میدان طب میں خدمات کا نیا انداز
میدان طب میں خدمات کا نیا انداز
ہمیں اپنی روش بدلنا ہوگی۔
(ہماری کتاب”گل بابونہ کے طبی فوائد”کا ایک ورق)
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
طبیب لوگ یاتو سہل پسندی سے کام لیتے ہیں چند نسخوں سے اپنی روزی روٹی کا سامان کئے بیٹھے ہیں۔
روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔اس کے علاوہ طب سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے
۔ان سے کوئی گلہ نہیں کہ دیہاڑی باز ہیں جو طبیب کے روپ میں کاروبار کررہے ہیں
۔انہوں نے کوئی خدمت نہیں کرنی کیونکہ یہ اس میدان کے بندے ہی نہیں۔
دوسرے قسم کے وہ لوگ ہیں۔جو سطحی علم رکھتے ہیں۔تحقیق و تدقیق اُن کے بس کی بات نہیں ہے
یہ لوگ اگر لکھے ہوئے کو ہی ٹھیک انداز میں سمجھ لیں تو بہت بڑی بات ہے۔
کئی حکماء ایسے بھی دیکھے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن اچھے دوکاندار تھے۔
انہیں تو ٹھیک انداز میں جڑی بوٹیوں کے نام تک نہیں آتے
۔لیکن وہ پنساری سے اپنا مافی الضمیر سمجھا دیتے ہیں وہ نسخہ پیک کردیتا ہے
۔یوں اُلٹے سیدھے تجربات کرکے حکیم حاذق کے درجے تک پہنچنے کے مدعی بن جاتے ہیں۔
یہ لوگ بھی کاسہ لیس ہوتے ہین ،فن کی خدمت ان کے بس کا روگ نہیں۔
اب آتے ہیں صاحب علم اطباء کی طرف یہ پڑھنا لکھنا جانتے ہیں ۔کتب کا مطالعہ بھی رکھتے ۔
لیکن ان میں سے چند لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جو کتابوں میں لکھے ہوئے جو وحی کا درجہ نہ دیتے ہوں
۔لکھنے والے نے جو لکھ دیا اس سے سرمو انحراف کرنے کی جسارت کرنا بھی بڑی بات ہوتی ہے
۔ایسے لوگوں کے ذہنوں میں تعمیری اور تنقیدی مضامین کا پیدا ہونا۔بہت دشوار ہوتا ہے۔
معالج و طبیب کا طبی کتب کا مطالعہ علاج و معالجہ میں روح کی حیثیت رکھتا ہے۔جو طبیب مطالعہ سے بے نیاز ہوجاتا ہے
اس کی علمی و عملی ترقی رُک جاتی ہے
اس وقت جو کتب مفرد اعضاء کے عنوان سے لکھی جاتی ہیں ان میں الفاظ کا ہیر پھیر ہوتا ہے
۔کوئی نئی بات دیکھنے کو نہیں ملتی۔کسی کے نسخہ کو چند لفظوں کے بدلائو کے ساتھ اپنی طرف منسوب کردینے کو تحقیق کا نام دیا جاتا ہے۔ی
ہ لوگ محقق نہیں نقال ہیں۔ان سے یہ فائدہ ضرور ہواکہ ان کی تحریرات انٹر نیٹ کے ذریعہ سے اطراف عالم میں متعارف ہوگئیں
۔اور شعوری و لاشعوری طورپر طب کی کی مشہوری کا سبب ٹھہرے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ طبی کتب کا مطالعہ وہ آکسیجن ہے جس کی بنیاد پرمعالج کے فن میں نکھار پیدا ہوتا ہے
،غلطیوں کی اصلا ح ہوتی ہے،اہل فن کے تجربات سے آگاہی ہوتی ہے
یہ بھی پرھیں
عملیات میںموکل بنانے کی ترکیب
۔ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں جو طبیب کے لئے کسی بھی وقت سہارا بن سکتی ہیں
(4)خدمت تو یہ ہے۔
طباء کرام کو چاہئے ان قدرتی اشیاء اور ہر جگہ دستیاب ہونے والی اشیاء کو فروغ دی
