میوات کی وہ پنچایت جس سے تبلیغی جماعت کا آغآ زہوا۔
میوات کی وہ پنچایت جس سے تبلیغی جماعت کا آغآ زہوا۔
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
چونکہ مولانا محمد الیاس سے میوات کے لوگوں کو گہرا تعلق تھا، اس لئے مولانا کی صدارت میں 2/ اگست 1934ء کو قصبہ نوح میں ایک پنچایت کی گئی، جس میں میوات کے علاقے ،چودھری، میاں جی، زیلدار، انعام دار، نمبردار ،صوبیدار ، منشی ۔سفید پوش اور دیگر سربرآوردہ لوگ جمع ہوئے۔
جن کی تعداد تقریبا 107 تھی ۔اس پنچایت میں سب سے پہلے اسلام کی اہمیت بیان کی گئی، پھر عہد کیا گیا کہ اسلام کے ارکان کی پورے طور سے پابندی کی جائے، دین کی اشاعت و دعوت کا کام اجتماعی طور سے کیا جائے، اس کام کے لیے پنچایتیں کی جائیں اور مندرجہ ذیل امور کی پابندی کا عہد کیا گیا
عہد و پیمان۔۔۔
1۔کلمہ کا صحیح یاد کرنا ۔
2۔نماز کی پابندی
3۔تعلیم حاصل کرنا اور اس کی اشاعت
4۔اسلامی شکل و صورت
5۔اسلامی رسوم کا اختیار کرنا اور رسوم میں شرکیہ کامٹانا۔
6۔عورتوں میں پردہ کی پابندی
7۔اسلامی طریقے سے نکاح کر نا۔
8۔عورتوں میں اسلامی لباس کا رواج۔
9۔اسلامی عقیدے سے ناہٹنا اور کسی غیر مذہب کو قبول نہ کرنا۔
10۔باہمی حقوق کی نگہداشت و حفاظت ۔
11۔ہر جلسے اور اجتماع میں ذمہ دار حضرات کا شریک ہونا۔
12۔دینی تعلیم کے بغیر بچوں کو دنیوی تعلیم نہ دینا۔
13۔دین کی تبلیغ کے لیے محنت اور کوشش کرنا۔
14۔پاکی کا خیال رکھنا۔
15۔ایک دوسرے کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا۔
ان امور کے علاوہ اس پنچایت نے یہ طے کیا گیا کہ تبلیغ صرف علما کا کام نہیں ہے، بلکہ سب مسلمانوں کا فریضہ ہے، اور ہم سب اس کو انجام دیں ،یہ ساری طے شدہ باتیں لکھی گئیں۔ پنچائت نامہ مرتب کیا گیا اور اس پر شوریٰ کے دستخط ہوئے(سوانح حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی صفحہ 141)
تبلیغی جماعت کا آغاز ہوا
دراصل اس پنچایت سے تبلیغی جماعت کا باقاعدہ آغاز ہوا، اور مندرجہ ذیل طریقہ کار وضع کیا گیا۔
1۔اس دینی تحریک میں دین سیکھنے کا نبوی اور فطری طریقہ کار ضروری قرار دیا گیا ،ملت کے سارے طبقوں میں دینی دعوت کو عام کیا جائے اور سارے طبقوں کو اس کا حامل اور داعی بنانے کی کوشش کی جائے۔
2۔دین کے لئے عملی جدوجہد کرنا، نقل و حرکت اور سعی و عمل کو فروغ دیا جائے۔
3۔دین کے لئے تعلیم و تعلم اور خدمات و اشاعت کو مسلمانوں کی زندگی کا جزو قدر دیا گیا۔
4۔دین کیلئے عارضی ترک وطن کو لازمی قرار دیا گیا یعنی ہر مسلمان دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے اپنے مشاغل اور ماحول کو چند دن کے لیے چھوڑ کر دوسری جگہ جائے اور بہتر ماحول میں یکسوئی سے دین سیکھے۔
اس کے لیے چھ مندرجہ ذیل اصول ضروری قرار دیے گئے۔
بنیادی نکات۔
1۔کلمہ کی تصحیح۔2۔نماز کی تصحیح۔3۔علم اور ذکر کی تحصیل۔4۔اکرام مسلم۔5۔تصحیح نیت۔6۔تفریغ وقت یعنی وقت فارغ کرنا۔
اس طریقہ کار اور اصولوں کے ساتھ حسب ذیل مطالبے رکھے گئے۔
1۔ہر مہینے کچھ وقت میں اپنے ماحول میں ضروریات دین کلمہ نماز کی تبلیغ کی جائے اور باقاعدہ جماعت بنا کر ایک نظام کے تحت قرب و جوار میں گشت کیا جائے۔،
2،میواتی ہر مہینے میں تین دن کے لیے، پانچ کوس کے حدود کے اندر دیہات میں جائیں اور شہری لوگ شہروں اور قریب کی آبادیوں میں جاکر تبلیغ کریں ۔اس سلسلے میں گشت اور اجتماع کیا جائے اور دوسروں کو نکلنے پر آمادہ کیا جائے ۔
۔3،کم سے کم چار مہینے یعنی تین چلے دین سیکھنے کی غرض سے اپنے گھر اور وطن سے نکلیں اور ان مراکز میں جائیں جہاں دین اور علم زیادہ ہے
اس دعوتی سفر اور نقل و حرکت کے دنوں کا ایک مکمل نظام الاوقات مرتب کیا جائے جس کے تحت جماعتیں کام کریں ۔
ایک وقت میں گشت ایک وقت میں اجتماع ایک وقت میں ضروریات کا پورا کرنا اور یہ تمام کام تربیت اورتنظیم کے ساتھ ہونے چاہیں۔ اس طرح تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاۃ، متحرک دینی مدرسہ اور ایک اخلاقی و دینی تربیت گاہ بن جاتی ہے (سوانح حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی صفحہ 143)