Tazkira Ullama E Hind ,تذکرہ علماءہند book link
Why is the body lifeless after breaking the fast?
Why is the body lifeless after breaking the fast? افطاری کے بعد جسم بے جان کیوں ہوتا ہے حکیم المیوات قاری نحند یونس شاہد میو قران کریم نے اس بارہ میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ پیاس کی زیادتی کے وقت پانی کو کم مقدار میں پیا جائے (مبتلیکم بنہر)یعنی پیاسی حالت میں یکبارگی میں کثرت سے پانی پینا مناسب نہیں ہے پہلے چند گھونٹ ٹھنڈے پانی کے پئے جائیں اس کے بعد کچھ وقفہ کے بعد پانی کی جتنی طلب ہو پی لیا جائے ۔اس طریقے سےجسم بے جان نہیں ہوتا۔ افطاری کےبعد بہت سے لوگ بے جان ہوجاتے ہیں اس کے اسباب کیا ہیں؟ انسانی جسم کسی بھی چیز کو ہضم کرنے کے لئے اسے خاص ٹمپریچر تک لاتا ہے ،اس کے بعدہاضمہ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے افطاری میں عمومی طورپرپانی /شربت/لسی وغیرہ کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ سارا دن بھوکا پیاسا رہنے کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔بالخصوص گرمی کے دنوں میں روزہ دار کو زیادہ پیاس محسوس ہوتی ہے۔ افطاری میں جب پانی سامنے ہوتا ہے تو بے اختیار حد اعتدال سے زیادہ پانی پی لیا جاتا ہے روزے میں پانی کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ گرمی میں پورا جسم پانی کی کمی کا شکار ہوتا ہے پانی طلب بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔روزہ دار سب سے پہلے پانی کا گلاس لپکتا ہے۔بے تحاشا ٹھنڈا پانی پینے لگتا ہے سادہ پانی اتنی اتنی مقدار میں پینا ممکن نہیں ہوتا۔ شربت جوس۔پھلوں کے رس۔مختلف انواع و اقسام موجود ہوتی ہیں۔ ٹھیک طریقہ یہ ہے کہ افطاری کھجور سے کی جائے اس کے بعد چند گھونٹ پانی کے پئے جائیں دستر خوان پر موجود دیگر انواع و اقسام کی نعتموں سے لطف اندوز ہوں۔ نماز ادا کریں۔اس کے بعد جتنی طلب ہوپانی پیئں۔ کھانا کھائیں۔مشروبات کا استعمال کریں۔ دوسری اہم بات ذہن میں رکھیں۔ افطاری میں بہت زیادہ ٹھنڈے مشروبات کا استعمال نہ کریں۔یہ نظام ہضم کے ساتھ ساتھ جسم کے دیگرافعال میں خلل کا سبب بنتے ہیں۔ اگر افطاری میںگھڑے کا پانی استعمال کیا جائے تو جسم کو بہترین قسم کی راحت کے ساتھ ساتھ ہاضمہ کے لئے ایک ٹانک دستیاب ہوگا۔ روزے کا پرہیز کا نام ہے جہاں دیگر امور سے پرہیز کیا جاتا ہے وہیں پر مصنوعی مشروبات۔اور کیمیکل سے تیار کردہ اشیاء سے بھی ہاتھ روکا جائے تاکہ روزہ کی روحانیت مل جاسکے۔ حقیقی فوائد حاصل کرنے میں آسانی رہے بات ہوورہی تھی افطاری کے بعد ہاتھ پائوں بے جان کیوں ہوجاتے ہیں؟ اس کا سب سے بڑا سبب یکبارگی میں یخ بستہ مشروبات کا استعمال ہے۔
میو کی مسجد میں افطاری، ستو،شکرکو شرب
میو کی مسجد میں افطاری، ستو،شکرکو شرب میو کی مسجد میں افطاری، اورشکرکو شرب حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میو قوم سدا سو روزہ راکھن کی پابند رہی ہے بڑا بوڑھا مرد بیر بانی تو رہا ایک گھاں کو بالک چھوٹان میں بھی روزہ راکھن کو بہت چائو ہو رہوے ہو۔ افطاری میں جو سامان تیار کرو جاوے ہو ان میں سادہ روٹی اور کھڑا کا پانی میں شکر گھول کے شربت بنائیو جاوے ہو۔برف کی سہولت موجود نہ ہی مرد مانس مسجد میں جاکے روزہ کھولے ہا۔ بیر بانی گھرن میں افطاری کرے ہی۔ میوات میں مسجد میں روزہ کھولن کو رواج ہو، ہر کوئی اپنا اپنا کھانا لے کے مسجد میں لے کے پہنچ جاوے ہو۔مسجد میں الگ الگ بیٹھ جاوے ہا جہاں تک موئے یاد ہے۔دسترخوان کو رواج نہ ہونا کے برابر ہو،گھر کا جتنا لوگ رہوے ہا،وے ایک تھاں بیٹھے ہا ،سبن کو یہی حال ہو افطاری میں شکر کو شربت یا دودھ کی لسی رہوے ہی سادہ روٹی کے ساتھ سادہ سو لگان ۔