قیامت دجال،ظہور مہدیؒ پر25 مستند کتب۔ قیامت دجال،ظہور مہدیؒ پر25 مستند کتب۔ احادیث نبوی کا وہ حصہ جسے اشراط الساعۃ کا نام دیا گیا ہے قرب قیامت رونما ہونے والی علامات جن کے بارہ میں لسان نبوت سے کچھ نشانیاں بیان ہوئیں۔جن کا ظہور ہوچکا کچھ کا عنقریب ہونے والا ہے۔ان کتب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ احادیث نبویﷺ میں ان کے ظہور اور ان سے بچائو کی تدابیر بیان کی گئی ہیں۔انہیں سمجھ کر بچائو کی تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔
عہد نبوی کے میدان جنگ (ڈاکٹر محمد حمید اللہ)
عہد نبوی کے میدان جنگ (ڈاکٹر محمد حمید اللہ) عہد نبوی کے میدان جنگ (ڈاکٹر محمد حمید اللہ).دنیا کے عظیم انسان کی وحی کے سائے میں دی گئی جنگی ہدایات جس کی رنظیر نہ مل سکی کتاب کے لئے اس لنک پر کلک کریں
Syeda Fatima [RA]
Syeda Fatima [RA] By Abul Qasim Rafiq Dilawri سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا Syeda Fatima [RA] حجرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی سوانح عمری۔اور ان کی زندگی ۔سیرت پر بہترین کتاب جسکامطالعہ ہر مسلمان کے لئےایمان مین اضافہ کا سبب بنے گا کتاب کے لئے اس لنک پر کلک کریں
Diagnostic Tool (Software)
Diagnostic Tool (Software) حکمائے کرام ادھر بھی توجہ دیں۔جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں۔ تشخیص حاذق(سوفٹ وئیر) Diagnostic Tool (Software) حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو (مصنف:تشخیصات متعدد۔تحریک امراض اور علاج۔العقاقیر المیسرہ۔گھریلو اشیاء کے طبی فوائد۔وغیرہ کتب کتب کثیرہ) ڈیجیٹل دنیا کی سہولیات طب و حکمت کی دنیا میں نت نئے لوگ آتے اور پورے جلوے دکھاتے ہیں بالخصوص نئے حکماء میں جوش و جذبہ پرانے لوگوں سے زیادہ ہوتا ہے نئے لوگوں میں کرگزنے کا جوش وجنون موجزن ہوتا ہے اپنوں کا دکھ۔ جب کہ پرانے حکماء تجربہ میں پختگی کے ساتھ سات ایک ٹہرائو آتا جاتا ہے شروع میں جولوگ صف حکماء میں شامل ہوتے ہیں وہ دنیا بدلنے کا جنون رکھتے ہیں لیکن جب توقعات پوری نہیں ہوتیں اور تجربات کی حقیقی دنیا ان کے سامنے ہوتی ہے تو ان کے اندر رکھ رکائو پیدا ہوجاتا ہے۔کچھ نسخہ جات ہاتھ لگ جاتے ہیں اور کچھ تجربات ہاتھ لگ جاتے ہیں۔روزی روٹی کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے اور کچھ باتیں لوگوں کو سنانے کے لئے جمع ہوجاتے ہیں۔جو بعد میں لوگوں کو سنانے اور اپنی شان بڑھاتے کے لئے کام آتی ہیں۔ انٹر نیٹ کی دنیا میں بے شمار سائٹس۔واٹس ایپ گروپس۔فیس بک پیچیز دیکھنے کو ملتے ہیں۔جہاں بے شمار غیر حقیقی دعویٰ جات کی بھرپور تحریریں ملتی ہیں لیکن جدید دنیا میں جگہ پیدا کرنے۔کوئی کارنامہ سرانجام دینے ۔اور نئی دریافت کرنے کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ الحمداللہ بخل پہلے سے کہیں بڑھ چڑھ بول رہا ہے طبیب نما جہلاء کاغیر ذمہ دارانہ رویہ دکھ و افسوس تو ان حکماء پر ہے جو بے دھڑک اناپ شناپ نسخے بے دھڑک شئیر کرتے ہیں۔ساتھ میں ماخذ بتانے کے بجائے اپنی تحقیق بتاتے ہیں۔اصل ماخذ بتانے سے جان جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طب کے کفن دفن کا بندوبست حکماء کے نام پر جہلاء لوگوں نے اپنے سر لیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔دوسروں سے کیا گلہ؟؟ رونا روتے ہیں حکماء کے حقوق مار لئے گئے۔حکومت نے فلاں پابندی لگادی حکومت ہمیں سہولت نہیں دے رہی۔وغیرہ وغیرہ۔۔ سوفٹ وئیر کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ دست بستہ گزارش ہے۔۔کونسی ایسی تحقیق ہے جو آج کے حکماء نے کی ہے کیا حکماء کے پاس کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود ہے جہاں سے بہتر آواز بلند ہوسکے۔قواعد مقرر کئے جاسکیں ۔کچھ قواعد ایسے ہوں جو سب پر برابر لاگو ہوں تاکہ معلوم ہو کہ حکماء کی ڈومین اور دائرہ کار کیا ہے؟۔