میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
(تحریر: عائشہ عابد ندوی۔ حیدرآباد ۔ سوجوک تھیراپسٹ )
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کی خدمات۔تشکرات
مکتوب بھارت
سب سے پہلے اللہ رب العزت کا شکر ہے، جس نے مجھے بیماری سے صحتیاب کیا، شفا دی، ایک ایسے وقت میں جب زندگی سے ناامیدی ہو گئی تھی۔ عافیت و سلامتی کے ساتھ زندگی کی طرف لوٹایا۔ یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ اور مجھے پچھلے رمضان کے دن نہیں بھولے جاتے جو میں نے شدید کرب و اضطراب ، بے قراری، بےچینی کے عالم میں گذارے تھے۔ صبح ہوتی تو شام کی امید نہیں تھی۔ رات ہوتی تو صبح کے دیکھنے کی آس باقی نہیں تھی۔ لمحہ لمحہ اضطراب… درد… بیقراری۔ ڈر موت کا نہیں تھا۔ کہ وہ تو ایک دن ضرور آنے والی ہے۔ بس اپنے ننھے لخت جگر کے بارے میں اندیشے تھے کہ میرے بعد میرے معصوم کا کیا ہوگا؟ دنیا بہت بے رحم ہے۔ جن بچوں کی ماں نہیں؛ ان کی دنیا اندھیری ہی رہتی ہے۔ میں نے اپنی ماں، بہن، بھابی کو جن پر مجھے اعتماد تھا، بار بار تاکید کی تھی کہ میں نہ رہوں تو میرے بیٹے کا خیال رکھنا۔ دل پھر بھی بوجھل ہو جاتا تھا کہ کوئی چاہے جتنا خیال رکھ لے، ماں بن کر ممتا کا سایہ کوئی نہیں کر سکتا۔ مرض بڑھتا جا رہا تھا۔ انگریزی طب پر مجھے شرحِ صدر نہیں تھا اور کوئی دیسی طبیب سمجھ میں نہیں آتے تھے۔
مجھے دیسی طب میں خاتون ماہر معالج کی تلاش تھی۔ جو مل نہ سکیں۔ اور اسی احساس نے مجھے زخمی کیا ہے۔ میں نے بہت تلاش کے بعد مایوس ہوکر آخر اپنے استاد حکیم المیوات ،حکیم قاری محمد یونس شاہد میو صاحب سے رابطہ کیا۔جن سے میں نے طبِّ جدید قانون مفرد اعضاء کی کلاسز لی تھیں۔ اور اللہ جانتے ہیں کہ یہ کیسا مشکل وقت تھا۔ اگر وہ میرے استاد نہ ہوتے،تو کسی قیمت پر ان سے علاج نہیں کرواتی۔فطری حیا جو مانع ہوتی۔یہ بہت بڑا خلا ہے ہمارے معاشرے میں کہ جب خاتون کسی مخصوص مرض میں الجھتی ہے تو اسے اس فن کی کوئی ماہر خاتون معالج نہ ملے۔ استاد محترم سے بھی رابطہ کے وقت ایک ہلکی سی خلش رہ گئی کہ کاش ان کے یہاں کوئی خاتون معالج مل جاتیں۔ کیونکہ خواتین فطری طور پر حیادار ہوتی ہیں۔ وہ مرد معالج کے سامنے اپنے مسائل کھل کر کبھی نہیں کہہ سکیں گی۔ میں چاہوں گی کہ چراغ سے چراغ جلنے چاہئے۔ اور ان کے گھر کی خواتین کو معاشرہ کی خواتین کے لئے آگے آنا چاہئے۔ جب تک حیاتِ انسانی کا سلسلہ باقی ہے، خواتین کے مسائل ختم نہیں ہونگے، کوئی ایسی تدبیر ہو کہ خواتین کے مسائل حل کرنے کا ایک سلسلہ چل نکلے۔ اب جب کہ اللّٰہ کریم نے مجھے صحت و عافیت کے ساتھ زندگی کی طرف لوٹایا ہے، میرے اوپر کچھ قرض ہیں۔ محبتوں کے قرض.
… اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا بھی شکرگذار نہیں ہوسکتا۔
میں بطور خاص اپنے والد محترم کی مشکور ہوں، جو ہمیشہ ایک ابرِ رحمت بن کر میرے اوپر سایہ کرتے رہے۔جن کی محبت و شفقت ، توجہ، چاہت ہمیشہ میرے ساتھ ساتھ رہی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ پچھلے سال انہی دنوں میں نے تکلیف اور کرب سے بیقرار ہو کر اپنے والد کو فون کیا تھا کہ بس اب میں دنیا سے رخصت ہونے لگی ہوں۔ والد صاحب نے حوصلہ دیا۔ تسلی دی۔ کہا کچھ نہیں ہوگا۔ میں مستقل تمہارے لئے دعا کر رہا ہوں۔ شریکِ حیات کا بھی شکریہ..
.. جنہوں نے مجھے ہر لمحہ عزت اور محبت دی۔ اور اس تکلیف اور بیماری میں برابر شریکِ غم رہے۔ وہ فی الواقع ایک اچھے شوہر ہیں۔ یہاں یہ بتانا غلط نہیں ہوگا کہ انہی دنوں ان کی پھوپی زاد بہن کو ڈاکٹر نے بریسٹ کینسر کی تشخیص کی، سب سے پہلے ان کے شوہر نے ان سے بے وفائی کی، انہیں ان کے میکے بھیج دیا۔ گھر والے تسلی دیتے رہے، ڈاکٹروں کے یہاں لے جاتے رہے، لیکن شوہر کی طرف سے جو زخم ان کے دل کو لگا تھا، مرض سے پہلے اس نے انہیں ہلاک کر دیا
۔ میرے بھائی کا شکریہ… جس سے احساس کا ہی نہیں، خون کا رشتہ ہے۔ جس کے ساتھ انگلی پکڑ کر کھیلتے ہوئے بڑے ہوئے، اس نے بھی بڑے دلاسہ دئیے، بہت حوصلہ دلایا۔جب میں ماہر معالج کی تلاش میں تھی، اس نے حتی المقدور کوشش کی کہ معالج خاتون سے رابطہ ہو سکے۔ اور ہوا بھی۔ لیکن ان خاتون ڈاکٹر کو اپنے ہی اوپر اعتماد نہیں تھا۔ انہوں نے یہی صلاح دی کہ آپ کسی ماہر مرد معالج ہی کو دکھائیں۔ یہی زیادہ بہتر ہے
۔ میرے استاد و معالج حکیم المیوات ،حکیم قاری محمد یونس شاہد میو صاحب کا بہت شکریہ….جنہوں نے میلوں فاصلے کے باوجود توجہ اور تسلی کے ساتھ سہی سمت میں علاج دیا۔یہاں میں مجبور تھی کہ اگر مجھے دیسی طب میں علاج کروانا ہے تو مرد سے ہی علاج کروانا ہے۔ یہ بات نہیں کہ یونانی یا آیوروید میں خواتین ڈاکٹر نہیں ہیں، وہ ہیں ضرور…. لیکن انہیں مہارت نہیں ہے، یا جنہیں مہارت ہے، ان تک عمومی طور پر خواتین کی رسائی نہیں ہے۔ یہی وہ لمحے تھے، جس نے میرے فکر و نظر کے زاویے بدل دئیے۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ سب سے زیادہ روشن خیال اور ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ سمجھی جانے والی صدی۔ لیکن اس دور میں بھی؛ میں خواتین کی آہیں اور سسکیاں سنتی ہوں۔
مجھے حیرت ہے، تعجب ہے، افسوس ہے کہ اس معاشرہ میں جب خاتون کسی مخصوص مرض میں گرفتار ہوتی ہے تو اسے پہلے گھر والوں کی طرف سے خاطر خواہ توجہ نہیں ملتی۔ پھر جب گھر سے نکل کر ہسپتال جاتی ہیں تو وہاں انہیں سہی علاج نہیں مل پاتا۔ نتیجہ میں مرض بڑھتا ہے، خاتون فکر و کرب کے احساس کے ساتھ گھلتی جاتی ہے۔
