کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟
کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟
پہلی قسط
مضمون نگار
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
لکھنے والے میدان عمل کو کتنا بھی کشادہ رکھیں پھر بھی ان کا قلم معاشرہ کے لحاظ سے مخصوص افراد کے گرد ہی گھومتا ہے۔
جب کسی سلطنت یا مملکت کی تاریخ لکھتے یا پڑھتے ہیں ۔یہ تحریر چند شخصیات کے گرد گھومتی ہے۔
ضمناََ کچھ باتیں ماحول و معاشرہ کی بھی شامل ہوجاتی ہیں،بعد والے انہیں باتوں کو تاریخ کے نام سے بیان کرتے ہیں۔
ان مختصر تحریروں کی مدد سے لکھنے والا اور پڑھنے والا تخلیات کی مدد سے پورا معاشرہ تخلیق کرتے ہیں۔
جہاں کوئی چیز سمجھ میں نہ آئے ،وہاں مصنف یا قاری کا ذوق اور اان کی فہم خانہ پرُی کرتے ہیں ۔
ان کے بعد والے ان دونوں کو ملاکر مطالعہ کرتے ہیں،یوں یہ موضوع طوالت در طوالت کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
مورخین ہند
سب سے پہلے اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے کہ تاریخ کے مطالعہ کی غرض و غائت کیا ہونی چاہئے؟
تاریخ کا مطالعہ کیوں کیا جاتا ہے؟قابل غو ر بات یہ کہ انسانی مزاج میں ماضی پرستی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے،
کوئی کتنا بھی بڑا کیوں نہ بن جائے، ماضی سے اس کا رشتہ کبھی منقطع نہیں ہوتا۔
دراصل جو دنیا میں آیا ہے وہ ایک تسلسل عمل کا شکار رہا ہے۔اپنی مرضی سے آیا نہ آپنی مرضی سے گیا ۔
اس دنیا میں جیسے بھی حالات ملے ان سے نباہ کیا اور اپنی سانسیں پوری کرکے موت کی چکی میں پس گیا۔
وہ اس جہان کا معمولی سا حصہ دیکھ سکا ۔دنیا کی آشائش کا معمولی سا نظارہ کرسکا۔ جس کی جو زمہ داری تھی پوری کی اور چلتا بنا ۔
جب ہم کسی کتاب تاریخی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ اس زمانہ کے روزن دیوار سے دکھائی دینے والی ہلکی سی جھلک ہوتی ہے،جسے زندگی کی گہما گہمی میں مصنف دیکھتا اور پڑھتا پھر ہمت کرکے لکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
اسباب بغاوت ہند، سر سید احمد خان
یہ کتاب تو دیگ کا وہ چاول ہے جسے دیگ کے کچا پکا ہونے کا اندازہ کرنے کے لئے پکانے والے اپنی دونوں انگلیوں سے دباتا ہے۔
اس چاول سے ذائقہ یا کچے پکے ہونے کا اندازہ تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسے دیگ کہنا مشکل ہوتا ہے۔
تاریخ کی کوئی کتاب کتنی بھی مطول و مفصل کیوں نہ ہو پھر بھی وہ اس معاشرہ کی چند باتیں ہی بیان کرتی ہے۔
وہ باتیں جہیں لکھنے والا اہم سمجھتا ہے یا جن کی اس وقت طلب ہوتی ہے۔
باقی بے شمار قیمتی اور اہم باتیں لکھنے سے رہ جاتی ہیں۔ ہر زمانے کا اپنا ذوق ہوتا ہے۔اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔
کل جس بات کو اہم سمجھا جاتا تھا ،آج لوگ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔
اسی طرح آج جن چیزوں کو متاع عزیز سمجھا جارہا ہے۔آنے والے کل میں یہی ردی کی ٹوکری بھرنے کے کام آئیں گی۔
ایک وقت جو چیز اہم سمجھی جاتی ہے دوسرے وقت اس کی پہلے والی اہمیت باقی نہیں رہتی۔کیونکہ اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی
اس لئے اہمیت بھی باقی نہیں رہی۔اہمیت تو ضرورت کے مطابق طے جاتی ہے،
تاریخ سے استفادہ کا بہترین طریقہ
تاریخ سے استفادہ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جس زمانے کی تاریخ پڑھی جارہی ہے
پڑھنے والا اپنے خیالات میں اسی دنیا میں پہنچ جائے تاکہ اسباب و محرکات معلوم ہوسکیں۔
کسی کی برائی یا بھلائی نکھر کر سامنے آسکے۔کبھی غور کیا ہے کہ تاریخ لکھنے والے حجروں میں بیٹھ کر لکھتے ہیں۔
بیان کرنے والے شریک واقعہ نہیں ہوتے اس کے باجود تحریر میں ایسی سلالت و روانگی پائی جاتی ہے۔
گویا لکھنے والا ان کرداروں کو تخلیق کررہا ہے۔
کبھی سوچا ہے سو ایک حجرے میں بیٹھا مورخ ،میدان کار زار میں جان ہومتا ہوئے جنگجو کی کیفیات کو محسوس کرسکتا ہے؟
