میوات میں اسلام کا داخلہ (1)
میوات میں اسلام کا داخلہ (1)
حکیم المیوات۔قاری محمد یونس شاہد میو
راجپوتوں کی ایک قدیم شاخ میواتیوں کے تاریخی حالات کی طرف رجوع کرتے ہیں۔جو ہمارے موضوع سے گہرا تعلق رکھتی ہیں
علاقہ میوات
علاقہ میوات کے حدود یہ ہیں۔ شمال میں دہلی اورپلول ،جنوب میں ہاڈوتی، مشرق میں بھرتپور اور دریائے جمنا اوربرج کا دیس۔ مغرب میں کوٹ قاسم اور ریواڑی ۔۔میوات کی لمبائی تقریبا سو میل اور چوڑائی تقریبا ستر میل ہے، اب سے پچاس سال پہلے اس علاقے میں میواتیوں کی آبادی کم و بیش 12 لاکھ تھی، بیماریوں اور قحط کی وجہ سے مختلف اوقات میں میواتیوں نے اس علاقے سے نقل مکانی کر کے دوسرے علاقوں میں بھی اپنی بستیاں بسا لیں۔قیام پاکستان کے بعد بہت سے میواتی ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔
میواتی زیادہ تر زراعت پیشہ ہیں ،مگر جنگ یورپ اول 1914ءتا 1918 ۔جنگ دوم1939تا45ء،میں بہت سے میواتی فوج میں بھرتی ہوئے بلحاظ حکومت علاقہ میوات مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم رہا ۔
1ریاست الور
اس میں اکثر حصہ میوات کا ہے، بڑے بڑے قصبات یہ ہیں ۔رام گڑھ، کشن گڑھ ،کھٹومر۔ننڈا ور،گوبن گڑھ ،راجگڑھ ۔پٹوکرہ،کھیرتل۔
2۔ریاست بھرت پور
یہ جاٹوں کی ریاست تھی، میوات کے خاص قصبات یہ ہیں۔ دیک ،کاما ،گوپال گڑھ ۔اجر بڑا ،کمبیر۔سیکری ۔گل پاڑہ وغیرہ ۔
3۔ضلع گورگاؤں ۔
جس میں زیادہ تر فروزپور اور نوح کی تحصیل کا علاقہ ہے، بڑے بڑے قصبے یہ ہیں ۔فروزپور ۔پونا ہا نہ ۔پنگون ۔نگینہ ۔تاوڑو ۔سہنا ۔بچھو ر ۔
میواتی قوم
میواتی قوم تو مر، جادو، چوہان، پنوار، کچھواہہ،ر اٹھو،گوجر راجپوتوں سے عبارت ہیں ،پھر ان کی شاخ در شاخ پال اور گوت میں تقسیم ہوتی ہے
چشتی مشائخ کی تبلیغی کوششیں
ہم نے پچھلے صفحات میں راجپوتوں کے مختلف قبائل اور خاندان کے مشرف باسلام ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ظاہر ہے ان میں کچھ میواتی بھی ہوں گے، بہرحال صوفیہ کی مقدس جماعت کے فیوض و برکات سے میوات کی آبادی میں بھی مستفید ہوئیں۔ اس ضمن میں خواجہ معین الدین اجمیری اور ان کے سلسلے کے مشایخ کی کوششوں کو سب سے زیادہ دخل ہے شیخ جمال الدین لکھتے ہیں ۔:
بیشترے کفار نامدار ازاں دیار بہ برکت آثار زبدۃ الابراربہ تشریف ایماں مشرف شد ند/ اس علاقے کے بہت مشہور کفار زبدۃ الابرابر خواجہ بزرگ کی برکت سے ایمان سے مشرف ہوئے۔
(ان بزرگوں کے حالات کیلئے دیکھئے اخبار الاخبار۔شیخ عبدالحق دہلوی صفحہ35۔188۔ نیز سلطان التارکین مرتبہ احسان الحق فاروقی صفحات 376)
