میو ۔جوان وقت کی دھڑکن ہے میو ۔جوان وقت کی دھڑکن ہے حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو اللہ نے جہاں ہم مسلمان پیدا کرکے اپنے انعام فرمائیو ہے ایسے ہی وانے ہم میو بنا کے احسان کرو ہے۔ ہمارے پئے احساس کمتری میںمبتلاء ہونا کو کوئی جواز نہ ہے کائی بات پے احساس کمتری کو شکار ہوئواں۔ کائیں چیز کی کمی ہے؟سب کچھ تو ہے ہمارے پئے۔ لیکن من الحیث القوم ہمارا جوانن کے پئے کوئی روٹ میپ نہ ہے کوئی بہتر لائحہ عمل موجود نہ ہے۔ وسائل ہاں ،انن نے ڈھنگ سو خرچ کرن کو ہنر کمزور ہے صلاحیت ہاں لیکن ان سو کام لینا کو میدان میسر نہ ہاں۔ تعلیم ہے لیکن واکو صحیح استعمال کو پتو نہ ہے یہ کوئی خامی نہ ہاں، بلکہ کائی بھی قوم کی ارتقائی منزل ہاں۔ یہ اتار چڑھائو قومن کی تاریخ میں چلتا رہوا ہاں۔ نوں سمجھو کہ ہم تاریخ کا دوسرا دور سو گزرراہاں پہلو دور ہجرت پاک وہند سے لیکے 1965 تک کو ہے جامیں اپنی جائیداد۔کلیمن کا کیسن میں زندگی گزری دوسرو دور 1971 سو پیچھے شروع ہووے ہے یامیں میون نے تعلیم کا مہیں دھیان دئیو کچھ بالک پڑھا انن نے سرکاری نوکری کری کچھن نے کاروبار کرا ۔کچھ نے اپنا الگ سو دھندہ کرا آج تیسرو دور ہے جامیں قوم نے تعلیمی اور وسائل کی کمی کائی حد تک پوری کرلی ہاں ۔ میون کا سکول ہاں۔ کاروبار ہاں ۔سیاسیی لوگ ہاں۔ایک پہنچان ہے سوشل میڈیا آن سو پیچھے تو رنگ ای بدل گئیو ہے اب تو میون کو میدیا ۔سوشل گروپ۔ یوٹیوب چینلز۔اخبار۔ماہنامہ۔کا مالک ہاں لکھاری ہاں۔مصنف ہاں ۔عالم و مفتی ہاں گلو کار۔انجینئیر۔سوفٹ وئیر ماہرین کی بڑی تعداد موجود ہے ابھی تو کام کو مجو آئے گو ۔ موئے ان لوگن کی قدر کو آج پتو چلے ہے جنن نے میواتی ادب و ثقافت پے کام کرو ہو جب ہم نے یہ بات مذاق لگے ہی۔ پتو سوچو کہا ہو آگے بڑھو میں نے میو جوان ایسا دیکھا ہاں جن کی آنکھن میں کچھ کر گزرن کو جذبہ ہے مخلص و لے لوث کارکن ہاں ادیب و مصنف ہاں ۔اللہ واسطے کا چوہدری نہ ہاں وے خاموشی سو کام کرراہاں۔ قوم کی خدمت کرنو ثوب کو کام ہے۔ میواتی ہماری پہچان ہے۔ ہماری جان ہے ہمارو مان ہے۔ او وقت دور نہ ہے جب میواتی ادب بھی ایسے ای پرھو جائے گو جیسے انگریزی اور اردو ۔دوسری زبان پرھی جاواہاں حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
فارغ التحصیل علماء اور عاملین کے لئےکورس
فارغ التحصیل علماء اور عاملین کے لئےکورس عاملین کے لئے خوشخبری۔ فارغ التحصیل علماء اور عاملین کے لئےکورس شعبان المعظم۔۔رمضان المبارک۔۔۔۔ 1444ھ۔۔۔فروری — مارچ2023….. ئاپنے فارغ اوقات سے فائدہ اٹھائے۔ئپرُ فتن دور میں اپنی اور گھر والوں کی حفاظت کے مجربات سے استفادہ کیجئے۔ئ عملیات سیکھئے ۔ خود فائدہ اٹھائے۔ئدنیا کو فائدہ پہنچائے۔یک ماہی کورس میں داخلہ لیکر عملیاتی رازوں سے واقفیت پیدا کیجئے۔ ئماہر اساتذہ کی زیر نگرانی عملیات میں مہارت پیدا کیجئے۔ئایک ماہ میں انمول اعمال و ذخیرہ اعمال کے وارث نئے۔ ئآنے والی نسلوں کے لئےتیر بہدف پہنچانے کا ذریعہ بنئے۔ خصوصیات۔ ر(1)PDFفارمیٹ میں مواد کی فراہمی۔ر(2)ریکاڈ شدہ ویڈیوز۔ر(3)زوم پر کلاسیں۔۔ر(4)ہمہ وقت رہنمائی کے لئے وٹس ایپ گروپ۔ر(5)عملیات کی خصوصی اجازت ۔ مضامین برائے کورس۔ (1)زموکلات(2)زتعویذات(3)زتسخیرات،عزائم(4)زعلم الاعداد (5)زطلسمات (6) زتکسیرات (7)زتشخیصات روحانی و جسمانی (8)زاعمال میںزکوٰۃ کی اہمیت و افادیت(9)ز مجربات استخارہ(10)زحالومہ جات معلومات مخفیہ (11)زہواتف ،کربان(12)زرجال الغیب (13)ز حاضرا ت (14)زاعمال جنات،آسیب و جنات کی شناخت و علاج(15)زاکابرین امت سے منتقل ہونے والے عملیات (16)زاعمال خزائن و دفائن(17)زاعمال حب و بغض(18)زجادو و جنات کے توڑ کے دیسی نسخہ جات(19)زرجعت سے حفاظت کے مخفی اعمال(20)زطالع اوقات۔