پہلا سورج گرہن
۲۰۲۴ پیر اور منگل کی درمیانی شب۔
اعمال گرہنانسانی زندگی میں کائناتی تغیرات اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ہر کوئی اپنے اپنے ذۃن کے مطابق ان کے تعبیرکرتا ہے۔۔
جب ہم لوگ تاریخ قدیم کا مطالعہ کرتے ہیں تو گرہنوں کے بارہ میں لوگ زیادہ ہی حساس دکھائی دیتے ہیں۔
علم نجوم اور اعتقادیات میں گہرا تعلق ہے گوکہ اسلام نے انسانی زندگی پر ستاروں کے اثرات کو باطل قرار دیا ہے۔
لیکن تاریخی طورپرجتنا کام ستاروں پر کیا گیا کم علوم ہیں جن کی طرف اتنی توجہ مبذول کی گئی۔۔
اللہ پر ایمان اور اللہ کے رسولﷺ کے فرامین کی اطاعت مسلمان کا خاصہ ہے ۔
لیکن جب ضروریات آن پڑتی ہیں تو بہت سی باتیں جنہیں عام حالات میں نظر انداز کیا جاتا ہے مخصوص حالات میں اہمیت اختیار کرجاتی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ کائناتی لہریں او ر روشنیاں انسانی دنیا اور انسانی وجود پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔
یہ اثرات اتنے گہرے اور غیر محسوس ہوتے ہیں عام لوگ ان کا ادراک ہی نہیں کرسکتے۔۔ لیکن کیس طرف التفات نہ کرنا یا توجہ نہ دینا حقیقت کو بدلنے کے لئے ناکافی ہوتے ہیں
۔اگر ہم روشنی کائناتی لہروں اور انسانی جسم پر ان کے اثرات کو قران و حدیث یا سائنس کی روشنی مں دیکھیں تو بہت ساری باتیں ایسی معلوم ہونگی
جن پر یقین کرنا پہلا اعتقادیات پر ضرب کاری ہوگی۔برصغیر پاک و ہند کرے لوگوں ی سوچ کی ایک سطح ہے ۔
یہ اپنے مسلک و مذہب یا گروہ کے بڑے لوگوں کی باتوں ،یا سائنس کے نام پر واہی بتاہی اول فول بکنے والوں کو ہی دیکھ لیں
وہ ہر بات پر کہتے ہیں سائنس یہ کہتی ہے۔سائنسدانوں نے یوں کہا ہے۔یہ لوگ جاہل ہیں انہوں نے سائنس کا مطالعہ نہیں کیا؟
جب ان سے سائنس یا اعتقادیات پر بات کی جائے تو ان کا مبلغ عل م وہی مذہبی رہنما یا چند ادھر ادھر سے سنی سنائی باتیں ہوتیں
جب دلدلی طلب کی جائے تو کان ڈھلک جاتے ہیں۔ قران کریم نے سورج اور چاند کو اپنی نشانی قرار دیا ہے ۔
گوکہ اسلام سے بڑھ کر توہمات سے جان چھڑانے والا کوئی دین موجود نہیں ہے۔لیکن ہمیں خلاص دین نہیں چاہئے ہمیں
تو وہی گھسے پٹے نظریات چاہیئں جو صدیوں سے ہماری سوچ کی گہرائی میں اتر چکے ہیں ۔وہی بات قابل قبول ہوتی ہے
جو ان خام یالیوں کی تائید کرے یا پھر مخالفین کے خلاف کوئی بات بطور دلیل پیش کی جاسکے۔
ہماری ذہنی خوراک کا بہت بڑا ذریعہ میڈیا ہے ۔یقین مانیں جتنی علوم و فنون رک رسائی ملی ہے توہمات میں لتھڑی سوچ نے اسے مکدر کرکے رکھ دیا ہے ۔کیونلہ ابلاغی باگ دوڑ ایسے سطحی اور کم علم لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے جنہیں کسی ایک فن می تو ماہر تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن جب وہ ہمہ دانی کا دعویٰ کرتے ہیں تو مشکوک ہوجاتے ہیں
۔ آئے روشنی اور کائناتی طورپر فلکیاتی تبدیلویوں کے بارہ میں کچھ مستند حوالہ جات کی طرف رجو کرتے ہیں ۔
