میوات میں اسلام کا داخلہ(2)
مداری سلسلے کی کوششیں
حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو
میواتیوں کو شاہ بدیع الدین مدار مکن پوری سے عقیدت و ارادت ہے، وہ ان کے نام کے جھنڈے کھڑے کرتے ہیں،اور ان کے عرس میں بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے شاہ مدار اور ان کے سلسلے کے فقرا نے بھی میواتیوں میں کام کیا ہے ۔شاہ مدار،شیخ محمدطیفوری کے مرید بتائے جاتے ہیں،وہ سلاطین
شرقیہ کے قاضی شہاب الدین دولت آبادی(849ھ/1245ء)کے ہم عصر تھے۔()
شاہ مدار کے خلاف آف اور مدار یہ فقراء کا سلسلہ ملک میں خاصا پھیلا ہوا تھا۔مداریہ سے سلسلے ایک بزرگ شاہ عبدالغفور عرف بابا کپور تھا، ان کا قیام گوالیار میں تھا،اور وہیں(979ھ/1571ء)انتقال ہوا ۔
مولف تذکرہ المتقین لکھتے ہیں۔
مدتے رسم تلقین وارشاد جاری داشتہ در گوالیار آسودہ، خانقاہش نور علی نوربعمارت عالی پختہ سنگی اساس بنایافتہ آستانہ وزیارت گاہ خلائق است۔(تذکرہ المتقین فی احوال خلفائے سید بدیع الدین،مولوی امیر حسن مداری،کانپور1323ھ۔جلد دوم صفحہ 97)
ایک زمانے تک تلقین و ارشاد کی رسم جاری رکھی، گوالیار میں دفن ہوئے، ان کی خانقاہ نورعلی نور ہے، پختہ عالی عمارت پتھر کی بنی ہوئی ہے ان کا آستانہ جب زیارت گاہ خلائق ہے۔
بابا کپور کی توجہ و ارشادسے ایک شخص بابا گوپال مع اپنے چیلوں کے داخل اسلام ہوئے اور انہیں خرقہ خلافت ملا،مولف تذکرہ متقین لکھتے ہیں۔بابا گوپال یکے از امرائے ہند بود۔۔۔۔۔چوں از بابا صاحب (بابا کپور)دوچار شد۔بقدمش درافتادوداخل اسلام شد۔حضرت صلاحیتش راملاحظہ فرمود ازکمال عنایت درآغوش عاطفت بگرفت وازنظرفیض اثر پیمانہ مراد ش لبریزفرموددرفقایش کہ چیلہ وے بودند در تعلیم شان بطریق اسلام ترمیم فرمودہ۔(حوالہ بالا)
بابا گوپال ہندوستان کے سربرآوردہ شخص تھے ۔جب ان کی بابا صاحب (بابا کپور)سے ملاقات ہوئی تو وہ ان کے قدموں پر گر پڑے اور اسلام قبول کرلیا ،حضرت بابا کپور نے ان کی صلاحیت ملاحظہ کی اور بڑی مہربانی سے ان کو اپنی آغوش میں لیا اور اپنی نظر فیض اثر سے ان کی مراد کا پیمانہ بھر دیا اور ان (بابا گوپال )کے ساتھیوں
کی تعلیم میں جو ان کے چیلے تھے اسلام کے طریقے پر ترمیم کردی۔۔۔
مداری فقراء کی جماعت ملک میں بالالتزام دورہ کرتی تھیں۔ان کی ایک باقاعدہ تنظیم تھی اور وہ ہتھیار وغیرہ بھی رکھتے تھے،بعض شواہدو قرائن کی روشنی میں ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ وہ کم حیثیت اور پسماندہ طبقوں میں خاص۔طور سے تہذیب وتبلیغ کے فرائض انجام دیتے تھے،شاہ مدار کے سالانہ عرس کے موقع پرہر اس مقام سے جہاں ان کا مرکزیاشاخ ہوتی تھی دو روزہ یا سہ روزہ اجتماع ہوتا تھا، علم اور جھنڈے کھڑے کیے جاتے تھے اور بھرپور قافلہ مکن پور کو روانہ ہوتا تھا، اس سے شاید اپنے رعب وغلبہ کا اظہار مقصود ہوتا تھا۔یہ روایت کسی قدر آج بھی ہندوستان میں موجود ہے اور مختلف مقامات پر شاہ مدار کی بیرق اور علم کھڑے کئے جاتے ہیں،
ابوالفضل لکھتا ہے۔
کہ و مہ ہندی بوم بد و گردد والا پائے گی برگزارد۔۔۔ہر سال روز فرو شدن اُو گروہا گرہ مردم از دوردستہا آنجا رسند وہریکے زنگار نگ علم یا خود بردہ نیایشہا بجا آورد۔(آئین اکبری ص 212)۔۔