ں ان کے خواص معلوم کریں۔انہیں اپنے تجربات میں شامل کریں۔ان سے منسلکہ اجزاء پر مشتمل نسخے تجویز کریں
یہ بھی پڑھیں
طب کی تعریف
۔بہتر ہے کہ مفردات کو رواج دیںمثلاََ اس کتاب میں ہم نے بابونہ کے فوائد بیان کئے ہیں۔
یہ باغات۔سڑکوں کے کنارے۔عام بنجر ویران مقامات پر خورد رو بھی پیدا ہوتا ہے۔
ہمیں سوائے کیاریوں میں پھولدار پودے کے اضافہ کے اور کوئی اس کا مصرف نہیں دیکھتے۔
حالانکہ بابونہ کی سالانہ کروڑوں روپوں کی تجارت ہوتی ہے۔مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے
۔اعلی سوسائٹی میں اس کا قہوہ شوق سے پیا جاتا ہے ۔ بڑے بڑے سٹورز میں اس کے مہر بند ڈبے مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔ایک ہم ہیں کہ انہیں سوائے سجاوٹی پھولوں کے کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔
ہماری یہی سب سے بڑی بد قسمتی ہے کہ ہماری چیزیں کے خواص و فوائد بھی اس وقت ظاہر ہوتے ہیں
جب اغیار انہیں پیکٹوں میں بند کرکے مہنگے داموں ہمیں لوٹاتے ہیں۔
جب ہمارے گھر کی کیاری میں اُگنے والے پھولوں کی بے قدری کی جائے تو ہمیں قدرتی طورپر سزا ملے گی
وہی ناکارہ سمجھی جانے والے اشیاء مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہونگے۔۔۔۔
اگر یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہا تو امید ہے لگے بندھے نسخوں اور فارماکوپیاز سے جان چھوٹ جائے گی۔
۔طب میں سب سے زیادہ توجہ کا مستحق یہی شعبہ ہے کہ سستے ترین نئے اجزاء تلاش کئے جائی
ں ،تاکہ اس گرانی کے دور میں سستے ترین اجزائی نسخہ جات ترتیب دئے جاسکیں۔
کیا دیکھتے نہیں لالچی لوگ ہر اس چیز کے دام بڑھا دیتے ہیں۔جس کی مانگ ہو۔جب حضرت مجدد الطب ؒنے اپنا فارماکوپیا ترتیب دیا تھا اس وقت یہ چیزیں ٹکے بھائو تھیں۔آج ان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔یعنی سونف ملٹھی کی قیمتیں اس وقت کے زعفران سے بھی زیادہ ہوگئی ہیں۔
۔ایسے میں طب کی خدمت یہ ہے عام ملنے والے پھل پھول ۔پودے۔گھاس پھونس پر تجربات کئے جائیں تاکہ سستے ترین اجزاء پر مشتمل نسخہ جات کا حصول ممکن ہوسکے۔مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ دیہاڑی دار دوا فروشوں کے لئے یہ کڑا امتحان ثابت ہوگا۔کیونکہ وہ زعفران کستوری کے نام پر لوگوں کی جیبیں خالی نہ کروا سکیں گے۔لیکن افادہ عام اور صدقہ جاریہ کا یہ سلسلہ بند نہیں ہونا چاہئے۔۔اس وقت بہت سے قابل لوگ اس شعبہ میں کام کررہے ہیں کچھ کی توجہ اس طرف مبذول کران ضروری ہے۔
جس دن ہمیں مشن صابر کی حقیقی غرض و غائت سمجھ میں آگئی۔امید ہے کہ طب کے لئے نئی جہت ثابت ہوگی۔
ایسا نہیں کہ پرانی کتب یا بیاضیں ناکارہ ہوگئی ہیں۔بلکہ ان کا نئے سرے سے جائزہ لیکر ضرورت کی چیزیں نکالی جاسکتی ہیں۔ وہ تجربات جنہیں سرسری انداز میں لکھا گیا ہے نئے سرے سے انھیں پرکھا جائے ان کے خواص معلوم کئے جائیں
۔بالخصوص وہ چیزیں جنہیں ہم بے کار سمجھ کر کوڑا دان میں پھینک دیتے ہیں ۔
