میو ایک قوم ہے یا لوگن کو ہجوم؟ 1
از۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو۔
(موئے کھوب پتو ہے میو میری بات سُن کے بہت گلھیانگا۔غیبت کو ایک نئیو دروازہ کھلے گو)
انسانی زندگی میں وہی لوگ اہمیت اختیار کراہاں جو اپنی منزل طے کراں اور اور کام کرن سو پہلے سوچاں ہاں۔آن والا کل کا منصوبان نے راتن کو جاگ کے لکھاں اور ان کا بارہ مین غور و فکر کراں کہ جو چیز ہمارا دماغ مین بھینا ری اے اُو کتنی حقیقی اور کتنی خام خیالی ہے۔
میو قوم میں جذبہ ہے ۔قومی تعصب ہے ۔جوش مارن والو خون ہے ۔لیکن منصوبہ بندی نہ ہے۔ہر ایک چاہوے ہے کہ وائے چوہدری تسلیم کراں اور واکی بات ماناں ۔لیکن یائے کوئی بتانا کی زحمت نہ کرے ہے کہ واکی بات کیوں مانی جائے؟
لوگ سدا وائی کی بات غور سو سناں اور وائی کی باتن نے ماناں ہاں ۔جاسو اُنن نے مفاد ہوئے۔وقتی مفاد ہوئے یا اُنن نے مفاد کی توقع ہوئے۔۔جہاں نفع رسائی کی توقع نہ ہوئے میو واگلی سو بھی نہ گزراہاں ۔
میون میںلیڈر کیوں نہ ہے؟
میو قوم میں کوئی لیڈر ہے نہ میو قوم کائی اے لیڈر مانے ہے ۔جو قوم کائی دوسرا کی بات سنن یا مانن پے آمادہ نہ ہووے ہے اُو دوسرا ن کی چلم بھرے ہے۔حقہ تازہ کرکے دیوے ہے۔دوسران کا ڈھور ڈنگرن کی کُھرلی صاف کرے ہے۔یاکو مظاہرہ 8 فروری 2024 کا الیکشن میں دیکھو گئو ہے۔
جتنا خلوص سو ہم اپنان کے خلاف ہوکے دوسران کی اللہ واسطے کی حمایت مین اتنا آگے بڑھ جاواہاں کہ اتنو تو انن نے بھی نہ سو چو رہوے ہے۔ہم نے ایسا منظر بھی دیکھاہاں جہاں ایک میو جیت رو ہو دوسران نے ٹانگ اڑاکے ہروائیو۔جب ایک میو بھائی ہار گئیو تو ان کی بے حیائی کی کوئی حد نہ ہی ۔ایک میو کی ہار پے ان کا چہران نے پے بِکھرن والی ہنسی بتاوے ہی کہ ان کی غیرت کو لیول بہت گرو ہوئیو ہے۔یہ لوگ اپنان کی مخلافت میں دوسران کے سامنے نُہڑن سو بھی گریز نہ کراہاں ۔۔جیسی ڈھٹائی سو دوسران کی گاڑین میں بیٹھ کے میو قوم کی پیٹھ پے چھرا گھنپو ہو واکی مثال دوسری قومن میں نہ ملے ہے۔۔۔کاش کہ تھوڑی بہت بھی غیرت کو مظاہرہ کرتا تو ایک دو نہ کئی میو اسمبلی کی بیٹھا ہوتا۔
میو قوم میں سوچ کو فقدان۔
میو قوم کو اللہ نے عقل و شعور دئیو ہے شاید میو قوم یاکو استعمال نہ جانے ہے۔میری زندگی کا باون سالہ دور مین کوئی میو ایسو نہ ملے ہے جو اپنا منصوبان نے لکھتو ہوئے پھر والکھائی پے عمل کرتو ہوئے۔قوم کے مارے منصوبہ بندی تو دورکی بات ہے۔نجی زندگی میں بھی کوئی ایسو انتظام نہ ہے۔اپنی ضروریات ،خدمات۔اور منصوبہ جات۔اور قوم کے مارے بہتر جذبات۔کچھ بھی تو ایسو نہ ہے کہ کم از کم کائی ڈائری یا کاغذ کا پنا پے لکھو پڑو ہوئے۔
میو قوم میں خود غرضی کی وبا۔
میو قوم میں غود غرضی اتنی کوٹ کوٹ کے بھری پڑی ہے کہ اپنی ذات سو باہر نکل کے سوچنو بھی گوارو نہ کراہاں۔جہاں ضرورت ہوئے۔رشتہ داری تعلقداری۔اور دوستی جیسا مراسم پیدا کرن میں کوئی حرج نہ سمجھاہاں۔صدین پرانی رشتہ دارہ قبرن میں سو نکل کے زندہ ہوجاواہاں۔
