عیدیں اپنوں کے ساتھ اور اپنوں کے بغیر۔
از ۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
انسانی نفسیات اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ اسے کچھ فرصت کے لمحات میسر آئیں۔جو زندگی کے جھمیلوں کے کچھ الگ ہوں۔یہ خؤاہش اس قدر طاقتور و توانا ہے کہ اس کا لحاظ ادیان ومذاہب نے بھی کیا ہے۔لیکن ہر مذہن نے اپنے متعبین کے لئے کچھ حدود و قیود مقرر کردیں ہیں۔
اسلام ایک بہت بڑا دین ہے جسے دنیا کے بہت بڑی آبادی تسلیم کرتی ہے۔اہل اسلام کو بھی صاحب شریعت کی طرف سے دو مواقع ایسے فراہم کئے گئے ہیں کہ انہیں خوشی کا تہوار قرار دیا جائے۔خؤشی کے لمحات میں اپنے کی یکجائی خوش کا سبب بنتی ہے۔اور اپنوں کی جدائی اداسی کا سبب بنتی ہے۔مذہب کا خاصہ کے کہ یہ جب تقسیم کرتا ہے تو سب کو دیتا ہے،امیر کو بھی غریب کو بھی ،یہ الگ بات ہے کہ اہل مذہب نے اپنے طورپریقے اس انداز کے بنالئے ہیں جنہاں یہ طبقاتی سوچ ابھی تک موجود ہے کہ امراء امراء کو مبارک دیں عوام عوام کو گلے لگائیں۔لیکن عید کی نماز دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر ادا کریں گے۔
کھانے پینے زیب و زینت ہر کوئی بساط بھر کرتا ہے۔اور اس بنائو سنوار میں وہ خؤشی محسوس کرتا ہے۔مذہب اور خوشی یہ کسی کی ملکیت نہیں ہوتے۔البتہ احساس کمتری کے شکار لوگوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا ۔
جو میسر ہے اسے محسوس کریں کیونکہ وہ بھی تو ہیں جن کے پاس یہ بھی نہیں ہے۔جس کی وجہ سے تم احساس کمتری کا شکار ہو ان سے پوچھ کر دیکھو کیا وہ خوش ہیں؟
التبہ اہل اسلام کے لئے مظلوم فلسطینیوں کا بہتا ہوا لہو ضرورسوچنے پر مجبور کررہا ہوگا کہ ان کے بغیر خوش کا یہ تصوریقینا ادھورا ہے۔کیونکہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا مسلمان مسلمان کے لئے ایک جسم کی مانند ہوتا ہے۔ایک جسم کا ایک عضو دکھ کا شکار ہوتا ہے تو تڑپنا پورے وجود کو پڑتا ہے۔۔لیکن اس یکجائی میں بہت سا فرق آگیا ہے۔
ایسی بات نہیں ہے کہ اہل غذہ ہی پریشان ہیں۔یہ تو ایک سیلاب ہے جو اہل غزہ کے بعد ان گھروں تک بھی پہنچے گا جو اس وقت اپنے کو محفوظ سمجھتے ہیں۔یہ بھی کہیں ہوتا ہے کہ گھر میں آگ لگی ہو ایک کونے میں کونے میں کھڑا ہو شخس کہے کہ جس کونے میں میں نے پنا لی ہے اس وقت آگ کی لپیٹ سے محفوظ ہے۔لیکنجہاں لھی ہوئی ہے جب اسے جلا کر خاکستر کرلیگے تو جو بچاہے اس کی طرف لپکے گی۔۔۔آج اہل غزہ تو کل کوئی دوسرا۔
خوش اس بات کہ عید اپنوں میں ۔دکھ اس بات کا کہ یہ خوش ادھوری ہے۔کچھ بچھڑنے والوں کی وجہ سے ۔کچھ تڑپنے والوں کی وجہ سے ۔کچھ معاشرتی مفاد پرستی کی وجہ سے۔۔۔
ہاں آج سعد یونس مرحوم بہت یاد آرہا ہے۔اللہ اسے غریق رحمت کرے۔آج نماز تہجد میں تو اندر چھپا ہوا بچہ بلکنے لگا۔کہیں برسوں پہلے بچھڑ نے والےوالدین یاد آئے کہیں بچپن کی خؤشیاں بھری بہن بھائی کے ساتھ گزری ہوئی عیدیں آںکھوں سامنے آئیں۔کہیں دو چار روپے ملنے پر خوش کی جو لہر جسم میں دوڑا کرتی تھی ۔محسوس ہوئی۔کہیں سعد اور والد محترم اور بھائی عباس کے ساتھ عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے محسوس کیا۔۔اللہ یاد آنے والوں کو غریق رحمت فرمائے۔آمین۔
بہر حال یہ تو زندگی کے اجزاء ہیں۔جن کے بغیر چارہ کار نہیں۔البتہ جو موجود و میسر ہے اس کے لئے مبارک بار