مرض کے آٹھ درجات اور ان کی شناخت
تحقیقات العلامات بالمفرد اعضاء:
قران کریم انسان کی مختلف کیفیات علامات کا ذکر فرمایا ہے،جیسے چہرہ سیاہ پڑنا،سفید ہونا،(عبس،تسود وجوہ،آیات)
علامات ایسے نشانات ہیںجن سے حالت مرض یا حالت صحت کا پتہ چلتا ہے ۔یہ طبی اصطلاح میں علامات تکالیف کی اُن کیفیات کو کہتے ہیں جو مرض کے ساتھ جسم کے مختلف مقاما ت پر ظاہر ہوا کرتی ہیں، علامات اکثر امراض سمجھے جاتے ہیں۔جب اعضاء کے افعال میں اعتدال نہ ہو یعنی ان میں افراط و تفریط اور ضعف پایا جائے۔اعضاء کے افعال کی خرابیوں کو جاننے کے لئے ان علامات کو دیکھیں گے جو اُن پر دلالت کرتی ہیں ۔ یہ ِاس وقت ہوسکتا ہے کہ امراض اور ان کی علامات کو الگ الگ ذہن نشین کرلیں کہیں ایسا نہ ہو علامات کو ہی امراض کہہ دیں
۔کچھ اہم علامات جو بتدریج رونما ہوسکتی ہیں، سلسلہ وار بیان کی جارہی ہیں جیسے ہچکی ،نزلہ۔بخار
سوزش۔اورام
وغیرہ علامات جس مفرد عضو سے تعلق رکھتی ہیں اسی طرف منسوب ہونگی تنہا علامات کو امراض کا نام نہیں دیا جاسکتا۔بہت سی علامات ہیں جو درجہ میں کم و بیش ہوتی ہیں درج ذیل ہیں (1)سوزش (2)ورم (3) بخار(4) ضعف(5) تحذیر (6) استرخاء(7)تشنج(8)اختلاج
وغیرہ۔؎
قران کریم نے مختلف حوالوں سے انسانی جسم کی کیفیات بیان فرمائی ہیں،،جیسے چہرہ جھلسنا۔کالا پڑنا،قطران سے چہرہ سوجھ جانا وغیرہ۔
سوزش: ایسی جلن ہے جو کیفیاتی و نفسیاتی اور مادی تحریکات سے جسم کے کسی مفرد عضو میںپیدا ہو جاتی ہے۔سوزش میں حرارت کی پیدائش اور سرخی اور درد لازم ہے، تحریک سے سوزش تک کئی منزلیں پائی جاتی ہیں جیسے حبس قبض لذت،بے چینی، خارش ، جوش خون وغیر ہ ان علامات میں سے کسی پر طبیعت مدبرہ رک جاتی ہے تو اس کو اس عضو کی علامت مرض کہا جاتا ہے ۔
ورم:ورم کی علامت سوزش کے بعد پیدا ہوتی ہے اس میں سوزش کی علامات کے ساتھ ساتھ سوجن بھی ہوتی ہے، جب سوجن زیادہ ہوجائے یا شدت اختیار کرلے تو حرارت بخار میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔جسم کے پھوڑے پھنسیاں اور دانے بھی اورام میں شریک ہیں ۔
بخار:بخار ایسی غیر معمولی حرارت ہے جس کو حرارت غریبہ(بیرونی)بھی کہتے ہیں جو خون کے ذریعہ قلب سے تمام بدن میں پھیل جاتی ہے جس سے بدن کے اعضا میں تحلیل اور ان کے افعال میں نقص واقع ہوتا ہے۔غصہ اور تھکان کی معمولی گرمی بیمار کی حد سے باہر ہوتی ہے، کوئی غیر تبدیلی بدن انسان میں لاحق ہوتی ہے۔اسے عربی میں حمی فارسی میں تپ کہتے ہیں۔
ضعف :جسم کی ایسی حالت کا نام ہے جس میں گرمی کی زیادتی سے کسی مفرد عضو میں تحلیل پیدا ہواجائے۔ضعف کے مقابلہ میںطاقت کا تصور کیاجاتاہے۔
تحذیر:کسی مفرد عضو کا سن ہوجانا اس علامت میں احساسات اعضاء کے ختم ہوجا تے ہیں، تسکین و تبرید اسی شامل ہیں ۔تحذیر کی صورت میں جسم میں بلغم ’’ رطوبت‘‘ کی زیادتی سے پیدا ہوتی ہے ۔
استرخاء:کسی مفرد عضو کا ڈھیلا ہوجانا۔استرخاء تحلیل میں واقع ہوتا ہے ،لقوہ ، فالج اس میں شریک ہیں،تحلیل تینوں مفرد اعضاء میں ہوسکتی ہے اس لئے استرخاء صرف عصبی مرض نہیں ہے، یہ تو عضلات و غدد میں بھی ہوسکتا ہے، اس لئے لقوہ دیگر کسی عضو کے استرخاء کے ساتھ عرضا اور طولاََ(کبھی دائیں بائیں)استرخاء ہوجاتا ہے جس کو فالج کہتے ہیں
تشنج:کسی مفرد عضو کا ایک طرف یا دونوں طرف سکڑ جانا اس کی وجہ حرارت و رطوبت کا ختم ہوجانا اور سردی و خشکی کا بڑھ جانا ہے کبھی ریاح کبھی سوزش اور شدت برودت سے یہ حالت ہوتی ہے یہ عصبی نسیج کے علاوہ عضلاتی و غدی انسجہ میں بھی پیدا ہوسکتا ہے۔
