dasat shifayiy nusakh siہ ajazayiy
دست شفائی نسخہ سہ اجزائی
دست شفائی،نسخہ سہ اجزائی
شفاء اليدين ، وصفة طبية من ثلاثة أجزاء
سخن ہائے گفتنی
راقم الحروف ہمیشہ متمنی رہا ہے کہ امراض کے سلسلہ میں کم سے اجزاء والے نسخہ استعمال کئے جائیں۔عمومی طورپریک جزئی۔دو جزئی ۔یا سہ اجزاء پر مشتمل نسخہ جات کے حصول ۔استعمال اور اس کے اثرات و فوائد اور اس کے مفادات ومضرات جلد سامنے آجاتے ہیں طبیب کے لئے اجزاء کے خواص اور ان کے استعمالات میں جاننے میں آسانہ رہتی ہے۔انسان کے تجربات اور طبی مہارت قلیل الاجزاء نسخہ جات کی طرف لے آتی ہے۔اناڑی اور مبتدی معالج کی کوشش ہوتی ہےکہ وہ قیمتی اور نادر الحصول اجزائی نسخہ جات کو اپنے مطب کاحصہ بنائے۔کیونکہ طبی کتب میں قیمتی اجزاء کے لمبے چوڑے فوائد لکھے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے معالجاتی مہارت بڑھتی جاتی ہے تو معالج ان جھنجھ ٹوں سے پہلو تہی کرنے لگتاہے۔وہ سہل ا لحصول قلیل الاجزاء ۔دستیاب اجزاء پر مشتمل نسخہ جات کو اپناتا ہے۔کیونکہ وہ انسانی طبیعت ،نسخہ میں شامل اجزاء اور اپنی و مریض کی کیفیت میں مہارت حاصل کرچکا ہوتا ہے۔
۔ماہرین کے تجربات اور طبی کتب قلیل الاجزاء نسخہ جات سے بھری ہوئی ہیں۔مسئلہ نسخہ جات کا نہیں ہوتا مسئلہ تو اسے بروقت استعمال کرنے کا ہوتا ہے ۔معالج کی مہارت نسخہ کے بروقت استعمال سے ہی ظاہر ہوتی ہے۔طبیب حاذق نسخوں کا محتاج نہیں ہوتا،وہ تو انسانی ضرورت پہچاننے کا تجربہ رکھتا ہے۔اسے مریض کی ضرورت اور دکھی کو راحت پہنچاناہے،اس کےلئےجو بھی صورت ممکن ہواختیا ر کرتا ہے۔
یوں سمجھئے کہ معالج ایک مسافر ہے۔۔۔۔
اس سفر سے مقصد ضرورت کو پورا کرنا ہے۔۔۔۔
۔دوا ایک وسیلہ ہے۔۔۔
مثلاََ ایک آدمی لاہور سے گوجرانوالہ جانا چاہتا ہے۔۔وہ کسی مہنگی گاڑی میں جائے یا وہ کسی مسافر بس میں یا پھر اپنی موٹر سائل پر یا ہمت ہےتو پیدل ،،مقصد لگژری گاڑی نہیں ۔مقصد سفر طے کرنا ہے وہ کسی طریقے سے کیا جائے اس سے بحث نہیں ہے۔۔۔۔
جب معالج کسی مریض کی مرض تشخیص کرتا تو غور و فکر کرتا ہے کہ جو مرض تشخیص کی گئی ہے ۔مریض کو جو تکلیف ہے اس سے کیسے راحت ملے۔مرض سے کیسے
چھٹکارا دلوایا جائے؟
وہ اپنے تجربات اورمطالعہ کی روشنی میںسوچتاہے۔ذہن لڑاتا ہے ۔ ٹٹول کر دیکھتا ہے ۔ یادادشت کی بنیاد پر کتب کا مطالعہ کرکے مشکل کا حل تلاش کرتا ہے۔۔۔۔
یہ معالج کا سر درد ہے کہ وہ مریض کو کس طریقے سے راحت پہنچا سکتا ہے؟۔۔۔
معالج کی ذمہ داری ہے کہ وہ کم خرچ بالانشین،طریقہ اختیار کرے ۔ تاکہ مریض کی جیب پر بھی زیادہ بوجھ نہ پڑے اور اپنا خرچہ بھی نکل آئے۔اور مریض مستقل گاہگ بھی بن جائے۔۔اسی لئے معالجین ایسے نسخوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں جو سہل الحصول اورقلیل الاجزاء ۔فوائد میںتیر بہدف ہوں۔
ہم نے اپنی معالجاتی زندگی۔مطالعہ کا نچوڑ۔تجربات پر مبنی کچھ سطور لکھی ہیں۔۔۔امید ہے کہ یہ عوام الناس،اور اطباء کرام کے لئے فائدہ مند اور راقم الحروف کے لئے صدقہ جاریہ ہونگے۔ْ
جب سے سعد طبیہ کالج کے طلباء نے اپنی مشکلات زندگی ۔معالجاتی پریشانیاں اور نت نئے تجربات کا تبادلہ شروع کیا ہے تو راقم الحروف نے ان کی سہولت کے لئے وقتا فوقتا تجاویز اور تحریرات کا سلسلہ شروع کیاہے ۔کیونکہ ادارے کےلئے طلبہ کے لئے معالجاتی سہولیات پیدا کرنا ادارہ کی ذمہ داری ہے۔
