مصری طب Egyptian Medicine
تعارف *
دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں مصر کی تہذیب (Egyptian Civilization) بیحد مشہور ہے جس کا سبب مصری تہذیب سے متعلق معلومات کی کثرت ہے۔ صدیوں پرانے مصری اہرام (Pyramids of Egypt) ، مقبرے (tombs) اور پرانے کھنڈرات کو کھودنے سے جوشتی تختیاں (clay tables)، بردی نوشتے (papyri) ، حنوط شدہ لاشیں (mummies) اور دیگر نوادرات (antiques) ملے میں ان سے قدیم مصری تہذیب و تمدن اور علوم و فنون پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ مصری تہذیب کے تعلق سے بعض آثار و شواہد ایسے ہیں کہ جن سے قدیم مصر میں رائج طریقہ ہائے علاج کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ جس کو تاریخ طب میں مصری
طب کے نام سے درج کیا گیا ہے۔
مصری طب کے ابتدائی نظریات
قدیم مصریوں کا نظریہ صحت و مرض : قدیم مصر، BC 6000 میں جادو اور سکر جیسے پر اسرار علوم کا بہت زور تھے۔ چنانچہ ابتداء میں مصری طب کی بنیاد بھی جادو اور سحر جیسے فرسودہ نظریات پر مشتمل نظر آتی ہے۔ زندگی اور موت سے متعلق قدیم مصریوں کا یہ عقیدہ تھا کہ زندگی لافانی ہے اور کوئی بھی جاندار خود نہیں مرتا جب تک کہ مرض یا کسی حادثہ کے سبب موت واقع نہ ہو۔ اہل مصر مرض اور کسی ناگہانی حادثہ کو بھوت، پر بیت اور بدروحوں کا سایہ سمجھتے تھے۔ ان کا یقین تھا کہ اگر بھوت پریت اور بدروحوں سے حفاظت ممکن ہو جائے تو پھر موت لاحق نہیں ہوسکتی۔
طریقہ علاج
ظاہر ہے جب مرض کا سبب شیطانی طاقت اور بدروحوں کا سایہ سمجھا جاتا تھا تو علاج بھی جھاڑ پھونک اور ٹونے ٹوٹکوں سے کیا جانا لازم تھا۔ مصریوں نے انسانی جسم کو چھتیس (36) حصوں میں تقسیم کیا تھا اور ہر حصے کی صحت کا محافظ کوئی ایک دیوتا تصور کیا جاتا تھا اور ہر حصے میں لاحق مرض کا سبب بھی کوئی شیطانی طاقت ہوا کرتی تھی۔ چنانچہ ابتدائی مصری طب میں علاج و معالجہ کے تعلق سے مختلف دیوتاؤں کا ذکر ملتا ہے۔ مرض پیدا ہونے کی صورت میں صحت کے دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی جس میں تھی۔ تمام صحت کے دیوتائوں میں سب سے زیادہ مقدس اور شفار بخش و یوتا امحو طب (Imhotep) تھا۔ (em hetep” signifies he who cometh in peace – 1 ” یعنی جو سکون بخش – ہے۔ الحوطب کے بارے میں تحقیق یہ ہے کہ وہ بھی در حقیقت ایک انسان ہی تھا اور تاؤ (Ptab) کا وزیر اعظم تھے۔ وہ بہت بڑا عالم، فاضل ، ہیئت داں ، ساحر اور طبیب تھا۔ اس کو ہر مرض کے علاج میں مہارت حاصل تھی۔ چنانچہ معالج کی حیثیت سے مصریوں کو اخو طب سے بے پناہ عقیدت ہوگئی اور انھوں نے انکو طب کو رب الشغار (Healing God) مان لیا۔ حتی کہ اگر طب کی موت کے بعد مصریوں نے اس کے بت (statue) بنائے اور علاج کے تعلق سے اس کی پرستش عام ہو گئی۔ امجو جاب کے مندر لا علاج مریضوں کا واحد مھکا نہ تھے۔ میمفس (Memphis) کے مقام پر اکو طب کے سب سے زیادہ مندر بنائے گئے ۔ احوطب کے مسلک کا اہم ترین مقام میمنٹس ہی معلوم ہوتا ہے۔