اختلاج:کسی مفرد عضو کا پھڑکا ۔کسی مواد یا ریاح یا سوزش سے اس عضو کے فعل میںتیزی آجاتی ہے بعض دفعہ معمولی اعضاء پھڑکنے سے بڑی بیماریاں ہوجاتی ہیں ۔
خون آنا۔جسم کے کسی مخرج آنکھ ،ناک،منہ،ناک کان منہ مقعد اور احلیل سے خون خارج ہو یاکسی پھوڑے پھنسی یا ورم سے خون دفعتہ یا رفتہ رفتہ آئے اس کی وجہ عضلاتی انسجہ میں تحریک ہوتی ہے، اس کی دو صورتیں ہوتی ہیںاگر معدہ سے اوپر کی طر ف سر تک کسی مخرج سے خارج ہوتو یہ عضلاتی اعصابی (سردی خشکی)ہوتی ہے اور جگر سے لیکر پاؤں تک اگر کسی مخرج یا مجری سے خارج ہو یہ عضلاتی غدی تحریک ہوتی ہے
رطوبات کا گرنا:رطوبات یا رطوبتی مواد یا بلغم کا اخراج پانا۔جسم کے کسی حصہ سے رطوبات اخراج پارہی ہوںتو وہاں خون کا اخراج نہیں ہوسکتا، جب خون اخراج پارہاہو تو رطوبات کا اخراج بندہوگا گویا دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں،علاج میں ان دونوں صورتوں کا سمجھنا لازم ہے،جسم کے کسی حصے یا مخرج و مجری میں کسی قسم کی بو کا ہونامثلاَ ناک ۔ منہ ،بغل ،کنج ران یا کسی مادہ کے اخراج کے ساتھ اس کی زیادتی کا احساس ہوتو یہ اس جگہ رطوبات کے رکنے اور متعفن ہونے سے ہوا کرتا ہے۔رطوبات کا رکنا تسکین کی وجہ سے ہوتا ہے ۔
شقاق:کسی جگہ کا پھٹنا۔یہ انتہائی خشکی سردی کی علامت ہے اور عضلاتی اعصابی تحریک۔ ہر قسم کی خشکی سردی اس کے تحت شامل ہوتی ہے۔
تعظیم الاعضاء:کسی عضو کا اپنے جسم میں بڑا ہوجانا مثلاََ دماغ دل یا جگر و طحال میں سے کسی کا اپنے حجم سے بڑھ جانا۔معدہ و جوڑوں کا بڑھ جانا یہ سب رطوبات کی زیادتی سے ہوتاہے اور تسکین اعضاء کی علامت ہے ،کبھی ریاح سے بھی پیٹ پھول جاتا ہے لیکن یہ عارضی ہوتا ہے کیونکہ ہوا کے اخراج کے ساتھ ہی پیٹ اپنی اصلی حالت پر واپس آجاتا ہے ، یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ ریاح سے پیٹ سکڑتا ہے پھیلتا نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس میںیا کسی بھی عضو میں درد ہوتا ہے مگر تعظم نہیں ہوتا۔یاد رکھئے عضو کا علاج تحریک سے کرنا چاہئے تحلیل سے ہرگز نہ کریں۔
تصغیر الاعضاء:یہ عظم الاعضاء کے برعکس کسی عضو کا اپنے حجم سے کم یا چھوٹا ہوجانا تصغر اس جگہ پر ریاح کی پیدائش اور سوز ش سے ہوتا ہے یہ کسی عضو کی تحریک ہے اس کا علاج وہاں پر رطوبات پیدا کرنا نہیں بلکہ تحلیل کرنا ہے تاکہ اس جگہ سے ریاح خارج ہوجائیں اور سوزش ختم ہوجائے ۔
سدہ پید ہونا:اسی طرح کسی مخرج یا مجری میں سدہ پیدا ہوجانا خشکی سردی کی علامت ہے جس کی عضلاتی اعصابی تحریک ہوتی ہے خشکی سردی مواد کو سدہ میںتبدیل کردیتی ہے۔
استسقاء:جسم کے کسی خلا میں پانی پڑجانا اس کا تعلق صرف پیٹ ہی سے نہیں بلکہ دل و دماغ سینہ پیٹ ہر خلاء میں پانی بھر سکتا ہے بلکہ جگر طحال کے پردوں کے خلاؤں میں بھی یہ رطوبات بھر جاتی ہیں، اسی طرح خصیتین میں بھی پانی بھر جاتا ہے جو لوگ اسے رطوبات دمویہ خیال کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیںکیونکہ یہ اس عضو کی رطوبت ہے جو تحلیل ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ جب کسی انسان میں استسقاء پیدا ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے اس کی زندگی بہت مشکل ہے اس کی تین قسمیں ہیں زقی۔طبلی۔خمی۔