Disadvantages of advertising prescriptions on social media. سوشل میڈیا پر نسخہ جات کی تشہیر کا نقصان۔ عيوب الإعلان على الوصفات الطبية على مواقع التواصل الاجتماعي . جدید سوشل میڈیا سے لوگوں نے بے شمار لوگوں نے فائدے حاصل کئے ہیں۔اربوں کھربوں کا کاروبار کیا جارہاہے۔بلکہ بہت جلد تمام کاروبار سوشل میڈیا پر جلوہ گرہونگے ۔جولوگ اسے سوشل میدیا کے استعمال میں حلال و حرام کی بحث میں پڑے ہوئے تھے وہ سب سوشل میڈیا پر اپنے اکائونٹ بڑی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔یہ تو انسانی نفسیات ہے اسے مذہبی رنگ دیا جائے یا پھر تہذیبی اقتدار پر حملہ قرار دیا جائے۔لیکن یہ وحشت اس وقت تک رونما ہوتی جب تک سناشائی نہیں ہوجاتی جیسے ہی جان پہچان ہوتی ہے اس حرام پر حلال کا نمک چھڑک کرمذہبی و غیر مذہبی سب مزے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔لیکن بہت سا وقت کا ضیاع کرکے آگے بڑھے اگر یہ قدم پہلے اٹھ جاتے تو بہت سے فوائدحاصل کرلیتے ہیں۔ہم لوگ پیچھے رہنے کے عادی ہیں اور جو آگے بڑھیں ان کی ٹانگیں کھینچنا کار ثواب سمجھتے ہیں۔بعد میں شرمندہ ہوتے ہیں۔یہ سب کچھ کسی بھی نام پر کیا جائے کوئی بھی کرے جہالت کی بین مثال ہوتے ہیں۔ اگر حلال و حرام کا فتاویٰ جات کے داغنے سے بیشتر حقائق کو جاننے میں معمولی سی جنبش کرلی جائے تو بہت سے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی پسماندگی میں ایسے پیشوا کاص کردار ادا کرتے ہیں جو علم کے بجائے خود ساختہ یا روایتی قسم کے وہم میں مبتلاء ہوکرپیشوائی کے مدعی ہوتے ہیں۔اور اس خیام خیالی کو منشائے خداوندی قرار دیتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہےکہ مسلمان ہوں یا دیگر اقوام بالخصوص پاک و ہند کے بسنے والے۔سیدھے کام بھی اُلٹے انداز میں کرکے لطف امدوز ہوتے ہیں۔بے شمار مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ،یہ کسی مذہب یا مسلک کی بات نہیں بلکہ اکثر باشندے ٹھیک کام کو غلط طریقے سے کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہی قدیمی عادت ہم نے انٹر نیٹ آنے کے بعد بھی نہ چھوڑی۔اس کا بھی جی بھر کے استعمال کیا اور بڑے ۔بے ڈھنگے انداز میں کیا وقت اور ہیسہ دونوں جی بھر کے برباد کئے اور یہ سلسلہ بے تہذہبی زوروں سے جاری ہے۔ امید ہے یہ تھمے گا نہیں اربوں کا ریونیئو جمع کر کے اغیار کے اکائونٹس میں ڈال رہے ہیں۔۔۔ یہ تو عوام کا حصہ ہوا۔اہل علم کہلانے والوں نے بھی جی بھر کے اس کا غلط استعمال کیا۔دھڑا دھڑ نسخہ جات لکھنے شروع کردئے۔بددیانتی کا یہ عالم ہے ہر کوئی لکھے گئے نسخہ کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔نسخہ جات کی بھرمار ہے ہر روز گروپس میں بے شمار نسخہ جات شائع کئے جاتے ہیں ان پر من گھڑت و لایعنی قسم کے فوائد لکھے جاتے ہیں۔جنہیں معمولی سطحی عقل والا بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا ۔کجا کہ ایک حاذق معالج انہیں اپنائے۔ یہ طب جیسے شریف و معتبر علم کے ساتھ کھلواڑ ہے۔جو عطائی لوگ طبیب کا لبادہ اوڑھے کررہے ہیں۔علمی تحقیق و عمق کا علم یہ ہے کہ نسخہ کے اجزاٰ اور لکھے گئے فوائد میں کھلا تضاد موجود ہوتا ہے۔کچھ نسخہ جات کے فوائد میں اتنی لمبی چوڑی فضائل و فوائد کی فہرست موجود ہوتی ہے الاماں والحفیظ۔طرہ امتیاز دیکھئے اگر کوئی ان تحادات کی نشان دہی کردے تصحیح و اصلاح کے بجائے اس کی عشت و آبرو کا تیا پانچا کرنے میں دیر نہیں لگاتے اس کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں کیونکہ سوچ کی سطح اس قدر پست ہوتی ہے اصلاحی تنقید اور مخلافت کا خط باریک محسوس نہیں کرپاتے۔یوں اطباء کہلانےوا لے تقسیم در تقسیم دھڑوں کی بٹ جاتے ہیں ۔نام طب کی خدمت کا لیا جاتا ہے۔دراصل طب کا لیبل لگا کر ہم انا الحق کا نعرہ بلند کرتےہیں اور ایک خط امتیاز کھینچ دیتے ہیں کہ جس نے اطاعت قبول کرلی وہ اچھا جس نے منہ سے ایک لفظ بھی نکالا وہ مردود و ملعون قرار پایا۔
Difference between internal and external use of medicine./دوا کے اندرونی و بیرونی استعمال میں فرق۔
