بدلہ نیکی کا عاجلانہ تصور
فكرة ملحة عن الخير الجزائي
An urgent notion of retributive goodness
بدلہ نیکی کا عاجلانہ تصور
فكرة ملحة عن الخير الجزائي
An urgent notion of retributive goodness
حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو
پریشان کن ماحول میں نفسا نفسی کا عالم میں ہر انسان عدم تحفظ کا شکار ہے انسان جلد باز واقع ہوا ہےاپنے اوپر کئے ہوئے احسان کو بھول جاتا ہے اپنی نیکی اور بھلائی کے کام کا اجر فوری طور پر چاہتا ہے ،ثواب اور نیکی کا ایک ایسا تصور ہے کہ جو انسان کی بھلائی کے بدلے کا ٹھیک تصور نیکی اور ثواب کا یقین انسان کو ٹھیک طریقے سے مول بھاؤ لگاتا ہے۔ انسان لالچی بھی ہے، جلد بازبھی ہے اور اپنی نیکی کا بدلا فوری طور پر چاہتا ہے ،دوسروں کے احسانات کو فراموش کرنا ہنر سمجھتا ہے ۔سیانپت سمجھتا ہے اور چالاکی سمجھتا ہے اپنی کی ہوئی نیکی کو بار بار جتلاتا ہےدوسرے کے بڑے سے بڑے احسان کو بھی معمولی لیتا ہے
انسانی نفسیاتی طورپت مجبور اور لاچار ہوتا ہےاپنے کام کا فور ا بدلہ چاہتا ہے،اپنے اوپر کئے ہوئے احسان کے بدلے میں لیت و لعل سے کام لیتا ہے۔مثلا ایک آدمی نے راستے میں کسی کے ساتھ نیکی کی، مسجد میں چند روپے دیے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دیا ۔کسی بھوکے کو کھانا کھلایا اب اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا فورا جرملے، دس روپے کی جگہ پر سو روپے ملیں ۔اسلام کہتا ہے کہ یہ چیزیں نیکی ہیں،ان کا ثواب ملتا ہے۔ ان کا اجر آخرت میں ملے گا ۔دنیا بدلے کا مقام نہیں ہے
حدیث مبارک ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔تو کھیتی تو اسی وقت کاٹی جاتی ہے جب وہ تیار ہو جائے۔دنیا میں نیکی کا بدلہ ممکن نہیں
نیکی ایک اکائی ہے ،آخرت میں چلنے والے سکے کا پہلا اسٹیج ہے ۔ وہاں اس کرنسی کے علاوہ کوئی کرنسی موجود نہیں ہے، اس دنیا میں جتنا کوئی ذخیرہ لے کر جائے گا اسی حساب سے وہ خریداری کر سکے گا۔
جن لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ نیکی کرتے ہیں ،تو نیکی کا بدلہ نہیں ملتا، بنیادی طور پر ان کی سوچ میں کجی ہے۔وہ اس جہاں کے سلے کو دوسرے جہاں میں چلانا چاہتے ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ نیکی کا بدلہ دنیا میں نہیں ملتا ۔
سورہ کہف میں جہاں دیوار کا ذکر ہے، وہاں دو معصوم بچوں کا ذکر ہے ،ان کی دیوار گرنا چاہتی تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے اسے دوبارہ تعمیر کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو ان سے معاوضہ لے سکتے تھے لیکن انہوں نے معاوضہ نہیں لیا وجہ یہ بتائی کہ ان کے ماں باپ نیک تھے ۔مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ نیکی کا اثر تین نسلوں تک باقی رہتا ہے ،
یہ بات نہیں ہے کہ دنیا میں نیکی کا بدلہ نہیں ملتا ۔
پریشانی کا اصل سبب
پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہم جس شکل میں اس کا بدلہ چاہتے ہیں وہ شکل قائم نہیں ہوباتی۔