سرزمین ہند کے چھوٹے بڑے ان کے گرویدہ ہوئے اور ان کی تعظیم بجا لاتے۔۔۔ ان کے یوم وصال پر ہر سال لوگ گروہ درو دور وہاں پہنچتے اور اپنے ساتھ رنگارنگ کے عالم لاتے اور اظہار عقیدت کرتے ۔بابا کپور کے خلفاء کے نو گروہ تھے (تذکرہ المتقین صفحہ 93تا97)۔
(1)نوروزی (2)سوختہ شاہی (3)کمربستہ (4)لعل شہباز ی۔(5)گوپال (6)مکھا شاہی(7)کلامی(8)قادری(9)کریم شاہی۔اسی طرح دوسرے اکابر خلفاء کے گروہ ہوں گے۔تذکرہ المتقین صفحہ 41 پر لکھتے ہیں۔
بعد از وفات حضرت قطب المدارحضرت خواجگاں از مرید اں و خلفائے خویش بعضے از ارجمنداں در ممالک ہندستان بہ قریات و قصبات و شہرات مامور کردند تا خلق را ازاوشاں نفع برسد و حیات و ممات ایشاں بخیر بگزرد،پس ایں انتظام راہدیں طریق نظم دادہ و علاوہ اوشاں چند کساں ر نصے مفتخرنمودہ حکم دورہ داند کہ متواتر نگراں حال شاں باشندچنانچہ زمانہ بدیں منوال بسرشد و نتیجہ سعی ایشاںترقی پزیرفت۔۔حضرت قطب المدار کی وفات کے بعد حضرت خواجگان نے اپنے بعض سعادت مند خلفا اور مریدوں کو ملک ہندوستان کے گاؤں قصبوں اور شہروں میں مامور کر دیا تاکہ مخلوق کو ان سے فائدہ پہنچے اور ان کی زندگی و موت اچھی طرح گزرے، پس انتظام کو اس طرح جاری کیا اور ان کے علاوہ کچھ لوگوں کو منصب سے سرفراز فرمایا، ان کو دورہ کرنے کا حکم دیا تاکہ ان کے حال کی متواتر نگرانی رکھیں،چنانچہ ایک زمانہ اس طرح گزرا اور ان کی کوشش کا نتیجہ اچھا رہا ۔
سالار مسعود غازی سے تعلق ۔
سید سالار مسعود غازی کی پیدایش 22 جنوری 1015ء میں اجمیرمیں ہوئی۔ سید سالار مسعود غازی سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے۔ آپ کے والد کا نام سیدسالار ساہو غازی اور والدہ کا نام سترے معلٰا تھا جو سلطان محمود غزنویکی بہن تھیں۔ سیدسالار ساہو غازی محمد بن حنفیہ حضرت علیؓ کی نسل سے تھے۔ سالار مسعود اسلام کی تبلیغ کے لیے جنوبی ایشیا کے لیے 11ھویں صدی کی ابتدا میں اپنے چچا سالارسیف الدین اور استاد سید ابراہیم مشہدی بارہ ہزاری (سلطان محمود غزنوی کے سالار اعظم) کے ساتھ آئے
میواتیوں کے عقیدت سالار مسعود غازی (بہرائچ)سے بھی ہیں وہ ان کے نام کے جھنڈے کھڑے کرتے ہیں اور خاص طریقے سے نیا ز دلاتے ہیں (تاریخ میوات صفحہ 53)
میلے میں شرکت کرتے ہیں خیال یہ ہے کہ یا تو خود سالار مسعود غازی نے میوات میں تبلیغ اسلام کی ہوگی، یا پھر ان کی درگاہ کے مجاوروں یا فقیروں کے ذریعہ میواتیوں کا تعلق سالار مسعود کی درگاہ سے ہوا ہوگا، افسوس کے سالار مسعود غازی کے حالات کے سلسلے میں تاریخ خاموش ہے ۔تاریخ میں سب سے پہلا حوالہ تاریخ فیروزشاہی میں ملتا ہے۔ ضیاءالدین برنی لکھتا ہے ۔سلطان محمد بعد فراغ فتنہ عین الملک ازبنگر میں و عزیمت ہندوستان فرمودوتر بہرائج رفت واپسی پہ سالار مسعود شہید را از غذات سلطان محمود سبکتکین بود،زیارت کرد د مجاوران روضہ اورا صدقات بسیار داد(تاریخ فیروز شاہی۔ضیاء الدین برنی۔تصحیح سرسیداحمدخان کلکتہ 1862صفحہ 491)