انسان تجربات سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔زندگی وہی نہیں ہوتی جو کتابوں میں لکھی ہوئی ہے یا جو دوسرےبتاتے ہیں۔زندگی کا ایک رخ وہ بھی جو انسان کے سامنے تجربات بھٹی میں پگھل کر میل کچیل سے جدگانی پہلو ہوتا ہے۔وہی زندگی کی حقیقت اور اصل رخ ہوتا ہے۔زندگی کے تلخ تجربات جو درس دیتے ہیں وہ کسی استاد یا کتاب سے نہیںملتا۔حقیقی زندگی ایسا سچ ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ کتاب مین کتنا بھی کچھ لکھ دیا جائے یا۔کتنی بھی کوشش کرلی جائے پھر بھی حیات کی بلند دیوار سےہلکاساروزن ہی دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ دیوار کے اس پار ایسی حقیقت منہ پھاڑے کھڑی ہوتی ہے ۔ جس کا نقشہ کسی تحریر یا تقریر سے ممکن ہی نہیں۔
ہر فن کے ماہرین اپنے اپنے تجربات قلم و قرطاس کی کے توسط سے لوگوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔لیکن ان کتب میں وہ باتیں تحریر ہوتی ہیں جو لکھنے والے کے نزدیک اہمیت رکھتی ہیں۔پڑھنے والی کی ضرورت کیا ہے اس سے شاید ہی کسی مصنف کو سروکار رہا ہو ۔ کچھ کتابیں عوام اور طلباء کے لئے لکھی جاتی ہیں ۔
اس کے باوجود ان میں مصنف ایک خاص سطح پر رہ کر باتیں کرتا یا لکھتا ہے۔اسے سمجھنے کے لئے بھی مصنف کے ذہن کے مطابق استعداد پیدا کرنی پڑتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ فنی کتب کو سمجھنے کے لئے خاص استعداد یا استاد کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔لیکن کچھ کتب عوامی زبان اور عوامی معیار کے مطابق لکھی جاتی ہیں ،جن میں فنی اصطلاحات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں اور اگر ہوں بھی تو سہل الممتنع انداز میں لکھی ہوتی ہیں جنہیں سمجھا جائے یا نہ سمجھا جائے لیکن پڑھنے والے کے ذہن مین ان کا ایک مفہوم ضرور ہوتا ہے۔اس قبیل کی کئی کتابیں موجو د ہیں۔
یہ بھی مطالعہ کریں
Tahreek Amraz aur Elaj – تحریک امراض اور علاج ازحکیم قاری محمد
یونس
کتاب کے مطالعہ میں انتخابی طورپر جس بات کا خیال رکھنا بہت ضروری رہنا چاہئے وہ یہ کہ جس موضو ع یا جس پر فن کتاب کا انتخاب کیا جارہا ہے۔آیا لکھنے والا بھی اتنا ہی اپنے فن میں عبور رکھتا ہے جنتی اہمیت اس کی لکھی ہوئی کتاب کو دی جارہی ہے۔۔۔
مقصد کتاب کے اوراق کو الٹ پلٹ کرنا نہیں ہوتا ۔بلکہ مقصد کا حصول ہوتا ہے۔کسی بھی فن اور ہنر کے لئے ماہرین کی کتابیں پڑھنا اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔آدمی کتنا ہی تجربہ حاصل کرلے بہر حال اس کے تجربات انفرادی ہوتے ہیں ۔جبکہ مطالعہ کتب سے وہ دنیا بھر کے ماہرین کے تجربات سے استفادہ کرتا ہے۔اجتماعی کوشش کتنی بھی زیادہ کیوں نہ ہو ۔اجتماعیت کے مقابلہ میں کم ہی ہوتی ہے۔
جتنے بھی بڑے لوگ گزرے ہیں ہیں ان میں یہ خاصیت پائی جاتی تھی کہ وہ ماہرین کی لکھی کتب کا مطالعہ کرتے اور اپنے ذوق کے مطابق یا ضرورت کے مطابق کتب کا انتخاب کرتے تھے۔جب وہ سیرابی اختیار کرتے تو ان کے قلم انہیں خیالات و کمالات کا عکاس ہوتے ۔لیکن مطالعہ کے ساتھ ان کے اپنے تجربات اور خاص ذوق ترتیب ہوتاجس کےمطابق اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے۔ کتابوں میں ہڈ بیتی کی صورت میں یہ امانت آنے والی نسلوں کے سپرد کرجاتے۔
نیچے دیے گئے ٹیبل سےسعد فارمیسی کےمجربات
از حکیم قاری محمد یونس شاہد میوکی کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف ای بک کے بارے میں مختصر معلومات | |
---|---|
دست شفائی نسخہ سہ اجزائی | :کتاب کا نام |
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو | :لکھاری / مصنف |
اردو | :زبان |
(ُPdf)پی ڈی ایف | :فارمیٹ |
:سائز | |
187 | :صفحات |