ہم محدود ذرائع سے سوچتے ہیں محدود ذرائع سے اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
ہمارا نیکی کا بدلہ کا تصور اتنا ہی محدود ہوتا ہے جتنی محدود ہماری سوچ ہوتی ہے
نیکی کا تصور وسیع تر ہے ۔ہماری سوچ محدود تر ہے
،ہم ایک خاص زاویہ میں سوچتے ہیں اسی زاویہ میں کام کرنے کے عادی ہیں
اور اسی محدود سوچ میں اپنی نیکیوں کا بدلہ چاہتے ہیں ۔
نیکی کا تصور اللہ نے دیا ہے۔ اس کا بدلہ بھی اللہ ہی دے گا ۔
قران کریم کہتا ہے جو آدمی نیکی کرتا ہے اس کی مثال ایک دانے جیسی ہے
جب وہ ہوتا ہے تو اس میں سات بالیاں نکلتی ہیں ہر بالی میں سو سو دانے ہوتے ہیں
یعنی ایک کے بدلے میں سات سو کا تصور ملتا ہے
لیکن ان سازشوں کے بدلے کی صورت کیا ہے ہمارے تصور اور اور زاویہ سوچ سے ماورا ہے ۔
یعنی ہم نے ایک نیکی کی اس کا بدلہ 700 میں ملا اور اس کے باوجود ہماری ضرورتیں
ہماری پریشانیاں اور ہماری خواہشات ادھوری ہی رہیں وہ ہمارے محدود سوچ کے مطابق ہماری نیکیاں قبول نہیں ہوئی ۔
انسان صرف ظاہری صورت کو دیکھتا ہے ،لیکن اس کائنات میں ظاہری صورت کے علاوہ بھی ایک نظام قائم و دائم ہے
اور اس کے اثرات اسی طرح زندگی پر مرتب ہوتے ہیں ،جس طرح مادی دنیا کے ہوتے ہیں ۔
بہت سارے خطرات ہوتے ہیں رزق کے معاملات ہوتے ہیں اولاد کی برکت ہوتی ہے۔ پریشانیاں ہوتی ہیں،
قدم قدم پرآفات بلیات کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے، ہمارے پاس ان سے بچنے کے لیے کوئی خاص تدبیر نہیں ہوتی ہے،
خاص وسائل مہیا نہیں ہوتے لیکن اس کے باوجود ہمارے یہ تمام معاملات بغیر مانگے، بغیر کیے بغیر کسی سفارش کے انجام پاتے ہیں /یہ ضروری نہیں کہ یہ چیزیں ہمیں نیکی کے بدلے میں ملیں، یہ تو نظام کائنات ہے ،ہم نیکی کریں، تب بھی نہ کریں تب بھی یہ چیزیں تو ہمیں مل نہیں ملی ہیں، قدرت کی تقسیم کسی کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتیں، فیض عام ہوتا ہے،
ہم اگر نیکی کریں تو ہمیں اپنا تصور بدلنا ہوگا ،نیکی کا بدلا ہماری سوچ کے مطابق نہیں ملتا ،وہ قدرت کی تقسیم کے مطابق ملتا ہے
نیکی قبولیت پر منحصر ہے،جس چیز کو ہم نے نیکی سمجھ رہے ہیں، کبھی غور کیا ہے کہ اس کے اندر کتنادکھاوا، ریاکاری ،لالچ کتنی قسم کی قباحت موجود ہوتی ہیں۔ ایسے جرائم ہیں، ایک باوجود پایا جائے تو پوری کوشش تہس نہس کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے ۔
ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی اس کی زندگی اور رزق میں برکت ہو وہ صلہ رحمی کرے ۔حالاں کہ زندگی متعین ہے ،موت کا وقت مقرر ہے،موت جب آ جاتی ہے تو ایک گھڑی آ گے ہوتی ہے ،نا پیچھے ہو تی ہے۔پھر اس کا یہ تصور کہ نیکی سے زندگی میں اضافہ ہو جاتا ہےکیا معنی رکھتا ہے ؟
بنیادی طور پر اگر کوئی پچاس سال جیتا ہے ،اللہ اس کی زندگی میں اتنی برکت دیتا ہے،ایسے کام کر جاتاہے کہ جو سو سال جینے والے بھی نہیں کر سکتے ۔زیادہ جینے کے لیے زیادہ سانسیں لینا ضروری نہیں ہوتا ۔سانس کی آمدورفت زندگی ہی نہیں ہوتی، زندگی کا تصور میںاور بھی بہت کچھ موجودہو تاہے