سورہ یاسین میں ہے ہم نے ہر ایک اجرام فلکی کی منازل طے کردی ہیں ۔یہ ایک دوسرے کو پکڑ سکتے ہیں نہ ٹکرا سکتے ہیں ۔
اس سے علاوہ نور ضیاٗ ۔راستہ بتانے والے جیسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔احادیث مبارکہ میں رسول اللہﷺ کے دور مسعود مین گرہنوں کا ذکرملتا ہےتاریخی ریکارڈ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دوران گرہن کی مخصوص تاریخوں کی تفصیل نہیں ہے۔ تاہم، اسلامی احادیث (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے بارے میں روایات) چاند گرہن کے واقعات اور ان کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بیان کرتی ہیں۔احادیث سے ہمیں معلوم ہوا:* گرہن اللہ کی طرف سے نشانیاں ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر زور دیا کہ گرہن پیدائش یا موت کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں [صحیح بخاری]۔* گرہن کے دوران خصوصی دعا: احادیث میں سورج گرہن کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ادا کی گئی ایک مخصوص دعا کا ذکر ہے [صحیح بخاری اور صحیح مسلم]۔ اس نماز میں ہر رکعت (نماز کی اکائی) کے دوران لمبی قرات اور رکوع شامل تھا۔غلط فہمیوں کو دور کرنا: ایک روایت میں رسول اللہ کے بیٹے ابراہیم کی وفات کے موقع پر چاند گرہن کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ لوگوں نے غلطی سے چاند گرہن کو اس کی موت سے جوڑ دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کیا کہ چاند گرہن اس طرح کے واقعات کے ساتھ مرتبط (مرتبیت، منسلک) نہیں ہیں [صحیح بخاری]۔یعنی گرہنوں کا تعلق شخصیات یا افراد دنیا والوں سے نہیں ہوتا یعنی ان کی مرضی سے یہ گرہن نہیں لگتے ۔لیکن ان کے اثرات گہرے مرتب ہوتے ہیں۔التبہ گرہن کے اوقات میں نماز کسوف و خسوف کی ادائیگی روٹین سے ہٹ کر ہے اگر انسانوں پر اس کے اثرات نہ ہوتے تو یہ غیر معمولی نمازیں ۔جن میں ایک رکوع کے بجائے دو رکوعات کا ذکر ملتا کیوں پڑھی گئی۔؟” حضرت ابوبردہ، حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ اس طرح گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے جیسے قیامت گئی، آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل ترین قیام و رکوع اور سجود کے ساتھ نماز پڑھی کہ اس سے پہلے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جو اللہ بزرگ و برتر بھیجتا ہے، یہ کسی کی موت اور حیات کے سبب سے نہیں ہوتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، جب تم اس کو دیکھو تو ذکرِ الٰہی اور دعا واستغفار کی طرف دوڑو“ ۔چاند گرہن کو “خسوف” کہتے ہیں ، اور چاند گرہن کے وقت دو رکعت نماز دیگر نوافل کی طرح انفراداً (یعنی اکیلے) پڑھنا مسنون ہے، اس میں جماعت مسنون نہیں ہے، اس کا طریقہ عام نوافل کی طرح ہے، کسی بھی اعتبار سے فرق نہیں، سوائے اس کے کہ نیت “صلاۃ الخسوف” کی ہوگی، لہٰذا چوں کہ چاند گرہن (خسوف قمر) جو کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور اس کا مشاہدہ رات کے وقت ہی ہوسکتا ہے اس لیے ’’خسوف کی نماز‘‘ دن میں نہیں پڑھی جاسکتی ہے، دن میں تو سورج گرہن (کسوف) کی نماز پڑھی جاتی ہے۔