اور جب قوم کی ضرورت ہوئے یا کدی قوم کے مارے کوئی خدمت سرانجام دینے پڑے تو موت طاری ہوجاوے ہے۔بے شمار میو سرکاری محکمان نے بہترین پوسٹن پے جراجمان ہاں ۔مجال ہے دوسران سروس کائی کی میو والی رگ پَھڑکی ہوئے؟۔بہت کم میو ملنگا جو دوران سروس بھی میون کے مارے نرم گوشہ راکھتا ہوواں۔سچی بات تو ایہے جب اختیار رہوے ہے تو میو قوم میں بے شمار بُرائی واکی نگاہ میں رہواہاں ۔واکے مطابق میو قوم اگر واکی سوچ کے مطابق ڈھل جائے تو کامیابی مل سکے ہے۔
انفرادی سوچ قوم پے مسلط کرنو۔
میو قوم کا افراد کائی تنظیم میں ہوواں،یا قومی خدمت کا جذبہ کے تحت کوئی کام کرنو ہوئے تو واکی منصوبہ بندی اور واکی خوبی کامین کا بارہ میں کوئی کاغذی کارروائی نہ رہوے ہے۔جو سوچ کائی دھنیڑی کے مغز میں سما گئی وائی پے چل پڑے ہے۔واکے پئے وسائل رہواہاں ۔روپیہ پیسہ ۔وسعت مالی رہوے ہے۔یا مارے وائے کے اوڑ پاس بہت سا مطلبی لوگ اکھٹا ہوجاواہاں ۔جو واکی ہر اُلٹی سُلٹی باتن نے حق بجانب ثابت کرن میں جی جان سو دلائل دیواہاں۔اور دھنیڑی کی بات سو بہتر دنیا بھر میں کوئی بات نہ رہوے ہے۔جب ایسا چاپلوس لوگ دن رات ان کی تعریف کراہاں اور چاپلوسی میں آگے پیچھے ہویا رہواہاں تو ۔دھنیڑی لوگن کا دماغ بھی خراب ہوجاواہاں۔ہم نیت پے شک نہ کرسکاہاں۔لیکنکھلی آنکھن سو جو دیکھائی دیوے ہے ۔وائی پے تبصرہ کرسکاہاں ۔
میو قوم میں لالچ کی برُی وباء۔
کہنا کو تو میو قوم بہت کھلا دل کی مالک ہے لیکن عملا ایسو مظاہرہ دیکھن کو نہ ملے ہے۔میو قوم کے پئے اللہ نے بے شمار وسائل اور مالی فراوانی دے راکھی ہے۔مالی لحاظ سے مضبوط ہاں۔تعلیمی لحاظ سے بہتر حالت میں ہاں۔تعلیمی ادران کا مالک ہاں۔فیکٹری اونر۔اور بزنس مین ہاں۔زمین جوڑی بسوہ دار بھی ہاں۔لیکن لالچ اور کنجوسی میں اپنی مثال آپ ہاں۔ بُرو نہ مانو تو یہ وے طبقات ہاں جنن نے میو قوم یا لفظ میو سو کوئی سروکار ہوئے۔یہ لوگ میو قوم کی پروا کم ای کراہاں ۔ان کو رجحان مالدار طبقہ کا مہیں رہوے ہے۔یہ اپنی قوم سو ہوواہاں یا دوسری قومن سو ۔امیر ہوواں ان کے پئے بیٹھنا میں حرج محسوس نہ کراہاں۔
جب ذاتی لالچ۔مطلب کی باری آئے تو میو قوم کو نام لینو ۔تعلق داری جتانو۔اور میو قوم کی ہمدردی سمیٹنو ان کی چال بازین میں شامل رہوا ہاں۔تم نے کدی غور کرو ہے کہ میو دہیج کے خلاف بڑی بڑی تقریرن نے کراہاں۔جلسیہ جلوس سیمینار۔نہ جانے کہا کہا کراہاں۔شادی میں سادی ۔جہیز نہ لینا پے تقریر۔لمبا چوڑا بھاشن۔سب دیکھا جاواہاں۔یہ سب دوسران کے مارے رہواہاں ۔ لیکن جب اپنا بیٹا یا بیٹی کی باری آوے تو پھر ان کی نگاہ میں کوئی زچے نہ ہے۔اور جہیز کی لمبی چوڑی فہرست بنے ہے۔ یہ لوگ ٹھوک بجاکے جہز لیواہاں بھی ہاں ۔دیواہاں بھی ہاں۔جہیز کا موضوع پے پھر کدی لکھوں گو ابھی موقع نہ ہے۔