کونسا طبیب کس میدان میں اختصاص(سپیشلائزیشن)کا حامل ہے۔۔آج کا دور اختصاص کا دور ہے میڈیکل کی دنیا میں مہنگی فیس بہترین لبارٹریز۔اور پریکٹیکلز کی سہولت کے باوجود وہ لوگ اختصاص پیدا کرتے ہیں۔کوئی ناک کا ڈاکٹر ہے تو کوئی کان ناک کا کوئی امراض معدہ کا ہے تو کوئی جگر کا۔اس میدان میں اتنی مہارت پیدا کرکے من چاہی فیس وصول کرتے ہیں پر کام کرتے ہیں۔اپنی دھاک حذاقت بٹھاتے ہیں دوسری طرف حکماء ہیں جو چند نسخوں کی بنیاد پر ہم چون دیگرے نیست کا نعرہ بلند کرتے ہیں اپنی دوا کو تمام امراض کے لئے جام شفاء قرار دیتے ہیں۔ گوکہ نسخہ تو بنالیتے ہیں لیکن اطمنان نہیں ملتا۔کوشش ہوتی ہے کہ کہیں سے موجود ہ نسخے سے بہتر نسخہ مل جائے۔جب کچھ فوائد مل جاتے ہیں تو انہیں نسخہ کی کیمیائی صفات بتاتے ہیں ۔جب ناکام ہوجائیں تو مریض کو بد پرہیزی کا دوش دیتے ہیں۔نہ تو یہ پتا ہوتا ہے کہ نسخہ نے کس بنیاد پر مرض کو فائدہ دیا نہ اس بات کی تحقیق کی جاتی ہے کہ دوا نے اثر کیوں نہیں کیا؟ تشخیص مرض۔تجویز غذا۔ترتیب میں نسخہ میں کوئی خامی تھی یا پھر ملحقہ اسباب نے بہتر نجائج سے باز رکھا۔؟؟؟؟ دیجیٹل سہولیات اور اطباء کرام اس وقت ڈیجیٹل دنیا نے بہت سی سہولت پیدا کردی ہیں۔حکماء کو ان سہولیات سے استفادہ کرنا چاہئے۔بجائے تخمینوں اور اٹل پچو لگانے کے۔کچھ قواعد بنانے چاہیئں تاکہ امراض ۔غذا۔دوا۔شفاء کے قواعد معلوم ہوسکیں۔اسی پیٹرن پے اطباء اپنا مطب چلا سکیں۔جدید میڈیکل میں جہاں بے شمار سہولیات موجود ہیں۔ وہیں پر انہیں ایسے سوفٹ وئیرزمیسر ہیں جنہیں معمولی قیمت پر حاصل کرکے کلینک میں استعمال کیا جاتا ہے۔اور اپنی حذاقت کی دھاک بٹھائی جاتی ہے سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ/سعد ورچوئل سکلز پاکستان کی ادنی سی کاوش سعد ورچوئل سکلز پاکستان جوکہ سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی ﷺ کا ذیلی ادارہ ہے نے اس قسم کے سوفٹ وئیرز ڈزائن کئے ہیں۔ المشخص نامی سوفٹ وئیر میں دستیاب طبی کتب بھی شامل ہونگی۔ تاکہ کم وقت میں زیادہ مطالعہ و تحقیق کی سہولت میسر آسکے۔تشخیص کے لئے قارورہ۔تھوک۔خون۔اور زبان۔۔پسینہ سے تشخیص مرض کرکے غذا و دوا ۔پرہیز۔وغیرہ تجویز کردیتا ہے۔بالخصوص طب نبویﷺ اور مفرد اعضاء والوں کے لئے یہ نعمت غیر مترقبہ ہے۔ تشخیص امراض۔تجویز علاج جب کسی کے چہرے۔تھوک۔قارورہ،زبان۔پسینہ۔خون کو سکین کیا جائے گا تو ۔اسے تحریکوں میں تقسیم کرکے بہتر تشخیص اور تجویز علاج ممکن ہوسکے گا۔۔۔اگر سکینر سے کام لیا جائے تو ایسڈ۔الکلی۔سالٹ کی تقسیم کرکے بہتر نتائج دے گا۔ اس کے علاوہ۔مرض سے متعلقہ علامات۔ جسمانی کیفیات مزاجی تشخیص وغیرہ بہتر انداز میں سامنے آسکے گی۔اس کے علاوہ غذائیں۔دوائیں ۔عقاقیر۔معدنیات۔کشتہ جات۔مربہ جات خمیرے۔معجونیں۔حبوب۔شربت وغیرہ کی شناخت کی جاسکے گی اس سوفٹ وئیر کو انٹر نیٹ سے منسلک کردیا جائے تو مکمل طورپر کسی مرض اور اس کی علامات پر بہترین مواد مطالعہ کے لئے دستیاب ہوگا۔ دستیاب سہولتیں تحقیقی عمل جاری ہے۔قران و احادیث کی روشنی میں امراض اسباب۔علاج اور غذائی دوائی فوائد،علامات پرسیرچ کی سہولت شامل کردی جائیں گی یہ اپنی نوعیت کاجداگانہ کام اور طبی دنیا میںپہلی کاوش ہے۔امید ہے کہ بہت سے قابل لوگ میدان طب میں آئیں گے یا موجود ہیں جو اس میں حک و اضافہ کرسکیں گے۔ابھی تو ایک ادارہ چند سوفٹ وئیر انجینئرز کی کوش ہے جب دنیا بھر سے فیڈ بیک آئے گا تومزید نکھار کی گنجائش پیدا ہوجائے گی کوئی بھی عمل یا کوشش حرف آخر نہیں ہوتا۔کچھ کریں گے تو تائید و تنقید ہوگی مریضوں کا ریکارڈ محفوظ رکھنا جولوگ اس سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ان کے لئے پرنٹ پر نام کلنیک۔نام طبیب وقت تاریخ۔موجود ہوگی۔اس کے علاوہاگر اسے خریدا جائے گا تو پرانے مریضوں کی ہسٹری بھی محفوظ رکھی جاسکے گی۔ پہلے مریضوں کا جو علاج کیا اس کی ہسٹری۔علاج وغیرہ میں