یہ بات تو واضح ہوئی کہ گرہنوں کے اثرات زمین اور اہل زمین پر مرتب ہوتے ہیں۔مشاہداتی عملجب گرہن اپنے عروج پر ہوتا ہے تو مواصلاتی نظام میں گڑ بڑ پیدا ہوجاتی ہے۔بجلی کی ترسیل متاثر ہوتی ہے۔یہ کائناتی لہریں ہمارے ذہن جسم کو متاثر کرتے ہیں ۔دن رات کی تقسیم اور ہماری زندگی پر ان کے اثرات ایک بہت وسیع موضوع ہے ۔اس پر بہت کچھ لکھا گیا،بہت کچھ تحقیقات ہورہی ہیں ۔۔جب کائناتی شاعوں میں تدیلی ہوتی ہے تو انسانی طبائع بھی مثاتر ہونا کوئی بعید ہیں ہے۔لیکن مذہبی طور پر اور سائنسی طورپر ادھوری معلومات نے ایک بوال مچایا ہوا ہے ۔ہر کوئی اپنی بانسری بجا رہا ہے۔جب بھی ایسے مواقع آتے ہیں تو بلوں سے دانشور عجیب و غریب توجیحات کی پٹاریاں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔جب اس میدان کے تحقیقی اداروں کے ماہرین کی آرا کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو وہ کچھ اورہی کہانی سناتے ہیں۔عاملین کا مشاہدہ۔اور اعمال گرہن۔طب و عملیات کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تاریخ جیسے ہم بہت سارے واقعات کی توقیت نہیں کرسکتے ہیں حالانکہ وہ واقعات مذہبی روایات کے مطابق مسلم ہیں ۔اور ان پر ایمان الانا ضروری ہے جیسے آدم کا زمین پر نزول۔واقعہ ابراہی و اسماعیل و یقوت ۔مصری میں اسرائلی لوگوں کی آمد ۔خروج۔غرق فرعون۔سکندر ذوالقرنین۔وغیرہ۔بابل و سومیری کلدانی آشوری تیذیبوں کی توقیت۔مصری تۃذیب کا انہدام۔یہ سب مسلمات ہیں لیکن لیکن ان کی تاریخ معلوم نہیں ہے۔تخمینہ جات ہیں کوئی کچھ بھی توجیح کرسکتا ہے۔عملیات اور سحر و فسوس۔چلہ وظایف ،مذاہب کی ہمسری کرنے والی چیزیں ہیں۔مثلا جادو کو ان مذاہب میں جنہیں آسمانی سمجھا جاتا ہے جیسے یہودیت نصارنیت۔اسلام۔سب نے حرام قرار دیا ہے۔اس کے قلع قمع کا ذکر قران و حدیث میں مذکورہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کشمش نامعلوم تاریخ سے چلی آرہی ہے۔دیکھئے جس جادو کا مصر میں توڑ کیا فرعونی جادو گروں کو نیچا دکھایا ۔جب سلطنت فرونی غرقابی فرعون کے ساتھ زوال پزیر ہوئی تو سامری کی شکل میں لشکر موسوی میں جادو پورے جاپ و جلال سے شریک تھا۔دو انبیاٗ کی موجود میں گوسالہ پرستی اسی جادو گری کی دبی ہوئی شکل تھی۔جہاں منافع کی لالچ نے تعلیم انبیاٗ کو فراموش کرنے پر مجبور کیا۔اسلامی تاریخ میں ایسے ٹھوس شواہد پائے جاتے ہیں صاحب شریعت آقائے نامدارﷺ نے معلق روایات اور معوذین کا شان نزول وغیرہ ایسے حقائق ہیں جن سے آنکھ بند کرنا مشکل ہے۔خوامواۃ یہ کہدینا کہ لوگ گرہنوں میں یا اوقات مخصوصہ میں جو کچھ کرتے ہیں وہ توہمات کی قبیل سے ہے؟جس فن و ہنر کے بارہ میں معلومات نہ ہوں وہ توہم ہی دکھائی دیتا ہے۔