گوت پال۔کی شہرت ہماری کم علمی۔
گوت پال۔کی شہرت ہماری کم علمی۔
از حکیم المیوات
قاری محمد یونس شاہد میو۔
انسانی زندگی میں کچھ باتیں اس طرح کی ہوتی ہیں روز مرہ کی بولی یا کثرت استعمال کی وجہ سے بہت مانوسیت پیدا ہوجاتی ہے۔ان الفاظ یا ا ن اصطلاحات کے سننے سےایک مفہوم جنم لیتا ہے اس افہام کے لئے کسی وضاحت یا تشریح کی ضرورت نہیں ہوتی،بس ایک تصور ابھرتا ہے جس سے اطمنان کی کیفت طاری ہوجاتی ہے۔
میو قوم اور دیگر اقوام ہند ایک مربوط نظام مین جکڑی ہوئی ہے،یہ نظام رگ و پے میں اس طعح سرایت جئے ہوئے کہ قدرتی طورپر کچھ اصطلاحات نسلا بعد نسلِِ منتقل ہوتی رہتی ہیں،ان میں
ایک لفط پال،دوسرا لفظ گوت ہے۔یہ لفظ نہیں ایک تاریخ ہیں ان سے وابسطہ تمدن و عمرانیات کا وہ روشنی موجود ہے جس کی لو میں ہمارے اباء و اجداد اپنی منزل متعین کرتی آئی ہیں۔انہیں یہ
خطوط پر جادہ منزل طے کرتے آئے ہیں۔
یہ بھی دیکھئے
Mayo Nation 12 Paal and 52 goot.| میو قوم کے 12 پال اور 52 گوت
جس طرح قومین اپنی زندگی کا دور مکمل کرکے زمین سے اپنی بساط لپیٹی ہوئی دوسروں کے لئے جگہ کالی کرتی جاتی ہیں ایسے ہی الفاظ کی بھی ایک زندگی ہوتی ہے،ان کی گرفت اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات ہوتے ہیں،جب یہ الفاظ و اصطلاحات بوڑھے ہوجاتے ہیں تو آہستہ آہستہ ان کی سانس دھیمی پڑنے لگتی ہیں یہ زندہ رنے کے لئے سسکنا شروع کردیتے ہیں اگر انہیں کہیں سے کوئی آکسیجن کا کوئی جھونکا مل جائے تو حالت سنبھل جاتی ہے،ورنہ زوال کی گھاٹی سے ان کی گراوٹ مین تیزی پیدا ہوجاتی ہے۔جب قومیں یا ان کی اصطلاحات جوان ہوتی ہیں تو ان کے مٹنے یا معدوم ہونے کا تصور بھی مشکل ہوتا ہے۔جیسے بڑی بڑی بادشاہتیں۔چودھریں۔سراداریان ہوتی ہیں ،جب ان کی شہرت نصف النہار پر ہوتی ہے تو ان کے بنا زندگی کے بارہ میں سوچنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
مورخین ہند
لیکن ہر چیز کی ایک زندگی ہوتی ہے اس کا بچپن ،لڑکپن،جوانی ،کہولیت،،شخیوخیت۔او رمنزل عدم ہوتی ہے۔ یہ وہ فطری قوانین ہیں جن پر چار وناچار سب کو چلنا پڑتا ہے۔جتنی کسی قوم میں قوت مدافعت ہوگی اس کی زندگی اتنی ہی طویل ہوگی۔یہی کچھ الفاظ و مہاورات کے ساتھ بھی ہے۔
یہ بھی
دین کی دعوت میں اہل میوات کا کردار
گوت پال کا تصور ایشائی قوموں مین قدیم سے پایا جاتا ہے بالخصؤص ارض ہند میں اسے اہمیت و افادیت نرالی تھی۔آج بھی کہنگی اور پیرانہ سالی کے باجود اپنے اندر ایک کشش و دبدبہ رکھتے ہیں۔
مجھے کل باباجی محمد اسحق میو صاحب کا فون آیا(یہ ان کی زرہ نوازی تھی ورنہ ،من آنم کہ من دانم)۔اس میں میوء قوم کی گوت،پال کے بارہ میں بات چیت ہوئی ،منجملہ دیگر امور کے ایک مکالمہ یہ بھی ہوا کہ کونسی گوت کس کو رشتہ دیا کرتی تھی اور کس سے لیا کرتی تھی،گوکہ یہ روز مرہ سنی جانے والی بات تھی کہ فلاں ہمارا گوتی بھائی ہے فلاں سے ہم لیتے ہین ،فلاں گوت کی طرف ہماری بیٹیوں کی شادی ہوتی ہے۔سوال بہت مانوس اور سہل تھا۔لیکن جب اس بات کا حل تلاش کیا گیا تو یہ آسان و سہل بات سہل ممتنع ثابت ہوئی۔میں اس پر طویل کتابیں کھنگال ڈالیں ۔بڑے بوڑھوں سے ملاقات کی۔فون کئے ،انڈیااتک سے میوات میں رابطہ کالیں کیں حیرت کی بات ہے اس کا کوئی شافی و تسلی بخش جواب نہ مل سکا ۔اندازے ،ٹیوے ۔تخمینے۔اور آراء تو تھیں لیکن تحقیق نہ تھی۔
