پانی کی ناقدری۔اور ہماری ذمہ داری
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
الله رب العزت نےانسانوں کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں، خود انسان سراپا نعمت ہے،ان نعمتوں کااحصاء اور شماربھی ناممکن ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے۔وإن تعدوا نعمة الله لا تحصوھا(الآیة) مگر ان نعمتوں میں سے بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جن کو عظیم نعمت کہاجاسکتا ہے، الله تبارک وتعالیٰ نے ان میں سے، بہت سی نعمتوں کو،بہت سے مواقع پر، ان کی اہمیت جتلانے کے لیے بطور احسان وامتنان یاد دلایا ہے، انہیں میںسے ایک عظیم نعمت ”پانی“ بھی ہے، قرآن کریم میں الله تبارک وتعالیٰ نے بہت سے مواقع پر بطور امتنان واحسان اس کو ذکر کیا ہے:
﴿وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً طَہُوراً ، لِنُحْیِیَ بِہِ بَلْدَةً مَّیْْتاً وَنُسْقِیَہُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَاماً وَأَنَاسِیَّ کَثِیْراً﴾․(سورہٴ فرقان:49-48) بلکہ ایک جگہ تو فرمایا: تمام چیزوں کی حیات ہی پانی پر موقوف ہے﴿وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْْء ٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ﴾․(سورہٴ انبیاء:30)
اور حقیقت بھی یہ ہے کہ تمام مخلوقات چرند پرند، انسان وحیوان، نباتات کی حیات دنیوی پانی ہی پر منحصر ہے،یہی وجہ ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ نے اسے سہل الحصول اور اس کو کسی کا مملوک نہیں بنایا،بلکہ تمام بندوں کو اس کے حاصل کرنے میںپوری طرح سے مختار بنایا،چناںچہ علامہ ظفر احمد عثمانی ؒنےاعلاء السنن میں پانی کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات کا جو خلاصہ پیش کیاہے اس کی روشنی میں دنیا میں پائے جانے والے پانیوں کو چھ قسموں میں تقسیم کیا ہے اور ان چھ میں سے صرف ایک قسم کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مملوک شمار ہو گا اور اس کا مالک دوسرے کو اس کے لینے سے منع کر سکتا ہے، بقیہ
پانچ قسم کے پانیوں کو لینے سے کسی کو منع نہیں کیا جاسکتا۔
مگر اتنی سہل الحصول اور کثیر الوجودشے کے استعمال کو شریعت نے بالکل آزاد نہیں چھوڑابلکہ اس کےلیے حدود مقرر کیں،پانی کے استعمال کے بارے میں شرعی احکام کا جو خلاصہ ہے،وہ یہ ہے کہ : استعمال کرنے والاپانی کی مقدار پر نظر نہ کرے، بلکہ اپنی حاجت اور ضرورت کا خیال کرے،جتنے پانی میں اس کی ضرورت پوری ہوسکے صرف اسی پر اکتفا کرے، اس سے زیادہ اگر استعمال کرے گا تو یہ ”اسراف“(فضول خرچی) شمار ہو گا،چناںچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی حضرت سعد رضی اللہ عنہ وضو فرمارہے تھے، جس میں ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کر رہے تھے تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ کیا اسراف ہے ؟ صحابیٴ رسولﷺ نے تعجب سے پوچھا، الله کے رسول! کیا وضو میں بھی اسراف ہے ؟آپ نے فرمایا جی ہاں! چاہے تم بہتی ہوئی نہر ہی پرکیوں نہ ہو۔ (ابن ماجہ قدیمی، ص:34)
صاحب بذل المجہودنے لکھاہے کہ”وقد أجمعت الأمة علی کراھة الاسراف فی الطھور وضوءً أو کان غسلاً أو طہارة عن النجاسات وإن کان علی شط نھر“(1/61) یعنی امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ طہارت میں ضرورت سے زائد پانی استعمال کرنا مکروہ ہے، وضو ہو یا غسل ہو یا دوسری نجاستوں کو زائل کرنا ہو۔
خود رحمۃ للعالمین صلی الله علیہ وسلم کا پانی کے استعمال کا کیا معمول تھا، ملاحظہ ہو:ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم ایک مُد( تقریباً پون لیٹر) پانی سے وضو فرماتے تھے اور ایک صاع ( تقریباً ساڑھے تین لیٹر) پانی سے غسل فرماتے تھے(ابن ماجہ قدیمی، ص:24)
لیکن آج اگر کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہو کہ جتنا اسراف پانی میں ہو رہا ہے اتنا شاید کسی اور چیز میں نہیں ہو رہا ہے، جب پانی نلوں او رکنوؤں سے نکالنا پڑتاتھاتب بھی معاملہ بہت غنیمت تھا، مگر جب سے ترقی ہوئی اور الیکٹرانک دور شروع ہواتب سے اس کا استعمال جس طرح بے دریغ ہونے لگا کہ الامان والحفیظ،پہلے جتنے پانی میں بآسانی غسل ہو جاتا تھا، اب اتنے پانی میں بمشکل وضو ہوتا ہے، جتنی مقدار پانی ایک متوسط گھرانہ کے لیے کافی ہوتا تھا اب اتنے پانی میں ایک دو کا گزارا مشکل ہو گیا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ نہ کوئی روک ٹوک کرنے والا ہے اور نہ ہمیں اس کے نعمت ہونے کا احساس اور نہ یوم الحساب میں جواب دہی کا ڈر۔