مصری طب کی ارتقاء
مصری طب کے تعلق سے جو ذرائع معلومات به شکل بردی نوشته بخشتی تختیوں اور حنوط شدہ لاشوں کے محفوظ ہیں ان کا بغور تجزیہ کرنے کے بعد ثابت ہوتا ہے کہ ابتداء میں تو مصری طب جادو، سحر اور دیگر تو ہمات پر مشتمل تھی لیکن BC 3000 سے 2000BC 3000 BC کے درمیان مصریوں نے اس فن میں حیرت انگیز ترقی کرلی۔ مصری طب کی ترقی کا مختصر جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ مصری طب کے ذرائع معلومات پر ایک نظر ڈالی جائے۔
مصری طب کے ذرائع معلومات –
مصری طب کے ذرائع معلومات میں بردگی نوشتوں (papyri) کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے ۔ مصری طب سے متعلق چند معروف اور اہم بر دی نوشتوں پر مختصر تبصرہ درج ذیل ہے۔ جارج ایبرس کا بروی نوشته (Georg Ebers’ papyrus) یہ مرد کی نوشته 1873 میں بمقام لکسر (Luxor) دریافت کیا گیا تھا۔ اِس وقت لیپزگ یونیورسٹی Leipzig) (University کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ طب قدیم کے تعلق سے یہ نوشتہ بہت زیادہ اہم اور مشہور ہے کیونکہ یہ مکمل طور پر طبی تحریروں کا مجموعہ ہے کہ تمام طبی نوشتوں میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔ یہ نہیں (20) میٹر لمبا ہے اور اس میں سترہ سو (1700) امراض اور ان کے علاج کی تفصیل ہے اس کی تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس زمانے میں یہ نوشتہ لکھا گیا تھا وہ BC 1553 سے BC 1550 کا زمانہ ہے۔ اس نوشتے میں جو کچھ بھی درج ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ مرتب (edit) کیا گیا ہے۔ اس میں مرتب کا واحد کام اپنے زمانے میں موجود و تمام طبی معلومات کو یکجا کرنا ہے، اس نوشتے سے کھری طب کے ابتدائی حالات پر بھی کچھ روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ ایک قدیم مصری بادشاہ نیو تھومس(Tulhomsis) نے جس کا زمانہ BC 6000 کا ہے، ایک کتاب علم طب پر لکھی تھی جس کے مطابق مصری طب اپنی ابتداء میں ام تسخیر اور جادوگری پر ہی مینی تھا۔ لیکن نوشتے کی بقیہ معلومات سے مصری طب کی ترقی کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ قدیم مصری علم تشریح (Anatomy) اور منافع الاعضاء (Physiology) سے بخوبی واقف تھے قلب ودماغ کو اہمیت دیتے تھے۔ قلب عضور رئیس (vital organ) سمجھا جاتا تھا اور اس کی حرکت نبض (pulse) سے معلوم کی جاتی تھی۔ قدیم مصری اعتبار کے نزدیک جسم کا اہم ترین عمل عمل تنفس (respiration) تھا وہ اس عمل کو غیر معمولی اہمیت دیتے تھے۔ دو خون کی اہمیت کو جانتے تھے ان کے نزدیک لال رنگ زندگی کی علامت تھا۔ مصری اطبار اسباب مرض میں موسموں کی تبدیلی ، سیاروں کی تبدیلی اور دیگر حیوانوں ( کیڑے مکوڑوں ) کو شمار کرتے تھے۔ جن امراض کا سبب آنکھ کے نظر نہیں آتا تھا ان میں کام چلانے کے لیے غیر مرئی کیڑے مکوڑوں کا تصور کر لیا جاتا تھا مصری اطہار نے امور تشخیص میں کافی ترقی کر لی تھی کہ انھیں امراض قلب ، معدہ اور تناسل کی اچھی پہچان تھی طحال اور جگر کی رسولیوں (tumours) کا باریک بینی سے معائنہ کرتے تھے ۔ زخموں کو انگلیوں اور وہ سے دبا کر مواد کا معائیہ بھی کیا جاتا تے مری کا نہ صرف امتحان نبض اور ملمس (palpation) سے واقف تھے بلکہ امتحان بالسمع (auscultation) بھی کیا کرتے تھے ۔ نوشتے میں ایک جگہ تحریر ہے یہاں نیچے کان سنتا ہے”۔
علاج کے تحت روحانی اور طبی دونوں طرح کی تدابیر اختیار کی جاتی تھیں، جو دوائیں استعمال کی جاتی تھیں ان میں شہد، شراب، انجیر، پیاز، لہسن، لوبان ، ایلوا اور سیسہ خاص ہیں۔ حیوانی دواؤں میں جانوروں کے اعضار (چربی ، مغز، فضلہ ، خون ) استعمال ہوتے تھے۔ معدنیات میں نمک، پھٹکری، تانبہ وغیرہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جروح اور قروح پر مرہم کا استعمال کیا جاتا تھا اور سہل کے طور پر روغن بیدانجیر (Castor oil) مستعمل تھا۔ بعض دوائیں مقعد و فروج میں بھی رکھی جاتی تھیں کہ یہ نوشتہ حفظان صحت کے تعلق سے بھی اہم ہے۔ قدیم مصر میں مردوں (dead bodies) کی تدفین کے لیے قوانین رائج تھے گھروں اور گلیوں کی صفائی کا حکم تھا۔ مناسب غذاؤں پر زور دیا جاتا تھا۔ ابال کر انی پینے کا تصور تھی جنسی تعلقات میں احتیاط لازم تھی، نومولد کی دیکھ بھال بھی کی جاتی تھی۔ کی معلومات مصر
(1) اڈون اسمتھ کا بروی نوشتہ (Edwin Smith Papyrus): یہ بردی نوشته 1700BC کا ہے اس کو ایک امریکن اڈون اسمتھ (Edwin Smith) نے 1862ء میں ایک مصری تاجر سے خریدا تھا۔ پھر اس نوشے تحقیق ہوئی اور اس میں جو کچھ درج تھا اس کے 1929ء میں دو جلدوں میں شائع کیا گیا ۔ اس نوشتے سکے مندرجات میں علم الجراحت کے تعلق سے زیادہ مواد ہے اس لیے اس کو نوم جراحت (Surgical Papyrus) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اور تاریخ طب میں اس کی اہمیت غیر معمولی ہے. یہ نوشتہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس سے علم الجراحت میں مصریوں کی مہارت کا پتہ چلتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصری جراح اہم عروق (vesseles) کی پوری معلومات رکھتے تھے اور اعضاء کی تشریح سے بخوبی واقف تھے اس نوشتے کی باضابطہ تدوین سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جراحیات کی تعلیم کے لیے وجود میں لایا گیا کھا تا کہ بعد میں آنے والے اظہار اس سے فیض حاصل کریں۔ کاهون، بروی نوشته (Kahun Papyrus): یہ بری نوشتہ تمام طبی نوشتوں میں سب سے قدیم (BC 2000-1300) تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں خصوصی طور سے طب حیوانی Veterinary) (Medicine اور امراض نسواں (Gynaecology) کا بیان ہے۔
ہرسٹ بروی نوشته (Hearst Papyrus) ، لندن بردی نوشته – London Papyrus) BC 1400، برلن بروی نوشته (Berlin Papyrus 1300 BC) اور بروگش بردی نوشته (Brugsch Papyrus- 1200 BC) بھی مصری طب کے تعلق سے اہم ہیں۔
