معالجین مریض کے لئے کھاناکیسے تجویز کریں:
انسانی معاشرت میں مریض کی غذا و خوراک ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔یہ معالج و مریض اور تیمار داروں کی مشترکہ فکر ہے کہ مریض کے لئےکونسا قابل استعمال اورتغذیہ کا سبب بن سکتا ہے۔
غذا و خوراک کا تصور طب نبوی ۔مفرد اعضاء اور دیسی طب۔اور ہندی میں موجود ہے لیکن جتنی وضاحت طب نبوی اورمفرد اعضا میں پایا جاتا ہے وہ شاید ہی کسی طب کا امریاز ہے۔حدیث مبارکہ کی دستیاب
کتب میں مریضوں کے کھانے پینے کا بہت واضح ہدایا ت موجود ہیں۔
مریض کو کھانے کی طلب اس کی صحت کی علامت ہے۔جب مرض کی شدت ہوتو کھانے کی طلب بند ہوجاتی ہے،کھانے کی طلب اس بات کی علامت ہے کہ اس کا نظام ہضم کام کرنے لگاہے۔
حدیث میں مریض کی دلجوئی کرنے اور اس کی خواہشات کا احترام کرنے کی تاکید موجود ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے
“تم اپنے مریضوں کو وہی کھلاؤ جس کی انہیں خواہش ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی خواہش میں شفا رکھتا ہے۔”
(جامع ترمذی)
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مریض کو اس کی پسندیدہ چیز کھلانا اس کے لیے جسمانی اور روحانی طور پر مفید ثابت ہو سکتا ہے، بشرطیکہ وہ چیز طبی طور پر نقصان دہ نہ ہو۔ اگر مریض کو کیک کی خواہش ہو اور وہ اس کی صحت کے لیے مضر نہ ہو تو یہ دینِ اسلام کے اصولوں کے
عین مطابق ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری کی جائے۔
غذا و خوراک کا تذکرہ فقہ الرضا (علیہ السلام) اور دوسروں کی حدیث میں ہے جہاں آپ نے فرمایا:
“…پس اگر وہ کھانا چاہتا ہے تو اسے کھلاؤ، شاید اس میں شفاء ہو جائے (1)۔”
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم اپنی ضرورت کو محسوس کرنے لگا ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صحت اور تندرستی کے تقاضوں نے بیماری کے عوامل پر قابو پانا شروع کر دیا ہے۔ اس میں… اس لیے… جسم کی ضرورت کو پورا کیا جانا چاہیے، اور اسے وہ کام کرنے سے نہیں روکنا چاہیے جو وہ چاہتا ہے۔
شاید ان سے جو روایت کی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر بھوک لگے تو کھاؤ، پیاس لگے تو پیو، پیشاب کی تکلیف محسوس ہو تو پیو، اور جب تک ضروری ہو جماع نہ کرو، اور اگر نیند آئے تو سو جاؤ۔ (2)۔
اگر مریض کو کھانے کی خواہش نہ ہو تو اسے زبردستی کھانے سے زیادہ فائدہ نہیں ہو گا، اگر نہیں تو یہ ناخوشگوار پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے: نفسیاتی اور جسمانی طور پر۔ اس وجہ سے ہمیں کچھ نصوص ملتے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اپنے بیماروں کو کھانے پر مجبور نہ کرو، کیونکہ اللہ انہیں کھلاتا ہے اور پلاتا ہے” (3)۔_
شاید اللہ تعالیٰ نے ان کو کھانا کھلانے اور پینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر مہربان ہے اور ان کے جسموں کو اس طرح ڈھال لیتا ہے کہ ان کے کھانے پینے کی ضرورت کم ہو جائے، جس کو جسم ان کی پیچیدگیوں کے پیش نظر ڈھال نہیں سکتا۔ وہ بیماری جو اسے لاحق ہوتی ہے اور یہ خدا تعالیٰ سے دور نہیں ہے۔
_________________
(1) مستدرك الوسائل ج 1 ص 96 ، والبحار ج 62 ص 261 عن فقه الرضا ص 46 وراجع : كنز العمال ج 10 ص 7 و 46 عن ابن ماجة عن ابن عباس ، وعن ابن ابي الدنيا وعبد الرزاق عن عمر ، وراجع البحار ج 81 ص 224 ومجمع الزوائد ج 5 ص 97 عن الطبراني ، وسنن ابن ماجة ج 1 ص 463 ، والطب النبوي لابن القيم ص 84.
(2) مستدرك الوسائل ج 3 ص 128.
(3) البحار ج 62 ص 142 عن الدعائم وص 273 عن السرائر ، ابواب الاطعمة والاشربة ، ولم ينسبه له (ص) ، وطب الصادق ص 16 عن الدعائم ، ومستدك الحاكم ، ج 1 ص 350 و 410 ، وتلخيصه للذهبي بهامش نفس الصفحة ، وكنز العمال ج 10 ص 27 عنه وعن الترمذي ، وسنن البيهقي ج 9 ص 347 ومجمع الزوائد ج 5 ص 86 عن البزار والطبراني في الاوسط ، ونوادر الاصول ص 66 ومستدرك الوسائل ج 3 ص 127 ، والطب النبوي لابن القيم ص 71 والترمذي ج 4 ص 384 ومصابيح السنة ج 2 ص 95.