مسلمانوں کی کچھ اجتماعی بیماریاں۔
عمومی طورپر خامیاں اس وقت خوبیوں کی شکل اختیار کرجاتی ہیں جب انہیں اجتماعی طورپر اپنالیا جائے ۔ان امراض میں سے یہ بھی ہیں کہ دوسروں سے فائدہ اٹھاتے ہیں خود کسی کو فائدہ پہنچانے پر آمادہ نہیں ہوتے/لوگوں سے خدمات لیتے ہیں لیکن حق الخدمت ادا نہیں کرتے۔خود کسی کا راز جاننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خود کسی کو اپنا تجربات میں حصہ دار بنانے سے خوف کھاتے ہیں۔۔علمی طورپر خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ دوسروں کی محنت اپنا نام دینے سے ذرا نہیں شرماتے۔مصنوعات،نئی اشیاء ترتیب دینے کے بجائے نقالی کی طرف زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔
مسلمانوں کی کچھ اجتماعی بیماریاں۔
ادھورا پن کے باجود۔اکملیت کے مدعی ہوتے ہیں۔
اپنی پروڈیکٹ پر مکمل معلومات نہیں لکھتے۔غلط بیان کرتے کرنے سے نہیں شرماتے۔دھوکہ دہی کو فنکاری شمار کرتے ہیں۔ان امراض کی موجودگی میں کوئی قوم بام عروج تک نہیں پہنچ سکتی۔ایسا نہیں کہ سب ہی ایسے بن گئے ہوں لیکن زیادہ تر لوگوں کا مزاج و نفسیات کچھ ایسا ہی بن چکا ہے۔
سب سے بڑی خامی یہ پیدا ہوچکی ہے کہ اپنی غلطی یا کمزوری تسلیم کرنے کے بجائے تاویلات اور غلط کام کو صحیح ثابت کرنے پر زور دیتے ہیں۔
تصحیح کے مواقع وہاں ملتے ہیں جہاں غلطی تسلیم کی جائے۔جب غلطیوں کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا جائے تو درستگی کی امید دم توڑ جاتی ہے۔
قومی و اجتماعی امراض کا علاج بھی اجتماعی انداز میں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں یا عمومی طورپر لوگوں میں ٹھیک ہونے کی صلاحیت موجود نہیں ہے ایسا ہر گز نہیں ہے لیکن اصلاح کی طرف میلان کم ہے۔جو اس قسم کا مزاج رکھتے ہیں ان کے لئے معاشرہ میں گنجائش کی کمی رہتی ہے۔یوں اصلاح کا پہلو دب کر رہ گیا ہے۔