وقت کا سفر
ابتدائيہ
سٹیون ہاکنگ کی کتاب BRIEF HISTORY OF TIME ( مدتوں تک بیسٹ سیلر ( BEST SELLER) شمار ہوتی رہی ہے، دنیا کی اکثر زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے، مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ کتاب کوئی آسان کتاب نہیں ہے، اس کی وجہ محض یہ نہیں کہ اس کے موضوعات مشکل ہیں، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ ے کہ یہ کتاب ان عوامل کو بیان کرتی ہے جو روز مرہ کی زندگی میں ہمارے تجربے میں نہیں آتے اور نہ ہی اس کے بیشتر موضوعات کو تجربہ گاہ کی سطح پر ثابت ہی کیا جاسکتا ہے مگر اس کے باوجود یہ موضوعات ایسے ہیں جو صدیوں تک انسان کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں بعض ایسی معلومات حال ہی میں حاصل ہوئی ہیں، جو شاید فیصلہ کن ہیں، یہ کتاب بیسویں صدی کے اواخر میں لکھی گئی ہے، لہذا اس میں فراہم کردہ مواد ابھی بہت نیا ہے، ابھی۔ اسے وقت کے امتحان سے بھی۔ گزرنا ہے اور لوگوں کو اس سے آشنائی بھی۔ حاصل کرنی ہے، ہماری طالب علمی کے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ آئن سٹائن کے نظریات کو سمجھنے والے لوگ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں
، اس سے کچھ پہلے ایڈنگٹن (EDDINGTON) کو یہ خیال تھا کہ آئن سٹائن کو سمجھنے والا وہ شاید واحد فرد ہے، مگر اب یہ حال ہے کہ آئن سٹائن کے نظریات کو سائنس کا عام طالب علم بخوبی۔۔۔ ہے،
کار ساگان (CAR) SAGAN) کا خیال ہے کہ آئن سٹائن کو سمجھنے کے لیے جس قدر ریاضی جاننے کی ضرورت ہے وہ میٹرک کا عام طالب علم جانتا ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ آئن سٹائن نے جن موضوعات کو چھیڑا ہے وہ ایسے ہیں جو روز مرہ زندگی میں کم کم ہی سامنے آتے ہیں، لہذا اسے سمجھنا مدتوں تک مشکل شمار ہوتا رہا ہے۔
سٹیون ہاکنگ کی یہ کتاب بھی۔ اسی زمرے میں آتی ہے، اسے سمجھنا مشکل نہیں ہے، بشرطیکہ آپ روز مرہ کے تجربات سے ماوراء جانے کے خواہش مند ہوں، اب بلا مبالغہ لاکھوں لوگوں نے اس کتاب کو پڑھا ہے یا پڑھنے کی کوشش کی ہے، اس کتاب کے سلسلے میں جو سروے ہوئے ہیں یہ بتاتے ہیں کہ تجسس کے جذبے کی وجہ سے یہ کتاب خریدی تو بہت گئی ہے مگر پڑھی محدود تعداد . میں گئی ہے، کچھ حصوں کے بارے میں خاص طور سے نشاندہی کی گئی ہے کہ وہ مشکل ہیں لیکن ان کو زیادہ آسان بنایا نہیں جاسکتا، ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات خاصی پیچیدہ ہے اور لاکھوں برس اس میں گزارنے کے باوجود ابھی۔ ہم نے شاید اسے سمجھنا شروع ہی کیا ہے.
یہ کتاب آپ سے یہ مطالبہ نہیں کرتی کہ آپ اسے اپنے اعتقاد کا حصہ ہے حصہ بنالیں، مگر یہ ضرور چاہتی ہے کہ آپ
میں اور بھی بہت کچھ اپنے بنائے ہوئے ذہنی گھروندے سے نکلیں اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ دنیا میں موجود ہے، یہ تو ہم سبھی لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ سپیس (SPACE) کی تین جہتیں یا ابعاد ( ہیں اور وقت اس کی چوتھی جہت یا بعد ہے، ہم صدیوں سے وقت کو مطلق تصور کرتے چلے آتے ہیں ل ہیں لہذا ہمارے لیے چند لمحوں کے لیے بھی یہ آسان نہیں ہے کہ ہم وقت کو سپیس کا ایک(DIMENSIONSشاخسانہ سمجھ لیں
مطاالعہ میں وسعت
میرے ایک محترم دوست جو شاعر بھی ہیں اور مصور بھی۔ ہیں اور آج کل سائنسی موضوعات کا مطالعہ بھی کر رہے ہیں، ان معتقدات کو غلط ثابت کرنے کے لیے بار بار وہی دلائل دہراتے ہیں جو برسوں سے ہمارے فلسفے کا حصہ ہیں، جو لوگ سپیس ٹائم کو چار ابعادی بھی خیال کرتے ہیں ان کے لیے بھی مشکل ہے کہ وہ اپنی عادات سے ماورا جاکر کسی ایسے تصور تک رسائی حاصل کریں جس کا تجربہ ہم سطح زمین پر نہ کر سکتے ہوں میں ایک مثال پیش کروں گا۔
اگر کبھی سورج اچانک بجھ جائے تو آٹھ منٹ تک ہمیں معلوم ہی نہ ہو گا کہ سورج بجھ چکا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آٹھ منٹ تک وہ روشنی زمین پر آتی رہے گی جو سورج سے چلی ہوئی ہے، پھر دوسرے سیارے اور ستارے بھی ہیں، چاند کی روشنی چند سیکنڈ میں ہم تک آجاتی ہے لیکن بعض کہکشائیں اس قدر دور ہیں کہ ان کی روشنی اربوں سالوں میں ہم تک پہنچتی ہے، اب اگر یہ کہکشائیں معدوم ہوچکی ہوں تو ہم اربوں برس تک یہ معلوم نہ کر سکیں گے کہ وہ موجود نہیں ہیں، دوسرا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ روشنی کی بھی کمیت (MASS) ہوتی ہے، وہ جب کسی بڑے ستارے کے پاس سے گزرتی ہے تو وہ اسے اپنی طرف کھینچتا ہے لہذا وہ ذرا سا خم کھا جاتی ہے، ایسی روشنی جب ہم تک پہنچتی ہے تو اسے دیکھ کر سیارے یا ستارے کے جس مقام کا تعین کیا جاتا ہے وہ درست نہیں ہوسکتا.
