ہماری نئی کتاب
دروس العملیات کا مقدمہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
۔سخن ہائے گفتنی۔
انسانی زندگی میں کچھ چیزیں مختلف جہات سے اہمیت رکھتی ہیں۔کچھ چیزوں کو زندگی میں اہم سمجھ لیا جاتا ہے۔اور کچھ چیزوں کو معاشرہ اہم بنا دیتا ہے۔ جادو،جنات،نظروں سے اوجھل چیزیں انسان کو انجانے خوف میں مبتلاء رکھتی تھیں۔جب انسان کے پاس زندگی گزارنے کے لئے بہت کم وسائل موجود تھے یا انہیں استعمال کے بہت کم طریقے معلوم تھے
،تعلیمات سماوی سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے ہر وہ چیز جس کا وہ مقابلہ نہ کرسکتا تھا قابل توجہ تھی اسے کسی وقت بھی سراسیمہ کردیتی تھی۔جیسے جیسےانسانی شعور بیدار ہوتا گیا انسان اپنی ضروریات کی چیزوں کے بارہ میں آگاہی حاصل کرتا گیا اور زندگی کے ادنی تصور سے اعلی تصور و آشائش کی طرف گامزن ہوتا گیا
۔ظاہری کرو فر میں لوگ شامل ہوتے گئے اور جنگلی زندگی سے تمدنی زندگی کی طرف چھوٹی بڑی کلانچیں بھرتا ہوا۔پتھر کے دور سے جدید ٹیکنالوجی کی چکا چوند روشنی میں آپہنچے۔تعلیمات نبویﷺ کی روشنی نے انسان کو اعلی تصور حیات دیا ،لیکن جولوگ اندھیروں کے عادی تھے نسلا بعد نسلِِ ایک خاص ڈھب پر زندگی گزارنا اچھا لگتا تھا۔اس لئے و ہ تعلیمات سماوی اورٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی کے بوجود افکار کی دنیا میں صدیوں پرانی سوچ سے باہر نکلنے کے لئے تیار نہ ہوئے
۔ماضی کے مقابلہ میں جو سہولیات مسیر ہیں ،اس سے قبل ان سہولیات کا تصور بھی محال تھا،جو باتیں بادشاہوں کو بھی میسر نہ تھیں وہ عام انسان کی زندگی میں یومیہ معمولا ت میں داخل ہوچکی ہیں۔
لیکن اس ترقی نے ظاہری زندگی کو تو اوج ثریا تک پہنچا دیا،مگر ذہنی سطح کو زیادہ بلند نہ کرسکی۔ان سب کے باوجود اندرونی طورپر کسی چیز کا متلاشی ہے۔اپنے خوابوں سے نکلنا اسے گوارا نہیں ہے۔ہمہ وقت کوابوں کی دنیا آباد رکھنا چاہتا ہے۔محنت و مشقت کی جگہ تن آسانی زندگی چاہتا ہے۔ہوس و حرص اتنی پروان چڑھ چکی ہیں،تعلیمات سماوی کو زندگی کی شاہراہ میں قدغن سمجھتا ہے۔جدید ٹیکنالوجی میںہڈحرامی کی وجہ سےکوئی نام بنانے سے قاصر ہے
۔ایک ایسا خبط پیدا ہوگیا ہے یا پھر جان بوجھ کر مسلط کردیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہمارے علاوہ سارے گمراہ ہیں۔خدا سے کسی ملنے نہیں دیتے۔جنت کا تصور اپنے تک محدود کرچکے ہیں۔ہماری مرجی کے بغیر نیکی کا تصور موجود نہیں۔نہ کوئی ہماری محدود سوچ سے باہر نکل کر جنت والے کام کرسکتا ہے۔کیونکہ ہمارے علاوہ سارے لوگ گمراہ ہیں۔حق کے ہم علمبردار ہیں۔حق سچ وہ ہے جو ہمارے بڑے کہہ دیں یا جو ہمیں مسلکی لحاظ سے تسکین بخشے
۔اس علاوہ دنیا میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔گمراہی کی طویل چادر ہے۔تحقیق و تدقیق کی ضرورت نہیں۔ہماری کل کائنات وہی دائرہ ہے جو ہمیں پسند ہے یا سمجھا دیا گیا ہے کہ آبائی طورپر جو طریقہچلا آرہا ہے وہی ٹھیک ہے،اس کے مد مقابل کوئی کتنی بھی روشن دلیلیں لائے،کتنی بھی حجتیں پیش کردے،حق نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ سب کچھ ہماری کھینچی ہوئی ٹیڑھی میڑھی لکیروں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
ماضی سے جڑے رہنا اچھی بات ہے آبائو اجداد کی راہ پے گامزن رہنا معقول راہ ہے۔لیکن نسلی تفاخر کو اس انداز میں اختیار کرنا کہ زمانے بھر کی غلاظتیں اپنا لیں اور اعلی چیزیں اور بہترین اصول زندگی جن کی وجہ سے پہلے لوگ اہم سمجھے جاتے تھے کو ترک کردیںیعنی ایک ایسی زندگی کے خوگر بن جائیں جس میں دوسروں کے لئے کچھ کوئی خیر و بہتری کی امید باقی نہ رہے