زائچہ سازی (21)زعلم ساعات یعنی اوقات عملیات (22)ز اعمال بندش(23)زاعمال بندش ۔کشادگی رزق ورشتہ(24)زمراقبہ جات (25)زاسمائے برہتیہ کے خصوصی اعمال (26) زحصار کے بے خطاء اعمال(27)زاعمال سفلی کی تشخیص و توڑ(28) زاعمال حاضرات (29)زنظر بد حسد کاتوڑ (30)ز اعمال مخفیہ۔ سعد طبیہ کالج (شعبہ روحانیات)کاہنہ نو پاکستان۔ عملیات کورس کا طریقہ کار یہ اپنی نوعیت کا منفرد کورس ہے۔جس میں مستند اور اساتذہ کرام سے سیکھا ہوا فن سکھایا جائے گا عاملین طلباء کے لئے اعمال کی عملی تربیت اور اجازت اعمال کا خصوصی اہتمام کیا جائے گا طریقہ تعلیم تمام مواد کتب کی پی ڈی ایف(PDF) بھیجی جائیں۔ مکمل کورس ویڈیوز کی شکل موجود ہوگا جس کا لنک بھیجا جائے گا زوم(ZOOM)پر کلاسز ہونگی مزید رہنمائی اور ہمہ وقت سوالات کے جوابات کے لئے وٹس ایپ(whatsapp)گروپ موجود ہے تعارفی ہدیہ پہلا کورس 3000 مدت کورس ایک ماہ۔۔۔۔۔۔وقت بعد نماز عشاء۔۔
Operational Course for Executives. Lessons. 1
Operational Course for Executives. Lessons. 1 عملیاتی کورس برائے عاملین۔سبق۔1 Operational Course for Executives. Lessons. 1 الدورة العملية للمدراء. الدروس .1 حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ،/علوم مخفیہ روحانی کورس حصہ اول۔پہلاسبق عملیات ہر باہمت انسان کرسکتا ہے اس لئے سوائے قوت ارادی کے کسی دوسرے چیز کی ضرورت نہیں ہوتی یہ انسانی طاقت کے اظہار کا بہترین طریقہ ہے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے ہمیں مسلمان پیدا کیا اور اشیاء کو پرکھنے اور ان سے کام لینے کا ہنر بخشا۔انسانی حواس ایک دائرہ میں رہ کر کام کرتے ہیں۔اگر ان کی استعداد کو کسی طریقے سے بڑھا دیا جائے۔تو ان کی کارکردگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ انسانی زندگی میں بہت سی اشیاء بے ترتیبی کا شکار ہوکر اپنی اہمیت ختم کردیتی ہیں۔ایک درخت جسے کاٹ دیا گیا ہے۔اس کی بڑھوتری اور سایہ کا فیص بند ہوچکا ہے لیکن عقل مند انسان اس سے اپنی دیگر ضروریات پوری کرسکتا ہے۔اس کا دروازے بنائے۔مکان کی چھت ڈالے۔دشمنوں اور موذیات سے حفاظت کے لئے لاٹھی بنائے۔اس سے آگ جلائے۔کھانا پکائے یا پھر سخت ٹھند میں اپنی سردی دور کرے۔اپنی زندگی بچائے۔ یہی مثال انسانی صلاحیتوں کی ہے۔ ان سے بہت سے کام لئے جاسکتے۔انہیں اپنی مرضی کے مطابق کام میں لایا جاسکتا ہے۔جیسے اعضائے ظاہری سے ہم حتی الامکان کوئی بھی کام کرسکتے ہیں،ایسے ہی باطنی صلاحیتوں سے ان گنت کام لئے جاسکتے ہیں۔یہ کام عجوبہ یا انوکھے نہین نہ ہی یہ کوئی کرامات یا محیر لعقول اموار ہیں۔لیکن یہ عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں انہیں مشکل سمجھا جاتا ہے،اس لئے ان کے بارہ میں بہت سی لایعنی اور غیر حقیقی باتیں مشہور ہوچکی ہیں۔ جس طرح ہم دیگر علوم و فنون کو سیکھ کر ان سے کام لیتے ہیں اسی طرح جس طرح دیگر فنون سے کام لیتے ہیں۔ ہم روز مرہ کے عملیاتی کورس کو مختصرا لکھ رہے ہیں۔یہ ضروری نہیں ہے لیکن خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے اور ان سے کام لینے کا بہترین طریقہ ہے۔ بعد نماز عشاء یا رات کو جب اردکرد جب خاموشی ہوجائے تو یہ عمل کریں جیسے بھی مناسب ہو با ادب ہوکر بیٹھیں۔ [۱]درود شریف …اللھم صل وسلم وبارک علی سیدنا ومولانا محمد النبی الامی وعلی آلہ واصحابہ دائماََابداََ[۱۱بار] [۲] آیۃ نور …اللہ نور السموٰۃ والارض[۷۰] بار بنیادی طورپر طاقت کے اظہار کے لئے لفظ نور سے بہتر کوئی تشریح نہیں ہوسکتی۔۔ مادی اشیاء کا تجزیہ کرنے پر جو چیز آخری محسوس ہوتی ہے وہ نور ہوتا ہے۔ یہ اتنی بھاری طاقت ہوتی جہاں سب طاقتیں ختم ہوجاتی ہے۔ [۳] اس کے بعد آنکھیں بند کرلیں اور تصور کریں کہ ایک وجودتو آپ کا مادی ہے یعنی گوشت پوست کا مگر ایک وجود اسکے اندر بھی ہے اسے ایثری وجود/روحانی وجود بھی کہتے ہیں ،جیسے آپ کے مادی وجود کے اعضا ہیں اسی طرح اس جود کے بھی اعضا ہیں مگر یہ قوت و وسعت میں مادی وجود سے کہیں زیادہ واعلی ہیں [بہت سے لوگ اسے ہمزاد سمجھتے یا کہتے ہیں مگر یہ بات درست نہیں ہے ،جسم مثالی در اصل وہ جسم ہے جو ہمارے وجود میں فطرت کی جانب سے ایک سوفٹ وئیرکی صورت میں رکھ دیا گیا ہے یہ ایک معین وقت تک ہمارے وجود میں رہتا ہے مرنے کے ساتھ ہی یہ ہمارے مادی جسم سے ناطہ توڑ کر فضائوں میں چلا جاتا ہے اور ہم مر جاتے ہیں [خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا ] میں کہ رہا تھا اب آپ آنکھیں بند کرلیںاور اس مثالی وجود کو بغور دیکھیں وہ تمام اعضا جو مادی وجود میں ہیں اس میں بھی موجود ہیں دوہاتھ دوپائوں سر،چہرہ،سینہ،ٹانگیں وغیرہ وہی سب کچھ جو مادی وجود میں ہوا کرتا ہے ۔ [۴] جب آپ تمام اجزاء محسوس کرنے لگیں تو ابتداََتو یہ ایک احساس ہی ہوگا مشق کرنے سے آہستہ آہستہ آپ کو یہ مکمل طور پر دکھائی دینے لگے گا، جب یہ ہوجائے تو اپنے ہاتھ اپنے جسم مثالی کی بھو ئوں تک لے جائیں ، پھر اپنے انگوٹھے اوراپنی انگلیوں کو کن پٹیوں سے بھوئوں تک دونوں طرف رکھ کر سر کے اوپری حصے کو اُٹھائیں۔ یہ کن ٹوپ کی طرح اُٹھ جایئگا ،سر کے پیچھے گدی کے پاس ایک قبضہ لگا ہوا ہے ہولے ہولے سر کو پیچھے لے جاکر قبضے پر ٹکادیں اور دیکھیں آپ کا دماغ یعنی بھیجا نچلے سر کی گہرائی میں آٹے کے پیڑے کی طرح یا چلتے ہوئے پنکھے کے پروں کی طرح ہوگا ۔ [۵] اسی لمحے دماغ کو غور سے دیکھیں تو وہ ذیل کے سیکچ کی طرح نظر آئیگا جو سات حصوں میں بٹا ہوگا۔ دماغ کے ان سات حصوں کو اپنی مثالی آنکھوں سے بغور دیکھیں ان سات یا بعض حصوں میں سیاہی بھری دکھائی دیگی اور کچھ حصے دھندلے دکھائی دینگے،جب یہ دکھائی دینے لگے تو تو اگلا قدم یہ اٹھائیں ۔ [۶]اسی حالت میں رہتے ہوئے تصور کریں زمین کی تیہ یا پاتا ل میں ایک انجن لگا ہواہے جس کی ساخت کلمہ طیبہ جیسی ہے تقریباََ ایسا ہے پہلے لفظ لا میں ایک بٹن لگا ہوا ہے اسم ذات اللہ کی ہ سے ایک پائپ نکل کر آپ کے ہاتھ میں آگیا ہے ۔لا۔ میں لگا ہوا بٹن دبادیں انجن تیزی سے ہوا اپنی طرف کھینچنا شروع کردیگا ۔ پائپ کا ایک سرا تمام حصوں میں لگائیں چونکہ انجن ہوا کوا پنی طرف کھینچ رہا ہے لہذا انجن کی ہوا سے تمام سیاہی انجن میں سے ہوتی ہوئی پاتال میں چلی جایئگ ی یکے بعد دیگرے تمام خانوںسیاہی صاف ہوکر آپ کے ذہن کے تمام حصے چمک ا ٹھیں گے صفائی کے دوران دل ہی دل میں کلمہ طیبہ کا ورد جاری رکھیں چند سیکنڈ بعد جب یہ تمام خانے چمکنے لگیں تو اپنے مثالی جسم کے ہاتھوں سے سے سر کے دونوں حصوں کو ملادیں یعنی جہاں سے اُٹھایا تھا کن ٹوپ کو وہیں رکھ دیں انگلی سے سطح ہموار کر دیں تاکہ سر کے کھلنے کی جگہ میں کوئی دراڑ نہ رہ جائے ۔ [۷]آنکھیں کھول کر ستر [70]بار استغفار پڑھیں۔ [۸]پھر آنکھیں بند کرلیںاور اپنے سر کے اوپر دیکھیںیہ سات حصے جو نظر آئے تھے
میوبوڑھا ،میرا سر کا تاج۔ میو۔جوَان میری اُمیدہاں