Sacrifice of Meo nation in partition of India.3
تقسیم ہندمیں میو قوم کی قربانی۔۔3 Sacrifice of Meo nation in partition of India.3 تضحية أمة مايو في تقسيم الهند .3 حکیم المیوات کا قلم سو (اگست کو مہینہ جہاں تاریخ پاکستان کا حوالہ سو بہت اہم ہے۔یائی طرح میو قوم کے ماعے بھی اہمیت راکھےہے۔میو اجُڑ پُجڑ کے گھر بار کنبہ خاندان سوو الگ ہوکےایک ایسا دیس کو چل دیا جہاں ان کو اپنو کوئی نہ ہو۔لیکن ایمان جذبہ اللہ اور واکارسول کی محبت ہی،یائی سلسلہ میں ای تحریر لکھی گئی ہے) (۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو) میو یا لحاظ سو قابل ذکر ہاں کہ انن نے دوسران کی مدد کرن میں اتنی پیش قدمی کری کہ اپنا مفادات اور ضروریاتن نے بھول گیا اور دوسران کی حمایت میں لٹھ گھماتا رہا دستیاب تاریخ گواہ ہے کہ جتنا بھی بیرونی حملہ آور ہندستان میں داخل ہویا اُنن نے مذہب۔برادری ازم۔اور مفادات کا نعرہ بلند کرا۔ میوات کا چوہدرین نے صرف یا بنیاد پے ان کو ساتھ دئیو کہ وے مادر وطن کی ضرورت سو قریب تر ہا۔۔مذہب عقائد و عبادات میں میو قوم ہمیشہ پختہ رہی۔عقیدت جاسو بھی ہوجاوے ہی واکی بات حرف آخر سمجھی جاوے ہے۔جتنا بھی دیندار طبقہ اور شخصیات میو مین آئی یا جو بھی مذہب کے نام پے تحریک چلی میون نے واکو ساتھ دئیو۔اگر سمجھ میں نہ آئیو تو الگ ہوگای مخالفت یا دنگا فساد کا مہیں مائل نہ ہویا۔ای بات نہ ہی کہ صرف ہم ای حق پے ہا دوسرا سب باطل ہاں ہر ایک کو حق رائے دہی دیوے ہا۔بات سُنے ہا۔سمجھ میں آوے ہی تو عمل بھی کرے ہا یہی حال سیاست میں بھی ہو۔بہت کم لوگن نے سیاست مہیں منہ کرو البتہ جب کدی برادری ازم کی بات آوے ہی یاوطن پرستی پے آنچ آوے ہی تو لٹھ لیکے میدان مین نکل آوے ہا۔سود و زیاں کو تصور نہ ہو۔مارو یا مرجائو لیکن مسلمات پے حرف نہ آنو چاہے۔ ہجرت پاکستان میں بھی یہی صورت حال پیش نظر ہی۔جنن نے ہجرت بہتر سمجھی وے من تن دھن قربان کرکے گھر و بے گھر ہوکے پاکستان آگیا اور جنن نے ہندستان مین رہنو پسند کرو۔خاک و خون کی ہولی میں بھی اپنی جگہ سو نہ ٹہلا۔ڈٹا رہا۔سب کچھ لُٹواکے بھی صابر و شاکر رہا۔ جولوگ ہجرت کرن والا اور ہندستان مین رہ جان والان کا بارہ میں یاسو الگ رائے راکھاہاں۔اُنکی مرضی۔نہیں تو یاسو بہتر تاویل نہ ہوسکے ہے۔ سیاسی دائو پیچ سو گھنو میون نے اپنی بہادری اور خودداری پے مان ہو یہ لوگ سیاست کی طاقت اے اپنا بھولا پن سو دبانا کی ناکام کوشش کرے ہا کاش یہ لوگ سیاست کی طاقت سمجھ جاتا۔تو ممکن ہے میو قوم اور سرزمین میوات کو نقشہ کچھ اور ہوتو۔ پاک و پند کا بٹوارہ میں ہجرت کرن والا اور ہندستان میں رہن والا دونوں قسم کا میون نے ناقابل تلافی نقصان اٹھائیو۔یا ہجرت نے جہاں ان کی یکجائی اور ایکتا میں خلل گیرو ہون ان کا وسائل و اثاثہ جات بھی برباد ہویا۔میو اتنی وسع الظرف قوم ہے کہ یا صدی کی سب سو بڑی ہجرت اور قربانی کے باوجود کدی زبان پے حرف شکایت بھی نہ لایا۔کم وسائل میں انن نے اپنی اولاد کو بہتر مستقبل تلاش کرو۔تعلیم دِلوائی۔ اُونچا عہدان تک میو پہنچا۔آج بھی بے شمار میو اعلی ترین عہدان پے براجمان ہاں سچی بات تو ای ہے کہ ہجرت کرن والی نسل کی قربانی رنگ لائی۔اور قدرت نے ان کی سادگی پے رحم کرو۔اور ان کی اولاد عالمی سطح پے متعارف ہوئی۔ ہجرت کرن والان میں سو بہت کم لوگ باقی ہاں ۔باقی سب اللہ کے حضور حاضری دے چکاہاں۔ اگر نئی نسل جو جدید سوشل میڈیا کی ماہر ہے۔ان کی قربانی اور اُجڑنا پجڑنا کی کہانین نے جمع کردئے تو ایک تاریخ مرتب کری جاسکے ہے۔ کچھ لوگ ذاتی طورپے یاکام میں لگ ہویاہاں،پُر خلوص انداز میں مصروف ہاں۔وے یوٹیوب اور فیس بک۔ٹیوٹر۔لنکڈن۔وغیرہ پے خدمت مین مصروف ہاں۔جیسے ریاض نور میو۔نے ایک یوٹیوب ٹیوب چینل بنا راکھو ہے دور دراز سو جاکے بڑا بوڑھان نے ڈھونڈ ڈھونڈ کے بتلاوے ہے۔