عرفہ کے دن کے فضائل
أفضلُ الدعاءِ دعاءُ يومِ عرفةَ ، وأفضلُ ما قلتُ أنا والنبيون مِنْ قبلي : لا إلهَ إلا اللهُ وحدَه لا شريكَ له
صحيح الترمذي۔۔الصفحة أو الرقم: 3585 | خلاصة حكم المحدث : حسن
۔۔ حضرتِ طلحہ بن عبیداللہ بن کزید رضی اللہ عنہ سےروایت کرتے ہیں۔ کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سب سے افضل دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے۔ اور سب سے افضل جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام نے کہا ’’لا إلٰہ إلّا اللہ وحدہُ لاشریک لہ‘‘ ہے۔
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
یوم عرفہ کے فضائل میں سے کچھ یہ ہيں :
1 – اس دن دین اسلام کی تکمیل اورنعتموں کا اتمام ہوا
صحیحین میں عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے حدیث مروی ہے کہ ایک یھودی نے عمربن خطاب سے کہا اے امیر المومنین تم ایک آيت قرآن مجید میں پڑھتے ہو اگروہ آيت ہم یھودیوں پرنازل ہوتی توہم اس دن کو عید کا دن بناتے عمررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے وہ کون سی آیت ہے ؟
اس نے کہا : اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا المائدة :3 .
آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کوکامل کردیا اورتم پراپناانعام بھر پور کردیا اورتمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پررضامند ہوگیا ۔
توعمررضي اللہ تعالی عنہ فرمانے لگے :
ہمیں اس دن اورجگہ کا بھی علم ہے ، جب یہ آيت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئ وہ جمعہ کا دن تھا اورنبی صلی اللہ علیہ عرفہ میں تھے ۔
2 – عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لیے عید کا دن ہے :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یوم عرفہ اوریوم النحر اورایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید کےدن ہیں اوریہ سب کھانے پینے کے دن ہیں ۔
اسے اصحاب السنن نے روایت کیا ہے ۔
اورعمربن الخطاب رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا :
یہ آيت اليوم اکملت جمعہ اورعرفہ والے دن نازل ہوئ ، اوریہ دونوں ہمارے لیے عید کے دن ہیں ۔
3 – یہ ایسا دن ہے جس کی اللہ تعالی نے قسم اٹھائ ہے :
اورعظیم الشان اورمرتبہ والی ذات قسم بھی عظیم الشان والی چيز کے ساتھ اٹھاتی ہے ، اوریہی وہ یوم المشہود ہے جو اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کہا ہے :
وشاهد ومشهود البروج ( 3 ) حاضرہونے والے اورحاضرکیے گۓ کی قسم ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :
( یوم موعود قیامت کا دن اوریوم مشہود عرفہ کا دن اورشاھد جمعہ کا دن ہے ) اسے امام ترمذي نے روایت کیا اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے حسن قرار دیا ہے ۔
اوریہی دن الوتر بھی ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں قسم اٹھائ ہے والشفع والوتر اورجفت اورطاق کی قسم ۔ الفجر ( 3 )
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں الشفع عیدالاضحی اورالوتر یوم عرفہ ہے ، عکرمہ اورضحاک رحمہ اللہ تعالی کا قول بھی یہی ہے ۔
4 – اس دن کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے :
قتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے روزہ کےبارہ میں فرمایا :
( یہ گزرے ہوۓ اورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے ) صحیح مسلم ۔
یہ روزہ حاجی کے لیے رکھنا مستحب نہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ررزہ ترک کیا تھا ، اوریہ بھی مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کا میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ، لھذا حاجی کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے ۔
