ہیگل کا فلسفہ از مولوی محمد مظہرالدین صاحب
دیباچہ
اپریل 40ء کے رسالہ جامعہ میں اشتراکیت کے فلسفہ پر میر ایک مضمون شائع ہوا تھا۔ تین چارماہ بعد ایک صاحبتے ہی پرتنقید کرتے ہوئےیہ خیال ظاہر کی کہ صاحب مضمون نے مارکس کا تفصیلی مطالعہ کے بغیر محض سنی سنائی باتوں پر یضوں کا ملا ہے۔ مرض کا خیال کی جنگ صحیح تھا مضمون لکھتے وقت میرے سامنے فلسفہ اشتراکیت کا ایک میں خاکہ تھا۔ اس کے پورے فلسفے اوراس کی تفصیلات سے میں اس وقت تک لاعلم تھا لیکن اس حدتک اعتراض کی صحت کے باوجود مجھے کامل یقین تھاکہ ایس اور اشتراک کے متعلق مں نے جوکچھ بچھا ہے وہ صحیح ہے۔ اس کے بعد میں نے مارکس کا تفصیلی مطالعہ شروع کیا۔ ابتدا صرف یا دادہ تھا کہ جن اور پر تنقید ی گئی ہے انکی تحقیق کروں لیکن جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا بحث ونظر کے نئے نئے پہلو سامنے آتے گئے یہاں تک کہ جس محدود مقصد کے ساتھ میں نے مطالعہ شروع کیا تھا اس کی تنگنائی طبیعت پر گران گرانے کا نتیجہ ہوا مطالع شروع کرتے وقت جو نقشہ ذہ کے ساتھ تھا سے بلکل پاک کر دیا اور ایک کی تعمیر کار سانا
جیہیا ہو گیا۔ یہ ہے اس کتاب کی شان نزولں۔
جیسا کہ اس کے علاوہ ان جو ایرا یقین بھی تھا کہ اس کی بات ہی نے جوکچھ کھا تھاوہ عطا نہیں تھا۔ اکیس ے فلسفہ کے ساتھ گل کے فلسف کی توضیح بھی ضروری تھی کیونکہ اس نے اپنے ہتھیار اگلی ہی کے سطح خانے سے مستعار لیے تھوں ای مالی اموات کی بنیاد پر اس نے اپنا شہ یا ان ہی کے دنیا کا تیار کیا۔ ایران دونوں کے درمیان ہی ایک نسبت نہیں ہے رہیے زیادہ قابل ذکرام یہ ہےکہ موجودہ زمانہ کے دور سے نظامات زندگی جن کی خونین کشمکش سے آج شرقی یورپ کی سزمین ارزار ہورہی ہے نھیں دونوں کی دینی حلق میں ہیگل کے فلسفہ نے کلیت پن دیکتا کی بنیادڈالی اور باکس کا فس فر دی شہر ایک کے بس میں جلوہ گر ہوا اس اعتبارسے بھی یہ واوی نام ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں گے۔
ہیگل اور ارکس کے نظریات صرف نظری یہی سے نہیں اکلیلی دنیامیں بھی سامی نظام سے قدم قدم یک اتے ہیں میل کا فلسفہ سلامی فلسفہ ملک کے مقابل ہے کیونکہ اسلامی ملت ایک جوالے / Answerable مملکت ہے۔ گر اس کی جواب ہی جمہور کے انے نہیں بلکہ دستور قران کے سامنے ہے۔ اس کے برخلاف نیل کی ملک نہ توکس اصول کی پابند ے اور کسی کی یہ جواب ہے۔ اس طرح ارکس اور اس نظریات اخلاق معیشت اسلام کے فلسفہ اخلاق اوراسلامی نظام میشہ سے براہ راست متصادم ہوتے ہیں۔ مارکس کے نقطہ نظرسے اخلاقی اصول اور نہ ہی احکام معانی ضروریات کے تابع ہیں۔ ر تا اب معاشی تقاضوں اوراخلاقی ہوں میں تصادم ہواہے تو خلاق و یک پراپنی پڑتی ہے اور ایات کی بالادستی تسلیم کرنی پڑتی ہے
یہ بھی پڑھیں
جارج ولہلم فریڈریک ہیگل –
یہ اس انیسویں صدی میں یہی قول ہو کیونکہ اس بات ایک ی ن ی ک الان کیا اگر بیزاری بھی ہوئی تھی انا انا عقل و ہوا کے ہیں جوش تھا۔ اس کے اس پار کیا ان کا کیا کیا اور رفتہ اس تحر کے ایک گیر یت اختیار کیا ہماری قوم میں بھی تحریک کے تھوڑے بہت امی پیدا ہوگئے جس کی وجہ سےمسلمانوں کی نی پو دین ندوی نی نانی کے باریک اور انوار ہونے کے مسلمان نوجوان ا ا ا ا ا م نہایت ہی سے ہے پھر ھے اس لیے وہ اس میں