خواتین کے بہت سے مسائل ایسے ہیں، جنہیں معمولی سی توجہ اور دیسی طب کی مدد سے فوراً ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ ہر مرض کی دوا انگریزی گولی اور ہر تکلیف کی علاج آپریشن نہیں ہے۔ ہمارے جسم کا کوئی عضو اور کوئی انگ ایسا غیر ضروری نہیں کہ وہ ناکارہ ہو جائے تو اسے کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ دیسی طب ایک شفیق ماں کی طرح ہے۔ وہ ہر مرض کو اپنی توجہ اور دانائی سے ٹھیک کر سکتی ہے۔ بس معالج کی تشخیص سہی ہونی چاہئے۔ اسی معاشرہ کا ایک حصہ ہونے کی حیثیت سے میرا احساس ہیکہ خواتین اور لڑکیوں میں دیسی طب کا شعور عام کیا جانا چاہئے۔
یہ وقت کی ایک بڑی ضرورت ہے۔ بچوں کی نگہداشت ہو، یا گھر کے بزرگوں کی تیمارداری۔ یا امورِ خانہ داری، صحت سے جڑے کسی بھی مسئلہ کو سب سے پہلے خواتین سامنا کرتی ہیں۔ بچے ہیں، گرتے ہیں، چوٹ لگتی ہے، کیچن میں کبھی انگلی کٹتی ہے، ہاتھ جلتا ہے، گھر کے بزرگ ہیں، ان کا شوگر بی پی بڑھتا ہے۔ مرد تو اپنے کاروباری مشاغل میں گھر سے باہر ہوتے ہیں۔ ان امور کو سلیقہ سے سلجھانے کا فن خواتین کو سکھایا جانا چاہئے۔ بلکہ ہر ماں کو ایک ڈاکٹر ہونا ہی چاہئے۔ اس کے بچے کو چھینکیں آتی ہیں، دست ہوتے ہیں، کبھی پیٹ درد کرتا ہے۔ سر درد کرتا ہے،ضروری نہیں کہ ہر بات پر دواخانہ ، ڈاکٹر کے چکر کاٹے جائیں۔ خواتین کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے کیچن میں کون کون سی ایسی چیزیں ہیں، جو انہیں ضرورت کے وقت مدد دے سکتی ہیں۔
میں نے ایک بھرے پرے خاندان میں آنکھ کھولی ہے۔ جنوبی ہند سے شمالی ہند تک ہمارا خاندان پھیلا ہوا ہے۔ اور میرے اس خاندان میں ننھیال ددھیال اور سسرال سب جگہ مردوں کی بنسبت خواتین زیادہ ہیں۔ ابھی میرے سسرال میں انیس خواتین ہیں۔ جن کی عمریں ایک سال، چار سال ، سات سال سے لے کر ساٹھ سال کے درمیان ہیں۔ اتنے بڑے خاندان میں رہنے کا اثر یہ ہوا کہ میں نے بچپن سے خواتین کے مسائل دیکھے سنے ہیں۔
بلکہ میں نے نوعمر لڑکیوں سے لے کر سن یاس تک پہنچنے والی خواتین کے مسائل و امراض کی درجہ بندی کر رکھی ہے کہ کب، کس عمر میں کیا مسئلہ پیش آ سکتا ہے؟ جو واقعات و مسائل میں نے خاندان کے عورتوں کے دیکھے سنے ہیں ان کا میرے دل پر ایک اثر ہے۔ یہی اثر تھا کہ میں نے نوعمری سے ہی عام گھریلو لڑکیوں کی طرح سجنے سنورنے ، گھومنے پھرنے کے شوق رکھنے کے بجائے ہمیشہ اس کی فکر کی ہے کہ میں خواتین کے مسائل حل کرنے کے لئے اپنا کیا کردار ادا کرسکتی ہوں؟ اب جب کہ میں دیسی طب میں ایک مبتدی (پریکٹیشنر) کے طور پر کام کر رہی ہوں۔
