میو کو روزہ راکھ کے لائونی کرنو
میو کو روزہ راکھ کے لائونی کرنو۔
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
روزہ چاند کا حساب سو راکھا جاواہاں
ہر سال دس دن کو فرق پڑے ہے
یعنی ہر سال کا فرق سو روزہ آواہاں
چھتیس سال بعد آج کا دن کو جو روزہ ہے
وہی روزہ آئے گو۔یعنی دس دس دن کا فرق سو
چھتیس سال میں ایک سال کو فرق پڑ جائے گو
میری زندگی میں ایک دو روزہ بھرپور گرمین میں آیا ہاں
ایک آدھ روزہ بھرپور سردین میں آیا ہاں
بچپن میں فل گرمین کا روزہ دیکھا ہاں۔
دھوپ اور لو اتنی گھنی رہوے ہی کہ پٹپڑا سک جاوے ہو
گرمین کا روزہ راکھ کے ہم نے لوگ کنکن کی لائونی کرتا دیکھا ہاں
وا وقت زمیندارن کو اتنی سہولت میسر نہ ہی۔
بیلن سو ھل چلے ہا۔ہاتھ سو پٹھا کوٹا جاوے ہا۔
زمیندار بیلن سو ھل چلاکے بجائی کرے ہا
اور ہاتھ سو فصل کی کٹائی کرے ہا۔ای مشقت بھری زندگی ہی
لیکن سکون ہو۔روکھی سوکھی کھاکے اللہ کو شکر ادا کرے ہا
علم بھلئیں کم ہو لیکن عمل کا لحاط سو کردار مضبوط ہو
لوگ کم پڑھا لکھا ہا۔لیکن خدا سو گھنا ڈرے ہا۔
میون میں نماز روزہ کی پابندی اتنی زیادہ ہی کہ
گرمین میں روزہ راکھ کے لائونی کرے ہا،
روزہ چھوڑنو معیوب سمجھو جاوے ہو۔
لیکن وا وقت کی خوراک خالص اور کھری ہی۔
سب چیز اپنا گھر کی رہوے ہی۔چولہا کی گرم گرم روٹی
نونی گھی سو چپڑی جاوے ہی۔
دہی وافر مقدار میں رہوے ہی۔
پھریرا چاولن مین دہی گیر کے کھاوے ہا
کچھ لوگ مہیری کا عادی ہا۔ان کے مارے سحری میں
مہہیری نوجود رہوے ہی۔
ای ٹھوس قسم کی خوراک میواتی معاشرہ کی مضبوطی کو سبب ہی
یا قوم کی قوت مدافعت بہت زیادہ ہی۔
بھوک پیاس برداشت کرنو معمولی بات ہی۔
یامارے گرمی کا روزہ راکھنو اور لائونی کرنو
کوئی اچنبا کی بات نہ ہی