یہی کل کائنات ہی البتہ روزان کا آخر دنن میں بیسواں روزہ سو پیچھے لوگ خیرات کا نام پے روزہ افطاری کو بندوبست کرو جاوے ہو۔دیگ پکاکے بالکن کو کھلایو جاوے ہو مسجدن میں تھال بھر بھر کے روزہ دارن کو پہنچائیو جاوے ہو میوات میں دیسی گھی کو استعمال ہووے ہو ڈالڈا کووجود نہ ہو۔سرگی میں نونی گھی یا دیسی گھی سو چپڑی روٹی دہی یا لگان سو کھاوے ہا۔ مہیری،یا دہی سو پھریرا چاول سحری میں کھانو معمول ہو افطاری میںسادہ روٹی اور شکر کو شربت گھڑا کاٹھنڈا پانی استعمال کرو جاوے ہو۔ کچھ لوگ افطری میں ستون کو استعمال کرے ہا کیونکہ شکر اور گڑ میوات میں استعمال ہون والی میٹھو ہو۔چینی جاسو کھانڈ کہوے ہا،کو استعمال نہ ہو شاید یہی وجہ ہی کہ میوات میں شوگر کو مرض موجود نہ ہو شوگر عمومی طورپے ان کے کھاتہ میں لکھی جاوے ہے جو شکر کی جگہ کھانڈ کو استعمال کراہاں۔ جو شکر کھائے گو واکے شوگر نہ ہوئے گی۔
میون کی سرگی(سحری)میں پھریرا چاول اور دہی
میون کی سرگی(سحری)میں پھریرا چاول اور دہی میون کی سرگی(سحری)میں پھریرا چاول اور دہی حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظ، اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی/علوم مخفیہ۔کاہنہ نو لاہور ہم نے اپنو بچپن یاد ہے روزان میں سحری اور افطاری بہت سادہ طریقہ سو کری جاوے ہی۔ میون میں سو کوئی گھری ایسو رہوے ہو جامیں سحری میں دیسی گھی کی چُپڑی روٹی۔دہی اور تھوڑو بہت لگان رہوے ہو۔لیکن زیادہ تر سحری میں یہی بڑی نعمت رہوے ہی۔مہیری کو رواج بھی ہو لیکن ای رواج ہمارا زمانہ تک بہت کم رہ گئیو ہو چولہا کی تاز ہ روٹین کے اوپر دیسی گھی/نونی گھی(مکھن) چٹنی۔چھاچھ سحری کو سامان رہوے ہو گھر میں بیربانی تائولی اٹھے ہی۔ٹیم دیکھن کے مارے گھڑی نہ رہوے ہی۔زیادہ تر ستاران نے دیکھ کے وقت کو اندازہ کرو جاوے ہے۔بوڑھا بڑان کو تجربہ بہت کامیاب ہو،بغیر گھڑی کے ٹھیک وقت پتو کرلیوے ہا جماری ہوش میں تو ریڈیو آگو ہو لوگ ریڈیو سو سحری افطاری کو ٹیم پتو کر لیوے ہا۔ میون میں ایک مسئلہ مشہور ہو کہ جب تک اذان ہوئے کھا پی سکو ہو۔کدی مدی بوڑھی بڑھی مزید گنجائش کردیوے ہی کہ اذان سو پیچھے بھی دو چار منٹ رہوا ہاں۔اگر مجبوری میں تھوڑو بہت کھا پی لئیو جائے تو گنجائش ہے۔ دوسری بات کہ جب تک آنگ کا رونگ دکھائی نہ دیواں سرگی کو وقت رہوے ہے۔ بالک چھوٹان نے روزہ راکھن کو بہت چائو رہوے ہو گھر والا جائے سرگی(سحری) میں جگا لیوے ہا بڑو خوش ہووے ہو بالک چھوٹان میں بات مشہور رہوے ہی کہ اکیلو روزہ نہ راکھنو چاہے یامارے ہر کائی کوشش رہوے ہی کہ کلو روزہ نہ رہوے بلکہ جوڑا ہونا چاہاں۔دو چار چھ آٹھ دس وغیرہ۔ بعد میں لوگن کو فخریہ بتاوے ہا کہ اِن روزان میں ہم نے پندرے روزہ راکھا ہا۔جے مائی سرگی میں جگا دیتی تو میں سارا روزان نے راکھتو(راکھتی)پھر بھی تھاڑ سو پندرے راکھا ہا بہترین زمانہ ہو۔عبادت اور نیکین کو شوق رہوے ہو میونی بیچاری سحری پکان کے مارے سبن سو پہلے کھڑی ہووے ہی اور سبن سو پیچھے سحری کرے ہی۔کدی مدی تو بےچاری کو روٹی بھی نہ ملے ہی چاول چونٹان سو گزارو کرے ہی۔ کیونکہ میون میں روٹی دھاپ کے کھائی جاوے ہے پھلا گدری اور پیاس سو بچن کے مارے پھریرا چاولن پے دہی گیر کے کھاوے ہے چاولن نے کھانا میں کھانو نہ سمجھے ہا بلکہ پیاس نہ لگن کو فارمولہ سمجھے ہا دھاپ دھوپا بھی ایک آدھ کٹورا چاولن نے دہی گیر کے کھاجاوے ہا جب سرگی کو وقت ختم ہون لگے ہو تو بیربانی(ماں باہن۔پھوپھی بیٹی) اپنی ذؐہ داری سمجھے ہی کہ سبن سو پانی کی پوچھے ہی کہ ایک آدھ گھونٹ پانی پی لیوئو۔کام آئے گو۔میو ماشا اللہ پیاس سو بچن کے مارے اتنو پانی پیوے ہا کہ پیٹ پُھٹائو ہوجاوے ہو۔ہُلٹو ہلٹو آوے ہو۔ جو روزہ کی لذت اورخوف خدا وا وقت میسر ہو آج موجود نہ ہے