میں حیرت سے ساری رات نہ سو سکا ،مجھے اپنی علمی بساط سکڑتی ہوئی محسوس ہوگئی ،اپنہ کم مائیگی کا شدت سے احساس ہوا۔تہجد کے وقت مجھے اس بات پر شرح صدر ہوا کہ ان نکات پر کام ہونا چاہئے جنہیں کم اہمیت دی جاتی ہے۔جن سے بحیثیت میو ہماری شناخت وابسطہ ہے۔
اس بارہ میں کئی احباب سے جو میوء قوم کے محسنین مین بجا طورپر شامل ہیں سے بات چیت ہوئی من جملہ ان میںسے حویلی رامیانہ ،سے عاصد رمضان میو بھی تھے۔ان کی قومی و ملی خدمات کی بنیاد پر میوات کے لوگوں نے بابائے میوات کا لقب بھی دیا ہوا ہے،یہ اس کقب کے بجا طور پر مستھق بھی ہیں۔
اس وقت میوات کے رہنے والے یا اس سے خطہ سے الگ ہونے والے لوگ جو میو کہلاتے ہیں ایک نئے جذبہ و شوق سے سرشار ہوکے اپنی گم شدہ تہذیب اور آبائو اجداد کی استخوان کہنہ کو دریافت کرنے میں مصروف ہیں۔ جس شوق و جذبہ سے یہ لوگ مصروف عمل ہیں،کاش یہ ایک صدی پہلے ہوجاتا تو آج تاریخ کا دھارا کسی اور سمت بہہ رہا ہوتا۔لیکن داور حقیقی نے ہر چیز کے لئے وقت کا تعین کیا ہے ،میوء قوم کے لئے یہ وقت متعین کیا گیا تھا۔
جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عروج بخشنا چاہتا ہے تو اس کے افراد کے دلوں میں ایک داعیہ اور جذبہ پیدا فرمادیتا ہے،وہ اَن جانے میں بھی ایسے کا م کرتے ہیں،جو منزل راہ کا تعین کرتے ہیں ،ان کے دلوں میں جذبات کا دریا موجزن ہوتا ہے۔وہ اپنے وسائل کے ساتھ ساتھ اپنا قیمتی وقت دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔انہیں جوکام قدرت سونپتی ہے ۔انہیں تعلق متوسطہ بناکر ان سے کام لیا جاتا ہے،جب کام مکمل ہوتاہے تو انہیں جو خوشی ملتی ہے وہ صلہ کم نہیں ہوتا۔یعنی ڈھنگ سے کیا ہوا کام اپنا صلہ خود ہوتا ہے۔اخلاص سے کے ساتھ کیاہوا کام،اپنے کے لئے یا قوم و ملک کے لئے اس کی تکمیل اس کے بعد پیدا ہونے والے اثرات بہترین عوض ہوتے ہیں۔میو سپوتوں نے چند دیہائیوں سے اپنی تاریخ اور ادب کو محفوظ کرنے ذمہ لیا ہے اور بہترین کتب منظر عام پر آئی ہیں۔
میو قوم میں خدمت کا جذبہ بہت بڑی مقدار میں دیکھنے کو ملتاہےاس کا محرک کچھ بھی ،شہرت ، کاروبار،خدمت وغیرہ انسان کی نفسیاتی جبلت ہے یہ اپنی محنت کا صلہ چاہتا ہے۔شکریہ کا طالب ہوتا ہے۔ انسان بہت چھوٹا ہے جد باز ہے حرص پر اترے تو کائنات سے بھی سیراب نہ ہو۔ماننے پر آئے تو تعریف کے دو بول ہی قیمت قرار پتے ہیں۔۔
میرا ادارہ ہے اللہ تعالی کی نصرت شامل حال رہی تو ان لوگوں کی جامع ڈائکٹری مرتب کرودں جو اس وقت زندگہ ہمارے درمیان موجود ہیں۔میرا ادارہ ہے کہ مردہ پرستی کی جو روایات دنیا مین موجود ہے اس سے اپنی راہیں جدا کرلوں۔۔۔