اور ان کی باتن نے کیمرہ کی مدد سو دنیا کے سامنے دھرے ہے۔ ہندستان کا بھی کچھ لوگ خدمت میں لگا ہویا ہاں یائی طرح سعد ورچوئل سکلز پاکستان ۔بھی اپنا محدود وسائل کے باوجود میو قوم کی خدمت میں مصروف ہے ایک ادارہ۔میو آن لائن ڈائریکٹری۔کانام سو کام کررو ہو ہے۔جو پاکستان میں بسن والا میون کی گنتی میں مصروف ہے اور کئی ہزار لوگن نے اپنا نام پتہ فون نمبر دیا ہاں ۔جو ڈائریکٹری میں لکھا جاچکاہاں یاکے علاوہ۔بہت سا لوگن کی تمنا ہے کہ ایک ایسی ویب سائٹ ہوئے۔جاپے میو قوم کی مردم شماری اور نامور لوگن لوگن کو تعارف لکھو جائے۔۔ یا ڈیجیٹل اندراج کو فائدہ ای ہے کہ۔انٹر نیٹ ہر کائی کے پئے موجود ہے۔ جب کائی کو من کرے گو۔ایک کلک سو میون کا بارہ میں معلومات حاصل کرلئے گو ای کام یامارے کرو گئیو ہے کہ انسانی نفسیات ہے کہ اپنا آپ اے نمایاں کرے ہے اپنو تعارف چاہے۔شہرت چاہے۔دوسران سو اپنی ٹانگ اونچی راکھنو چاہے جب میو آن لائن ڈائریکٹری۔کی ویب سائٹ پے واکو تعارف لکھو جائے گو تو ساری دنیا میں مشہور ہوجائے گو۔بالخصوص میو قوم مین واکو تعارف ہوجائے گو جاری ہے۔۔۔
Saad Virtual Skills Pakistan/سعد ورچوئل سکلز
Saad Virtual Skills Pakistan سعد ورچوئل سکلز سعد یونس کی سالانہ برسی پر سعد ورچوئل سکلز اکیڈمی کا افتتاح کر دیا گیا تفصیلات کے مطابق۔ حکیم قاری محمد یونس شاہد میو کے بیٹے سعد یونس کا گزشتہ برس انتقال ہو گیا تھا ان کو ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال مکمل ہو گیا ہے آج ان کی برسی کی تقریب ان کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی۔جس کی اہم بات یہ ہے کہ سعد یونس آئی ٹی کے شعبہ سے وابستہ تھے ان کا خواب تھا کہ ملک و قوم کا ہر بچہ آئی ٹی ایکسپرٹ ہو۔وہ خود بھی بہت اچھے فری لانسر تھے۔ وہ بہت ساری سکلز میں مہارت رکھتے تھے۔ان کے خواب کی تکمیل کے لیے ان والد محترم حکیم قاری محمد یونس شاہد میو اور ان کے چھوٹے بھائی دلشاد یونس میو نے ملکر ان کی یاد میں فیروز پور روڈ کاہنہ نو لاہور نزد پیر جی والی مسجد کے قریب سعد ورچوئل سکلز اکیڈمی کا افتتاح کر دیا۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اور نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھی گئی۔اور ان کی بخشش و مغفرت کے لیے دعائیں کی گئیں اور بعد میں سعد ورچوئل اکیڈمی کا افتتاح کیا گیا۔ اج کی تقریب میں سرپرست اعلیٰ میو سبھا ادیب مصنف و شاعر سیکندر سہراب میو۔ بابازادہ ڈاکٹر محمد اسحاق میو۔انجمن اتحاد وترقی میوات کے صدر چوہدری شہزاد جواہر میو۔چوہدری طارق محمود میو چیئرمین سردار فاؤنڈیشن قادی ونڈ قصور۔راؤ محمد شریف میو رہنماء پیپلز پارٹی لاہور۔پرنسپل میو کالج یونیورسٹی رامیانہ قصور محمد عاصد میو۔نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس موقع پر چیئرمین میو نیوز محمد فاروق جان میو ۔ڈاریکٹر میونیوز شکراللہ میو۔انچارج ادبی پروگرامز میو نیوز شاعر میوات مشتاق احمد میوامبرالیا۔چوہدری سرور خاں میو رہنماء پی ٹی آئی قصور۔ماسڑ حاجی محمد اسماعیل خاں میو کچوانہ کاہنہ نو۔ماسٹر محمد رمضان میو کرباٹھ۔وقاص انور میو شالیمار۔عبدالقیوم میو شالیمار۔ماسٹر جاوید میو شامی پارک لاہور ۔ اسٹر سلیم اعوان مارکیٹ ماسٹر محمد آصف پنجو۔ماسٹر بوٹی گجومتہ۔مولانا اعجاز احمد شکر گڑھ حافظ محمد اعظم۔راؤ محمد انوار قینچی ڈبل پھاٹک لاہور۔اور احمد اقبال میو نمائندہ میونیوز کماہاں سمیت دوست احباب و عزیز و اقارب رشتہ دار بڑی تعداد میں موجود تھے۔سعد یونس میو کی مغفرت کے لیے دعائیں کی گئیں اور دعا کے بعد سعد ورچوئل سکلز اکیڈمی کا افتتاح برادری کے بزرگ رہمناء ادیب و مصنف شاعر سرپرست اعلیٰ میو سبھا سیکندر سہراب میو نے کیا۔اور اس کی کامیابی کے لیے بھی دعائیں کی گئیں۔تقریب کے اختتام پر تمام معزز مہمانوں کو پرتلکف کھانوں سے نوازا گیا۔
Comparison of herbal medicine and nutritional therapy.