Fasting Health Treasures Medical Benefits of Fasting
Fasting Health Treasures Medical Benefits of Fasting روزے صحت کے خزانے ۔روزہ کے طبی فوائد Fasting Health Treasures Medical Benefits of Fasting روزے صحت کے خزانے ۔روزہ کے طبی فوائد حکیم ا لمیوات قاری محمد یونس شاہد یو اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا ساتھ میں اس کی ضروریات زندگی کی تکمیل کاسامان بھی مہیا کردیا۔ صحت و امراض کے بہترین قوانینو قواعد مہیا فرمادئے۔انسانی جلبت کے بارہ میں قران کریم نے جتنی گہرائی سے سمجھایا ہے شاید اس سے بہتر سمجھاناممکن نہیں ہے۔ قران کریم نے روزے کی غرض و غایت بیان فرماتے ہوئے کہا ہے کہ۔ روزہ کسی نہ کسی انداز میں تمام ملل و اقوام میں رائج تھا۔ یہ صحت جسمانی اور تقوی کے لحاظ سے اعلی ترین چیز ہے اس لئے تمہارے لئے بھی روزہ فرض کیا گیا ہے۔ روزے کا مقصد صرف بھوکا پیاسا رہان مقصود نہیں ہے بلکہ تقوی کی دولت کا حصول ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳البقرہ) اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔ روزہ کے طبی فوائد تقوی کے معنی بچنے اور احتیاط کے ہیں۔طبی زبان میں اسے پرہیز کہہ سکتے ہیں۔ ایک معالج طبیب حاذق اس وقت پرہیز دیتا ہے جب کسی مریض کی تکلیف حد سے بڑھ جائے۔ یا بد پرہیزی ہلاکت کا سبب بن بجائے ایسے میں ان تمام اشیاء کو روک دیتا ہے جنہیں وہ عام حالات میں ستعمال کرنے کا عادی تھا۔ ان کا تعلق خورد و نوش سے ہو یا پھر رہن سہن اور لباس سے ہو۔جس جہت سے بھی نقصان کا اندیشہ ہو اس کے استعمال پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ اگر کوئی مریض بد پرہیزی کا مرتکب پایا جائے تو حقیقی معالج اس کا علاج بند کرکے اسے بھگا دیتا ہے۔ کیونکہ بد پرہیزامریض خود تو ہلاکت میں پڑتا ہی ہے لیکن معالج حقیقی کی بدنامی کا سبب بھی بنتا ہے۔ جسے اپنی صحت اور معالج کی ہدایات کی پروا نہ ہو اس سے بڑھ کر غیر معتبر کون ہوسکتا ہے۔ روزہ دار کے بارہ میں بھی اسی قسم کی ہدایات ملتی ہیں۔ کہ جو انسان روزے کی غرض و غائت کی پروا نہیں کرتا اللہ تعالی کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی روزہ صرف بھوک یا پیاس برداشت کرنے کا نام نہیں ! حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا؛ “جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے اپنے کردار و گفتار میں جھوٹ نہ چھوڑے،تو اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں”(البخاری: 1903) روزہ انسانی روح و جسم دونوں کو توانا و صحت مند بناتا ہے۔ اگر روزہ کی حقیقی غرض و غایت کا علم ہوجائے تو سحری و افطاری میں اٹھائی جانے والی مشقت نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔روزہ رکھنے سے جسم کے ساتھ روح بھی طاقتور ہوجاتی ہے۔ گیارہ ماہ کی کثافت دُھل کر انسان گلاب کے پھول جیسا ہلکا پھلکا ہوتا ہے۔ روحانی امراض تو دور ہوتے ہیں ساتھ مین جسمانی صحت بھی قابل رشک ہوجاتی ہے جب تک روزے کی افادیت نہ سمجھ لی جائے اس وقت تک روزہ ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے لیکن روزہ کی روح سمجھنے سے روزے ایک نعمت ثابت ہوتا ہے
ALTAUZ FIL ISLAMالتعوذ فی الاسلام
