مسلمانوں کے ہر طبقہ اور پیشہ میں علم و علماء
مورخ اسلام۔حضرت مولانا قاضی اطہر صاحب مبارک پوری۔ؒ
حضرت مولانا قاضی اطہر صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ ، عصر حاضر کے معدودے چند دیدہ ور، صاحب نظر محقق مؤرخین اور اہل قلم کی صف اول کے سرخیل تھے۔ قاضی صاحب کی نوک قلم سے نکلی ہوئی ہر تحریر نے ارباب علم سے خوب خوب داد وتحسین وصول کیا اور ملک کے مستند اور قابل اعتبار
تحقیقاتی اور نشریاتی اداروں نے بڑے فخر کے ساتھ اسے شائع کیا۔ زیر نظر کتاب ” مسلمانوں کے ہر طبقہ اور ہر پیشہ میں علم و علماء ” حضرت قاضی صاحب کی چند معرکۃ الآراء تصانیف میں سے ایک ہے اور موضوع کی ندرت، جامعیت، ترتیب مواد اور استنادی پہلوؤں کی روسے، دنیائے اردو میں منفرد اور پہلی باضابطہ تصنیف ہے۔ دراصل یہ ایک مقالہ تھا؛ جو قاضی صاحب نے ۱۹۵۵ء میں، جمعیتہ علمائے ہند کی دعوت پر انجمن خدام النبی بمبئی کی زیرنگرانی منعقدہ آل ان یاد بنی تعلیمی کنونشن ” کے موقع پر سپرد ” قلم کیا اور مجلہ البلاغ بمبئی کے تعلیم تعلیمی نمبر میں شامل اشاعت کیا گیا۔ ابلاغ کے اس شان دار علمی نمبر کو علمی حلقوں میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ بالخصوص مذکورہ بالا مضمون کو بڑی قدر و منزلت اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور پڑھا گیا۔ ملک کے اساطین علم و قلم نے ، اس کی بابت اپنے گراں قدر تاثرات کا اظہار کیا ، بیش قیمت تبصرے لکھے اور اپنی تحریروں میں اسے خوب خوب سراہا۔ نیز اس اہم اور علمی مقالے میں اضافے اور اس کی تکمیل کے مشورے دیے ، بعض بزرگ
شخصیات اور موقر اداروں نے اس پر
اصرار بھی کیا۔ اس کی جامعیت کے پیش نظر ، ملک و بیرون ملک کے بے شمار ار دور سائل نے اسے اپنی اشاعتوں میں شریک کیا۔
مضمون کی اس مقبولیت اور پسندیدگی کے سبب حضرت قاضی صاحب نے ، عربی مآخذ کی امہات کتب کی مدد سے، اس کی تخیل اور موجودہ انگلی کے ازالے کی ٹھان لی اور اپنی بے پناہ علمی و تصنیفی مصروفیات کے باد صف، اسے ہر پہلو سے جامع اور کامل و عسل فرما دیا او بر اب یہ کتاب اس موضوع پر آئندہ کام کرنے والے مؤلفین اور ریسرچ اسکالرس کے لیے نہایت معتبر دستند ماخذ او شعل راہ بن گئی ہے۔ یہ کتاب منہ صرف یہ کہ ایک بصیرت افروز، چشم کشا اور فکر انگیز تحریر ہے؛ بلکہ بقول حضرت مولانا مفتی عقیق الرحمن صاحب عثمانی یہ مقالہ اس لائق ہے کہ صنعت و حرفت کی انقلاب انگیز توسیع و ترقی کے اس دور میں، مختلف جدید اور ترقی یافتہ زبانوں میں اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو۔ ساتھ ہی ساتھ ہمارے علماء کو بھی اس کا بار بار مطالعہ
کرنا چاہیے ، جو علمی مشیخیت میں گم ہو کر اور زندگی کے عملی میدان سے بے و تعلق ہو کر بیٹھ گئے ہیں ۔ ( از مقدمہ کتاب)
حضرت قاضی صاحب کا، زندگی کے آخری دور میں احقر کے قاضی صاحب نے نیاز مندانہ و تلمیذ انہ تعلق کے سبب ” شیخ الہند اکیڈمی“ کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عرصے میں حضرت کی متعدد کتابوں کی اشاعت کا اکیڈمی کو شرف حاصل رہا۔
اکیڈمی کے روایتی اعلی معیار طباعت واشاعت کے باعث حضرت قاضی صاحب نے کتاب ہذا کا مسودہ ، اکیڈمی کو عنایت کیے جانے کی درخواست منظور فرمالی۔ مگر افسوس کہ جب مسودہ کتاب اکیڈمی کو موصول ہوا، تو حضرت قاضی صاحب عالم آخرت کو سدھار گئے تھے۔