جب ہم آسمان کو دیکھتے ہیں تو وہ ستارے، سیارے اور کہکشائیں اصل میں وہاں موجود نہیں ہوتیں جہاں وہ ہمیں نظر آتی ہیں، لہذا جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ ماضی کی کوئی صورتحال ہے، جو اب بدل چکی ہے اور یہ تبدیلی تمام اجرام فلکی کے لیے ایک جیسی بھی نہیں ہے، لہذا ہمیں جو کچھ نظر آتا ہے
cاس کا تعلق اس شے سے نہیں ہے جسے ہم حقیقت کہتے ہیں، مگر آسمان کا اپنی موجودہ شکل میں نظر آنا ایک ایسی حقیقت ہے جسے تسلیم کئے بغیر انسان چند قدم نہیں چل سکتا، اس کی شاعری اور اس کے فنون لطیفہ شاید کبھی بھی۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہ ہوں جو ان کا ذاتی اور اجتماعی تجربہ ہے
لہذا ہم ایک وقت میں کئی سطحوں پر زندگی گزارتے ہیں جس طرح جدید طبیعات کے باوجود ابھی نیوٹن کی طبیعات متروک نہیں ہوئی کیونکہ اس سے کچھ نہ کچھ عملی فائدہ ہم ابھی تک اٹھا رہے ہیں، مگر جب جہان کبیر (MACROCOSM) یا جہان صغیر (MICROCOSM) کی بات ہوتی ہے تو نیوٹن کی طبیعات کسی بھی طرح منطبق نہیں کی جاسکتی، اکیسویں صدی میں کیا ہونے والا ہے اس کا تھوڑا بہت اندازہ تو ابھی سے کیا جارہا ہے مگر یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ خود انسان کے اندر کیا کیا تبدیلیاں ہونے والی ہیں۔
سائنسی نظریات
جدید عہد کو سائنسی نظریات کے بغیر سمجھا ہی نہیں جاسکتا، اس لیے اگر آپ سائنس کے با قاعدہ طالب علم نہ بھی ہوں، پھر بھی کچھ بنیادی باتوں کا علم ہوتا ہم سب کے لیے ضروری ہے، اور یہ کتاب ان چند کتابوں میں سے ہے جو اس سلسلے میں بنیادی نوعیت کی کتابیں کہی جاسکتی ہیں، بجائے اس کے کہ ہم سائنس کے بارے میں صحافیوں کے لکھے ہوئے مضامین پڑھیں، کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ایک ایسے سائنس دان کی کتاب پڑھ لی جائے جسے جدید عہد کے اہم نظریاتی سائنس دانوں میں شمار کیا جاتا ہے، کچھ لوگ ہاکنگ کو آئن سٹائن کے بعد اہم ترین سائنس دان سمجھتے ہیں، میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ بہ اندازہ درست یا غلط بہ بہر حال اتنی بات ضرور ہے کہ موجودہ سائنسی برادری میں اسے ایک اعلی مقام حاصل ہے، وہ کیمبرج میں اسی چیئر پر کام کر رہا ہے جہاں کبھی نیوٹن ہوا کرتا تھا۔
ہمارے عہد میں یہ کوشش بھی کی گئی ہے کہ سائنس کو آسان زبان میں بھی۔ بیان کیا جائے، ایسی بھی۔ کتابیں شائع ہوئی ہیں جو ریاضیاتی مساواتوں سے مبرا ہیں، موجودہ کتاب بھی انہی کتابوں میں سے ایک ہے، ہم جیسے لوگ جو ریاضی سے نابلد ہیں ایسی ہی کتابوں پر انحصار کرتے ہیں.
موجودہ کتاب کا ترجمہ جناب ناظر محمود نے ۱۹۹۲ء میں مشعل پاکستان کے لئے کیا تھا، جب سے اب تک