Comparison of herbal medicine and nutritional therapy. تالیفی ادویات اور غذائی علاج کا موازنہ ۔ مقارنة بين الأدوية العشبية والعلاج الغذائي. حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو #hakeemqariyounas #qariyounas #tibbibooks #tibb4all #dunyakailm #hakeem_qari_younas_books #hakeemqariyounasbooks #saadtibbiacollege #saad_tibbia_college #Saad Virtual Skills صحت کے حالات کو سنبھالنے کے لیے دو الگ الگ طریقے ہیں، ہر ایک اپنے منفرد کردار اور اہمیت کے ساتھ۔ جذباتی طور پر، یہ علاج امید اور ضرورت کے ساتھ ساتھ احتیاط اور ذمہ داری کے متضاد جذبات کو جنم دے سکتے ہیں۔ تعلیمی تناظر میں، ان کے اختلافات کو سمجھنا ضروری ہے اور یہ کہ وہ بہترین صحت کے حصول میں کس طرح ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ اینٹی بائیوٹکس طاقتور ادویات ہیں جو بیکٹیریل انفیکشن سے لڑنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ انہوں نے جدید طب میں انقلاب برپا کیا ہے اور بے شمار جانیں بچائی ہیں۔ شدید بیکٹیریل انفیکشن کا سامنا کرنے پر، اینٹی بائیوٹکس جان بچانے والی ہو سکتی ہیں، جو نقصان دہ پیتھوجینز کے لیے تیز اور فیصلہ کن ردعمل فراہم کرتی ہیں۔ جذباتی راحت جو یہ جاننے کے ساتھ آتی ہے کہ انفیکشن سے لڑنے کا ایک ذریعہ ہے وہ گہرا ہوسکتا ہے، جو خطرے اور خوف کے وقت امید کی پیشکش کرتا ہے۔ اینٹی بائیوٹکس ادویات کا بے استعمال/نقصانات تاہم، اندھا دھند استعمال اور اینٹی بائیوٹکس پر زیادہ انحصار نے اینٹی بائیوٹک مزاحم بیکٹیریا کے عروج کا باعث بنی ہے، جو کہ عالمی صحت کے لیے ایک سنگین تشویش ہے۔ ان ایک بار معجزانہ ادویات کے کٹاؤ کا مشاہدہ کرنے کا جذباتی وزن، انفیکشن کے علاج میں بڑھتی ہوئی دشواری کے ساتھ، آنے والی نسلوں کے لیے اینٹی بائیوٹکس کو محفوظ رکھنے کی فوری ضرورت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ دوسری طرف، غذائی تھراپی صحت کو فروغ دینے اور بیماری کی روک تھام میں خوراک اور غذائی اجزاء کی طاقت پر مرکوز ہے۔ یہ افراد اور ان کی فلاح و بہبود کے درمیان جذباتی تعلق کو جوڑتا ہے، انہیں اپنے صحت کے سفر میں فعال کردار ادا کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ غذائیت سے متعلق تھراپی ایک متوازن اور صحت بخش غذا کی اہمیت پر زور دیتی ہے، جو ضروری غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتی ہے جو جسم کے قدرتی دفاعی میکانزم کی حمایت کرتی ہے۔ تعلیمی روشنی میں، مجموعی صحت اور قوت مدافعت پر غذائیت کے اثرات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ مناسب غذائیت مدافعتی نظام کو تقویت دے سکتی ہے، انفیکشن کے خطرے کو کم کر سکتی ہے اور جب بیماری لگتی ہے تو تیزی سے صحت یابی کو فروغ دیتی ہے۔ غذائیت سے متعلق تھراپی کا جذباتی پہلو کنٹرول کے احساس میں ہے جو یہ افراد کو پیش کرتا ہے، یہ جانتے ہوئے کہ وہ غذائی انتخاب کے ذریعے اپنی صحت کو بڑھانے کے لیے فعال اقدامات کر سکتے ہیں۔ اگرچہ اینٹی بائیوٹکس اور نیوٹریشن تھراپی کے اپنے الگ الگ کردار ہیں، وہ صحت کے جامع نتائج حاصل کرنے کے لیے ہاتھ سے کام کر سکتے ہیں۔ اینٹی بائیوٹکس کو ذمہ داری اور انصاف کے ساتھ استعمال کرنے سے، ہم ان کی افادیت کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے جسم کے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے نیوٹریشن تھراپی کو اپناتے ہیں۔ طبی مداخلتوں کو غذائیت بخش خوراک کے ساتھ ملانا صحت کی دیکھ بھال کے لیے ایک جامع نقطہ نظر پیدا کرتا ہے، امید اور احتیاط کے درمیان توازن قائم کرتا ہے، اور افراد کو جذباتی اور جسمانی طور پر اپنی فلاح و بہبود کی حفاظت کے لیے بااختیار بناتا ہے۔ آخر میں، اینٹی بائیوٹکس اور نیوٹریشن تھراپی صحت کی دیکھ بھال میں اہم اور جذباتی طور پر چارج شدہ کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے اختلافات اور ہم آہنگی کو سمجھنا ہمیں باخبر فیصلے کرنے کی طاقت دیتا ہے جو ذاتی صحت اور عوامی بھلائی دونوں کو فروغ دیتے ہیں۔ غذائی علاج کے بااختیار پہلوؤں کو اپناتے ہوئے اینٹی بائیوٹکس کی افادیت کی حفاظت کی جذباتی ذمہ داری ہماری صحت مند، زیادہ لچکدار مستقبل کی طرف رہنمائی کر سکتی ہے۔ خلاصہ مضمون۔ صحت کے سفر میں، اینٹی بائیوٹکس اور نیوٹریشن تھراپی الگ الگ راستے پیش کرتے ہیں، ہر ایک اپنی جذباتی اہمیت کے ساتھ۔ اینٹی بائیوٹکس انفیکشن کے خلاف امید اور تیز کارروائی فراہم کرتے ہیں، پھر بھی ان کا زیادہ استعمال مستقبل کے لیے تشویش کو جنم دیتا ہے۔ غذائیت سے متعلق تھراپی افراد کو بااختیار بناتی ہے، متوازن غذا کے ذریعے تندرستی پر قابو پانے کی پیشکش کرتی ہے۔ دونوں نقطہ نظر ایک دوسرے کی تکمیل کر سکتے ہیں، باخبر انتخاب کے ذریعے ہماری صحت مند مستقبل کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جو ذاتی صحت اور اینٹی بائیوٹکس کی افادیت دونوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ آئیے ہم امید اور ذمہ داری کو قبول کریں،