چشتی سلسلہ کے دوسرے بزرگ صوفی حمید الدین ناگوری (673ھ/1274ء) خواجہ حسین ناگوری(901ھ/1295ء)شیخ احمد د مجد شیبانی نارنولی (927ھ/1521ء) خواجہ خانو گوالیاری(940ھ)وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جن کی تبلیغ کوششوں سے میواتی داخل اسلام ہوئے ہوں گے۔
حسین خنگ سوار۔
میوات میں تبلیغ اسلام کے سلسلے میں حسین خنگ سوار کا نام بھی قابل ذکر ہے۔ تاریخ میوات کے مولف لکھتے ہیں(تاریخ میوات، از مولوی عبدالشکور۔ دار مطالعہ دہلی 1919صفحہ 52)
میوات میں ابتدا حضرت میراں صاحب سید حسین خنگ سوار نے اسلام کی ا شاعت کی۔ تومر نسل کے تمام فرقے جو گوت اور پال کے نام سے مشہور ہیں۔ اس زمانے میں مسلمان ہوئے۔
حسین رنگ سوار قطب الدین ایبک کے عہد میں داروغہ شہر تھے، ان کے تعاون سے خواجہ بزرگ کے کام کو خوب کامیابی ہوئی ،مؤلف تاریخ فرشتہ لکھتا ہے۔
سلطان قطب الدین ایبک او( حسین خنگ سوار) را داروغہ بلدہ ساختہ بود۔قدوم شیخ را بااعزاز و اکرام تلقی فرمود، وچوں از علم تصوف واصطلاحات صوفیہ بہرہ تمام داشت ۔صحبت خواجہ رانعمت شگرف دانستہ، اکثر اوقات بمجلس شریف حاضرمی شدوبسیارےاز کفار ببرکت انفاس آں پیر طریقت بشرف ایماں مشرف گشتند وآنانیکہ ایماں نیاوردند محبت خواجہ را در دل جائے دادہ پیوستہ، فتوح بے حد وعد بحضرت اُو می فرستادند۔(تاریخ فرشتہ جلد دوم۔تباہ نول کشور لکھنؤبارہ سو اکاسی ہجری،صفحہ 377)
سلطان قطب الدین ایبک نے ان(حسین خنگ سوار)کو اس شہر(اجمیر)کا داروغہ مقرر کیا،شیخ(خواجہ بزرگ)کے آنے پر نہایت اعزاز و اکرام کے ساتھ ان کا استقبال کیا،چونکہ وہ علم تصوف اور صوفیاء کی اصطلاحات سے بہرہ کامل رکھتے تھے،لہذا خواجہ صاحب کی صحبت کو بڑی نعمت سمجھا وہ اکثر(خواجہ صاحب کی)مجلس میں حاضر ہوتے تھے اور اس پیر طریقت(خواجہ بزرگ)برکت سے بہت سے کفار اس ایمان سے مشرف ہوئے اور جو لوگ ایمان نہیں لائے انہوں نے بھی خواجہ کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دی ،وہ ہمیشہ بہت زیادہ فتوحات ان کی خدمت میں بھیجتے تھے۔
ایک موقع پر کفار نے حسین رنگ سوار پر حملہ کیا اور شہید کردیا، خواجہ غریب نواز جنازہ پڑھائی ،ان کا مزار گنج شہیداں کے پاس تاراگڑھ کی پہاڑی پر واقع ہے (تاریخ فرشتہ جلد دوم صفحہ 377،معین الارواح اس محمد خادم حسین زبیری ۔آگرہ 1953صفحہ 418تا421،احسن السیر از محمد اکبر جہاں شگفتہ۔آج میری بارہ سو چورانوے،صفحہ 113،علم و عمل ۔وقائع عبدالقادر خانی۔جلد دوم ، مرتب محمد ایوب قادری صفحہ 44)
..شیخ موسی
شیخ نصیر الدین چراغ دہلوی (757h/1356ء)کہ ایک خلیفہ شیخ موسی جو میوات میں پہنچے ،انہوں نے وہاں تبلیغ و تذکیر کا کام انجام دیا ہے، ان کا مزار پلہ تحصیل نوح 27 جمادی الاول کو بڑا زبردست میلہ ہوتا ہے، جس میں میوات کے عوام الناس بکثرت شریک ہوتے ہیں(ملاحظہ ہو آئین اکبری۔حصہ دوام صفحہ 211،اخبار الاخبار صفحہ 97)