معالج و مریض کے درمیان ہم آہنگی کیوں ضروری ہے؟
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
معالجاتی زندگی میں معالج و مریضوں کے درمیان بہت سے مشکل مراحل آتے ہیں ایک بہتر معالج وہ ہوتا ہے جو یہ سمجھ سکتا ہوں کہ مریض کی /ضروت کیا ہے اور اسے کس طرح حل کیا جاسکتا ہے۔
علاج و معالجہ کی دنیا میں نسخہ جات و مجربات کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور معالج کی حذاقت اس کی بیاض یا اس کے ڈائری میں لکھے ہوئے نسخہ جات سے لگایا جاتا ہے۔اس کے پیچھے کونسی نفسیات کام کرتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
زیادہ نسخہ جات جمع کرنا اور مجربات کے پیچھے بھاگنا دراصل معالج کے لئے یک گونہ احساس کمتری کا سبب ہوسکتا ہے۔کیونکہ حاذق لوگ نسخہ جات کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ نوقت ضروت وخود نسخہ جات ترتیب دیتے ہیں۔جہاں جس کی قسم بھی ضرورت ہو دستیاب اشیاء سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔معالج کے لئے نسخہ سے زیادہ مریض اور اس کی ضرورت کا ادراک ہونا چاہئے کہ اپنی حزاقت اور تجربہ کی بنیاد پر دیکھے کہ مریض کی ضرورت کیا ہے؟۔
اور میرے پاس کونسی ایسی چیز غذا و خوراک۔جڑی بوٹی یا ادویہ مرکبہ موجود ہیں کہ مریض کی ضرورت پوری کرسکوں۔کچھ لوگ بے اصولی سے کام لیتے ہیں۔اور کوئی بھی نسخہ پوچھے تو فورا دس پانچ چیزیں لکھ کر تھمادیتے ہیں کہ یہ نسخہ بنا لینا، نسخہ بنانے اور اسے طبی اصولوں کے مطابق تیار کرنے میں ایک مہارت درکار ہوتی ہے۔اگر ہر کوئی نسخہ تیار کرنے اور اسے بوقت ضرورت استعمال کرنے کا ہنر جان جائے تو طبیبوں حکمیوں کے پاس کون جاتا ہے۔سب لوگ خود ہی علاج نہ کرلیں؟۔
اس روش نے معاشرہ میںبے یقینی کو عام کردیا ہے،بالخصوص پاکستان اور ہندستانی معاشرہ میں ہر دوسرا انسان معالجاتی تجربات کا ایک پنڈورا بکس اٹھائے پھرتا ہے۔
اگر معالج سمجھے کہ مریض علمیت بکھیر رہا ہے اور کسی طرح معالج سے مطمئین نہیں ہورہا تو علاج کے بجائے اس سے معذرت کرنا بہتر ہوتاہے۔