ALTAUZ FIL ISLAM التعوذ فی الاسلام تعوذ کی تشریح کرتے ہوئے حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی مدظلہ اپنے دروسِ قرآن میں فرماتے ہیں: ٭تعوذ ۔ ذکر کی دسویں قسم تعوذ یعنی اعوذ باللہ کہنا ہے۔ اس کے لیے قرآن وسنت میں مختلف الفاظ آئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب قرآن پڑھو تو اللہ تعالیٰ کا ذکر اس طرح کرو اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم چناچہ آج تعوذ کے بارے میں کچھ عرض ہوگا۔ تعوذ کی ضرورت اس دنیا میں انسان کوئی بھی کام کرنا چاہے خواہ وہ نیکی کا ہو یا برائی کا توفیق ایزدی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ کوئی کام ازخود انجام دے سکتا ہے مگر یہ کہ ہر قدم پر نصرت خداوندی کی ضرورت ہوگی ۔ خاص طور پر جب کوئی آدمی نیک کام انجام دینا چاہتا ہے تو اس کو طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آتی ہیں تاکہ یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے ۔ طرح طرح کے شرور اور فتنے راستے میں حائل ہوتے ہیں اسی لئے انسان کو تعلیم دی گئی ہے کہ کوئی بھی اچھائی کا کام شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرلے انسان کے حق میں علم اور عمل دو مفید ترین چیزیں ہیں اور ہر انسان ان دونوں چیزوں کا محتاج ہے۔ علم میں عقیدہ بھی شامل ہے اور ظاہر ہے کہ ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا عقیدہ اور فکر پاک ہو مگر تمام انسان اس میں کامیاب نہیں ہوپاتے کیونکہ ہر انسان اپنی قوت کے بھروسے پر یہ چیز حاصل نہیں کرسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال نہ ہو عمل کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کوئی بھی اچھا عمل اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی اعانت ونصرت کے بغیر انجام نہیں دیا جاسکتا ۔ حواس ظاہرہ و باطنہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم میں بہت سے حواس ظاہرہ اور باطنہ ودیعت فرمائے ہیں جو اس ظاہرہ میں قوت باصرہ (دیکھنے کی طاقت ) قوت سامعہ (سننے کی طاقت) قوت ذائقہ (چکھنے کی طاقت ) قوت لامسہ (ٹٹولنے کی طاقت) اور قوت شامہ (سونگھنے کی طاقت) شامل ہیں اسی طرح حواس باطنہ میں وہم خیال جس مشترک قوت متفکرہ ذہانت اور قوت عاقلہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے دماغ میں رکھی ہیں ۔ ان ظاہری اور باطنی حواس کے علاوہ انسان میں شہوت اور غضب کا مادہ بھی ہے قوت جاذبہ جس کے ذریعے انسانی جسم غذا کو جذب کرتا ہے ۔ قوت ہاضمہ ہے جس کے ذریعے کھائی جانے والی خوراک ہضم ہوتی ہے ۔ یہ عمل معدے آنتوں اور جگر میں انجام پاتا ہے پھر قوت غاذیہ ہے جو غذاکو ٹھکانے پر پہنچاتی ہے ۔ قوت دافعہ فضلات کو جسم سے باہر نکالتی ہے اگر یہ چیزیں اندر رک جائیں تو صحت بگرجائیگی ۔ انسانی جسم میں قوت نامیہ بھی ہے جس کے ذریعے انسانی جسم کی ایک خاص حدتک نشونما ہوتی ہے۔ ایک قوت مولدہ بھی ہے جو تو لیدی مادہ کے ذریعے انسانی جسم کی ایک خاص حدتک نشونما ہوتی ہے۔ ایک قوت مولدہ بھی ہے جو تو لید مادہ کے ذریعے نسل انسانی کو آگے بڑھانے کا سبب بنتی ہے ۔ شیطان سے پناہ طلبی ان تمام قویٰ کا رخ عام طور پر نفس کی طرف ہوتا ہے اور نفس کا رخ شر کی طرف سورة یوسف میں جو ہے ان النفس لامارۃ بالسوئ (یوسف) نفس انسان کو اکثربرئی کی طرف مائل کرتا ہے مثلا آنکھ کا کام دیکھنا ہے مگر اچھی اور جائز چیز دیکھنے کی بجائے نفس اسے ناجائز حرام چیز دیکھنے پر آمادہ کریگا ۔ اسی طرح جب انسان کوئی عبادت یا دیگر نیک کام انجام دینا چاہتا ہے اور اپنے اوپر بعض پابندیاں عائد کرتا ہے تو آزادی پسند نفس نہ تو ایسی پابندیوں کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی مشقت برداشت کرنا پسند کرتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اند رونی طور پر نفس اور بیرونی طور پر شیطان اس نیک کا م کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان اندورنی اور بیرونی شرور سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کام شروع کرنے سے پہلے خدا تعالیٰ کی پنا ہ میں چلا جائے اور یہ پناہ تعوذ کے ذریعے حاصل ہوتی ہے ۔ جب کوئی شخص اعوذ باللہ کہتا ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے میرے شدید دشمن شیطان سے پناہ میں رکھے تاکہ میں عبادت تلاوت یاد یگر نیکی کا کام انجام دے سکوں ۔ شیطان کے مادے سے مشتق ہے اور اس کے دو معانی آتے ہیں اس کا ایک معنی دوری ہے گویا شیطان اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے اسی لیے اس کو رحیم یامردود اور لعین بھی کہا جاتا ہے شطن کا دوسرامعنی ہلاکت ہے اور یہ بھی شیطان پر صادق آتا ہے کیونکہ وہ اپنے غرور وتکبر کی وحسد سے بالاخرہلاک ہونے والا ہے چونکہ شیطان ہر اچھے کام میں داخل ہوتا ہے اس لیے اس کے شر سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ حاصل کرنا ضروری ہے حضور ﷺ پر سب سے پہلی وحی غارحرا میں نازل ہوئی ۔ ۔ تعوذ کی تعلیم ۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے سورة علق کی پہلی پانچ آیات آپ کو پڑھا ہیں (ب بخاری ص 739 ج 2) اقراباسم ربک الذی خلق خلق الانسان من علق اقرا وربک الا کرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم مفسر قرآن امام ابن جریر نے حضرت عبداللہ بن عباس روایت نقل کی (2 ہسلم ص 88 ج 1) ہے اول مانذل جبدیل علی النبی ﷺ قال یا محمد استعذ ثم قال قل بسم اللہ الرحمن الرحیم یعنی پہلی آیات کے نزول سے متصلا اسی دن جبرائیل (علیہ السلام) حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا اے محمد ! اللہ تعالیٰ سے پنا ہ حاصل کریں اور بسم اللہ الر حمن الرحیم پڑھیں ۔ اس کے ساتھ ہی آپ کو اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بھی پڑھا دیا گیا ۔ پھر آپ کو سورة فاتحہ کی تعلیم دی گئی اور وضوکا طریقہ بتلایا گیا اور پھر آپ کو نماز
A wave of awakening in the Mwo nation
A wave of awakening in the Meo nation میو قوم میں بیداری لہر کچھ بہترین اقدامات ،انتظامات حکیم المیوات قاری محد محمد یونس شاہد میو میو قوم میں بیداری کی لہر اٹھ ری ہے سوشل میڈیا۔پرنٹ میڈیا۔ الیکٹرک میڈیا دیگر ذرائع سو پتو چلے کہ میو قوم کچھ کرن کا موڈ میں ہے ابھی کال کی بات سُن لئیوکراچی میں میو گیدرنگ پروگرام ہوئیو۔ امید ہے بہتر نتائج نکلنگا لاہور پنجاب سوسائٹی میں میو سبھا پاکستان کو اجلاس ہویو یا کے علاوہ واٹس گروپن میں بہت سی بات شئیر ہوئی کال ہی میو تنظیمات کا اجلاس کی بھی فوٹو میڈیا پے جاری ہوئی پچھلا ہفتہ میوملی یکجہتی کونسل کا مہیں سو دیا جان والا ایوارڈ جا کی میزبانی میو سبھا پاکستان نے کری ہی وغیرہ ۔ جب کائی معاملہ میں لوگ بتلان لگ پڑا ہاں تو سمجھو کچھ نہ کچھ ہون والو ہے۔ کیونکہ زبان خلق نقارہ خدا رہوے ہے ہرکوئی اپنی اپنی سوچ کے مطابق کام کررو ہے بڑی قوم ہے ۔کام زیادہ اور بکھرا پڑا ہاں۔ یا مصروفیت کا دور میں میو قوم کی بیداری امید سحر ہے میو عظیم قوم ہے۔ سوچ کا لحاظ سو بھی اور حجم کا لحاظ سو بھی۔ قانون قدرت ہے۔ جب کائی سو کام لینا کو ارادہ کرے ہے تو وا قوم کا لوگن کا دل و دماغ میں سوچ پیدا کردیوے ہے سوچ ایسی طاقت ہے جو کدی فنا نہ ہووے ہے۔ سوچ تو ایک انرجی ہے اور انرجی کدی ختم نہ ہہوے ہے البتہ اپنی شکل بدلتی رہوے ہے۔ میو قوم کیسے آگے بڑھے گی۔ کیسے ترقی کرے گی؟ قوم کی ضرورت کہا ہاں؟۔ میوقوم کی افرادی قوت سو کیسے فائدہ اٹھا ئیو جاسکے ہے؟۔ ای سوال اپنی جگہ پے اہم ہے لیکن میو قوم کاجوشیلا جوان گپوڑ اور کچون نے پسند نہ کراہاں۔ میو قوم کو تازہ خون میدان عمل اے سجو دیکھنو چاہے میدان عمل میں اترنو چاہے۔ جولوگ صرف گپوڑا ہاں کام کچھ نہ کراہاں۔ میو جوانن نے وے زہر دکھائی دیوا ہاں۔ لیکن ای بھی غنیمت ہے کہ کچھ لوگ میو قوم کو نام لیوا ہاں چاہے یاطرح اپنا مفادات کو تحفظ ای کیوں نہ ہوئے لیکن کائی درجہ میں ای بات بھی قوم کا کھاتہ میں جاوے ہے لفظ میو کی مشہوری ہے۔ بھائی مشہوری تو پیسہ لیکے ای کری جاوے ہے جیسے کہ میں کئی بار لکھ چکو ہوں کہ میو قوم انگرائی لے ری ہے۔آنکھ مل ری ہے میو قوم کا جاگنا میں زیادہ دیر نہ ہے۔ لوگن کی بات۔مشورہ۔ابھی تک ہون والو کام میو قوم کا اثاثہ ہاں۔جیسے جیسے لوڈ پڑتی جائے گی نئی نسل یاخام مال سو کام لیتی جائے گی۔ جادن قدرت محسوس کرے گی کہ اگلو قدم اٹھانو چاہے وادن گپی اور گپوڑین کی جگہ عملی لوگ لے لینگا۔ کیونکہ قومن کی زندگی میں یہ مراحل آوا ہاں ان سو ارتقائی مراحل کہواہاں۔ یا وقت میو قوم کی ترقی کو خام مال کی تیاری جاری ہے کیونکہ جب میو قوم آگے بڑھے گی تو بہت سی باتن کی ضرورت پڑے گی۔ وا وقت میو قوم کے پئے خام مال کی ضرورت پوری کرن کو وقت نہ ہوئے گو۔ یامارے یا وقت میو قوم کی ترقی کےمارے جتنا خام کی ضرورت ہے واکی تیاری جاری ہے جیسے بیاہ بدو میں امکانی حد تک ضرورت کی چیز اکھٹی کری جاواہاں بیاہ والو جانے ہے کہ بارات والے دن ممکنہ لوازامات اکٹھو کرنو ممکن نہ ہوئے گو۔ پہلے سو ای تیاری میں لگ جاوے ہے لیکن پھر بھی بہت سی ضرورت کی چیز تُھڑ جاواہاں۔ جو ہنگامی طورپے زیادہ خرچہ کرکے پوری کری جاواہاں۔ میو قوم کی ترقی کے مارے بھی اسباب مہیا کراجارا ہاں۔ ان میں شعور ہے۔ادب کی تخلیق ہے۔لٹریچر۔ روابط ہاں۔میل میلاپ کی ممکنہ صورت ہاں۔ افرادی و اجتماعی کوشش ہاں۔ دوسری اقوام کا مقابلہ میں جوش عمل ہے۔ بکھری ہوئی قوم کو آپس میں رابطہ کرنو ہے۔ یامیں شک نہ ہے عملی لحاظ سو کئی خامین کی نشاندہی ہوسکے ہے لیکن جتنو کام بھی ہورو ہے۔ معمولی نہ ہے۔ کاہل سست اور نکما لوگن کی کارکردگی پے جوانن کو تنقید کرنو معمولی بات نہ ہے۔؟؟؟ اگر کائی کے پئے معمولی سو بھی آئیڈیا ہے اُو سوشل میڈیا پے وائے شئیر کررو ہے لیکن ابھی بہت ساکام باقی ہاں۔ بہت کچھ کرن والو ہے۔ ابھی ترقی کا لوازمات میں بہت سارا اقدمات کی ضرورت ہے۔ موئے میو قوم کو مستقبل روشن دکھائی دے رو ہے امید ہے جلد یا بدیر او وقت ضرور آئے گو جب میو ترقی کا پورا سامن سو لیس دوسران کے شانہ بشانہ کھڑو دکھائی دئئے گو۔ جو لوگ دوسران کی کارکردگی سو مطمئن نہ ہاں ان کے مارے میدان عمل موجود ہاں آگے بڑھاں میو قوم کی ترقی میں حصہ گیراں جولگ صرف تنقید کراہاں۔میری قوم کا وے بھی سرمایہ ہاں ۔ کیونکہ ان کی نوک جھونک میں بھی اچھی بات موجود رہوا ہاں۔تنقید ایسے تھوڑی ہووے ہے یاکے مارے خامی تلاش کرنی پڑا ہاں۔ غور و فکر کرنو پڑے ہے۔ بہت کچھ سوچنو پڑے ہے جو خامی بعد میں نقصان کو سبب بن سکاہاں یا طبقہ کی مدد سو بر وقت ان کو پتو چل جاوے ہے ان کی درستگی کو بندوبست کرلئیو جاوے ہے۔ یامارے ای طبقہ بھی میو قوم کے مارے ضروری ہے ا
O youth of Mayo nation Need to move forward
O youth of Mayo nation Need to move forward میو قوم کا جوان اے آگے بڑھن کی ضرورت ہے O youth of Mayo nation Need to move forward حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میو قوم اپنو مزاج راکھے ہے، الگ سو نفسیاتی خدوخال راکھے ہے آگے بڑھن کی صلاحیت راکھے ہے۔ صدین سو مشکلات جھیلن والی میو قوم کو آج بہتر وسائل ملنو آگے بڑھن کی سوچ اور مل بیٹھنو۔ کوئی اتفاقی بات نہ ہے ای قدرت کو عمل ہے،جومیو قوم سو کام لینو چاہے جو قوم جتنی مشکلات سو گزرے ہے واکی ذہنی سطح اتنی ہی اُونچی رہوے ہے وائے پتو رہوے ہے کہ مشکلات میں کیسے زندگی بسر کرنی ہے جب غربت سو پیچھے مالی آسودگی ملے ہے تو فضول خرچی نہ کرے ہے ہمارا باپ دادن میں ای خوبی موجود ہی کہ وے کم وسائل میں بہتر زندگی گزارن کو سلیقہ جانے ہا۔ فضول خرچی کو سوچ بھی نہ سکے ہا اُنن نے روکھی سوکھی کھاکے اپنا مرلہ محفوظ راکھا۔ زبان کا چٹورا پن سو بچا رہا۔ اپنا باپ دادا کی وراثت محفوظ راکھی۔ لیکن میون سو ایک غلطی ہوئی کہ انن نے اپنی اولاد کو ای سبق نہ پڑھائیو کہ زندگی کیسے گزاری جاوے ہے۔ کم وسائل میں زیادہ کام کیسے کرسکاہاں؟ محنت کے بجائے نئی نسل کو آرام و ہڈ حرامی کو ماحول مہیا کرو جاسو ایک نقصان ای ہوئیو کہ پرانی راویات دُھندلی پڑگئی قوم عمل کمزور ہوگئی۔اور مشقت کے بجائے ہڈ حرامی آگئی سخت حالات میںزندگی کے گزارن کےبجائے راحت و آرام ڈھونڈن لگا ۔ جب کائی قوم میں ای بیماری لگ جاوے ہے تو اُو دوسران کا سہارا کی ضرورت محسوس کرے ہے باٹ میں رہوے ہے کہ کوئی دوسرو آکے کام کرجائے کام دوسرو کرے ۔شاباشی اُن کو ملے وے سفارش۔دوسران کو سہارا اور پیسہ کی باٹ کراہاں شاید قومن کی ای کمزوری رہوے ہے۔ کچھ چالاک لوگ یا کمزوری سو فائدہ اٹھاواہاں وے قوم کی چوہدر سنبھال لیواہاں۔ اور کام کے بجائے گپوڈ لگان لگ پڑا ہاں۔ان کی سوچ رہوے ہے کہ چکنی چوپڑی باتن سو ۔دوسران نے مطمئن کردینگا کام کی ضرورت نہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ قوم کا نام پے جتنی رول مچائی جاری ہے۔ ای کام نہ ہے صرف رول ای رول ہے۔ میو قوم کوجوان پریشان ہے کہ کس کی بات پے اعتماد کرے؟ ہرکائی نے اپنو اپنو توُ توُ پکڑراکھو جائے بجارو ہے ہر کائی کے پئےفرضی کام کی ایک لمبی لسٹ ہے واکو کریڈٹ لینو چاہے۔وائے کیش کرارو ہے جتنو کام بھی ہے۔ اُو شاید چند تصویرن میں ہے زمینی حقائق الگ ہاں۔ یا شور میں کان پڑی سُنائی نہ دے ری ہے جب کوئی میو قوم اُٹھ کے سوال کرے ہے تو اُو قوم کوغدار اور شرارتی ٹہرے ہے۔ میون کی بھینس دودھ دینو بند کردیوے ہے تو وائے کٹون کو کٹوا دیواہاں۔کہ یاسو فائدہ نہ ہے ہم نے کتنا نکما لوگ قوم سر پے بٹھا راکھاہاں۔ چاہئے کہ انننے بھی کٹون کو دیدیواں۔ عجیب بات ہے جتنی توانائی ایک دوسرا کی ٹانگ کھچائی میں لگاواہاں واسو آدھی بھی میو قوم کی فلاح و بہبود میں لگا واں تو بھلو ہوجائے۔ ہم نوں تو نہ کہہ را ہاں کی میو قوم کا سپوت کوئی کام ای نہ کرراہاں کام بہت کراہاں۔لیکن قوم کا حجم کا لحاظ سے موجود ہ صورت حال ناکافی ہے۔موجودہ صورت حال میں پالیسی بدلنی پڑنگی کیونکہ میو قوم کی لگام ایسا لوگن کا ہاتھ میں ہے۔شاید وے یاکی ضرورت ای محسوس نہ کراہاں۔ ایک لگا بندھا طریقہ سو ہٹنو مناسب نہ سمجھاہاں۔ ضرورت یا بات کی ہے کہ میو قوم وقت کی ضرورت محسوس کراں انن نے سمجھنو پڑے گو کہ آج کی ضرورت کہا ہے؟ نوجوان نسل کی ضرورت کہا ہاں؟ کیونکہ ان کی پرورش جاماحول میں ہوئی ہے اُو ویا ماحول سو بالکل الگ ہے۔ جامیں موجودہ چوہدرین نے پرورش پائی ہی۔ آگے بڑھن کے مارے تازہ دم خون تازہ دم سوچ۔تازہ دم ٹیکنالوجی۔تازہ دم جذبہ کی ضرورت ہے۔ماحول اور حالات کے مطابق یاکو پتو نئی نسل کا تازہ دم خون میں موجود ہے جتنی جلدی ہم یا ضرورت اے محسوس کرلینگا اتنی جلدی میو قوم اُبھرے گی۔ ای کام کرنو تو پڑے گو آج نا تو کال کرنو پڑے گو جو لوگ میو قوم کی راہ میں رکاوٹ ہاں، اُن کی زندگی میں نہ سہی ان کی موت کے بعد ماحول اے تو بدلے ای سرے گی اگر میو جوان سو جلدی کام لئیو گا تو جلدی آگے بڑھو گا۔ یاکی مثال گاڑی جیسی ہے۔ جب میون کی زمین بکی تو میون کے پئے منصوبہ نہ ہونا کی وجہ سو گاڑی خریدنی شروع کردی۔ دہیج میں گاڑی دینی شروع کردی سوچ نہ ہی۔ نہ کوئی بتان والو ہو۔کہ پیسہ زندگی میں کدی کدی ملے ہے یائے کام میں لائو یا برباد کردئیو۔تہاری مرضی ہے اگر قوم کا بڑا کوئی ایسو ماحول پیدا کرن میں کامیاب ہوجاتا جہاں گاڑی خریدن کے بجائے۔کاروبار کرنو جدید ٹیکنالوجی سو کام لینو۔اور بچان کوتعلیم میں آگے بڑھنا پے فخر محسوس ہوتو تو آج قوم کو بےپناہ پیسہ ضائع ہونا سو بچ جاتو بیاہ شادین میں کار بجائے یا بات پے فخر کرو جاےتو کہ قوم کی کتنی خدمت کری ہے۔ اپنی میو قوم کے مارے کہا کچھ کرو ہے؟ افسوس تو یا بات پے کہ قوم کا ابھرنا کا دنن میں میو قوم میں بیماری کی علامات ظاہر ہون لگ پڑی۔ سبن نے پتو ہے فضول خرچی بری بات ہے۔لیکن باز کوئی بھی نہ آرو ہے۔
