڑھتی رہتی ہے۔جب کوئی کسی کام کو گہرائی میں ڈوب کر کرتا ہے تو اس کے اثرات بہت گہرے مرتب ہوتے ہیں۔اس بات سے بحث نہیں کہ وہ کام کیا ہے؟ اور کون اسے کررہا ہے؟جب یکسوئی اور ٹرانس میں جاکر کام کیا جاتا ہے تو اس میں
تازگی و گہرائی اُمنڈنے لگتی ہے۔