میرے سامنے مریضوں کے ریکارڈ ہیں۔ ایک نہیں دسیوں قسم کے واقعات پڑے ہیں کہ خواتین کیسی پریشانیوں میں ہیں، اور ذرا سی غفلت اور بے توجہی سے صحت کے کیسے کیسے سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔ بیشمار خواتین ہیں، جنہیں تھائیرائڈ، pcos, pcod ، اور امراضِ رحم کا سامنا ہے۔ سالہاسال سے انکی دوائیں چل رہی ہیں، لیکن مرض قابو میں نہیں۔ بلکہ ایک مرض دوسرے مرض کو جنم دے رہا ہے، صورتحال سنگین ہوتی جاتی ہے۔ جب تک کہ وہ خواتین ، بہنیں دیسی طب کی آغوش میں آتیں، مرض بہت پھیل چکا ہوتا ہے۔ اور اسے قابو میں کرنا آسان نہیں ہوتا۔ الحمد للہ! اللہ کا کرم ہے کہ اس کی مہربانی، گھر والوں کی شفقت اور معالج کی توجہ اور سہی تشخیص سے میں روبصحت ہوئی ہوں، تو میرا فرض بنتا ہے کہ میں ان بےبس اور پریشان خواتین کے بارے میں لکھوں، ان کے لئے آواز اٹھاؤں، اور ان کے لئے کام کروں….
..جو شاید اسی درد و کیفیت سے گذر رہی ہیں، جس سے میں گذر آئی ہوں۔ اپنے گھر کی خواتین کو توجہ دیں، ان کی صحت کا خیال رکھیں۔ اور انہیں کسی بھی طرح کا مسئلہ لاحق ہوتا ہے تو ان کی حوصلہ شکنی سے بچیں۔ گھر والوں کی ذرا سی توجہ، تسلی کے دو بول، اور امید بھرے کلمات مریضہ کو دوا سے زیادہ زندگی بخشتے ہیں۔
اور ایک درد مند دل رکھنے والے فرد کی حیثیت سے میری صلاح ہیکہ خواتین کے کسی بھی قسم کے آپریشن سے پہلے دیسی طبیب کے یہاں ضرور جائیں۔ کم سے کم ان سے علاج نہ سہی صلاح و مشورہ ہی کر لیں۔ یہ سچ ہے کہ دیسی طب کو جعلی طبیبوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مگر اب بھی، اس دور میں بھی اچھے، ماہر، قابل طبیب موجود ہیں۔ اگر وہ مرض سمجھ جاتے ہیں تو پھر مرض کا کامیاب علاج بھی کر سکتے ہیں۔ دیسی طب کے میدان میں خواتین کی خدمات کے لئے بڑا گہرا خلا ہے۔نظر دور دور تک جا کر ، تھک کر نامراد واپس آتی ہے،جب دیکھتی ہے کہ آس پاس میں دیسی طب کی کوئی ماہر امراضِ نسواں نہیں ہے۔ خواتین خود بھی آگے آئیں۔ یہاں عمل کے میدان ہر ایک کے لئے کھلے ہیں۔
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی ہے محرومی جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اس کا ہےمیں اپنے حصے کا دیا جلا رہی ہوں۔ امید ہے کہ یہی روشنی پیچھے آنے والوں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔ جن دلوں میں احساس ہوتا ہے ان کے لئے نصیحت و عبرت پکڑنے کو ایک دو واقعات و مشاہدات ہی کافی ہوتے ہیں۔ اور جن کو کسی کے درد کا احساس نہیں ان کے لئے نصیحتوں کے دفتر بھی فضول ہیں۔