،عین الملک کے فتنے سے فارغ ہونے کے بعد سلطان محمد نے بن گرمیوں سے ہندوستان کا ارادہ کیا اور وہ بہرائج آگیا اور سپہ سالار مسعود شہید کے مزار کی زیارت کی، جو سلطان محمد سبکتگین کے غازیوں میں سے تھے ،اور ان کے روضے کے مجاوروں کو بہت خیرات دی ۔
میواتیوں کو خواجہ معین الدین اجمیری شاہ مدار مکن پوری اور سالار مسعود غازی وغیرہ سے ایک خاص تعلق ہے،اس سلسلے میں شاہ غوث علی قلندر پانی پتی (1881ء)نے ایک دلچسپ واقعہ نقل فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میواتیوں کو ان بزرگوں سے کس قدر گہری عقیدت ہے۔ شاہ غوث علی نے ایک روز ارشاد فرمایا (ملاحظہ ہو،تذکرہ غوثیہ مرتبہ گل حسن قادری صفحہ 381)
لکھنؤ کے سنی اورشیعوں میں ایک دفعہ ہم جنگ ہوئی ،تماشائیوں کا ہجوم ہو گیا ،ایک جانب میواتیوں کا گروہ بھی کھڑا تھا ،پوچھا یہ کون لڑ رہے ہیں ؟کوئی شخص بولا کہ یہاں لڑائی اس بات پر ہے کہ شیعہ چار یار کو گالیاں دیتے ہیں ۔میواتیوں نے تعجب سے پوچھا کہ چار یار کون ہیں؟اس نے کہا یہی تو ہیں (1)معین الدین (2)سالار (3)چوکھا پیر(ان کا تذکرہ آگے آرہا ہے) (4)مدار ۔یہ بات سن کر ان کو تاب نہ رہی کہ ہمارے پیروں کوبرا کہتے ہیں تو ہماری زندگی کس کام آئے گی؟لٹھ لے کر پل پڑے اور گروہ شیعہ کو بھگا دیا۔
۔۔۔۔۔۔
سلسلہ مداریہ اور سبع سنابل ایک تحقیقی جائزہ
سلسلہ مداریہ کے سوخت وانقطاع کے تعلق سے سبع سنابل میں جو واقعہ خود ساختہ مرقوم ہواہے اس بابت ہمارے سلسلہ مبارکہ کے تمام مشائخ کا نظریہ یہ ہے کہ وہ از اول تا آخر دروغ بے فروغ ہے خانوادہ مداریہ زندہ شاہ مدار حضرت سید بدیع الدین احمد قطب المدار قدس سرہ کے بزرگان دین نے اسکی تردید میں باضابطہ طور پر کتابیں بھی تحریر کی ہیں
مثلًا سبع طرائق ،سیف قاطع،سیف مدار،وغیرہ،،
آپ حضرات کی معمولی سی توجہ ہی اس بابت کافی ہوگی بتائے کس درجہ ظلم ہے کہ می گویند صیغہ مجہول سی بیان کی گئ ایک بے سرو پا روایت کو کس دلیری کیساتھ خانہ نص قطعئ میں رکھدیا گیا ہے اور ایک مخصوص طبقہ اسے صحیفہ آسمانی سمجھنے کی حماقت پر تلا ہے ،،
بات قابل غور ہے کہ جو سلسلہ طریقت261 /ھجری سے لیکر/1297/ھجری تک ایک عظیم عالمگیر سلسلہ طریقت کی حیثیت سے چہار دانگ عالم میں متعارف ہوکر جاری وساری رہا ہو اور تقریباً اکثر سلاسل طریقت کے مشائخ عظام اپنے فیوض و برکات سے نوازتا رہا وہ اچانک /1299/میں ھجری میں سبع سنابل کے ذریعہ سوخت ومنقطع قرار دیدیا گیا
اس بات کی فی الفور نوٹس لیتے ہوئے ہمارے خانوادے کے بزرگوں نے مزکورہ بالا کتب تحریر فرمائیں اور انکے علاوہ تذکرۃ المتقین فی احوال خلفاء سید بدیع الدین نامی کی کتاب دو ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آئی جو بزبان فارسی آج بھی موجود ہےاور آج بھی متعد صاحبان علم کے ذخیرہ کتب میں موجود ہے ،،
حضرات !سبع سنابل کی وہ غریب و موضوع ضعیف و مجہول روایت جسکی بنیاد نہ تو کسی بزرگ کی کتاب ہے نہ ہی کسی بزرگ شخصیت پر وہ کس درجہ قوی ہوسکتی ہے آپ جیسے حضرات اہل علم کو بتانے کی ضرورت نہیں ،کہ اس کتاب سے استناد کیا جاسکتا ہے یا نہیں