لیکن یاد رہے کہ جب الله تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی انتہائی ناقدری ہونے لگتی ہے تو الله تعالیٰ ان نعمتوں کو چھین لیتے ہیں، چناں چہ اگر آپ پورے عالم میں نظر ڈالیں گے تو اس وقت پوری دنیا پانی کے مسائل سے دو چار ہے، آپ نے اپنے ملک کے بعض علاقوں کا حال سنایا دیکھا ہو گا کہ وہاں پر پانی کا کال پڑا ہوا ہے، لوگ پانی کے لیے میلوں کا سفر کر رہے ہیںاور لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں،گھنٹوں کےبعد جب نمبر آتا ہے تو بقدر ضرورت پانی بھی نہیں ملتا، زمینوں میں لگے ہوئے نل اور ٹیوب ویل فیل ہو رہے ہیں،ندیاںاور نہریں خشک ہوتی جارہی ہیںاور ہر علاقے میں پانی کی سطح روز بروز گھٹتی جارہی ہے، جس سے بہت سارے علاقوں میں ہا ہا کارمچی ہوئی ہے، بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اگلی عالم گیر جنگ پانی کے مسئلہ پر ہو گی ۔
جن لوگوں کے یہاں مذہبی طور پر ایسے حالات کے لیے کوئی ہدایات نہ ہوں تو شکوہ ان سے نہیں، مگر جس قوم کے یہاں زندگی کے تمام شعبوں، حتی کہ پانی کے متعلق بھی روشن ہدایات موجود ہوںاور ان کے مطابق زندگی نہ گزارنے میں روز قیامت جواب دہی بھی ہو پھر بھی کوئی ان ہدایات پر عمل نہ کرے تو گلہ ان سے ہے۔
ابن ماجہ کی حدیث ہے: ایک صحابی نے فرمایا کہ حضور پاک صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وضو کے لیے ایک مُد اور غسل کے لیے ایک صاع پانی کافی ہے تو اس پر ایک صاحب نے فرمایا کہ ہمارے لیے تو کافی نہیں ہوتا؟!جواب میں صحابی رسول نے فرمایا ان کے لیے تو کافی ہو جاتا تھا جو تجھ سے زیادہ بہتراورتجھ سےزیادہ بالوں والےتھے۔ (ابن ماجہ قدیمی:24)
مطلب یہ ہے کہ اگر تمہیں یہ خیال ہو کہ طہارت حاصل کرنے میں تم زیادہ حریص اور متقی ہو توآپ صلی الله علیہ وسلم تم سے زیادہ حریص اور متقی تھےاو راگر اپنے بالوں کی وجہ سے سمجھتے ہو کہ یہ ناکافی ہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم تم سے زیادہ بالوں والے تھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ عام حالات میں پانی کے بارے میں اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ پاک پانی کو حتی الامکان ناپاک اور ضائع ہونے سے بچایا جائے ، چناںچہ حدیث میں ہے” لایبولن أحدکم فی الماء الراکد“یا حدیث ”عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال اذا استیقظ احدکم من نومہ فلا یغمس یدہ فی الاناء حتی یغسلھا ثلاثا فانہ لایدری این باتت یدہ (الف)(مسلم شریف، باب کراہیۃ غمس المتوضی و غیرہ یدہ المشکوک فی نجاستھا فی الاناء قبل غسلھا ثلاثا ص ۶۳۱ نمبر ۸۷۲/۳۴۶۔ ترمذی شریف، باب ماجاء اذا استیقظ احدکم من منامہ فلا تغمسن یدہ فی الاناء حتی تغسلھا ثلاثا ص ۳۱ نمبر ۴۲) میں اسی کی تاکید ہے اور اسی طرح کوئی ایسا طریقہ نہ اختیار کیا جائے جس کی وجہ سے دوسروں کے لیے اس کی قلت پیدا ہو جائے،بلکہ جتنی مقدار سے اپنی ضرورت پوری ہو جائے اتنی مقدار سے اپنی ضرورت پوری کر لی جائے۔
جب یہ تعلیمات عام حالات میں ہیں تو اگر حالات تنگی وقلت ،بلکہ سنگینی کے پیدا ہو جائیں تو ان ہدایات پر عمل کرنا کتنا ضروری ہو جائے گا ؟اس کا اندازہ لگاناکچھ مشکل نہیں، لہٰذا تمام انسانوں، خصوصاًمسلمانوں سے ہماری درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ پانی کے معاملہ میں ہر جگہ اور ہرطورسےاحتیاط سے کام لیں،یہ نہ سوچیں کہ ہمارے یہاں تو کوئی کمی نہیں،کیوں کہ عالمی تناظر سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کب، کہاں، کیاحالات پیداہو جائیں،اس کا قبل از وقت اندازہ لگانا مشکل ہے،وہ خلاق علیم وقدیرکب اور کس کی گرفت کر لیں، کچھ کہا نہیں جاسکتا او رپھر ندامت اور احساس کا فائدہ کچھ نہیں ہوگا
۔(الفاروق۔مفتی شعیب احمد بستوی)