یں انسانی ہال ہوگئے اور انھوں نےاپنے نزدیک عیسایت بدست یابند و ادب کی طب ایک غیر تحرک نظام کا خیال کیا – ونوں نے اس بات پر نہیں کی کہ سلمان نوں مں کوئی وہی ہیں جن منو می می سایت با دامت اپنے نام سے یاد کیے جاتے ہیں وہ مجرد اخلاق در دمانی کے اصولوں پر قائم نہیں ہے کہ اس کا وسیع و من انسانی امور د معاملات تمدن کے سائل در سیاست میت کے بولوں کوبھی اس الی گھرے ہوئے ہے جس طرح اخلاقی مقاصداور روحانی اصولوں کو ایسا نظام لانا ردار کے مخصوص نظریات قائد سے کرائے گا وہ ان کاتعلق زندگی کے کس شعبہ سے ہو چنانچہ آج بھی ہی صورت حال درپیش ہے۔
ای این شرکت ہی ان کے کوٹھی ہے کہ مدنی زندگی کا من چین انسان کی معاشی فلاح پر موقوف ہے۔ دوسری طرف ناسلی اور جمہوری نظامت اپنے جداگانہ صولوں کے ساتھ میدان میں وٹے ہوئے ہیں ان کے مفاد میں سلامی نظام ہے جو خود اپنی بات پہ ھومی رکھتاہے کہ انسانی فلاح اس کے پیش کردہ اصولوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایسی حالت میں ایک مسلمان
ار را زنان حال کلیلی با ایمان یہ سوچے گناہ کہ کیا اسلامی نظام ایسے طاقتور حریفوں کا متقابل ہوسکتا ہے ؟ اس کتاب میں سی سال کا تفصیلی جواب یا گیا ہے۔ اس سہیے میں نے اس میں وائل ابواب شال کے ہیں جہادی نظرمیں اس موضوع سے غیرمتعلق معلوم ہوتے ہیں لیکن گہری نظر سے دیکھا جائے تو سابقہ ابواب سے ان کا تعلق بہت گہرا ہے۔ مارکس کے افکار و نظریات مخرب دنیا کے ایک خالی مینی میلان کے برگ بارتھے یہ ذہنی میلان اس یقین سے عبارت تھا کہ جس طرح انسان کی علی قوتوں نے خارجی منظر کے قوانین کو بے نقاب کیا ہے اور عالم طب میں صحیح تاریخ کے مائی حاصل کی ہے۔
سی طرح عالم انسانی اور تمدنی مسائل کے دائرہ میں بھی وہ مجرد عقل استدلال کی مدھر سے صداقت کا انکشاف کر سکتا ہے۔ ایرانی ارتی و سیاسی زندگی می با اعلام کرسکتا ہے یقین مری میں اب بھی ملا ہے گرچہ اس کی جڑیں خشک ہوچکی ہیں۔ گانیسویں صد میں نقل کی ہم ینی اور اس کے احمد و امکانات کاعقیدہ انا پختہ تھا کہ ان کی قیدی نعمت بھی اسےاپنی نگیر ے ہاکی واقع یہ ہے کہ کانٹ اس وادی کا تنا سافرتھا۔ مغربی نگار کا ا ا ا الا مار کر بچھے چھو کر بہت تیزی سے بریانی ورموت کی گھاٹیوں پر چڑھا چلاجارہا تھا۔
ایس بی سی قافلہ کا تھا اپنے ان کی مانای وانی اور رد و طبق کیا کرنے کی نظر یہ کس کے دل میں ابن الوقت نظام کے خلاف یک باغیانہ یجان پیداہوگیا بغیرانسانی کا خاصہ ہے کہ جب وہ پنے گردوپیش کی دنیا سے متاثر ہوکر کسی عمل کا آغاز کیا ہے تو اسکی فکر سے انتہا کے دوسرے سرے
پر پہنچا دیتی ہے، زمانہ کے ا میلان سے بیزار جوک اس کا پانی میلان بالکل من الداہ اختیار کرلیتا ہے اور جن اقدار او Values کو وہ عمانی ندگی پر کان پاتاہے انہیں ان کربالکل مخالف اقدار ترتیب بنا شروع کردیتا ہے۔ غرض اس کی فکری شعوری طور پراس کے جنبیہ نفرت اور اغیان بیان سے مار ہوتی رہی ہے۔مارکس پر بھی انسانی فطر کی ہی خاصی نے اپنا کیا اوروہ اپنے جبر کے ماتمی ظالم کو ایک ایک دوسری انتہا پر ان کی اصالت کی طرف زنانی کرنا و یا کم کاری ما با انسان کو از دید گاراری میں پھنسا دیتا ہے۔ اسی وجہ سے تمدنی اور معاشرتی زندگی کے دائرے میں محض قلی استدلال اور منفی فک محبت نتائج کی ضامن نہیں ہوسکتی پانچویں اب میں ہی موضوع پر بحث کی گئی ہے۔ اس کتاب کی تصنیف میں قدم قدم پر یہ حساس مجھے اذیت دیتا ہے کہ جس کام کومیں نے اپنے ذمہ لیا ہے صحیح
نیچے دیے گئے ٹیبل سےہیگل کا فلسفہ از مولوی محمد مظہرالدین صاحب کی کتاب ڈاؤن لوڈ کریں۔
پی ڈی ایف ای بک کے بارے میں مختصر معلومات | |
---|---|
ہیگل کا فلسفہ | :کتاب کا نام |
مولوی محمد مظہرالدین صاحب | :لکھاری / مصنف |
اردو | :زبان |
(ُPdf)پی ڈی ایف | :فارمیٹ |
:سائز | |
18 | :صفحات |