اور جہاں تک حضرت قطب المدار سید بدیع الدین احمد زندہ شاہمدار قدس سرہ کے خط کی ہے کتاب سبع سنابل میں مرقوم ہے کہ ایک خط حضرت شیخ سعد کے قبضے میں آیا جسمیں تحریر تھا میں نے کسی کو خلافت نہیں بخشی ہے یہ بھی ایک گڑھنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے اسکی تکذیب کے لیے ان سیکڑوں صوفیا ءعلماء کی وہ تحریریں کافی ہیں کہ جن میں انھوں نے باضابطہ طریقے سے سلسلہ مداریہ کی مکمل سندیں تحریر کی ہیں اور درجنوں خلفا کا انکشاف فرمایا ہے
ہم نے آپکو اس قبل جن کتابوں کی فہرست بھیجی ہے آپ انھیں دیکھ لیں اور خود فیصلہ فرمالیں کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے جو سلسلہ طریقت ہو منقطع ہو اسکی سندیں اکابرین تحریر کریں
مثلًا شیخ یسین جھونسوی کی مناقب العارفین میں مرقوم ہوا ہے کہ حضرت حاجی محمد مدار ی قدس سرہ دو واسطوں سے حضور ملک العارفین سیدنا مدار پاک قدس سرہ کے خلیفہ تھے حضرت شاہ یسین جھونسوی رحمۃ اللہ علیہ مشائخ چشت میں ایک جلیل القدر بزرگ کی حیثیت سے تسلیم کئیے جاتے ہیں علاوہ ازیں مشائخ رفاعیہ نے دوطریقوں سے سلسلہ مداریہ کی سندیں تحریر کی کی ہیں ایک سند میں سرکار سیدنا شیخ فرید الدین گنج شکر قدس سرہ جیسی عظیم ترین شخصیت کو بھی سلسلہ مداریہ کی خلافت واجازت کا حامل بنایا گیا ہے /الشجرۃ الرفاعیہ /المختصر دور حاضر کے مشہور عالم دین علامہ ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی نے اپنی کتاب تذکرہ مشائخ عظام میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرت مدار پاک کء مرید وخلفا کا شمار غیر ممکن ہے
کس قدر تعجب کی بات ہیکہ سبع سنابل کے مطابق مدار پاک نے اپنے سلسلۂ طریقت کی سوختگی پر کثرت کے ساتھ خطوط لکھکر اپنے مریدین کیطرف چاروں طرف روانہ فرمایا مگر ان میں سے صرف ایک خط حضرت شیخ سعد کے قبضہ میں آیا بقیہ اور خطوط کا کوئی سراغ آج تک نہ لگ سکا
ہونا تو یہ چاہئے تھا کی ان میں سے کچھ خطوط وابستگان مداریت کے گھروں سے برآمد ہوتے مگر وہاں کسی سے نہ دستیاب ہوتے ہوئے صرف حضرت شیخ سعد کے یہاں ہی نظر آیا اور اس سے بھی زیادہ حیرت اس بات پر ہیکی ہزار مطالبے کے باوجود آج تک اس مکتوب کے نام پر ایک فرضی مکتوب کسی نے پیش کرنے کی زحمت نہیں کی عالی مرتبت گدائے صداقت وجانثار حقانیت! ذرا غور فرمائے کی اگر ایسے ہی خطوط سلاسل کو منقطع کرنے لگیں توپھر کیا نہ ہوجائیگا نہ جانے کتنے ورثا اپنی میراث سے محروم اور کتنی بیویاں نکاحوں سے نکل جایئگی اور جس بھی سلسلے کو چاہینگے اسے منقطع وسوخت قرار دیدیں گے آپ جیسے علم دوست کے سامنے یا آخری اور دل چسپ بات لکھکر اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ حضور مدار پاک نے ایک مکتوب حضرت ملک العلما قاضی شہاب الدین دولت آبادی کو لکھا تھا جو آج تک متعدد کتب میں چھپتا آرہا ہے اور مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ میں مکتوب شاہمدار کے نام سے الگ کتابی شکل میں محفوظ ہے مگر کثرت کے ساتھ لکھے جانے والے خطوط میں سے کوئی خط آج تک نگاہوں سے کہیں نہیں گزرا