القول الجمیل مع ترجمہ شفاء العلیل شاہ ولی اللہ دہلوی
القول الجمیل مع ترجمہ شفاء العلیل شاہ ولی اللہ دہلوی ٖڈائون لوڈ لنک
Meo nation Kajuanan said if
Meo nation Kajuanan said if میو قوم کاجوانن نے کہا چاہے Mayo nation Kajuanan said if میو قوم کابوڑھا کہا سوچا ہاں؟ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو فطری عمل ہے ،جو بات سمجھا یا سو سمجھ میں نہ آواہاں وقت اُنن نے بہتر انداز سو سمجھا دیوے ہے۔ بڑان کی قدر و قیمت بہت گھنی رہوے ہے لیکن جو نسل اُن کی جگہ لین والی ہے واکی اہمیت بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ دونوں یا وقت میدان عمل میں ہاں۔ بوڑھان نےشکوہ ہے کہ نئی تانتی بڑان کی قدر نہ کرے ہے میوجوانن کو کنہو ہے کہ بوڑھا وقت کالحاظ سو فیصلہ نہ کراہاں اپنی اپنی جگہ پے کائی حد تک، دونوں ٹھیک ہاں جہاں مشکل پیش آری ہے ،اُو ایک دوسرا اے سمجھنا کی ہے اگر ہم بڑان نے چھوڑ دیانگا ،تو نسلی تسلسل اورتجربہ کاری سو آن والی نسل محروم ر جائے گی۔ یامارے قوم کا بڑا ن کومان سمان ضروری ہے۔ یائی طرح نئی پود کی سو چ اور ضرورتن نے نہ سمجھنگا تو میو قوم کی قوت عمل کم ہوجائے گی،آگے بڑھناسو رُک جانگا کوئی نہ کوئی درمیان میںایسی راہ نکالنی پڑے گی جہاں یہ دونوں طبقہ اکھٹا ہوسکاں۔ ایک دوسرا کی بات سمجھ سکاں۔ میو قوم کا بڑا صدین پہلی باتن نے سینہ سو لگائ بیٹھا ہاں میو قوم کا جوان جدید ترقی کے میں اپنو حصہ گیرنو چاہ راہاں۔ بوڑھان کو کنہو ہے، ہماری نسل ہاتھ سو نکل چکی ہے میو قوم کاجوان کو کہنو ہے ، ہماری ضرورت سمجھنا کی کوشش نہ کری جاری ہے۔ ہماری بات پے کوئی کان نہ دھراہاں۔ دونوں کلان نے پھلائی ایک دوسرا سو روسا بیٹھا ہاں جب کہ دونوں چاہواہاں کہ ایک دوسرا کی بات سمجھاں مل بیٹھا ں۔لیکن کوئی جگہ ایسی نہ مل ری ہے جہاں دونوں بیٹھ کے بات چیت کرسکاں اپنا دل کی بھڑانس نکال سکاں۔گلہ شکوہ دور کرسکاں میرے پئے ایک پور (آگ)جل ری ہے۔ جہاں حقہ بھی تازہ ہے اور ایک کرسی پے لیپ ٹاپ۔ اور انٹر نیٹ کو کنشن بھی لگو ہویو ہے۔ چائے پانی کو بند بست بھی ہے۔ برادری کا بہت سا لوگ بھی بیٹھا ہاں۔ کھاٹ بھی بِچ ری ہاں۔موڈھا بھی دَھراہاں پرالی کا بنوں بھی بنوا راکھاہاں۔ چھاچھ ۔اور چائے دونوں موجود ہاں۔ روٹی کا ٹیم پے،پھریرا چاولن کے ساتھ دیسی گھی اور شکر کو بھی بند سبت ہے۔ڈھومری بھی منگوالی ہاں۔ جے کہوگا تو گڈوا سو گھی گھال دئیونگو۔گوشت سو روٹی ملے گی جوانن نے گھبران کی ضرورت نہ ہے ان کے مارے بریانی۔کباب۔مرغ مسلم کڑھائی۔سیخ کبابن کو بھی بند بست کر گئیو ہے دھیرئیں کے ٹیم چھاچھ۔دودھ۔رڑکا۔بھی مل سکے ہے جوانن کے مارے۔ نان ۔سِری پایان کو بندو بست ہے لیکن یا بنگلہ/بیٹھک /چوپال میں بیٹھنا کے مارے قابلیت کو ہونو ضروری ہے۔معمولی سی فارملٹی ہے نام گائوں اور کام بتانو ہے کہ۔ تم یا بنگلہ پے کائیں حیثیت سو جاسکو ہو کیونکہ یامیں قابلیت ،قوم کی خدمت ،اور کارکردگی کی بنیاد پے داخلہ ملے گو۔ جو بھی جانو چاہے اپنی پہچان۔اپنو اکام،خدمت قابلیت بتائے جاسو واکو مرتبہ کے مطابق جگہ مل سکے اورکھان کومِل سکے۔مان سمان ہوسکے۔ ای جگہ کہاں ہے ؟ کال بتائونگو۔