کیونکہ اس کے اسرار رموز عوام ی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں لیکن اہل فن و ہنر ان بھیدوں سے واقف ہوتے ہیں وہ امور مذکورہ پر نکیر نہیں کرتے۔ایک حقیقت ہوتی ہے ایک دوسروں کی باتیں چبانا ہوتا ہے۔گرہنوں کے بارہ میں عمومی طورپر کہی جانے والی باتیں یا تو کم علمی یا سطحی الذہنی پر مبنی ہوتی ہیں ۔ عاملین کہتے ہیں۔گرہن اور اعمال صوامت۔گرہن کے اوقات میں قابض قسم کی قوتیں عروج پر ہوتی ہیں ۔اگر ان ست کام لینا ہوتو کچھ اعمال ترتیب دئے جاتے جن کی مخصوص تعداد دوران گرہنعبارت لکھی جاتی ہے پڑھی جاتی ہے۔یا خاکے اتارے جاتے ہیں کچھ مسلمانوں نے حروف صوامت کو اعمال بندش کے لئے مختص کیا ہے۔یہ حروف تہجی میں سے وہ حروف ہیں جن پر نکات نہیں ہوتے۔جسے۔ا۔ح۔د۔ر۔س۔ص۔ط۔ع ۔ک ل۔ م ۔ و ۔ہ۔یہ کل تیرہ حروف ہیں اگر ابجدی اعداد نکالے جائی تو مجموعہ 543 بنتا ہے۔۔۔ان لوگوں کا کہنا ہے جو انسان گرہن کے اوقات میں ان حروف کو 543بار کم یا زیادہ نہیں پورے543بار لکھے اور اس کاغذ زمین میں دبادے۔تو وہ حروف صوامت کا ایک سال کے لئے عامل بن گیا۔یہ عامل اعمال بندش کرسکتا ہے۔کسی بھی جاری کام کو باندھ سکتا ہے۔کہیں بھی روک لگا سکتا ہے۔بہتر ہے کہ ان تیرہ حروف کو مجموعہ بنا لیں ۔تاکہ لکھنے میں آسانی رہے۔احد۔۔۔رسص۔۔۔ چعک۔۔۔لموہ۔۔۔یہ چار الفاظ بنے ان چاروں کو 543 بار کسی صاف کاغذ پر لکھ کر زمین میں دبادیں عمل پورا ہوا۔پرہیز۔۔اس عمل کا ایک ہی پرہیز ہے کہ دوران عمل بات چیت کرنا منع ہے۔اور کوئی پرہیز نہیں ۔اگر دوران عمل بات چیت کرلی تو عمل اکارت گیا۔۔عاملین گرہنوں میں اپنے اہم کام پورے کرتے ہیں ۔گوکہ ان کے تجربات میں اور بھی کچھ اوقات ایسے ہیں جب اعمال بندش کئے جاسکتے ہیں جیسے قمر در عقرب۔۔۔اس پر گفتگو آنے والے صفحات میں جائے گی۔۔جو لوگ کرنا چاہیں وہ ان اوقات کو دھیان میں رکھیں۔۔۔جبکہ اس وقت میکسیکو میں (جہاں سے یہ شروع ہوگا) صبح کے 11 بج کر 7 منٹ ہوئے ہوں گے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ سورج گرہن کا آغاز پاکستانی وقت کے مطابق رات 8 بجکر 42 منٹ پر ہوگا، 11 بجکر 17 منٹ پرسورج گرہن عروج پر ہوگا، سورج گرہن کا اختتام رات ایک بجکر 52 منٹ پر ہوگا۔میکسیکو کے ایک بڑے حصے کے علاوہ امریکا میں سورج گرہن 15 سے زیادہ ریاستوں میں دکھائی دے گا۔ کینیڈا کے متعدد علاقوں میں بھی سورج گرہن واقع ہوگا۔پاکستان میں بھی یہ سورج گرہن لائیو اسٹریمنگ کے ذریعے دیکھا جاسکے گا جو پاکستانی وقت کے مطابق رات گیارہ بجے شروع ہوگی۔ ڈجیٹل کھڑکی کے ذریعے اہلِ پاکستان بھی اس سورج گرہن میں جھانک سکیں گے۔یہ سورج گرہن اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس بار بہت بڑی آبادی کور ہو رہی ہے۔ میکسیکو، امریکا اور کینیڈا میں کروڑوں افراد اس سورج گرہن کے ’نشانے پر‘ ہوں گے۔یعنی پیر اور منگل کی درمیانی سب ۔تقریبا نوبجے سے لیکر رات دو بجے تک کا وقت ہوگا۔ یہ پانچ گھنٹے کا دورانیہ ہے۔آسانی سے کام کیا جاسکتا ہے۔۔۔باقی مشاورت کے لئے ۔رابطہ۔۔+923238537640+03484225574