میوبوڑھا ،میرا سر کا تاج۔ میو۔جوَان میری اُمیدہاں میوبوڑھا میرا سر کا تاج۔ میو۔جوان میری امیدہاں یامیں شک نہ ہے کہ ہرکوئی بڑان کا تجربان سو سیکھے اوراُن کی محنت سو آگے بڑھے ہے۔ بڑان کاتجربہ آن والی نسل کے مارے ضروری رہوا ہاں تجربہ بنیادی طور پے زندگی بچانا اور آگے بڑھنا کو آسان طریقہ کو نام ہے جا چیز انسان محنت و مشقت سو سیکھے ہے ۔ تجربہ کار وائے ایک اشارہ سو سمجھا دیوے ہے۔ کچھ لوگن نے شکوہ رہوے ہے کہ نئی پود پرانی باتن چھوڑ تی جاری ہے۔ یائی بات اے میں تم سو کہوں ۔تم نے بُرو لگے گو۔ تم بھی تو بہت سی باتن نے چھوڑ چکا ہو پہلے۔ بنا گوڈے ہا۔ہل چلاوے ہا۔ پھلا گھاوے ہا۔ڈنگرن کو ہاتھ سو پٹھا کوٹے ہا تم نے وے ساری چیز چھوڑ دی ہاں۔ اگر میری قوم کا میو جوان اِن باتن کا مہیں توجہ نہ کراہاں توماتھاپے توڑی کیوں پاڑو ہو؟ اگر کوئی آگے بڑھے ہے۔اور میو رہوے ہے تو اعتراض کی بات کہا ہے؟تم نے خوش ہونو چاہے جیسے تم بوڑھان نے نیا طور طریقہ سیکھ لیا ہاں ایسے ای نئی پود نے اپنو طرز زندگی بدل لئیو ہے۔ میو بوڑھا اے۔میو جوان کی سوچ کی قدر کرنی چاہے کیونکہ نئی تعلیم نے واکے سامنے بہت ساراستہ کھول دیا ہاں تم کو ای حق نہ پہنچے ہے کہ تم ان راستان نے بند کرو۔ اگر نئی پود تہاو احترام کرے ہے تو تم نے خوش ہونو چاہے تہاری ذمہ داری ہے کہ بچپن سوُ اولاد کو اپناتمدن اے سکھائو جاسو بڑا ہوکےتم نے کہنو نہ پڑے۔پشتانو نہ پڑے۔ میو قوم کا بوڑھا قابل احترام اور میو قوم کا جوان میری امید ہاں میں اِن سو بہت ساری امید راکھو ہوں جو لوگ انسو مایوس ہاں ۔بنیادی طورپے ان کے آگے کوئی راستہ اور کوئی منزل نہ ہے۔ میو جوان میں بہت پوٹنشل ہے۔ بہت جذبہ ہے۔اور کچھ کر گزرن کی امید ہے اگر کوئی کمزوری ہے تو رہبر و رہنما کی ہے۔ موئے امید ہے اگر لیڈر لوگ اُنن نے ایسے ای غلط رستان پے چلاتا رہا۔ تو ایک دن میو جوان اپنو راستہ خود بنائے گو آگے بڑھے گو۔پھر جو احترام موجود ہے ،باقی نہ رہے گو کیونکہ آج کو جوان جب اپنا بل بوتا پے آگے بڑھے گو تو لیڈرن کو احترام کائیں کو کرے گو؟ احترام تو شکریہ۔یا پھر احسان کو بدلہ رہوے ہے جب ہم اِن سو یا موقع اے بھی چھین لیں گا تو میو جوانن سو کونسا احترام کی امید راکھ سکاہاں؟ یاسو پہلے کہ دیر ہوجائے۔ میرو میو جوان اپنا فیصلہ خود کرن لگے واسو پہلے یا کا جوش و جذبہ سو فائدہ اٹھا لئیو ہماری قوم کی بہت سی توانائی صرف یائی مارے ضائع ہوری ہے کہ کوئی یا توانائی سو فائدہ اٹھانا کی صلاحیت نہ راکھے ہے۔ میو بوڑھان سو اتنو کہونگو۔ اگر تم نے اپنی تازہ دم نسل سو کام نہ لئیو تو میو جوان آگے بڑھ کے تم سو چوہدر اے بھی چھینے گو اور اپنا فٰصلان نے بھی کرے گو۔ ابھی موقع ہے بڑا بوڑھا۔نوجوان نسل کے مارے کچھ سوچاں انن کو آگے بڑھن کا موقع دیا ں۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔
ہماری غذائیں Our foods أطعمتنا
ہماری غذائیں Our foods أطعمتنا ہماری غذائیں Our foods أطعمتنا شکیل احمد ۔ دیباچه غذا زندگی کے لیے ضروری ہے بلکہ انسان کی صحت ، قوت اور نشوو نما کا انحصار بھی غذا پر ہے ۔ یہ ہمیں بیماریوں سے بچانے میں معاون ہوتی ہے۔ دنیا میں مختلف قسم کی غذائیں دستیاب ہیں، ان کی خصوصیات اور فوائد جدا گانہ ہیں۔ آج کے دور میں سائنسی تحقیقات کی بدولت غذا کے بارے میں بہت سی معلومات فراہم ہو گئی ہیں۔ ہم ان معلومات سے استفادہ کر کے غذاؤں کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ غذا کے انتخاب میں لا پروائی برتنے اور متوازن غذا نہ استعمال کرنے کے نتیجہ میں لوگ سو – تغذیہ اور نقص تغذیہ کا شکار ہوتے ہیں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ معاشی حالات ، سماجی بندشیں کچھ اس طرح کی ہوتی ہیں کہ درست غذا انسان کو نہیں مل پاتی ہے۔ غذا کے موضوع پر دیگر زبانوں میں بہت سی کتابیں موجود ہیں۔ اردو میں اس موضوع پر ابھی کم کرتا ہیں دستیاب ہیں۔ اس لیے اردو زبان میں ایک ایسی کتاب جو اس سلسلے میں مفید معلومات بہم پہونچا سکے وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ پیش نظر کتاب اسی ضرورت کو پورا کرنے کی ایک ادنی کا رش ہے۔ اس کتاب میں غذا سے متعلق تکنیکی جانکاری کو عام فہم اور دلچسپ بنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے تاکہ ایک عام قاری بھی اسے آسانی سے سمجھ سکے اور فائدہ حاصل کر سکے ۔ اگر چہ یہ موضوع اسقدر وسیع ہے کہ اس کتاب میں اس کے تمام پہلوؤں کو تفصیلی طور پر پیش کرنا ممکن نہیں ہے تاہم یہ کوشش کی گئی ہے کہ اس موضوع کے تمام پہلوؤں کو اجمالاً پیش کیا جائے۔ میں ان تمام ساتھیوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی تکمیل کے مختلف مراحل میں میری مدد کی ہیں ترقی اردو بورڈارٹی کا انتہائی مشکور ہوں جس نے مجھے اس کتاب کو لکھنے کا موقع دیا ۔ اس کتاب پر ماہرین اور قارئین کی لرائے کا خیر مقدم کرونگا۔ شکیل احمد ڈائون لوڈ لنج
میو قوم کاجوانن کی منت سماجت
میو قوم کاجوانن کی منت سماجت ماضی سو باہر آئو،کچھ کرگزراں۔ میو قوم کاجوانن کی منت سماجت۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میں جوانن کوبہت بڑ وکیل ہوں میں آپ کو کوئی الزام نہ دیئو ہوں، جو آپ کو دییو جاوے ہے وائی کام اے پورا کرنا کی توقع کرسکاہاں یعنی جو آپ کو دئیو نہ گیو ہوئے واکو مطالبہ کیسے کرسکاہاں؟/غلطی ہماری ہے ۔ آپ میرا مسقبل ہواورمیں آپ کو ماضی ہوں۔ماضی اے رد مت کرو بلکہ پرکھو۔ جانچو۔اگر کچھ اچھو ہے تو آگے لیکے بڑھ جائو اور پھر ماضی اے مت دوہرائو۔ ہم آج تک ماضی اے دُوہرانا کی فکر میں ہاں۔وقت گزرے ضرور ہے لیکن پلٹ کے نہ آوے ہے۔ہم نے وقت کو مسافر ہونو چاہے، پلٹنو نہ ہے۔ گستاخی اور بدتہذیبی کا مہیں/یا وقت ایک بہت الجھن کی صورت حال موجود ہے۔ اپنا من میںجو اپنا آپ اے بڑو پرہیز گاراور نیک کہواہاں ان کی گفتگو سنو تو خیال بے آبرو ہووے ہے ۔اور وے جو خوداے ہمارا سربراہ کہوا ہاں ان کی گفتگو سنو تو زبان بے آبرو ہووےہے۔ جو خیال و زبان کی آبرو نہ رکھ سکا وے ایک قومی ریاست کی آبرو کیسے رکھ پانگا۔ وقت اور زمانہ کو فاصلہ فاصلہ نہ رہوے ہے۔ فاصلہ وا وقت ہے جب ہم ایک دوسرا کے قریب آکے دردمند ہونا شروع نہ ہوواں اور درد مندی کونسی بات کو نام ہے کہ زندگی اور زندہ رہن والان کی قدر کرسکاں۔ احترام کرسکاں۔ ہمارے ہاں احترام کو مطلب ای ہے کہ جیسے ہم خود نیچو ہوراہاں، عاجزی سو بڑی کوئی خوبی نہ ہے اور عاجزی سو بہتر کوئی چیز نہ ہے میں تم سو توقع کرسکو ہوں جو ای دردمندی کی دولت ہے آپ یائے تہذیب سو باوضو راکھو گا۔ای بہت ضروری ہے ۔ ہم سمجھا ہاں صرف جسمن کی عصمت رہوے ہے۔نیت ۔ فکر اور عمل کی عصمت ان سو کہیں زیادہ قوی تر اور اہم تر ہے۔ یامارے کہ جب زندگی بسر کراہاں تو۔زندگی کی عصمت کو نام اخلاق ہے۔ میرو جی چاہوے ہے کہ آپ میں سو کوئی بھی بے عصمت زندگی نہ گزارے۔ یا معاشرہ میں تعلیم اور اخلاقی قدرن نےپس پشت کرن کےمارے استعمال کری جاوے ہے ۔ دراصل جو تعلیمی ادارہ ہاں ان کا مرثیہ پڑھن کو جی کرے ہے بلکہ ماتم کرن کو دل کرے ہے کہ ایک خطب الحواس نسل لاکرےہمارے سامنے کھڑی کرراہاں ، جا سو پیسہ تو بے حد وصول کراہاں،ماں باپ کی زندگین نے ان پیسان کی خاطر نچوڑی جاری ہاں۔ اور یاکا بدلہ میں ان کو کہا مل رو ہے؟ تعلیم کو کام ای ہے۔ درس گاہ کی خوبی ای ہے کہ اُو کھلی آنکھن سو خواب دیکھنو سکھائے، جو کھلی آنکھن سو خواب نہ دیکھائے میرو خیال ہے ان کو تعبیر بھی کہیں سو نہ ملے گی۔ کدی معاشرہ کی خوبی ای ہی کہ قانون کی عملداری ہی اور اخلاق کو قانون ہو۔ اخلاق کی رعایت ہووا ںلیکن زور آوری کا ماحول میں قانون صرف جنگل کا رہ جاوے ہے۔ اور جب بھی کوئی اپنا آپ اے حرف آخر سمجھن لگے ہے تو تعلیم تہذیب علم اور اخلاق وائی جگہ مرجاواہاں۔ ہم میں سو کوئی حرف آخر نہ ہے ۔ہم میں سو ہر کوئی ایک حرف ہے جو دوسرا سو مل کے لفظ بن سکے ہے آپ تبدیل کرنو چاہو تو آج کل تبدیلی کو بہت چرچا ہے/ اگر یا انتظار میں رہا کہ زمانہ بدلے گو سب بدل جانگا تو ہم بھی بدل جانگا۔ میرو خیال ای ہے بجائے غم و غصہ سو نڈھال ہون کے مثبت کوشش کرنو شروع کردیواں۔ اپنی نئے پود کو کچھ دیواں جاسو ان سو کچھ مطالبہ کرسکاں موئے پتو ہے میو قوم میں خوشحالی کم ہی۔تنگی ترشی کا دن دیکھا ہا۔ بھوک اور غربت دیکھی ہی۔لیکن آج کی نسل اِن باتن سو بے خبر ہے۔ تم اپنی بھوک اور غربت کی کہانین نے ان کو مت سنائو۔ جیسا لاڈ سو یہ پاکا ہاں انن نے ایسا اچھا انداز سو ای سمجھائو۔ بتائو کہ بیٹا ہم لوگ مشکل حالات سو اللہ نے نکالا ہاں۔ ہم نے تنگی میں اپنی تہذیب و تمدن نہ چھوڑو۔اپنی بولی نہ بدلی۔ میو کہوان پے فخر کرے ہے۔ہم جنگ جو او ر خق پرست اور خود پرست ہا۔ ہماری گن کیں آج بھی98 فیصد اصلی خون دوڑ رو ہے۔ ای سارو نظام قدرت نے یامارے کرو ہے اُو تم سو کوئی بہتر کام لینو چاہے۔ جو ہم نہ کرسکا اُن کامن نے تم کروگا۔اپنی برادری اور تہذیب کی خدمت کروگا۔ بیٹا ہم میں کونسی خامی ہے جو دوسران میں نہ ہوئے۔یا دوسری قومن میں کونسی خوبی ہے جو ہمن میں موجود نہ ہے۔ہمارے بھینتر بہت سی ایسی خوبی ہاں جو دوسری قومن میں موجود نہ ہاں۔ قدرت تم سو کوئی کام لینو چاہے۔اگر تم نہ کروگا تو قدرت تہاری محتاج نہ ہے۔ میو قوم کی خدمت کے مارے بہت سا لوگ میدان میں آجانگا۔ ہمار ازمانہ مین سوٹا/لٹھ کی لڑائی ہی ۔ہم نے کائی میدان میں ہار نہ مانی۔ آج جدید ٹیکنالوجی کی لڑائی ہے۔تہارے پئے وسیع میدان ہے جو ہمارے پئے نہ ہو۔ بلکہ ہماری سوچ میں بھی نہ۔اگر تم نے اب بھی قوم کے مارے کام نہ کرو،تو کام تو ہوجائے گو لیکن قوم تم نے بھول جائے گی۔ جب تم ای قوم کے مارے کچھ نہ کروگا تو قوم اے کہا پڑی جو تم نے یاد راکھے؟۔۔ ۔تم قوم کے مارے کچھ کروگا تو قوم تم نے سر ماتھا پے بٹھائے گی۔ ۔اپنا کامن نے تو ہر کوئی کرے ہے۔بیٹا مزہ تو ای ہے کہ قوم کے مارے کچھ کر دکھائو۔ ۔۔قوم اور برادری تو کاگن نے بھی پیاری رہوے ہے۔ہم تو پھر بھی انسان ہاں۔ ۔/آخر میں اقبال عظیم آبادی کو شعرسن لئیو بدلناہے اگر تو رندوں سے کہو اپنا چلن بدلیں فقط ساقی بدل جانے سے میخانہ نہ بدلے گا
Rays of Islam in the Westاسلام کی کرنیں دیارِ مغرب میں
Rays of Islam in the West اسلام کی کرنیں دیارِ مغرب میں أشعة الإسلام في الغرب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Rays of Islam in the West أشعة الإسلام في الغرب اسلام کی کرنیں دیارِ مغرب میں شائع ہونے والی تازہ کتاب کا نام ہے۔ اس عنوان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام آج مغرب کا اہم ترین موضوع ہے۔ اس بات کی تائید اعداد و شمار سے بھی کی جاسکتی ہے، یہ اعداد و شمار ہماری ان معروضات کی تائید کرتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجئے: جید ایک اطالوی صحافی نے ریانا فلاسی نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ ۲۰ برسوں کے اندر اندر ۳۰ تا ۴۰ فیصد تک نصف درجن یورپی شہری مسلمان ہو جائیں گے۔ اس نے کہا کہ اس کی اصلی وجہ یورپ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ (ڈان۔کراچی – ۱۳/ مارچ ۲۰۰۵) ایک خبر کے مطابق آج یورپی یونین کے اہم رکن فرانس میں مسلمانوں کی آبادی ۵۰لا کھا اور جرمنی میں ۳۵ لاکھ ہے۔ آئندہ چند عشروں میں یورپ کے کئی بڑے شہروں کا مسلم اکثریتی شہر بنے کا امکان ہے۔ (نوائے وقت ۔ کراچی ۔ ۱۹ جون ۲۰۰۵ء) بلاد یورپ میں اشاعت اسلام کی رفتار اگر یہی رہی تو آئندہ پچیس برسوں میں مسلمانوں کی تعداد وہاں 4 کروڑ سے تجاوز کر جائے گی (واضح رہے کہ اکثر یورپی ممالک کی آبادی یہ مشکل ۵ تا ۶ کروڑ ہے ۔ یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کی مخالفت کی ایک بڑی وجہ اس کی مسلم آبادی ہے جس کے باعث یورپی یونین کی مسلم آبادی عیسائی آبادی سے بڑھ جائےگی۔ (جنگ کراچی ۔ ۶ فروری ۲۰۰۷ء) بر طانوی پالیسی ساز ادارے کریچن ریسرچ کے مطابق اگلے پندرہ برس (یعنی ۲۰۲۰ پیک ) میں برطانیہ کے ہم ہزار چرچ بند ہو جائیں گے۔ (نوائے وقت کراچی ۔ ۱۵ مارچ Groo یہ پہلوتھا، یہ تو اس ساری صورت حال کا ایک پہلو تھا، اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی و بنیادی پر تقی کا جو عالی پرپیگنڈہ ہو رہا ہے، اس سے بھی خیر کا ایک پہلو بر آمد ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں مغرب میں اسلام کو سمجھنے اور پھر قبول کرنے کا رجحان بڑھا ہے۔ اس وقت جاپان سمیت امریکہ اور یورپ میں مقامی عیسائی آبادی کے قبول اسلام کے واقعات بڑی تیز سے رونما ہورہے ہیں لنک
کلیات تحقیقات صابر ملتانی -اول- جلد دوم
کلیات تحقیقات صابر ملتانی -اول- جلد دوم کلیات تحقیقات صابر ملتانی حصہ اول کلیات تحقیقات صابر ملتانی حصہ دوم
Ubqari Rohani Jantri 2023 PDF Free Download & Read Online عبقری جنتری برائے سال2023
Ubqari Rohani Jantri 2023 PDF Free Download & Read Online عبقری جنتری برائے سال2023 ڈائون لوڈ النک
Diagnosing diseases with PH
Diagnosing diseases with PH PHسے امراض کی تشخیص کرنا تشخيص الأمراض مع PH حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو PHپیپرز کی مدد سے مختلف محلولات کیPHمعلوم کرنا۔ ایک معالج کو اگر انسانی جسم میں موجود مختلف اعضاء اور مائع کی PHمعمول ہوگی تو اس کے لئے تشخیص مرض میں بہت آسانی پیدا ہوجائے گی مریض کے اندر تعدیلی کیفیا ت پیدا کرکے شفائی اثرات پیدا کرنے میں آسانی رہے گی۔ اگر کسی ٹھوس کیمیکلز کی PHمعلوم کرنی ہوتو اس کا محلول تیار کریں۔ عام طور پر لیموں کا رس۔ نمک کا محلول ۔ صابن کا محلول ۔ تیل سرسوں کا۔ دھوبی سوڈا۔ دہی سوڈیم بائی کاربونیٹ ۔ ہائڈروکلورک ایسڈ وغیرہ کا تجزیہ تجربات میں اضافے کا سبب بنے گا ۔ 1۔ PHپیپر کو محلول میں بھگوکر ایک منٹ بعدPHسکیل سے مقابلہ کریں (2)جو بھی رنگ ہوگا وہی اس محلول کی PH ہوگی ۔ (3)محلول ہمیشہ کشیدہ پانی سے تیار کریں۔ (4)PHپیپر ہر بار نیا کام میں لائیں ۔ (5) جس محلول کا ٹسیٹ کریں اس پر نام ضرور لکھیں (6) ۔PHپیپر کو گیلا نہیں ہونا چاہئے (7) ۔ PHپیپر کو انگلی نہ لگائیں اس کے لئے چمٹی استعمال کریں۔ (8)موازنہ کرنے میں رنگوں کو بغور میچ کریں۔ (9)ایسا بھی ہوتا ہے جلد بازی میں ٹیسٹ کیا گیا (10) PHاس لئے غلط نتائج ظاہر کرتا ہے کہ اسے وقت سے پہلے کلر گراف سے چیک کرلیا جاتا ہے۔ …………………. PHکیا ہے؟ بنیادی طور پر PHکی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ کسی تیزابی محلول میں ہائڈروجن آئنوں کے ارتکازی کا منفی لاگرتھم (PH)کہلاتا ہے ۔۔ صاف شیدہ پانی کی (PH)تعدیلی یعنی7ہوتی ہے کیونکہ جس محلول کی PH سات ہو وہ تعدیلی کہلاتا ہے۔ (PH)سے اساس اور تیزاب اور نمک کی کیفیات معلوم کی جاتی ہیں جس محلول کی (PH)سات سے کم ہو وہ تیزابی کہلاتا ہے اوروہ محلول جس کی (PH)ات سے زیادہ ہو اساسی محلول کہلاتا ہے۔ تیزابی کی مثلا کاپر سلفیٹ تیزابی ہے دہی میں لیکٹک ایسڈ پایا جاتا ہے۔ لیموں میں سٹرک ایسڈاور انگور میںٹاٹرک ایسڈ پایا جاتا ہے ۔انسانی معدہ میں نمک کا تیزاب پایا جاتا ہے۔ انسانی خون کی (PH)7.4ہوتی ہے۔ سوڈیم کلورائڈ تعدیلی خاصیت کا حامل ہے۔ ۔ PH اورPOH کا مجموعہ14ہوتا ہے۔ جو اسا س پانی میں حل ہوجائے اسے الکلی کہتے ہیں۔ ہر الکلی اساس ہوتا ہے جب کہ ہر اساس الکلی نہیں ہوتا مثلاََNaOHایک الکلی ہے لیکن 2(OH) CO الکلی نہیں ہے کیونکہ یہ پانی میں ناحل پزیر ہے۔ یاد رکھئے اساس وہ محلول ہے جو ہائڈروآکسل مہیا کرے مثلاََNaOH ،NH4 OHوغیرہ۔۔