Sacrifice of Meo nation in partition of India.2
The sacrifice of the Meo nation in the partition of India.2 تقسیم ہندمیں میو قوم کی قربانی۔۔2 تضحية أمة مايو في تقسيم الهند .2 حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو تقسیم ہندمیں میو قوم کی قربانی۔۔2 Sacrifice of Meo nation in partition of India.2 تضحية أمة مايو في تقسيم الهند .2 ان لوگن نے فجر کی نماز مسجد کرزن روڈ دہلی میں پڑھی اور ہوں سو پیدل ہی سردار پٹیل کی کوٹھی کا مہیں چل دیا جو ہوں سو تھوڑی دوری پے ہی واقع تھی ۔ سبھی سردار پٹیل کی رہائش پے پہنچا اور چودھری عبد الحئی آگے بڑھو اور تمام احوال تفصیل سو بیان کیا۔ ساری بات سن کے پٹیل نے روکھا لہجہ میں جواب دیو کہ ’’پاکستان چلا جاؤ! مل تو گیو تم کو پاکستان۔‘‘ پٹیل کا یا جواب سن کے چودھری عبد الحئی خاموش ہو گئیو لیکن چودھری ہِمتا بڑی بہادری کے ساتھ بولو ’’او سُن پٹیل صاب! ہم وے میؤ ہاں جو تیرو دادا شیواجی ہے (اے) اورنگ زیب کی جیل سو(سے) چھڑوا کے لایاہا۔ اور دیش کی خاطر مغلن سو لڑا، انگریزن سو لڑا، آج تو ہم سو پاکستان جانا کی بات کراہا۔ ٹھیک ہے آج تو ہمارو بکھت (وقت) بگڑ رو ہے اور ہمنے وے بھی مار راہاں جو کدی ہماری ٹہل کرے (دیکھ بھال) ہا۔ پر ایک بات سن لے ہم مر جانگا، ا؟پر پاکستان نا جاساں ۔‘‘ آخر کار ہمتا میو کی ہمت نے سردار پٹیل کو دل نم کر دیو۔ سردار پٹیل کا حکم سو میوات کی نگہبانی سکھ بٹالین کی جگہ مدراس بٹالین کو دے دی گئی جا سو میوات میں امن قائم ہویوا۔اور ہمتا میو کی ہمت سو میواتی آج بھی میوات (ہریانہ، راجستھان، اتر پردیش اور دہلی ) میں مکین ہاں۔ پٹیل ہندستان کی تاریخ میں ایسو لیڈر گزرو ہے جاکو متعصب سیاست دان کو نام دیو گیو ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاسکتان نے یاکا بارہ مین کہو ہو کہ ای ناقابل اصلاح ہے میوات اور میون کا بارہ مین صرف مسلمان ہونا کی وجہ سو تعصب موجود ہو۔ جب کہ میو اور میوات کا لیڈر یا سوچ سو کہیں اونچو سوچے ہا۔لیکن حالات کی سنگینی سو بے خبر نہ ہا۔سکندر سہراب کے بقول جب ای وفد پٹیل سو ملو ہو تو خدشہ ہوکہ بلوائین کا ہاتھن سو اِنن نے کٹوا پھینک تو۔لیکن ایک بھیدی نے بتادئیو کہ جہاں رات ٹہرن کو پرو گرام ہے واجگہ مت رہئیو۔کہیں ڈوڈھا ہوکے رات گزارئیو گوکہ اللہ نے وفد کی حفاظت کری۔صحیح سلامت گھر پہنچ گیا۔ ولبھ بھائی پٹیل – آزاد دائرۃ المعارف میوات کا لیڈر ہجرت کا حق میں نہ ہا۔ لیکن سیاسی شعور نہ ہونا کی وجہ سو میوات کا باشندان کو منطم پیغام نہ پہنچا سکا۔محدود وسائل کی بنیاد پے جو کچھ کرسکے ہا۔اُنن نے میو قوم کی خیر کواہی میں کسر نہ چھوڑی۔ ہمارا گھر کنبہ میں دادا لگے لگے ہو نام نصیب خاں ہو۔بتاوے ہو کہ چوہدری یاسین مرحوم نے بہت زور دئیو کہ اپنا گھرن نے مت چھوڑو اور اگر جانو ضروری سمجھو ہو تو بارڈر سو بہت آگے چلا جائیو۔بارڈر پے مت روکئیو ۔پاکستان کا اندورن اضلاع میں ٹھکانو لگائیو۔لیکن سیاسی بصیرت کی کمی آڑے آئی اور میو بارڈر پے رہ گیا۔ گوکہ شاید یہی وجہ ہی کہ میو اپنا کلیمن پے جھگڑتے جھگڑتے تاریخ کا چالیس سال گنواچکا۔۔۔۔۔۔
The sacrifice of the Meo nation in a partition of India.1