5 – یہ وہی دن ہے جس میں اللہ تعالی نے اولاد آدم سے عھد میثاق لیاتھا :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( بلاشبہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی ذریت سے عرفہ میں میثاق لیا اورآدم علیہ السلام کی پشت سے ساری ذریت نکال کرذروں کی مانند اپنے سامنے پھیلا دی اوران سے آمنے سامنے بات کرتے ہوۓ فرمایا :
کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیون نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں ، تا کہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ تم تو اس محض بے خـبر تھے ، یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک توہمارے بڑوں نے کیا اورہم توان کے بعد ان کی نسل میں ہوۓ ، توکیا ان غلط راہ والوں کے فعل پرتو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا ؟ الاعراف ( 172- 173 ) مسند احمد ، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔ تواس طرح کتنا ہی عظیم دن اورکتنا ہی عظیم عھدو میثاق ہے ۔
یہ بھی پڑھیں
خطباتِ حجۃ الوداع … تاریخی دستاویز اور ’حقوقِ انسانی کے چارٹر
6 – اس دن میدان عرفات میں وقوف کرنےوالوں کوگناہوں کی بخشش اور آگ سے آزادی ملتی ہے :
صحیح مسلم میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا حديث مروی ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اللہ تعالی یوم عرفہ سے زیادہ کسی اوردن میں اپنے بندوں کوآگ سے آزادی نہیں دیتا ، اوربلاشبہ اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا اورپھرفرشتوں کےسامنے ان سے فخرکرکے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ )
عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اللہ تعالی یوم عرفہ کی شام فرشتوں سے میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں کےساتھ فخرکرتے ہوۓ کہتے ہیں میرے ان بندوں کودیکھو میرے پاس گردوغبار سے اٹے ہوۓ آۓ ہیں ) مسند احمد علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔
(۱) یوم عرفہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے
کہ جبریل علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام کو تمام مناسک سکھلائے، پھر کہا أعرفت في أي موضع تطوف ، وفي أي موضع تسعی، وفي أي موضع تقف ، وفي أي موضع تنحر وترمي (کیا آپ جان گئے کہ کس جگہ طواف کریں گے، کس جگہ سعی کریں گے، کس جگہ وقوف کریں گے، کس جگہ نحر اور رمی کریں گے فقال: عرفت (تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے جان لیا) تو اس کی وجہ سے اس کو یوم عرفہ کہا گیا (البنایة: ۴/۲۱۱، ط: أشرفیہ دیوبند) ۔
یہ بھی پڑھیں
ہم قربانی کے ثمرات سے کیوں محروم رہتے ہیں؟ اورہم قربانی کیوں کرتے ہیں؟
(۲) یوم عرفہ کو روزہ رکھنا مستحب اور ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کی معافی کا وعدہ ہے۔ المندوب کأیام البیض من کل شہر، ویوم الجمعة ولو منفرداً، وعرفة ولو لحاج لم یضعفہ (الدر المختار: ۳/۳۳۶، ط: زکریا دیوبند) قال النبی – صلی اللہ علیہ وسلم- صیام عرفة أحتسب علی اللہ أن یکفر السنة التي قبلہ والسنة التی بعدہ (مسلم شریف: ۱/۳۶۷) ۔
(۳) اپنے ملک کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ ہذا إذا کانت المسافة قریبة لا تختلف فیہا المطالع، فأما إذا کانت بعیدة فلا یلزمہ أحد البلدین حکم الآخرین، لأمن مطالع البلاد عند المسافة الفاحشة تختلف ، فیعتبر في أہل کل بلد مطالع بلدہم دون البلد الآخر (بدائع الصنائع: ۲/۲۲۴-۲۲۵، ط: زکریا دیوبند) ۔
(۴) آدمی جہاں موجود ہے وہیں کی نو (۹) تاریخ کااعتبار کیا جائے گا، دوسری جگہ کی تاریخ کا اعتبار نہیں ہے۔ لکل أہلد بلد روٴیتہم (ترمذی شریف: ۱/۱۴۸) ۔
(۵) یوم عرفہ کے روزہ کے لئے سبب نو (۹) ذی الحجہ ہے اس لئے کہ حدیث میں یوم عرفہ آیا ہے اور یوم عرفہ نو (۹) ذی الحجہ کو ہوتا ہے۔
(۶) پاکستان میں نو (۹) ذی الحجہ ہو اور پاکستان کا کوئی آدمی روزہ رکھے اور دوسرے کسی اسلامی ملک میں عید کا دن ہو تو اس کو عید کے دن روزہ رکھنے سے تعبیر کرنا در ست نہیں ہے۔