کہا ای میو قوم کی نمائیندگی ہے؟
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
کال میں نے سوشل میڈیا پے عید ملن پارٹی کی
تصویر دیکھی ،جو تقریبا میو قوم ،یا میو بولی کا نام پے
بنن والا سارا گروپن میں شئیر کری گئی ہی۔
ان پے کئی لوگن نے کمنٹس بھر کرا لائک بھی ملا
پہلے تو اپنی لکھائی پڑھائی میں مصروف ر ہو
کیونکہ یا وقت میواتی زبان پر کچھ لکھ رو ہوں
کہ دوسری ہندستانی زبانن میں میواتی کی حیثیت
اور تاریخی پس منظر کہا ہے؟یاکی قدامت وکہنگی
کتنی ہے اور میواتی بولی لسانی و ادبی لحاظ سو
کتنی اہمیت راکھے ہے۔
جب کچھ فرصت ملی تو میرے سامنے پھر عید ملن
والی تصویر آگئی ہے۔میرو ماتھو ٹھٹ کو۔
غور سو دیکھو تو بڑا بڑا نام موجود ہا۔
ان میں اعلی افسیران۔آرامی و سیول سرویسز سو
ریٹارڈ۔اور حاضر سروس لوگ۔
سیاسی کھونٹیل موجود ہا۔
فلاں میجر۔فلاں کرنل فلاں برگیڈئیر۔
فلاں ایم پی اے۔وغیرہ
میں نے تصویر زوم کرکے دیکھی تو ایک بھی عام آدمی
یا غریب طبقہ سو تعلق راکھن والو۔
یا پھر میو قوم کی مالی طورپے نامساعد حالات میں
خدمت کرن والان کی تصویر موجود نہ ہی
بہت سا لوگ ایسا بھی دکھائی نہ دیا ہا جو کدی
ان محفلن کا روح رواں رہوے ہا۔جن کا دم سو
محفل سجے ہی۔ای تو کوئی خاص بات نہ ہی
البتہ ایک بات بار بار ذہن میں کھٹے ہی کہ
یا عید ملن پارٹی میں میو قوم اور میون کے مارے کائی
مسئلہ پے۔میو قوم کا دکھ درد۔ان کا مسائل۔
ان کی ضرورت آن والا چیلنجن کا بارہ میں کوئی لائحہ عمل۔
یا پھرقوم کا جوانن کا مستقبل کا بارہ میں مشاورت
کائی ایک کو بھی ذکر موجود نہ ہو۔
ایسو لگے ہے کہ قوم کو نام تو صرف تقریر یا چوہدر کے مارے
استعمال کرو جاوے ہے۔
باقی ضرورت محسوس نہ کری جاوے ہے۔
سوچن کی بات ای ہے کہ یہ سب موٹا موٹا لوگ
ایک تھاں اکھٹا ہویا۔اگر نوں بتا دیتا کہ ان ساران نے
میو قوم کے مارے کہا کرو ہے یا میو قوم کا بارہ میں
مستقبل میں کونسو منصوبہ زیر غور ۔یا زیرتکمیل ہے تو
بہت خوشی ہوتی؟ لیکن ایسی بات سوچنو تو بائولہ پن ہے
یاد راکھو اگر تم میو قوم کا نام اے استعمال کرو اور میون کو
اپنا محکمہ یا عہدان سو میون کو فائدہ نہ پہنچائو ہو
تو ای بات بوڑھاپا میں تنگ کرے گے ۔جب یہ
امانت تم سو لیکے آن والان کا ہاتھ میں تھما دی جانگی
اور تہارے پئے اپنی بات آن والی نسل کے مارے
کوئی کارنامہ سنان کے مارے موجود نہ ہوئے گو
ہماری نفسیات میں ای بات بیٹھ چکی ہے کہ
ہماری محفل یا بیاہ شادی یا وقت تک سجا نہ ہاں
جب تک کائی کھونٹیل اے نہ بلا لیواں۔
اگر تھوڑو سو پروگرام ایسے ترتیب دئیو جاوے کہ
میون کا نام پے چوہدر کرن والان نے یا بنیاد پے
بلائو کہ وے آکے بتاواں کہ اُنن نے میو قوم کے مارے
کہا کچھ کرو ہے۔جو زیادہ خدمت کرے
،واکو گھنی عزت دئیو
جو صرف گپوڑ لگائے۔وائے اگلاسٹاپ پے چھوڑ آئو
اگر ایسی سوچ پیدا ہوگئی تو کھونٹیل اپنی ناک کے مارے
ایسا کام کرنگا جنن نے دس بیس بندان کے سامنے
بتا سکاںکہ ہم نے قوم کی فلاں خدمت کری ہے۔
تنقید مقصد نہ ہے۔
اصل بات ای ہے کہ وسائل
اور میو قوم کو نام عطیہ خدا وندی ہاں
جولوگ میو قوم کا نام سو متاثر ہاں۔
یا جو لوگ قوم کا نام اے استعمال کراہاں
دونوں مخلص ہاں۔
لیکن دونوں کے سامنے کوئی لائحہ
اور میو قوم کی فلاح و بہبودکو پروگرام نہ ہے
ایسی عید ملن پارٹی اور چنوا لوگ میو قوم کی
سوچ۔ثقافت۔ان کا مسائل۔ان کی ضرورت
اور آن والا وقت کا چیلنجن کی نمائیندگی نہ کراہاں
ہماری نئی نسل ہمارا ہاتھ سو نکلتی جاری ہے
قوم کی نمائیندگی کا نام پے خواب غفلت میں آرام
میں مصروف ہاں۔
یا وقت عید ملن پارٹین کے بجائے۔
قوم کا پڑھا لکھا جوانن کے مارے
بہتر مستقل کا پروگرام بنایا جاواں
طلباء کے مارے مواقع پیدا کرا جاواں
غریبن کا مسائل بتلایا جاواں
ہم نے ایسی بات پے اعتراض نہ کرونو چاہے
جو اپنا وسائل اور اپنا پیسہ کی بنیاد پے پارٹی دی ہوئے
لیکن قومی سوچ کی بنیاد پے ایسی سوچ آنو کوئی بڑی بات نہ ہے
1 Comment
[…] تو بچنگا۔پڑھنگا تو آگے بڑھنگا۔یا میں شک نہ ہے کہ تعلیم انسان اے آگے بڑھاوے واکا سر پے عزت کو تاچ پہراوے ہے۔۔لیکن […]