ورم معدہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
گا ہے معدہ میں ورم عارض ہوتا ہے جس طرح کہ دیگر اعضاء میں اورام لاحق ہوتے ہیں اسفل معدہ میںجو اورام عارض ہوتے ہیں وہ اپنی ابتدائی صورت میں امراض کے لحاظ سے خفیف ہوتے ہیں۔ ورید اکحل میں فصد کرنا ملین حقنوں سے اسہال لاتا، عمدہ غذاؤں سے تلطیف اور ابتدا میں بہت زیادہ رادع دواؤں کا استعمال کرنا اس کا صحیح علاج ہے۔ نیز ان میںمحلات شامل کرنا بھی بہتر ہے لیکن مرض کو اگر کچھ دن گزر گئے ہوں تو اس کےبرعکس طریقے پر علاج کرنا چاہیے۔ یعنی دوائیں ایسی ہوں جو اپنی پوری قوت کے ساتھ تحلیل کرنے والی ہوں نیز وہ اس قدر رادع ہوں جتنا کہ مرض کا تقاضہ ہو ۔پھرمدت مرض جب دراز ہو جائے تو رادع اشیاء کم قوت کی استعمال کی جائیں۔ اور قوی محللات استعمال کیے جائیں۔
رادع ادویہ میں ناشپاتی اور سفرجل ہیں۔ یہ دونوں معدہ کو غذا کے طور پردوا کی بہ نسبت زیادہ مرغوب ہیں۔ اس میں قوت تحلیل اور ردع گلقند کے مثل ہوتی ہے اور اگر اس کے ساتھ بابونہ کا اضافہ کر دیا جائے تو اس کی قوت تحلیل گلقندسے بڑھ جاتی ہے ۔ بابونہ کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اعضاء باطنہ کو بہت زیادہ راحت و آرام پہنچاتا ہے۔
میرے خیال میں پہلے ہی مرحلے میں رادع اورمحلل دوائیں استعمال کرنی چاہئیں۔ اس بات کا لحاظ کرتے ہوئے کہ مریض کو کوئی تکلیف نہ پہنچےاپنا علاج جاری رکھنا
چاہیے۔ یہ اس صورت میں ہے جب ورم اسفل معدہ میں ہو۔
معدہ کے اوپری حصے یا ف معدہ کے قرب میں اگر یہ دم ہو تو اس وقت برے اعراض ظاہر ہوتے ہی جب تک کہ دوم باقی رہتا ہے مثلا خفقان، اگر معاملہ سنگین ہوجائے توفتی اور سقوط قوت بھی لاحق ہوتی ہے۔ اور گیا ورم کے ساتھ ہمیشہ ناری رہتا ہے۔ اور یہ بخار عضو کی برتری و خساست نیز غلط کے اعتبارسے شدید اورفيت ہوتا ہے۔ اگر مع علاج نہ کیا جائے اور اس میں موارٹواتے اور ورم معدہ کےافل میں ہوتت من طول وبالت ہے۔۔۔۔۔۔۔
قوت حیوانی و نفسانیہ کمزور نہیں ہوئی البتہ قوت طبعیہ ضرورمختل ہو جاتی ہے جس سے غذا اچھی طرح ہم نہیں ہو پاتی اور اگر ہضم اول ضعیف ہو جائے توہضم ثانی مزید ضعیف ہو جاتا ہے نیزورم کے اندر مواد پڑ جاتی ہے ۔ جس سے غذا میں تخمیری کیفیت لاحق ہونا شروع ہو جاتی ہے جس کی اصلاح بدقت ہی ہو پاتی ہے۔
معدہ کے جز اعلی میں اگر ورم موجود ہو اور مریض کا ضعف اس حد تک بڑھ گیا ہوکر اپنے مقام سے اس کی نقل و حرکت انتہائی دشوار ہورہی ہو تو اس وقت غشی طاری ہو جاتی ہے کیونکہ معدہ کے جزم اسفل میں ہضم کی قوت طبعا قوی ہوتی ہے۔ بسا اوقات معدہ کے جزء اعلی میں ورم لاحق ہونے کے بعد یہ بھی عارض ہوجاتا ہے ، میرا خیال ہے کہ جب شفایابی میں تاخیر ہوئی ہے تو مدت مرض خفیف ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ مریض ضعف قوت کے باعث تکلیف والم محسوس کرتا رہتا ہے۔ اور بڑے اعراض پے در پے اس پر عارض ہوتے رہتے ہیں ۔ لیکن معدہ کے جزء اسفل میں ورم ہوتا ہے تو اس کی مدت بہت طویل ہوتی ہے۔ پھر یا تومریض صحت یاب ہوجاتا ہے یا اس کامرض طول پکڑلیتا ہے ۔ اور بالاخر لاغری معدہ کے سبب مریض فوت ہوجاتا ہے۔ ورم معدہ جب زخم میں تبدیل ہو جائے تومریض کو نہار منہ جالی اورقاطع مدہ ادویہ جیسے ایرسا و مقوی ادویہ جیسے مصطگی استعمال کرائی جائیں، معدہ کے لئے مصطگی خاص طور سے عظیم النفع ہے ۔ جس طرح کے عودسوس در دکی تسکین کے لئے مخصوص ہے۔ دواؤں میں عام طور سے اعراض معدہ کے اعتبار سے مٹھاس ضرور شامل ہوناچاہئے لیکن اگر بہت زیادہ شہد بھی ملا دیا جائے تو نقصان سے خالی نہیں اورمعدہ میں کچھ نہ کچھ خلل واقع ہو گا۔ خواہ ا س کا اثر تم کو نہ ظاہر ہو، لیکن معدہ میں سوزش ہوتی ہے جس کو دو ظاہرنہیں ہونے دیتی۔ ایسے موقع پرہلکی قاطع ادویہ پر ہرگز انحصارنہ کریں۔ بلکہ معتدل قاطع اور عمدہ جالی ادویہ استعمال کرائیں ۔ چنانچہ دواؤں کے ساتھ قوی مفتح ادویہ میں مثلا قنطوریون اور قاطع ادویہ میں ایسی جوسخت کٹھی ہوں ۔ شلا رب انگور خام ضرور شامل کریں، عام طور سے تقویت معدہ کے لئے رب انگور خام اسی خصوصیت کا حامل ہوتا ہے، اسی طرح معجون عسالج الکرم دونوں مذکورہ دوائیں اپنی خصوصیت اور نقصانات کے لحاظ سے قاطع ادویہ میں بہرحال بہترین ادویہ ہیں۔لہذا جب مریض کو لذع کا احساس ہوتا ہے تو دواؤں کی ترشی کی وجہ سے کھنکھارنے لگتا ہے۔ اوریہ کیفیت شروع ہی میں(یعنی دوا کے معدہ میں پہنچتے ہی ) ہوتی ہے کبھی کبھی ورم چھوٹا ہوتا ہے۔ اور اس صورت میں علاج کامیاب ہوتا ہے۔ اورمکمل شفایاب ہو جاتی ہے لیکن جب ورم بڑا ہوتا ہے تو شفایابی محال ہوتی ہے۔