۔سمجھنے کو جو چاہے سمجھو لیکن اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے یہ معقول روش نہیں ہے،اسے زمانے کی چکی پیس کر رکھ دے گی۔
اس کائنات کا ابدی اصول ہے صرف فائدہ مند چیزں ہی زندہ رہتی ہیںغیر ضروری و غیر مفید فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔اس لئےپیراہن کہن کو اتار کر لباس جدید کو زیب تن کرنا ہی علامت حیات ہے۔ہم کبوتر کی طرح کتنی ہی آنکھیں بند کریں ۔وقت کی بلی کو کوئی فرق نہیں پڑا وہ ضرورت پڑنے پر جھپٹنے سے گریز نہ کرے گی۔اس لئے وقت کی بلی کے سامنے آنکھیں موندھنے کے بجائے اسے سے بچنے کی تدابیر سوچنا اور زندگی کی نت نئی راہیں تلاشنا ضروری ہیں۔
جادو جنات۔ہمزاد و موکلات۔دم جھاڑے چلے۔وظائف۔انسانی زندگی کے وہ تصورات ہیں جنہوں نے بلا تفریق دین و مذہب۔قوم و ملت ہر ایک کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ان کی تائید و تردید قبل از تاریخ سے جاری و ساری ہے۔تاہنوز یہ سلسلہ پوری توانائی سے قائم ہے،صدیوں پہلے لوگوں کے ذہنو ںمیں اس بارہ میں جو سوچ تھی وہ کسی ترہیب و ترغیب کے نتیجہ میں کم نہ ہوئی۔اس کے چہرے پر زندگی کی رعنائی روز بروزچمک دھمک پیدا کررہی ہے۔جن چیزوں کو فرسودہ کہتے ہیںاور صدیوں پرانی رویات کو اعلی الاعلان تسلیم کرنے میں تامل کرتے ہیں،
نجی زندگی یا ضرورت کے وقت انہیں صحیفہ آسمانی کی حیثیت سے اپناتے ہیں۔مجبوری یا انسانی ضرورتیں انسان کو کچھ بھی کرنے پر آمادہ کردیتی ہیں۔جادو جنات یا ان دیکھی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں۔لاکھوں لوگ اس کے قائل ہیں،کسی نہ کسی انداز میں یہ باتیں اس کی زندگی میں ارتعاش کا سبب بنتی ہیں۔جادو و جنات تسلیم کرنے والے جھونپڑیوں کے باشندے ہی نہیں بلکہ اعلی تعلیم یافتہ بھی ہیں۔مذہب کے رکھوالے اس کی آبیاری پر خلوص انداز میں کرتے ہیں۔نفسیاتی طورپر یہ لوگ ہر اس چیز کو جواز فراہم کرتے ہیں جو انہیں کسی نہ کسی انداز میں فائدہ پہنچائے۔اس کے لئے شرعی دلیل نہ بھی ملے تو تاویلات کی راہ موجود ہے۔
عملیات کی کتب کو ہر مسلک و مذہب والوں نے اپنے مسلک و مذہب کی تائید اور مخالف کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔جیسے کچھ باتیں کسی مسلک و مذہب کی نشانی یا شعار مسلک کے طورپر پہنچانی جاتی ہیں اسی طرح عملیاتی کتب پر مسلکی بزرگوں کی تائیدی و تردیدی مہر ثبت ہوتی ہے۔اس کے فضائل و مزایا کو مذہبی و مسلکی رنگ میں ملفوف کرکے قابل قبول بنانے کی ہمہ تن کوشش کی جاتی ہے۔
ہم نے اس تحریرمیں ایک روش سے ہٹ کر سمجھانے کی کوشش کی ہے عملیاتی دنیا کیا ہے؟عملیات سے کام کیسے لئے جاتے ہیں؟عملیات کا گھسا پٹا طریقہ سے الگ بھی راہیں موجود ہیںجن پر چل کر
عملیاتی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
عملیاتی قواعد کی سختی۔
پرہیز۔پڑھائی۔چلے وظائف،کی حقیقت کیا ہے؟
اس سے کونسے فوائد اخذ کئے جاسکتے ہیں
،کونسی چیزیں ضروری اور کونسی عمل کی جان ہیں
۔اجازت کا مسئلہ کیا ہے؟
عملیاتی کتب میں لکھے ہوئے اعمال آج کتنے کار آمد ہیں؟
کونسے سےلوگ اس میدان میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں؟
آج کے مصروف دور میں عملیات سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے؟
عملیات کی مذہبی حیثیت کیا ہے؟
مجھے امید ہے یہ کتاب عملیاتی دنیا مین ہلچل پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔کیونکہ عاملین کے لئے آسنایاں پیدا کرنے والی ہے