یا پھر ایک قلم کار، جو نان شبینہ کا محتاج ہو، وہ بادشاہ کی نازک مزاجی کا اندازہ کرسکتا ہے؟۔
یا پھر ایسی سلطنت جو اپنے بیگانوں کی دسیسہ کاریوں کے چرکوں سے لہو لہاں ہوچکی ہو۔
اس میں اپنے بیگانوں کا کردار۔غدار و وفادار کا تعین کرسکتا ہے؟
ایک بد ذوق لکھاری، جب شاعری پر قلم اٹھاتا ہے، دل لگتی کہئے کیا وہ ردیف و کافیہ کی لذت محسوس کرسکے گا؟
ایک بھوکا، ننگا ،وسائل سے تنگ دست، کیا کسی مملکت کی مالی پوزیشن۔یا ٹیکس و مالیہ کا اندازہ کرسکے گا؟
ایسی طرح ایک وقت کھانے والا۔آدھے ستر ڈھاپنے والا، شاہی کپڑوں اور شاہانہ لباس کی کیفیت بیان کرسکے گا؟۔
یوں بھی کہہ سکتے ہیں ایک شہری بابو جس کا معدہ کثرت طعام کی وجہ سے تبخیر کا شکار ہے ،
اسے غذا ہضم کرنے کے لئے طبیب کی پھکی کی ضرورت رہتی ہے۔جسے کثرت آرام اور فارغ رہنے کی وجہ سے نیند نہیںآتی ۔
گولیاں کھانا پڑتی ہیں۔وہ اس دیہاتی فاقہ مست کا حال کیسے معلوم کرسکتا ہے۔
جس کے لئے روٹی کا ایک سوکھا ٹکڑا دنیا جہاں کی نعمتوں سے بھاری محسوس ہوتا ہو۔
جو کام کی وجہ سے نیند سے بے حال ہوجائے۔صبح اسے جلد بیدار ہونا پڑے، اور رات گئے تک اسے کمر سیدھی کرنے کی فرصت نہ ملے۔
منرل پینے والے کیا جانیں،جوہڑ کے پانی سےکس طرح زندگی کی سانسیں برقرار رکھی جاتی ہیں؟
یہی تاریخ ہے۔
جسے غیر متعلقہ افراد ترتیب دیتے ہیں ۔ان کی پسند و ناپسند الگ ہوتی ہیں۔
یہ لوگ ایک دوسرے کی نفسیات۔ایک دوسرے کی ضرورت۔ایک دوسرے کی مجبوریاں۔
ایک دوسرے کی ترجیحات زندگی سے ناآشنا ہوتے ہیں۔
تاریخ تووہی لکھ سکتا ہے جو اس ماحول سےمانوس ہو۔مزاج میں کچھ نہ کچھ ہم آہنگی ہو۔
ذوق میں کچھ نہ کچھ مناسبت ہو۔دور مت جائے۔
اس کا جواب ہے۔ جس نے صدیوں پہلی کی نہیں بلکہ اپنے باپ دادا کی طرز معاشرت بھی توجہ سے نہ دیکھی ہو ۔
وہ کیا جانے کہ پچاس سال پہلے لوگوں کا مزاج کیا تھا؟ ۔ ان کا رہن سہن کیسا تھا؟۔وہ کس قسم کی خوراک پسند کرتے تھے۔
انہیں بتائو کہ پہلے لوگ تیز کمان/لاٹھیاں برچھیاں۔تلواروں کے بل بوتے پر جنگیں لڑا کرتے تھے۔
ہفتوں بیدل چل کر منزل مقصود تک پہنچا کرتے تھے۔اپنا کھانا اپنا بستر لاٹھی کے سہارے کاندھوں پر اٹھا کر سفر کیا کرتے تھے۔
ہوٹلوں کا روج نہ تھا۔مٹی کے دئے گھروں کو روشن کرتے، وہ بھی مالداروں کے۔،غٖریب تو اس سے بھی محروم رہتے تھے۔
مانگے کپڑوں سے شادی غمی کی تقریبات میں جایا کرتے تھے۔
یقین مانئے ان کی سمجھ میں کچھ نہ آئے گا۔یہ حالات تو وہ ہیں۔جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔
ہم انہیں قائل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ تو صدیوں پہلے کی باتیں جن کا ذریعہ ہی چند لکھی ہوئی سطور ہیں۔
جو ضمنا کسی نے، بے دھیانی میں لکھ دی تھیں۔وہ کیسے اس ماحول کی ترجمانی کرسکتی ہیں؟۔
تاریخ کے ساتھ ظلم
تاریخ کے ساتھ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ اسے غیر متعلقہ لوگوں نے لکھا ہے۔
ان لوگوں نے اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر مواد یکجا کیا ہے۔
استقرائی انداز میں کلی جزئی کو جوڑ کر اپنے عقائد و نظریات۔ذاتی ترجیحات کو ثابت کیا ہے۔
جہاں اتنی ساری غیر طبعی باتیں یکجا ہوجائیں اس مواد سے حق و باطل کا معرکہ سر کرنا کارے دارد۔
تاریخ اسلام کی تدوین
تاریخ اسلام پر لکھی جانے والی کتب انتی زیادہ ہیں کہ اگر ان کے ناموں کی فہرست تیار کی جائے تو کتب خانہ تیار ہوجائے۔
اس کے باوجود اس میں اتنا جھول ہے کہ ہر انسان اس مواد سے اپنے مطلب کی چیزیں تلاش کرکے کوئی بھی نظریہ ثابت کرسکتا ہے۔
یا اتنا خام مال مہیا کرسکتا ہے جس سے بلند عمارت قائم کی جاسکے۔یہ تو وہ تاریخ ہے جسے بڑے اہتمام سے ترتیب دیا گیا ہے۔
اسناد تک کو بیان کیا گیا ہے۔جب کہ اسنادکا بیان کرنا دنیا کی کسی دوسری تاریخ میں موجود نہیں ہے۔
1 Comment
[…] کیا ہم تاریخ تخلیق کرتے ہیں؟ […]