کیا یہ فالتو سمجھی جانے والی اشیاء بےکار محض ہوتی ہیں ؟ایسا ہر گرز نہیں یہ تو وہ جواہرات ہیں جن سے ایک صاحب عقل طبیب اپنے مطب کو چار چاند لگا سکتا ہے
۔میں اللہ سے دعا کرتا ہوں مجھ ایسے کم علم اور آرام طلب انسان سےمزید کام لے لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طب کی خدمت کا انداز۔
نسخہ جات ۔مجربات۔اور مفردات کے بارہ میں لکھنے والے۔تجربہ کرنے والے،انہیں آگے روایت کرنے والے بلاشبہ طب کی کسی نہ کسی شاخ کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں ۔یہ عام اطباء اور معالجین کا کردار ہوتا ہے۔ضرورت کے مطابق لوگ حافطوں میں جو پڑھے لکھے ہیں،وہ بیاضوں اور ڈائریوں میں اپنے کام کی چیزیں لکھتے ہیں۔انہیں محفوظ رکھتے ہیں،جب یہ چیزیں دوسروں تک پہنچتی ہیں تو لوگ ان سے ضرورت کے مطابق استفادہ کرتے ہیں۔کچھ لوگ ذہن رسا ہوتے ہیں ان کی قوت استدلال بہت زیادہ ہوتی ہے ،وہ استقرائی انداز میں ان چیزوں کو بہت آگے تک لے جاتے ہیں۔لہذا جس نے بھی طب کی کسی درجہ میں خدمت کی وہ قابل قدر ہے۔
دور حاضر میں طبی خدمات کی ممکنہ صورت۔
طب ایک ترقی پزیر علم ہے۔ہر زمانہ میں اس کے مختلف انداز رہے۔زمانہ قدیم لکھی ہوئی۔
۔(1) قدیم طبی کتب کا مطالعہ دیکھ لیں آپ کومعلوم ہوگا کئی باتیں معلوم ہونگی۔ایک تو یہ معلوم ہوگا کہ کونسی بیماری کس زمانہ میں نمودار ہوئی؟۔
۔(2)دوسرا طبی خدمات پر وضاحت ملے گی کہ کونسی جڑی بوٹی کس دور میں متعارف ہوئی؟ان کے خواص و فوائد میں کس نے کتنی محنت کی اور فوائد دریافت کئے۔ (3)کونسی جڑی بوٹی کس ملک میں پائی جاتی ہے۔اور مختلف ممالک میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹیوں کے خواص میں کس قدر تفاوت ہوتا ہے جیسے اسگند ھ تو پاک و ہند میں کئی جگہ پیدا ہوتی ہے لیکن ناگور کی اسگندھ فوائد کے لحاظ سےاعلی ہوتی ہے۔لعل بدخشاں کا۔سرمہ اصفہان کا وغیرہ وغیرہ
۔(4)طبی خدمات کا سلسلہ میں ان لوگوں کو زیادہ پزیرائی ملی جنہوں نے نئی نئی دریافتیں کیں۔میدان طب میں نئی جڑی بوٹیوں کے فوائد معارف کرائے۔ اور ان جڑی بوٹیوں کو بطور دوا طب میں رواج دیا۔۔کیونکہ طب کا وسیع میدان ہوتا ہے اور ہر قوم و ملت کے لوگ۔تمام خطوں کے باشندے طب کے محتاج ہوتے ہیں لیکن ہر جڑی بوٹی ہر ملک یا ہر جگہ نہیں ملتی۔لیکن بیمار موجود ہوتے ہیں۔جتنا وسیع میدان ہوگا اطباء و معالج دونوں کے لئے سہولت میسر آئے گی ۔ نسخہ کے اجزاء اگر ہر جگہ میسر آجائے تو آسانی رہے گی۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہر ملک اور ہر خطہ ارض کی جڑی بوٹیوں کے خواص مہیا کئے جائیں۔
۔
2 Comments
Your comment is awaiting moderation.
Your point of view caught my eye and was very interesting. Thanks. I have a question for you.
Your comment is awaiting moderation.
Thanks for sharing. I read many of your blog posts, cool, your blog is very good.
thanks visit my site
thanks visit my site