کس کانام نوشته کا نام دامت تاریخ دریافت مقام دریافت کرنے کی جگہ محفوظ ہے دریافت والے کا نام امیری
1873 بم
لکبیر
جارج ایبرس عجائب خانه
BC
1550 ق م
اڈون اسمتھ 1700 قدم 1862 بم
لیزنگ یونیورسٹی )
حبس
اڈون اسمتھے عجائب خانہ نیو یارک
40
میوزیکہ سوسائٹی
کا ہون 22000
1889 بم
فلنڈر پیری
جائب خانہ
1800ت م
لندن یونیورسٹی
ہرست
قدم
1600ق م 1899 بم
ڈیٹر
ہرست عجائب خانہ کیلی فورنیا
اڈون اسمتھ ، بردی نوشتہ
Edwin Smith’s Papyrus or Surgical Papyrus
تعارف
اب تک کی کھوج میں تاریخ طب سے متعلق کم و بیش سات (7) بردی نوشتے ملے ہیں۔ جن میں جراحیات کے تعلق سے سب سے زیادہ مشہور اور اہم اڈون اسمتھ ، بردی نوشتہ ہے۔ یہ بردی نوشته مصری طب (Egyptian Medicine) سے تعلق رکھتا ہے جس میں ستر ہویں صدی قبل مسیح (17th cent BC ) کی طبی معلومات درج ہے ۔ 1862ء میں ایک امریکن اڈون اسمتھ نے یہ بردی نوشتہ ایک مصری تاجر سے خریدا تھا۔ اس کی دریافت کے بارے میں تحقیق یہ ہے کہ تیس (Thebes) میں ایک قبر سے یہ برآمد ہوا تھا۔ پھر اس بردی نوشتے کی افادیت اور مشمولات پر تحقیق ہوئی اور 1920 ء میں اس کو دو جلدوں میں شائع کیا گیا۔ جس کے ذریعہ دنیا نے مصری طب کے بارے میں بہت کچھ جانا۔ شکل و شباہت (physical appearance)
یه بروی نوشتہ لیٹی ہوئی حالت میں (folded form) میں پایا گیا تھا جس کا قطر (33em. (diametre تھا اور اس کو کھولنے کے بعد اس کی لمبائی .70mt . 4 نالی گئی ۔ لیکن اس کا ابتدائی کچھ حصہ ضائع ہو گیا اس لیے اندازہ ہے کہ اس کی حقیقی لمبائی smt کے قریب رہی ہوگی۔
عبارت دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں جو معلومات ہے وہ نقل کی ہوئی ہے۔ جس کا حقیقی ماخذ (original source) اہرام مصر کے زمانے سے بھی قبل کا لگتا ہے۔ قیاس ہے کہ یہ معلومات 3000BC کی ہے جو منتقل ہوتی رہی اور آخر کار بردی نوشتہ کی شکل میں محفوظ ہوگئی۔
متن (Text)
نوشتے کی انگلی دیپچھلی دونوں جانب عبارت موجود ہے جو کالم (column) اور سطور (lines) پرمشتمل ہے۔ اگلی جانب 17 کالم ہیں جس میں 377 سطریں ہیں اور پچھلی جانب 41.5 کالم ہیں جس میں 92 سطریں ہیں۔ کل ملا کر 469 سطر میں بنتی ہیں۔ پچھلی جانب کے بقیہ حصے میں فہرست مندرجات اور جادوئی منتر وغیرہ درج ہیں۔
اس بروی نوشتے میں جو معلومات درج ہیں اس میں بیشتر کا تعلق علم الجراحت سے ہے۔ اس میں بدن کی تشریح و منافع الاعضاء سے متعلق بھی بہت کچھ موجود ہیں۔ اس میں لفظ دماغ ملتا ہے اور دماغ کے پیچ وخم اور اس کی انغشیہ کی تفصیل ہے۔ دماغ کو جسم کا کنٹرولر بتایا گیا ہے۔ قلب سے نبض کا تعلق اور نبض کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ حالانکہ بیماری کے زیادہ اسباب جادو ٹونا وغیرہ میں گھرے نظر آتے ہیں کیونکہ قدیم مصر جادو اور سحر جیسے توہمات کا بڑا مرکز تھا لیکن امراض کا علاج بالخصوص بدریعہ جراحت حیرت انگیز ترقی کا پتہ دیتا ہے۔ مصر کے قدیم جراح نہ صرف بدن انسان کی تشریح سے واقف تھے بلکہ آپریشن کی تکنیک اور آلات جراحی کے استعمال پر بھی عبور رکھتے تھے۔ (clavicle)