اسی طرح جو آبی محلول میں ہائڈروجن آئن(H+)مہیا کرے تیزاب کہلاتی ہے مثلاََH2SO4 وغیرہ۔کھانوں میں بالخصوص گوشت میں جب ہم ایسی اشیاء ڈالتے ہیں جو اس کی PH تبدیل کردے جیسے گوشت میںمیٹھا سوڈا ۔کچری۔خرربوزے کے چھلکے ڈالتے ہیں تو وہ جلد گل جاتا ہے ان کے ڈالنے سے PH میں تبدیلی ہوجاتی ہے اساسیت بڑھ جاتی ہے یا پھرتیزابیت بڑھ جاتی ہے . زمین(مٹی) کی الکلی نہیں ہےPH معلوم کرنا۔ زمیندار لوگ کھیتوں کی مٹی مختلف لبارٹریز میں چیک کرانے کے لئے بھیجتے ہیں اگر وہ گھر پر بھی اس کا تجزیہ کریں تو لبارٹری جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ طریقہ کار یہ ہے کہ جس مٹی کو چیک کرنا ہو کہ یہ کس خاصیت کی مٹی ہے تاکہ اسی انداز میں بجائی کی جائے اور پیداروار میں بہتری لائی جاسکے۔آپ جس مٹی کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں اسے کشیدہ (ابلے ہوئے ) پانی میں حل کریں۔ اگر زیادہ مقامات کی مٹی کی الکلی نہیں ہے PHمعلوم کرنا ہوتو انہیں الگ الگ بھگوکر محلو ل تیار کریں پھر اس محلول میں PHپیپر ڈال کر PHکلر چارٹ کی مدد سے اساسی یا تیزابی کیفیت معلوم کرلیں۔اگرPH 7ہوگی تو مٹی کی خاصیت تعد یلی ہے اور اگر PHسات سے کم ہے تو تیزابی اور سات سے اوپر ہے تو مٹی اساسی ہوگی اسی کے مطابق اس کا تدارک کرلیں زرعی زمیں کی PH 7 اور 8 کے درمیان یعنی7.5ہونی چاہئے۔اگرزمین کی PH 3سے کم اور 10سے زیادہ ہوتو بنجر زمین کہلاتی ہے۔ PH کی تبدیلی زمین کے اندر مختلف نمکیات کی وجہ سے ہوتی ہے۔فطری انداز میں پودے بھی مختلف PHپر پروان چڑھتے ہیں :سیب5.0.6.5اور آلو4. 5.6.0۔پیاز6.0.8.0۔۔پودینہ 7.0.8.0 وغیرہ PH پر اگتے ہیں۔ عمل تعدیل بہت مفید عمل ہے مثلاََ اگر کسی کی زمین کچھ تیزابی اثرات کی حامل ہے اور اس میں آلو کاشت کرنا چاہتا ہے تو مٹی میں ہلکا کھار مثلاََ کیلسیم ہائڈرو اکسائڈ ملاکر تیزاب کی تعدیل کردیں یہ عمل مٹی سے تیزابیت اور کڑواپن ختم کرکے میٹھا کردیگا۔ اسی طرح چونا سپیاں وغیرہ ڈال کر اتعدال پیدا کیا جاسکتا ہے۔ایک معالج اگر ان باتوں کو دھیان میں رکھے گا تو علاج معالجہ مین سہولت پیدا ہوجائے گی مثلاََ کسی مریض کے دانٹ کھٹے رہتے ہیں تو اس کے لئے ایسا منجن تجویز کیا جائے گا جس میں ہلکا دافع تیزاب عنصر ہو جیسے میگنیسیم ہائڈرواکسائڈ۔یا پھر ایسے سلوشن کی کلیاں کرائی جائیں گی جو اسی قسم کے مرکبات اثرات کے حامل ہونگے ۔ پانی۔دوا ۔جڑی بوٹی وغیرہ کیPHمعلوم کرنا۔ ایک معالج اور حکیم کے لئے اگر کسی جڑی بوٹی یا زیر استعمال دوا کے خواص معمول ہو جائیں تو استعمال کرنے پر نتائج بہت بہتر پیدا ہونے کی امید کیا جاسکتی ہے عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ہمارے آس پاس بہت سی قیمتی جڑی بوٹیاں موجود ہوتی ہیں لیکن ہمارے پاس ایسی کتاب موجود نہیں ہوتی جس میں اس جری بوٹی کی شناخت یا خواص درج ہوں اس لئے ان قیمتی جڑی بوٹیوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں یہ عطیہ خدا وندی کی بہت بڑی ناشکری ہے ۔جہاں بہت سے ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں یا دوسروں سے تشخیص کے معاملا ت میں بات چیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔جو طبیب PHمعلوم کرنے کا ڈھنگ جانتا ہے وہ بہت سی پریشانیوںسے محفوظ ہوجاتا ہے ۔ تشخیص امراض۔۔ قدیم سے قارورہ (پیشاب)دیکھنے کا طریقہ چلا آرہا ہے آج بھی اس کی افادیت کسی طرح سے کم نہیں ہوئی جدید لبورٹریز میں بھی پیشاب کے ٹسٹوں کا معمول بندوبست ہوتا ہے مثانے اور گردوں کے امراض اور خون کی حالت معلوم کرنے کے لئے کئی ایک ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں۔طب قدیم و