دوا کے اندرونی و بیرونی استعمال میں فرق۔ Difference between internal and external use of medicine. الفرق بين الاستخدام الداخلي والخارجي للطب. حکیم المیوات:قاری محمد یونس شاہد میو مجربا ت و نسخہ جات میں اندرونی و بیرونی استعمال کی ہدایات موجود ہوتی ہیں۔عمومی طورپر۔زخموں کے لئے مرہم ۔لیپ۔ نطول۔ تریڑہ۔ بھاپ وغیرہ بھی طبور علاج راج ہیں۔امراض کے لئے بیرونی طورپرمالش کرنا عام راج ہیں گو کہ اس وقت اطباء کی رجحان اس طرف نہیں رہا۔یہ طریقہ بھی بہت موثر ہوتا ہے۔ان سنخہ جات میں بھی مجربات کی تلاش رہتی ہے۔کتب طب میں جب اس قسم کے نسخہ ملتے ہیںتو ان کے اجزاء کی فہرست بھی دیگر مجربات کی طرح طویل ہوتی ہے۔جن ادویات کو ٹکور یا بھاپ وغیرہ کے لئے کام میں لایا جاتا ہے عضو متاثرہ تک جزوئے متاثرہ پہنچانا ہوتا ہے،اس سے جسم میں نرمی پیدا ہوکے اکڑائو کم ہوتا ہے اور درد میں فورا راحت محسوس ہونے لگتی ہے۔بیرونی چوٹ۔دبائو۔یا عضو کے معطل ہونے کی صورت میں یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔مشاہدات ہیں۔استسقاء کے مریض کا پھولاہوا پیٹ دوا کھانے سے کم اور ٹکور سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے ۔ زندگی میں میدان طب میں ہونے والی مشاہدات کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے۔بیرونی اجزاء میں پہچنے والے صدمات میں خوردنی دوا سے زیادہ بیرونی ٹکور سے فائدہ ہوتا ہے۔ٹکور میں استعمال ہونے والی ادویات کسی ایک مزاج کی نہیں ہوتیں کسی بھی مزاج کی ہوسکتی ہیں۔ چند ایک ٹکور کے مستعملہ نسخہ جات کا ذکر مناسب ہے۔تاکہ ٹکور اور نطول کے فوائد سامنے آجائیں،اس کی افادیت ظاہر ہوجائے۔سب سے پہلی مثال تو رسول اللہﷺ کی ہے جب ایک بچھونے ڈنگ مارا تو خوردنی علاج کے بجائے بیرونی طریقہ علاج اختیار کیا گیا۔پانی میں نمک گھول کر متاثرہ مقام پر بہایا گیا۔روایات میں آیاہے کہ ساتھ میں معوذتین کی تلاوت کی گئی تھی۔۔نمک بچھو کے زہر کا تریاق ہے۔۔فورا نچھو کا زہر غیر موثر ہوجاتا ہے۔خوردنی طورپر اتنا زیادہ نمک استعمال کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔عرب کے گرم ماحول میں جہاں کا تات مان (درجہ حرارت) پہلے ہی بہت زیادہ ہوتا ہے،ایسے میں نمک کا مقدار مقررہ سے زیادہ استعمال کرنا باعث ہلاکت ہے ،ہائی بلڈ پریشر ہونے کا قوی امکان ہے/اس لئے برونی استعمال بہتر اور بروقت کم خرچ بالا نشین علاج ہے۔ نمک کا مزاج گرم تر(غڈی اعصابی ہے)یہ مزاج ہائی بلڈ پریشر والے میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک مثال اور بھی جسے ہزاروں لوگ جانے ہیں اور بے شمار لوگاس سے استفادہ کرچکے ہیں۔اگر کسی کو بائولا کتا کاٹ لے۔تو اس کے زخم پر لال مرچیں باندھی جاتی ہیں ۔ہلکائو کا مزاج اعصابی ہوتا اس کا تریاق عضلاتی ۔اس لئے کت کے زہر کا تریاق لال مرچیں ہیں۔جس مقدار میں بیرونی طورپر لال مرچیں باندھی جاتی ہیں اتنی مقدار میں کھانے میں استعمال کرنا ممکن نہیں۔ ادرک کی ٹکور۔ درد ناک اعضاء کو راحت پہنچانااس کا ادنی سا کرشمہ ہے بالخصوص اکڑئے ہوئے جوڑوں کا درد بہت جلدرفع ہوجاتا ہے۔راقم الحروف نے اسے بارہا آزمایا۔اگر کسی کے جسم میں دردیں رہتی ہوں۔اکڑائو۔تو ادرک لیکر اسے پچاس گنا پانی میں ابالیں۔کوشش کریں کہ بھاپ کم سے کم ضائع ہو۔جب خوب ابل جائے تو کسی کپڑے سے ڈانپ کر مردرد والے عضو کو بھاپ دی جائے۔جب ٹھنڈا ہونے کے قریب ہو یعنی پانی میں اتنی گرمی ہوکہ جسم برداشت کرکسے تو اس کی ٹکور کی جائے۔اس عمل کافی پندرہ منٹ سے لیکر آدھا گھنٹہ کیا جائے تو ٹرپتا ہوا مریض راحت محسوس کرنے لگتا ہے درد میں راحت ملتی ہے۔اعضا کا اکڑائو نرم پڑجاتا ہے۔اس کے بعد تیل کی مالش کردی جائے تاکہ نرمی زیادہ دیر تک قائم رہے۔ استسقاء والے اور شوزش والے مریض کے لئے ٹکور۔ درد یا تکلیف کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔جسم میں جہاں کہیں پانی جمع ہوگا۔وہ صفرای ہوگا۔گرم خشک(غدی عضلاتی)مزاج ہوگا۔استسقاء یرقان کی بڑھی ہوئی صورت ہپوتی ہے۔اس میں بھوک ختم ہوجاتی ہے۔ادویات بھی قے کردی جاتی ہیں۔جسم پھول کر کپا ہوجاتا ہے۔کھانے پینے کی رغبت ختم ہوجاتی۔اکثر مریض دوا ہضم نہیں کرسکتے۔اس لئےٹھوس غذا یا دوا کے بجائے سیال چیزیں پینے کے لئے۔اور بیرونی طورپر نطول کیا جاتا ہے ہوالشافی:گل کیسو۔50 گرام۔امربیل۔50 گرام۔ریٹھہ۔50 گرام۔اجوائن خراسانی۔5گرام۔۔لیکر دو تین کلو پانی میں ابالا جائے جب پانی کا رنگ تبدیل ہوجائے۔تو اسے ٹھندا کرلیں۔اگر گرمیوں کا موسم ہوتو اس میں برف بھی ڈالہ جاسکتی ہے۔ استعسقاء کے مریض کو لٹاکر اس کے پھولے ہوئے پیٹ پر اس پانی کوبار بار بار بہایا جائے۔نیچے کوئی برتن رکھ دیں تاکہ بہنے والا پانی ضائع نہ ہو دوبارہ کام میں لایا جاسکے۔اس عمل سے بہت جلد بھول کھل جاتی ہے۔ سانس کی دوشواری کم ہوجاتی ہے۔پیٹ میں پانی کی پیدائش ختم ہوجاتی ہے موجودہ پانی براہ پیشاب خارج ہوجاتا ہے۔اگر پتھری یا مچانہ و گردوں کی تکلیف ہو قطرہ قطرہ پیشاب جلن کے ساتھ آرہا ہو تو اس ٹکور سے فورا راحت ملتی ہے۔مریض سُکھ کاسانس لینے لگتا ہے۔ہفتہ دس دنوں میں التہاب گردہ و مثانہ ختم ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اگرماہواری کی تکلیف بہت زیادہ ہورہی ہو۔کمر درد ۔پیڑو میں تکلیف سے عورت بے چین ہورہی ہو تو اس ٹکور سے فور تکلف کم ہوجاتی ہے۔تڑپت ہوئی عورت سکھ کا سانس لیتی ہے #hakeemqariyounas #qariyounas #tibbibooks #tibb4all #dunyakailm #hakeem_qari_younas_books #hakeemqariyounasbooks #saadtibbiacollege #saad_tibbia_college #dunyakailm #Saad Mayo Memorial Virtual Skills #Hakeem ul Mewat
مجربات کی حقیقت (جہلاءکونسخہ نہ بتائیں)
مجربات کی حقیقت (جہلاءکونسخہ نہ بتائیں) مجربات کی حقیقت (جہلاءکونسخہ نہ بتائیں) حکیم المیوات :قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نو لاہور مجربا ت کی حقیقت ایک سہارا(تول) کی سی ہے جسے ایک حاذق معالج اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ایک ہتھیار چاہے کتنا بھی موثر و بے خطاء ہو لیکن اس کا استعمال بوقت ضرورت ہی کیا جاتا ہے۔لیکن اس کی ضرورت کہاں پڑتی ہے ۔یہ ہتھیار چلانے کا ماہر جانتا ہے۔ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ جسے چلانا نہیں آتا یا اس ہتھیار کی اہمیت کا اندازہ نہیں اس کے لئے ایک خنجر اور لوہے کی پتری میں فرق ایک ماہر ہی جانتا ہے۔ایسے ہی مجربات بھی ایک ہتھیار ہیں اگر کسی ماہر کے ہاتھ میں ہوں توان سے اپنی حفاظت بھی کرتا ہے اور دوسروں کی حفاظت بھی اگر ضرورت پڑے تو اس سےشکار بھی کرسکتا ہے۔ ماہر کاری گر عام سی سے چیز سے اپنی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔جب کہ عام انسان لگے بندھے انداز میں استعما ل ہونے والے اوزار کا محتاج ہوتا ہے۔اس کی عقل اس دائرہ سے باہر نہیں نکلنے دیتی جو دائرہ کسی ماہر نے کھینچ دیا گیا ہو۔جب کہ عقلمند اورزیرک انسان ہتھیارکا محتا ج نہیں ہوتا اس کے لئے ہتھار معنی نہیں رکھتے اسے اپنی ضرورت کی تکمیل اہمیت رکھتی ہے۔ دوسری مثال آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہیں۔کہ آپ نے ایک شہر سے دوسرے شہر جانا ہے۔مقصد سفر کرنا ہے۔وسائل کے اعتبار سے کوئی جہاز میں جائے یا مہنگی سے مہنگی گاڑی میں یا پھر کسی معمولی سورای پر اگر سواری نہ بھی تو پیدل چل کر منزل مقصود تک پہنچ جائے۔پہنچنے کے بعد ہوائی جہاز سے پیدل سفر کرنا بے معنی ہوجاتا ہے کیونکہ مقصد سواری نہیں بلکہ منزل پر پہنچنا ہے۔یہی بات مجربات کے بارہ میں سمجھ لیجئے کہ حاذق و ماہر طبیب مجربات کامحتاج نہیں ہوتا۔لیکن مجربات کو بوقت ضرورت بہتر انداز میں کام میں لاکر بہتر نتائج حاصل کرلیتا ہے۔ مجربات کے بارہ میں احتیاط ضروری ہے۔ بات ہورہی تھی کہ مجربات کو جہلاء و عطاءی لوگوں سے دور رکھنا ضروری ہے کیونکہ انہیں معلومنہیںہوتا کہ ان مجربات کی ضرورت کس وقت ہوتی ہے/اور کس مریض کو کونسا مجرب نسخہ دینا ہے۔یعنی بغیر تشخیص مجربات بھی موجب ہلاکت ہوسکتے ہیں۔اس لئے بغیر ضرورت اور بلاتشخیص مجربات کا استعمال انسانی جان کے ضیاع کا سبب بنتا ہے۔بغیر مہارت کے یہ مجربات بندر کے ہاتھ میں ماچس دینے والی بات ہوتی ہے۔جو لوگ مریضوںکی تیمار داری کے وقت یا راہ چلتے وقت نسخہ جات کی تقسیم میں فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس لئے ان لوگوں کی پہنچ سے دور رکھنا چاہئے۔
Importance of a healthy lifestyle
صحت مند طرز زندگی کی اہمیت Importance of a healthy lifestyle أهمية اتباع أسلوب حياة صحي حکیم المیوات :قاری محمد یونس شاہد میو۔ صحت کے بارہ میں ناکافی معلومات ہمیں دستیاب وسائل کے استعمال کرنے اور بہتر صحت کے لئے کام میں لانے کے لئے مانع ہیں۔جنہیں طبی شعور حاصل ہے وہ کسی حد تک اپنی صحت کے متعلق مفید معلومات کی بنیاد پر بہتر اقدامات اٹھاسکتے ہیں۔لیکن جو اس بارہ میں ناکافی علم رکھتے ہیں انہیں معالج کی مشاورت درکار ہوتی ہے۔ کچھ باتیں حاضر خدمت ہیں۔ صحت مند طرز زندگی کو برقرار رکھنا مجموعی صحت اور تندرستی کے لیے بہت ضروری ہے۔ باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی میں مشغول رہنا اور متوازن غذا کا استعمال صحت مند طرز زندگی کے دو اہم اجزاء ہیں جو جسمانی صحت کو فروغ دیتے ہیں۔ ورزش میٹابولزم کو بڑھانے، کیلوریز جلانے اور قلبی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے [1]۔ دوسری طرف، ایک متوازن غذا جسم کو صحت مند وزن کو برقرار رکھنے اور دائمی بیماریوں سے بچنے کے لیے ضروری غذائی اجزاء فراہم کرتی ہے [2]۔ تندرستی اور صحت مند کھانے کی ایپس افراد کو ان کی ترقی کو ٹریک کرنے اور اپنے صحت کے اہداف کو حاصل کرنے میں مدد کر سکتی ہیں [3]۔ ورزش اور متوازن غذا کو اپنے روزمرہ کے معمولات میں شامل کرکے، افراد اپنی جسمانی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں اور دائمی بیماریوں کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں [4]۔جسمانی صحت کے فوائد کے علاوہ، صحت مند طرز زندگی ذہنی صحت اور تندرستی کو بھی فروغ دیتا ہے۔ تناؤ میں کمی اور خود کی دیکھ بھال کے طریقے صحت مند طرز زندگی کے لازمی اجزاء ہیں جو ذہنی صحت کو فروغ دیتے ہیں۔ ذہن سازی کے مراقبہ، ورزش اور آرام جیسی سرگرمیوں میں مشغول ہونا تناؤ کی سطح کو کم کرنے اور مجموعی صحت کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتا ہے [5]۔ باقاعدگی سے خود کی دیکھ بھال کے طریقے، جیسے کافی نیند لینا، ہائیڈریٹ رہنا، اور اچھی حفظان صحت کی مشق کرنا، افراد کو تناؤ پر قابو پانے اور اپنے جسمانی اور جذباتی ذخائر کو برقرار رکھنے میں بھی مدد کر سکتے ہیں [6]۔ تناؤ میں کمی اور خود کی دیکھ بھال کو ترجیح دے کر، افراد اپنی ذہنی صحت اور زندگی کے مجموعی معیار کو بہتر بنا سکتے ہیں [7]۔باقاعدگی سے صحت کی جانچ اور احتیاطی دیکھ بھال بھی صحت مند طرز زندگی کے اہم اجزاء ہیں۔ معمول کے چیک اپ سے ممکنہ صحت کے مسائل کی جلد شناخت میں مدد مل سکتی ہے، جس سے حالات کے زیادہ موثر علاج اور انتظام کی اجازت مل سکتی ہے [8]۔ حفاظتی نگہداشت، جیسے کہ ویکسینیشن اور اسکریننگ، افراد کو اچھی صحت برقرار رکھنے اور دائمی بیماریوں کے آغاز کو روکنے میں بھی مدد کر سکتی ہے [9]۔ باقاعدگی سے صحت کے چیک اپ اور احتیاطی دیکھ بھال کو ترجیح دے کر، افراد اپنی صحت پر قابو پا سکتے ہیں اور صحت کی سنگین صورتحال پیدا ہونے کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں [10]۔ کام کی جگہ پر فلاح و بہبود سے نمٹنے کے لیے تیار کردہ مداخلتیں، جیسے ذہن سازی کی تربیت اور سماجی ہم آہنگی کی فلاح و بہبود کے پروگرام، مجموعی صحت اور بہبود کو بھی فروغ دے سکتے ہیں
میوات کے ساتھ مور خین نے ظلم کرو
میوات کے ساتھ مور خین نے ظلم کرو میوات کے ساتھ مور خین نے ظلم کرو حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ۔۔۔۔۔۔۔ میوات کو علاقہ جتنو مشہور ہے شاید یاسو بھی گھنی یاکی تاریخ گمنامی ہے۔میون کی اپنی ثقافت اپنو رہن سہن۔تہذٰب و تمدن ہو۔اور ہے یامیں ہر قسم کا لوگ گزاراہاں۔لیکن تعلیمی سلسلہ میں میوات کمزور ہو ،یامارے اپنا بارہ میں لکھن لکھان کو سلسلہ پیدا نہ کرسکا میو تلوارکا دَھنی ہا۔غیرت مند ہا۔حیاء شرم ہی کان قائدہ ہا۔اپنا کام کود کرن کا عادی ہا۔ میون نے کدی کائی کی کندھ نہ ٹپی ہی نہ کائی کا علاقہ میں چڑھ کے گیا ہا۔ لیکن جب بھی میون کا علاقہ میں کائی نے قدم دھرن کی کوشش کری تو میون نے واکی چمڑی اُدھیڑکے دھردی جبسوٹا اٹھا لیا تو ۔مارا بھی جانگا اور کھایا بھی جانگا۔یہی دنیا کی ریت ہے میون کے بارہ میں درباری قسم کا مورخین نے جو کچھ لکھو ہے۔او میونکی تاریخنہ ہی بلکہ وقت کی حکومت کی دلالی ہی۔جنن نے وقت کا حکمرانن کی ہر ظلم و زیادتی کو مذہبی رنگ دے کے بہتر ثابت کرو اور جن کے ساتھ ظلم ہوئیو ہو وے باغی لٹیرا۔ڈاکو۔نہ جانے کہا کہا لکھو یہی ایک ظلم ہے جو میون کے ساتھ ہوئیو خدا لگتی کہو۔اگر کوئی کائی کا گھر پے دھاوا بول دئے۔تو کہا واکا ظلم اے یا بنیاد پے شرعی رنگ دے دئیوگا۔کہ وانے منہ پے داڑھی سجا راکھی ہی۔۔؟؟؟ میون سو بڑی غلطی ای ہوئی کہ انن نے اپنا کارنامہ نہ لکھا ۔اپنی تاریخ کی حفاظت نہ کری۔ جانےجو کچھ لکھو ۔پڑھن والان نے وہی پڑھو ایکام تو میون کو ہو کہ اصل بات لوگن کے سامنے دھرتا کہ نوںنہ ہے بلکہ اصل بات نوں ہے۔ جب بے ایک دوسرا کا سرن پے لٹھ تانی راکھا اصل کام مہیں دھیان نہ دئیو۔ لون نے کہا پڑی کہ تہاری مظلومیت اور سچائی اے جانتا پھرتا ۔اتنو وقت کس کے پئے ہے۔ ۔اب بھی وقت ہے پھوں پھاں اے چھوڑ کے کوئی ڈھنگ کا کام کرو۔اپنی تاریخ خود لکھو۔
Amliyaat ki Asri Suratein Shari Tanazur mein By Mufti Ubaid ur Rahman عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں
Amliyaat ki Asri Suratein Shari Tanazur mein By Mufti Ubaid ur Rahman عملیات کی عصری صورتیں شرعی تناظر میں Read Online
منہ دکھائی میں چلو
منہ دکھائی میں چلو منہ دکھائی میں چلو ۔محافظ اروائولی۔ ۔از ۔۔قلم :نواب ناظم میو۔ حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو میو قوم سدا سو بہادری وناموری اور وطن پرستی میں آگے رہی ہے بجا طورپے اپنا بڑان پے فخر بھی کرے ہے۔فخر تو وائے پے کرو جاسکے ہے جاکے پئے کچھ بتان کوموجود ہوئے۔ بیان کرن کے مارے حقیقی کارنامہ ہوواں میون کی تاریخ بہادری اور سخاوت کا کارنامان سو بھری پڑی ہاں۔بے شمار بہادر گزراہاں۔ کچھ یاد رہ گیا تو بے شمار لوگ وے ہاں جنن نے اپنوخون میوات کا نام روشن کرن کے مارے دئیو اور خود گمنامی کی چادر اوڑھ کے سوگیا۔لیکن اپنا خون دے کےمیوات کانام اے جگا گیا۔اور آن والان کے مارے تاریخ دے گیا۔بتا گیا کہ کوئی کتنو بھی بڑو ہوئے لیکن غیرت اور وطن سو بڑو نہ ہوسکے ہے۔ اپنا بےگانان میں سو کائی نے بھی وطن مہیں میلی آنکھ سو دیکھن کی کوشش کری ۔واکی آنکھ پھوڑ دی۔ یاکی جوبھی قیمت دینی پڑی میون نے دی۔ یا وطن پرستی میں کوئی مذہب،کوئی تعلق،کوئی لالچ کام نہ آئیو۔اولاد تک قربان کردی ۔ میون نے بہادری۔قوم پرستی۔حق انصاف کی آواز ہر زمانہ میں اٹھائی۔ای ریت ہمارا پرُکھن سو چلی آری ہے عظیم قربانی ۔فتح پور سیکری کی جنگ میں بہن والو خون ہندستان کی تاریخ کا ماتھا کو جھومر ہے۔ حسن خاں ۔رانا سانگا کی تلوار ہوواں اور نواب ناظم کا قلم پے ان کی نوک سو بہن والو لہوہوئے تو ۔۔محافظ اورائولی۔۔ جیسی شاہکار چیز جنم لیوا ہاں۔ ایسے لگے ہے نواب ناظم صاحب نے فتح پور سیکری کی جنگ پہاڑ پے کھڑو ہوکے دیکھی ہے اور اپنی زبان سو جنگ میں باجن والی کٹا کی کہانین نے سنارو ہے۔ ۔۔محافظ ارائولی۔۔ کوئی قصہ کہا نی تھوڑی ہے ای تو اُو نقارہ ہے، جاسو نواب صاحب بے سُدھ سویا میون نے جگان کی کوشش کررو ہے۔ میں نے محافظ ارائولی ۔پڑھی۔ اور دو تین صدی پیچھے جاکےدیدہ بصیرت سو ف تخ پور سیکری کو میدان جنگ دیکھو اگر روایات و تاریخی مواد کی کمی نہ ہوتی تو حسن خان میواتی اور رانا سانگا کا گھوڑان کی ٹاپ کانن سو سنائی دیتی۔نیزہ ،بھالا، تلوار۔توپ و تفنگ سامنے گھومتا دکھائی دیتا۔ نواب صاحب کا قلم میں ایک میو کو لہوگراماتو دکھائی دئیو ہے موئے یقین ہے نواب صاحب فتح پورسیکری کا میدان میں ہوتو ضرور قلم کی جگہ تلوار پکڑے ہوتو۔لیکن ان کو قلم صدین سو غفلت میں پڑا میون نے جگان کی کوشش کررو ہے۔وا وقت تلوار ہی ۔آج قلم ہے۔ حسن خان نے تلوا رکو حق ادا کرو۔ نواب صاحب نے قلم کو۔ وقت اور موقع بدلو ہے۔کام ایک جیسو ہے۔ وا وقت بھی میون نے جگان کی کوشش کری گئی ہی آج بھی ای کوشش جاری ہے۔۔۔ جو میو بھی محافظ ارائولی ۔پڑھے۔ ۔ یا میں تھوڑی سیتبدیلی کرکے محافظ میو۔۔لگا دئے تو مفہوم وسیع ہوجائے گو ۔۔محافظ اورائولی۔۔ پڑھو۔دوسران کو بھی پڑھوائو۔ محافظ اورائولی۔میون کاخون گراما کی اُو خوراک ہے جو بھی کھائے گو۔ واکی رگن میں تازہ خون دوڑن لگ جائے گو آج محافظ اورائولی کی۔۔منہ دِکھائی ہے۔۔ میون نے چاہے اپنا محسنن کا قرض اُتارن کے یا اُپ گھاٹن میں ضرورجاواں۔۔ مقام:پلاک۔پنجاب انسٹی ٹیوٹ لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر لاہور زیر اہتمام:روزنامہ سسٹم۔انجمن ترقی پسند مصنفین لاہور
ہاضمے کو بہتر بنانے کے لیے 19 بہترین غذائیں
ہاضمے کو بہتر بنانے کے لیے 19 بہترین غذائیں 19 Best Foods to Improve Digestion ہاضمے کو بہتر بنانے کے لیے 19 بہترین غذائیں حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مضمون 19 غذاؤں کی فہرست فراہم کرتا ہے آج کل ہاضمہ کےمسائل عالمگیر حیثیت اختیار کرچکے ہے۔یہاں کچھ غذائیں بتاتے ہیں کا استعمال ہاضمے کو بہتر بنانے اور ہاضمے کے مسائل کو دور کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ یہ ایک صحت مند ہاضمہ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور عام ہاضمہ کے مسائل جن کا لوگ تجربہ کرتے ہیں، جیسے اپھارہ، درد، گیس اور قبض۔ مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ غذائیں کھانے سے ہاضمے میں مدد مل سکتی ہے اور صحت مند آنت کو فروغ مل سکتا ہے۔ ہاضمے کو بہتر بنانے کے لیے 19 بہترین غذاؤں میں شامل ہیں : دہی: مشرقی لوگ گھر مین دہی بناتے ہیں وہی استعمالکے لئے بہترہوتا ہے پروبائیوٹکس پر مشتمل ہے جو ہاضمہ میں صحت مند بیکٹیریا کو فروغ دیتا ہے۔ سیب۔عام پایا جانے والا کثیرالاستعمال پھل ہے۔ : پیکٹین سے بھرپور، ایک گھلنشیل ریشہ جو پاخانہ میں بڑی مقدار میں اضافہ کرتا ہے اور بڑی آنت میں سوزش کو کم کرتا ہے۔ سونف:مشرقی لوگ اسے اپنے کھانوں میں جزو لازم کے طورپر شامل کرتےہیں اس کا فائبر مواد قبض کو روکتا ہے اور ہاضمہ کے ہموار پٹھوں کو آرام دیتا ہے، اپھارہ اور درد کو کم کرتا ہے۔ کیفیر: کیفیر ایک خمیر شدہ دودھ کا مشروب ہے جو ایک پتلی دہی یا آئران سے ملتا جلتا ہے جو کیفیر کے دانے سے بنایا جاتا ہے، یہ ایک مخصوص قسم کی میسوفیلک سمبیوٹک کلچر ہے۔ اس مشروب کی ابتدا خاص طور پر شمالی قفقاز میں ہوئی۔پروبائیوٹکس پر مشتمل ہے جو لییکٹوز کے عمل انہضام میں مدد کرتا ہے اور آنتوں کے بیکٹیریا کے توازن کو بہتر بناتا ہے۔ چیا سیڈز: چیا کے بیج (تخمِ شربتی) چھوٹے، کالے بیج ہیں جو غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں اور ان میں پروٹین، فائبر، اومیگا 3 فیٹی ایسڈ، کیلشیم اور اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ایک سپر فوڈ سمجھا جاتا ہے جو آپ کے جسم اور دماغ کے لیے فائدہ مند ہے۔ وزن کم کرنے کے لیے لاہور کے بہت سے اعلیٰ غذائی ماہرین بھی ان کی سفارش فائبر کی مقدار زیادہ ہے، یہ آنتوں میں صحت مند بیکٹیریا کی افزائش کو فروغ دیتے ہیں اور آنتوں کی باقاعدگی کو سہارا دیتے ہیں۔ کومبوچا : کمبوچا ایک خمیر شدہ، ہلکی پھلکی، میٹھی کالی چائے کا مشروب ہے جسے عام طور پر اس کے صحت سے متعلق فوائد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اس مشروب کو کمبوچا چائے کہا جاتا ہے تاکہ یہ فرق ہو کہ میں… پروبائیوٹکس سے بھرپور ایک خمیر شدہ چائے جو ہاضمے کو بہتر کرتی ہے اور پیٹ کے السر کو ٹھیک کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ پپیتا: ہاضمہ انزائم پاپین پر مشتمل ہوتا ہے، جو پروٹین کے عمل انہضام میں مدد کرتا ہے اور آئی بی ایس کی علامات کو دور کرتا ہے۔ پھل پکتا جاتا ہے اتنا ہی اس میں وٹامن سی بڑھتا جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق پپیتا میں بہت سے غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں، ایک عام اندازے کے مطابق ایک درمیانے سائز کے پپیتے میں پندرہ گرام کاربوہائڈریٹس، تین گرام فائبر، ایک گرام پروٹین، تینتیس فیصد وٹامن اے، ایک سو ستاون فیصد وٹامن سی، گیارہ فیصد پوٹاشیم، اور چودہ فیصد وٹامن بی9 پایا جاتا ہے۔خوبصورت رنگ اور منفرد خوشبو کی بنیاد پر پپیتا کو کرسٹوفر کولمبس نے فرشتوں کے پھل کا نام دیا تھا۔ اس نام کو بہت زیادہ مقبولیت بھی حاصل ہوئی، کیوں کہ اس پھل کی غذائی اہمیت بہت زیادہ ہے۔پپیتا کو کچا بھی استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ کچھ افراد پکے ہوئے پپیتے کو استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔ اسے کسی بھی صورت میں استعمال کیا جائے، اس کی افادیت میں کمی نہیں آئی سارا اناج: سارا اناج کیا ہے؟ اناج گھاس نما پودوں کے بیج ہیں جنہیں سیریل کہتے ہیں جن کی کچھ عام قسمیں مکئی ، چاول اور گندم ہیں غٰیر گھاس کے پودوں کے کچھ بیج، یا سیوڈوسیریل کو بھی سارا اناج سمجھا جاتا ہے جن میں بکواہیٹ، کوئنو شامل ہیں فائبر کی مقدار زیادہ ہے، یہ پاخانے میں بڑی مقدار میں اضافہ کرتے ہیں اور صحت مند آنتوں کے بیکٹیریا کو کھلانے کے لیے پری بائیوٹکس کے طور پر کام کرتے ہیں۔ Tempeh: خمیر شدہ سویابین جو غذائی اجزاء کے جذب کو بہتر بناتے ہیں اور بہتر ہاضمے کے لیے پروبائیوٹکس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ چقندر: فائبر سے بھرپور جڑ والی سبزی جو آنتوں کے دوستانہ بیکٹیریا کو کھاتی ہے اور پاخانے میں زیادہ مقدار میں اضافہ کرتی ہے۔ Miso: پروبائیوٹکس کے ساتھ خمیر شدہ سویا بین کا پیسٹ جو ہاضمے کے مسائل کو کم کرتا ہے اور آنتوں کی بیماری پر قابو پانے میں مدد کرتا ہے۔ Miso ایک روایتی جاپانی مسالا ہے۔ یہ ایک گاڑھا پیسٹ ہے جو سویابین کو نمک اور کجی اور بعض اوقات چاول، جو، سمندری سوار یا دیگر اجزاء کے ساتھ خمیر کرکے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ ساس اور اسپریڈ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ادرک: ایک روایتی علاج جو معدے کے خالی ہونے کو تیز کرتا ہے، سینے کی جلن اور متلی کے خطرے کو کم کرتا ہے۔ کمچی: کمچی، ایک روایتی کوریائی بنچن ہے جو نمکین اور خمیر شدہ سبزیوں پر مشتمل ہے، عام طور پر ناپا گوبھی یا کورین مولی کا استعمال کرتے ہیں۔ سیزننگ کا ایک وسیع انتخاب استعمال کیا جاتا ہے، بشمول بہتر ہاضمہ اور آنتوں کی صحت کے لیے پروبائیوٹکس اور فائبر کے ساتھ خمیر شدہ گوبھی۔ گہرے سبز سبزیاں: ناقابل حل فائبر، میگنیشیم، اور ایک چینی فراہم کریں جو آنتوں میں اچھے بیکٹیریا کو کھانا کھلاتی ہے، صحت مند ہاضمہ کو فروغ دیتی ہے۔ نیٹو: پروبائیوٹکس کے ساتھ خمیر شدہ سویابین جو معدے کی صحت اور باقاعدگی کو بہتر بناتے ہیں۔ Sauerkraut: پروبائیوٹکس اور انزائمز کے ساتھ خمیر شدہ گوبھی جو اچھے بیکٹیریا کو کھانا کھلا کر اور غذائی اجزاء کو توڑ کر ہاضمے میں مدد کرتی ہے۔ Sauerkraut کچی گوبھی کو باریک کاٹا جاتا ہے جسے مختلف لیکٹک
: کیا حمل میں پیراسیٹامول کا استعمال مرد بچوں کے لئے نقصان دہ ہے؟ –
: کیا حمل میں پیراسیٹامول کا استعمال مرد بچوں کے لئے نقصان دہ ہے؟ – : کیا حمل میں پیراسیٹامول کا استعمال مرد بچوں کے لئے نقصان دہ ہے؟ – خبریں۔ 2023 حکیم الموات قاری محمد یونس شاہد میو ڈیلی میل خاص طور پر اپنے اس دعوے کے ساتھ سر فہرست ہے کہ ، “یہ خیال کیا جاتا ہے کہ” مقبول پینکلر نے بچوں کے لڑکوں پر زندگی بھر کے اثرات مرتب کیے ہیں ، جس سے وہ بانجھ پن سے لے کر کینسر تک ہر چیز کا خطرہ بڑھاتے ہیں “۔ میل سوچ سکتا ہے کہ یہ معاملہ ہے ، لیکن زیادہ تر اہل ماہر شواہد کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس پر سوال کریں گے۔ ایک تحقیق کے مطابق، حمل کے دوران پیراسیٹامول کا استعمال مرد بچوں کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ پیراسیٹامول ایک عام درد کش دوا ہے جو بخار، سر درد، جسم کے درد اور دانت میں درد کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ تحقیق کاروں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ حمل کے دوران پیراسیٹامول لینے والی خواتین کے بچوں میں اندرونی تولیدی نظام پر اثرات پڑ سکتے ہیں، جو مرد بچوں کی زندگی بھر کی صحت اور بانجھپن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ تحقیق کاروں نے 1400 خواتین اور ان کے بچوں کا مطالعہ کیا، جن میں سے 56 فیصد خواتین نے حمل کے دوران پیراسیٹامول کا استعمال کیا تھا۔ انہوں نے ان خواتین کے بچوں کے پیشاب میں ایک ہارمون کی مقدار کا پیمائش کیا، جو مرد بچوں کے تولیدی نظام کا اہم جزو ہے۔ انہوں نے پایا کہ جن خواتین نے حمل کے دوران پیراسیٹامول لیا تھا، ان کے بچوں میں یہ ہارمون کم تھا، جس سے ان کے بچوں کی تولیدی صحت پر منفی اثر ہو سکتا ہے۔ تحقیق کاروں نے مزید بتایا کہ پیراسیٹامول حمل کے دوران فطرت پر مداخلت کر سکتا ہے، جس سے بچوں میں جنسی خصوصیات کا ارتقاء رک سکتا ہے۔ اس سے بچوں میں زیرِبطنی خلل، زیرِبطنی ٹیومر، بانجھپن اور دل کی بیماری جیسی صحت سے متعلق مسائل پیدا ہو سکتی ہیں۔ تحقیق کاروں نے خواتین کو حمل کے دوران پیراسیٹامول استعمال کرنے سے احتیاط کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پیراسیٹامول صرف ضرورت کی صورت میں اور کم سے کم مقدار میں استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ، خواتین اپنے ڈاکٹر سے مشورہ لیں کہ حمل کے دوران کون سی دوائیاں لینا مناسب ہوگی۔ مضمون کے بارے میں کچھ مزید معلومات یہ ہیں: یہ مضمون 20231 میں ہیومن ری پروڈکشن جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق پر مبنی ہے۔ اس تحقیق میں ڈنمارک، فرانس، فن لینڈ، یونان اور ناروے سے 1400 خواتین اور ان کے بچے شامل تھے۔ محققین نے مرد بچوں میں anogenital فاصلے (AGD) کی سطح کی پیمائش کی، جو تولیدی صحت 1 کا نشان ہے۔ انہوں نے پایا کہ پیراسیٹامول کے ساتھ قبل از پیدائش کی نمائش کا تعلق AGD کے ساتھ تھا اور مرد بچوں میں cryptorchidism (غیر اترے خصیے) کا زیادہ خطرہ تھا۔ انہوں نے یہ بھی پایا کہ پیراسیٹامول کی نمائش نے مرد جنین میں ٹیسٹوسٹیرون اور دیگر ہارمونز کی نشوونما کو متاثر کیا۔ انہوں نے تجویز کیا کہ پیراسیٹامول انڈوکرائن میں خلل ڈالنے والے کیمیکلز (EDCs) میں مداخلت کر سکتا ہے جو مرد جنین کے جنسی تفریق کو منظم کرتے ہیں۔ انہوں نے تجویز کیا کہ حاملہ خواتین کو پیراسیٹامول صرف اس وقت استعمال کرنا چاہیے جب طبی طور پر ضروری ہو اور کم سے کم وقت کے لیے۔ انہوں نے مردوں کی تولیدی صحت پر پیراسیٹامول کی نمائش کے طویل مدتی اثرات پر مزید تحقیق کا بھی مطالبہ کیا۔ مجھے امید ہے کہ اس سے آپ کو مضمون کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔ : کیا حمل میں پیراسیٹامول کا استعمال مرد بچوں کے لئے نقصان دہ ہے؟ – یہ ایک اچھا سوال ہے۔ Nature Reviews Endocrinology1 میں شائع ہونے والے متفقہ بیان کے مطابق، حمل کے دوران پیراسیٹامول کا استعمال جنین کی نشوونما کو تبدیل کر سکتا ہے، جس سے بعض اعصابی ترقی، تولیدی اور یوروجنیٹل عوارض کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ کچھ مطالعات نے یہ تجویز کیا ہے کہ قبل از پیدائش پیراسیٹامول کی نمائش کا تعلق مردانہ یوروجنیٹل اور تولیدی نالی کی اسامانیتاوں سے ہوتا ہے، جیسا کہ غیر اترے خصیے1۔ دیگر مطالعات نے تجویز کیا ہے کہ حمل کے دوران پیراسیٹامول آپ کے بچے کی جنسی خواہش کو روک سکتا ہے اور مردانہ جنسی ہارمون ٹیسٹوسٹیرون 2 کی نشوونما کو روک سکتا ہے۔ تاہم، یہ نتائج حتمی نہیں ہیں اور پیراسیٹامول اور ان نتائج کے درمیان تعلق کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اگر آپ سرکاری ایجنسیوں جیسے FDA اور EMA1 کے ذریعہ حاملہ ہیں تو پیراسیٹامول کو اب بھی درد کش دوا کا پہلا انتخاب سمجھا جاتا ہے۔ NHS مشورہ دیتا ہے کہ حاملہ خواتین کو حمل کے آغاز میں احتیاط برتنی چاہیے: پیراسیٹامول چھوڑ دیں جب تک کہ اس کا طبی طور پر اشارہ نہ ہو۔ کسی معالج یا فارماسسٹ سے مشورہ کریں اگر وہ غیر یقینی ہوں کہ آیا استعمال کا اشارہ دیا گیا ہے اور طویل مدتی بنیادوں پر استعمال کرنے سے پہلے؛ اور کم سے کم وقت کے لیے سب سے کم موثر خوراک استعمال کر کے نمائش کو کم سے کم کریں3۔ مجھے امید ہے کہ یہ معلومات آپ کی مدد کرے گی۔ براہ کرم یاد رکھیں کہ میں طبی پیشہ ور نہیں ہوں اور حمل کے دوران کوئی بھی دوا لینے سے پہلے آپ کو ہمیشہ اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے۔
کچےآم کے حیرت انگیز فوائد//حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
کچےآم کے حیرت انگیز فوائد//حکیم قاری محمد یونس شاہد میو کچے آم کےحیرت انگیز فوائد سمہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔اس کی غذائی ضروریات کی تکمیل کے لئے بے شمار ذرائع و اسباب مہیا کئے ہیں۔پھلوں کو دنیا و جنت دونوں میں نعمتوں میں شمار کیا ہے۔ دنیا میں بھی بے شمار پھل عطاء کئے ہیں۔اور مخلتلف خطوں کو مختلف پھل دئے۔پاک وہند برصغیر اور اس کے گرد و نواح کے ممالک میں آم جیسا خوبصورت و رسیلا پھل عطاء فرمایا ہے۔ ہم لوگ پھل اور دیگر غذائی اجناس کھاتے پیتے ہیں لیکن انکے غذائی اجزاء اور طبی فوائد کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا۔صرف حکماء یا خال خال لوگ ہی ملیں گے جو طبی خواص کے بارہ جانتے یا بتاتے ہیں۔کبھی کبھار لوگ غلط سلط بھی بتاتے ہیں کہ تاکہ علمی دھاک قائم رہے۔ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور کی طرف سے طبی مواد کا تسلسل سے شائع کرنے کا کئی سالہ ریکارڈ ہے۔تقریبا85 کتب کی فہرست اسی کتاب کے آخر میں دی گئی ہے۔تحقیق و تصنیف کا سلسلہ بڑی سرعت سے جاری تھا لیکن جو خدا کو منظور ہو انسان کو اس سے مفر نہیں۔ جب میرا بیٹا سعد یونس مرحوم (المتوفی28 سمتبر2022) ہمیں چھوڑ کر سفر جاودانی پے روانہ ہوا تو ہمیں اس صدمہ نے بہت متاثر کیا۔ سعد طبیہ کالج اور دونوں ویب سائٹس https://tibb4all.com https://dunyakailm.com Tibb4all Tv یوٹیوب چینل و سوشل اکائونٹ اسی کی اختراعی کاوش تھی۔آج ہم اسی فارمیٹ میں کام جاری ہے۔سروورق انہیں کا بنایا ہواہے۔صرف چندچیزیں بدلی ہیں۔میں نہیں چاہتا کہ اس کی کھینچی ہوئی لکیریں مٹائوں۔ میں اس کتاب کو اپنے والدین مرحومین کی طرف منسوب کرتا ہوں۔ جن کی دعائوں اور محنت نے مجھے اس قابل بنایا کہ آپ کو کچھ پڑھنے کے لئے مواد مہیا کرنے کے قابل بنا۔دعاہے اللہ تعالیٰ اس کتاب کو میرے لئے اور میرے ادارے اور قارئین کے لئے نفع بخش بنائے۔صدقہ جاریہ کے طور پر اسے باقی رکھے۔ طالب دعا حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو منتظم اعلی:سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ//سعد میموریل انسٹیٹیوٹ پاکستان #hakeemqariyounas #qariyounas #tibbibooks #tibb4all #dunyakailm #hakeem_qari_younas_books #hakeemqariyounasbooks #saadtibbiacollege #saad_tibbia_college #dunyakailm #Saad Mayo Memorial Virtual Skills #Hakeem ul Mewat