عظم اس نوشتے میں بذریعہ جراحت مکمل طور پر درست کیے ہوئے کیس (Cases) درج ہیں جن کی ترتیب سرتا پا (head to toe) رکھی گئی ہے۔ آغا ز سر (had) اور تجمہ (shill) کے امراض سے ہوتا ہے اور پھر بالترتیب ناک (nose)، چهره (face)، کان (car) ، گرون (neck)، عظم الترقوه العهد (humerus ، صدر (chest)، شانه (shoulder) اور نخاع (spina lcord) سے تعلق معلومات درج ہیں۔ اس کے بعد عبار منقطع ہو گئی ہے۔ اور اطراف اسفل (lower extremity) کے امراض موجود نہ ہونے کے باعث تحریر نا مکمل سی لگتی ہے۔ لیکن جس ترتیب اور تفصیل کے ساتھ بیان جاری تھا اس سے لگتا ہے کہ ممکن ہے کہ اس بردی نوشتے کی دوسری جلد (second volume) بھی رہی ہو ، جو ابھی نظروں سے اوجھل ہے یا پھر کہیں ضائع ہو گئی ۔ اس بردی نوشتے میں کل ملا کر اڑتالیس (48) کیس درج ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
Head: 1-14
Skull overlying soft tissues and brain : 1-10
Nose : 11-14
Maxillary region : 15-17
Temporal region : 18-22
Ear, mandible, lips and chin: 23-27
Throat and meck (Cervical vertebrae): 28-33
Clavicle : 34-35
Humerus : 36-38 cases
Sternum, overlying soft tissues and true ribs: 39-46 cases
Shoulders: 47
Spinal column: 48
مذکورہ بالا تمام cases کو جس منظم طریقہ سے بیان کیا گیا ہے اس کی ترتیب درج ذیل ہے۔
1-Title, 2-Examination, 3-Diagnoses
4- Treatment (unless a fatal case, considerd untreatable)
5- Glossary (a little dictionary of obscure terms, if any, used in the discussion of the case)
. Title : کے تحت مرض کی تشریح کی گئی ہے جیسے “Wound on the head“۔
• Examination : کے تحت زخم کی کیفیت درج ہے جیسے۔ Gaping wound”
penetrating to the bone”
Diagnoses کے تحت زخم کی نوعیت درج ہے جیسے Lacerated or Crushed“
wound”
• Treatment کے تحت زخم کے علاج سے متعلق استادانہ بحث درج ہے۔
ہر کسی کی تشخیص کے ساتھ جراح کی طرف سے درج ذیل تین (3) باتوں میں سے ایک
(i) An ailment which I will treat.
(ii) An ailment with which I will contend.
(iii) An ailment not to be treated.
بات لکھی ہوئی ہے۔
مختصر یہ ہے کہ اڈون اسمتھ ، بروی نوشتہ طبی نقطہ نظر سے انتہائی اہم تاریخی ماخذ ہے جس سے نہ صرف قدیم مصری طب کے بارے میں معلومات ملتی ہے بلکہ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پرانے زمانے میں علم الجراحت کتنا فروغ پا گیا تھا۔ اس دور کے جراح اپنے فن میں حیرت انگیز مہارت رکھتے تھے وہ لوگ انسانی ڈسکشن میں بھی ماہر تھے اور علم تشریح اور منافع الاعصار کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