The sacrifice of the Meo nation in a partition of India.1 تقسیم ہندمیں میو قوم کی قربانی۔۔1 Sacrifice of Meo nation in partition of India. تضحية أمة مايو في تقسيم الهند .1 حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو ہریانہ، راجستھان، دہلی اور اترپردیش کے درمیان میں واقع خطہ میوات اپنا آپ میں مختلف ثقافت و تہذیب اےسمیٹے ہوئے ہے۔ ھین میو طبقہ صدین سو قیام پزیر ہے جوکہ 9 ویں یا 10 ویں صدی میں اسلام میں داخل ہو گیاہا۔قوم قوم کا لوگ ایک ساتھ مسلمان تو ہو گیا اور خدا ایک ہے یا بات پے پوری طرح ایمان بھی لے آیا لیکن اُنن نے اپنی روایات اور ثقافت کدی بھی نہ چھوڑی۔ ایک گھاں کو خوداے رام اور کرشن کی اولاد بتاوےہا تو دوسری طرف کلمہ توحید پے بھی یقین ہو۔ ہین تک کہ سینکڑوں سالن تک میوات میں’رام خان‘ اور ’کرشن خان‘ جیسے نام بھی ملاہاں۔ دونوں مذبن کی روایات پے عمل کرن کے باوجود آزادی سو پیچھے میون پے صرف اور صرف مسلمان ہوناکی بنیاد پے ظلم کراگیا اورنا چاہتے ہوئے بھی فسادات کی بھٹی میں جھونکا گیا۔ سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے دوران توسارا ملک کا حالات خراب رہا اور بڑا پیمانہ پے بھاگ دوڑ اور اِت بتلو نقل مکانی ہوئی۔ بہت سا لوگن نے اپنا ہندو یا مسلمان ہونا کا اعتبار سو اپنو اپنو ملک ہندوستان یا پاکستان انتخاب کر لیو لیکن ہندوستان کا ایسا ہزاروں مسلمان ہا جو پاکستان جانو نہ چاہوے ہالیکن انن کو ہندوستان چھوڑن پے مجبور کرادیا گیا۔ دہلی سو ملحقہ علاقہ میوات جہاں پے مسلمان اکثریت میں توہا لیکن حالات ایسا بنا دیا گیا کہ ہندستان میں رہنو یا پاکستان جانو بہت گھٹن مرحلہ بن گئیو ہو ۔ آزادی اور تقسیم ہند کے بعد جا وقت سارا ملک میں فرقہ وارانہ فسادات پھیلا ہویاہا اور چہاروں گھاں کو قتل و غارت گری کو عالم ہو۔ نفرت کی آگ خطہ میوات تک بھی پہنچ گئی ہی۔ ان حالات میں ایک وفد نے وا وقت کا وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل سو دہلی میں ملاقات کری۔ وفد کا ایک رکن کی باتن نے سردار پٹیل کا دل و دماغ پے گہرا اثر کرو ہو،یا شخص کو نام ہمتا میو ہو۔ دراصل تقسیم ہند کے دوران میوات پوری طرح پر امن و پر سکون ہو اور میون نے اپنو مادرِ وطن نہ چھوڑن کو پکو ارادہ کرو اور ہندوستان میں ہی رہن کو فیصلہ کرو لیکن متعصب و فرقہ پرست لوگن نے میوقوم زبردستی پاکستان بھیجن کی کوشش کری۔ سب سو پہلے بھرت پور ریاست اور پھر الور ریاست میں میون کو قتل عام شروع ہو یو۔ دونوں ریاستن کا پریشان حال میو پنجاب موجودہ ہریانہ کا ضلع گوڑگاؤں میں آ گیا لیکن نفرتن کو دور ختم نہ ہو سکو۔ پنجاب، بھرت پور اور الور ریاستن کی افواج بھی قتل عام مچا ری ہی۔یا زمانہ کا میؤ لیڈران چودھری محمد یاسین خاں اور چودھری عبد الحئی وغیرہ نے حالات کے پیش نظر سردار پٹیل سوملاقات کو فیصلہ کرو۔ مولانا آزاد کے ذریعے سردار پٹیل سوملن کو وقت لیو گیو۔ چودھری عبد الحئی کی رہنمائی میں تین اشخاص کو ایک وفد تشکیل دیا گیو۔ وفد میں چودھری عبد الحئی اور دوسرو ایک رکن تو پڑھا لکھاہا اور تیسرا رکن ناخواندہ(اَن پڑھ ہو) جا کو نام چودھری ہِمّت خاں عرف ہِمتا ساکن شیخ پور اہیر تجارہ الورہو جاری ہے۔۔۔۔۔
5-Minute Workout Tips from Kincer
5-Minute Workout Tips from Kincer 5منٹ کی ورزش کنیسر سے نکات 5-Minute Workout Tips from Kincer نصائح تجريب لمدة 5 دقائق من Kincer حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو امید افزا نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کل صرف 4.5 منٹ کی بھرپور سرگرمی جو آپ کو روزانہ کے کاموں کے دوران ہلچل مچاتی ہے کچھ کینسر کے خطرے کو 32 فیصد تک کم کر سکتی ہے۔ JAMA Oncology میں شائع شدہ اور یونیورسٹی آف سڈنی، آسٹریلیا کی قیادت میں، اس تحقیق میں 22,000 سے زیادہ ‘غیر ورزش کرنے والوں’ کی روزانہ کی سرگرمیوں کو ٹریک کرنے کے لیے پہننے کے قابل آلات سے ڈیٹا استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد محققین نے کینسر کی نگرانی کے لیے تقریباً سات سال تک گروپ کے طبی صحت کے ریکارڈ کی پیروی کی۔ چار سے پانچ منٹ تک وقفے وقفے سے طرز زندگی کی جسمانی سرگرمی یا ‘VILPA’ ان لوگوں کے مقابلے میں کافی حد تک کم کینسر کے خطرے سے وابستہ تھی جنہوں نے VILPA نہیں لیا تھا۔ زبردست وقفے وقفے سے طرز زندگی کی جسمانی سرگرمی، یا مختصر طور پر، VILPA کو یونیورسٹی آف سڈنی کے چارلس پرکنز سنٹر کے محققین نے سرگرمی کے بہت ہی مختصر دھماکوں کو بیان کرنے کے لیے تیار کیا تھا — ہر ایک کے قریب ایک منٹ — ہم ہر روز جوش کے ساتھ کرتے ہیں۔ اس میں گھریلو کام کاج، گروسری اسٹور کے ارد گرد بھاری خریداری، بجلی سے چلنے یا بچوں کے ساتھ ہائی انرجی گیمز کھیلنے جیسی سرگرمیاں شامل ہیں۔ چارلس پرکنز سنٹر کے مرکزی مصنف پروفیسر ایمانوئل سٹامٹاکس نے کہا، “وِلپا آپ کی روزمرہ کی زندگی میں ہائی-انٹینسٹی انٹرول ٹریننگ (HIIT) کے اصولوں کو لاگو کرنے جیسا ہے۔” انہوں نے کہا کہ جو بالغ افراد ورزش نہیں کرتے ان میں بعض کینسر جیسے چھاتی، اینڈومیٹریال یا بڑی آنت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، لیکن حال ہی میں جب تک سخت جسمانی سرگرمی کی کم ساختہ شکلوں کے اثرات کو ناپا جا سکا۔ “ہم جانتے ہیں کہ درمیانی عمر کے لوگوں کی اکثریت باقاعدگی سے ورزش نہیں کرتی ہے جس سے انہیں کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے لیکن یہ صرف ایکٹیویٹی ٹریکرز جیسی پہننے کے قابل ٹکنالوجی کی آمد سے ہے جس سے ہم حادثاتی جسمانی سرگرمیوں کے مختصر پھٹنے کے اثرات کو دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ روز مرہ زندگی کے ایک حصے کے طور پر کیا گیا،” پہلے مصنف پروفیسر سٹامٹاکس نے کہا۔ “یہ دیکھنا کافی قابل ذکر ہے کہ روزانہ کے کاموں کی شدت کو دن میں چار سے پانچ منٹ تک بڑھانا، جو تقریباً ایک منٹ کے مختصر وقفے میں کیا جاتا ہے، کینسر کے خطرے میں مجموعی طور پر 18 فیصد تک کمی سے منسلک ہوتا ہے، اور جسمانی سرگرمی سے منسلک کینسر کی اقسام کے لیے 32 فیصد تک۔” مطالعہ مشاہداتی ہے، یعنی یہ براہ راست وجہ اور اثر کو تلاش کرنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم، محققین کا کہنا ہے کہ وہ ایک مضبوط ربط دیکھ رہے ہیں اور پچھلے ابتدائی مرحلے کے ٹرائلز کا حوالہ دیتے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ وقفے وقفے سے بھرپور جسمانی سرگرمیاں قلبی تنفس کی فٹنس میں تیزی سے بہتری کا باعث بنتی ہیں، جو کینسر کے خطرے کو کم کرنے کی ممکنہ حیاتیاتی وضاحت فراہم کر سکتی ہے۔ دیگر ممکنہ شراکت داروں میں انسولین کی حساسیت اور دائمی سوزش کو بہتر بنانے میں جسمانی سرگرمی کا کردار شامل ہے۔ “ہمیں مضبوط ٹرائلز کے ذریعے اس لنک کی مزید تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ VILPA ان لوگوں میں کینسر کے خطرے کو کم کرنے کے لیے ایک امید افزا قیمت سے پاک سفارش ہو سکتی ہے جو ساختی ورزش کو مشکل یا ناپسندیدہ سمجھتے ہیں،” پروفیسر سٹامٹاکس کہتے ہیں۔ بین الاقوامی تحقیقی ٹیم میں یونیورسٹی آف سڈنی (آسٹریلیا)، یونیورسٹی کالج لندن (یو کے)، ہارورڈ میڈیکل اسکول (یو ایس)، یونیورسٹی آف کیلگری (کینیڈا)، ماسٹرچٹ یونیورسٹی (نیدرلینڈ)، نیشنل ریسرچ سینٹر فار دی ورکنگ انوائرنمنٹ کے تفتیش کار شامل ہیں۔ (ڈنمارک)، دی یونیورسٹی آف ایسٹ انگلیا (یو کے)، نارویجن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (ناروے)، لوفبرو یونیورسٹی (یو کے)، اور یونیورسٹی آف ایڈجر (ناروے)۔ محققین نے کیا پایا؟ 62 سال کی اوسط عمر والے 22,398 لوگوں کے مطالعے کے نمونے میں جنہوں نے اپنے فارغ وقت میں ورزش نہیں کی، محققین نے پایا۔ کینسر کے 2356 نئے واقعات (جسمانی سرگرمی سے متعلق کینسر میں 1084) 6.7 سالوں کے اوسط فالو اپ میں روزانہ تقریباً 3.5 منٹ VILPA کا تعلق کینسر کے واقعات میں 18 فیصد تک کمی کے ساتھ تھا (بلپاہ کے مقابلے میں) روزانہ VILPA کے 4.5 منٹ جسمانی سرگرمی سے متعلق کینسر کے واقعات میں 32 فیصد تک کمی کے ساتھ منسلک تھے۔ کینسر کے خطرے میں کمی میں سب سے زیادہ فائدہ ان لوگوں میں دیکھا گیا جنہوں نے VILPA کی تھوڑی مقدار میں ان لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے کچھ نہیں کیا، تاہم، روزانہ VILPA کی اعلی سطح کے ساتھ فوائد جاری رہے — خاص طور پر جسمانی سرگرمی سے متعلق کینسر کے لئے زیادہ تر VILPA (92 فیصد) 1 منٹ تک کے مقابلے میں واقع ہوئے۔ مطالعہ ڈیزائن موجودہ مطالعہ نے مجموعی طور پر کینسر کے واقعات پر VILPA کے اثرات کا تجزیہ کیا، ساتھ ہی ساتھ جسمانی سرگرمی سے وابستہ 13 کینسر سائٹس کے لیے۔ ان میں جگر، پھیپھڑے، گردے، گیسٹرک کارڈیا (پیٹ کے کینسر کی ایک قسم)، اینڈومیٹریل، مائیلوڈ لیوکیمیا، مائیلوما، کولوریکٹل، سر اور گردن، مثانہ، چھاتی اور غذائی نالی کا کینسر) شامل ہیں۔ محققین نے UK Biobank Accelerometry Sub Study کے ڈیٹا کا استعمال کیا اور صرف ان لوگوں کو شامل کیا جن کی شناخت ‘غیر ورزش کرنے والے’ کے طور پر کی گئی تھی – یعنی انہوں نے خود اطلاع نہیں دی کہ فرصت کے وقت ورزش نہیں کی گئی اور نہ ہی باقاعدہ تفریحی چہل قدمی کی۔ بغیر کسی وقت فٹ ہوجائیں: کنسر سے 5 منٹ کے ورزش کے نکات تعارف: 5 منٹ کی ورزش کیوں مؤثر اور آسان ہوتی ہے۔ 5 منٹ کی ورزش، فوری ورزش، وقت کی موثر ورزش، مختصر ورزش، فٹنس ٹپس 5 منٹ کی ورزش کے پیچھے سائنس اور