ایک قابل غور بات یہ ہیکہ جس واقعہ پر سلسلہ مداریہ کے سوختن کی پیوند کاری کی گئی ہے وہ واقعہ کالپی کا ہے شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی کتاب اخبار الاخیار وغیرہ میں بھی ہے مگر ان کتابوں میں کہیں سوختن سلسلہ کا کچھ ذکر نہیں دوسری بات یہ ہیکہ کالپی کے علماء ومشائخ کو اس بات کی زیادہ معلومات ہونی چاہئیے تھی کہ سلسلہ مداریہ سوخت ہے -مگر آج تلک وہاں سے کسی نے یہ خبر نہیں دی اسکے برخلاف کالپی شریف کے حضرت شیخ عبدالغفور باباکپور حضرت میر سید محمد ترمزی کالپوی اور شیخ دیوان عبد الرشید جونپوری کے مرشد میرسید شمس الدین کالپوی وغیرہ اکابرین سلسلہ عالیہ مداریہ میں مجازوماذون بھی تھے اور انھوں نے سلسلہ مداریہ میں اجازت بیعت وخلافت اپنے خلفاء کودیں بھی ان بزرگوں کے علاوہ اور بھی کالپی شریف کے بزرگ ہیں ان میں سرکار قطب المدار کے بلاواسطہ خلیفہ حضرت میر سید صدرالدین کالپوی بھی ہیں تو عرض کرنا یہ ہے کہ کالپی شریف کے بزرگوں کو نہیں معلوم ہوا کہ سلسلہ مداریہ منقطع ہوگیا اور بلگرام کے حضرت میر عبدالواحد بلگرامی کو خبر ہوگئی؟؟؟
حضرت میر عبدالواحد بلگرامی کیطرف اس من گھڑنت کہانی کو منسوب کرنے والے نے یہ بھی نہیں سوچا کہ خود حضرت میرصاحب بھی سلاسل قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ ،نقشبندیہ،کے ساتھ ساتھ مداریہ سلسلہ کے بھی خلیفئہ مجاز ہیں اپنے مرشد اجازت حضرت شیخ حسین سے وہ حضرت شیخ صفی سے وہ حضرت شیخ سعد سے وہ حضرت مخدوم شاہ مینا سے وہ حضرت شیخ سارنگ سے وہ حضرت سید صدرالدین راجو قتال سے وہ حضرت سید جلال الدین مخدوم جہانیاں جہان گشت بخاری سے وہ حضور مدار پاک سے
(اصح التواریخ -تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ)
محترم! ایک بات اور بھی قابل غور ہے کہ حضرت میر عبدالواحد بلگرامی سادات مارہرہ اور بلگرام کے مورث اعلی ہیں لیکن آج تک نہ بلگرام کی کسی دوسری کتاب میں سلسلہ مداریہ کے سوخت کے ہونے کی کوئی بات تحریر کی گئی اور نہ مارہرہ شریف کی کسی تصنیف میں یہ بات ملتی ہے -اس کے برخلاف بلگرام ہویا مارہرہ وہاں کے سادات سلسلہ مداریہ سے منسوب ومستفیض ہوتے ہیں اس سلسلہ میں مجازو ماذون ہوتے بھی ہیں اور اجازت وخلافت دیتے بھی ہیں
مثال کے طور پر دیکھئیے دائرہ قادریہ بلگرام حضرت شیخ سید لدھا بلگرامی کو کالپی شریف کے شیخ احمد کالپوی سے سلسلہ مداریہ میں اجازت وخلافت حاصل ہے اسی طرح مارہرہ شریف کی اصح التواریخ ،,,النوروالبھا فی اسانید الحدیث وسلاسل الاولیاء،،تذکرہ نوری ،،خاندان برکات،،شرف نور،،،سراج العوارف فی الوصایا والمعارف،،وغیرھم
سیدظفر مجیب مداری
ولی عہد خانقاہ مداریہ مکنپور شریف
۔۔۔۔۔۔۔
2 Comments
Your comment is awaiting moderation.
I don’t think the title of your article matches the content lol. Just kidding, mainly because I had some doubts after reading the article. https://accounts.binance.com/en-IN/register-person?ref=UM6SMJM3
Your comment is awaiting moderation.
I don’t think the title of your article matches the content lol. Just kidding, mainly because I had some doubts after reading the article.
This post is a detailed guide on the topic; it’s a treasure trove of insights.
thanks for visiting my sites