طب پانچویں ہجری سے گیارہویں صدی ہجری تک
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
پانچویں صدی ہجری/گیارھویں صدی عیسوی کا ایک ممتاز مسلمان طبیب ابو ریحان البیرونی ہے۔جس کا انتقال 1048ء میں ہوا ۔اس کی شہرت تو ایک ماہر فلکیات، ریاضی دان، ماہر طبعیات، جغرافیہ دان اور مورخ کے طور پر ہے، لیکن وہ ایک طبیب اور ماہر خواص الادویہ بھی تھا ۔طب پر اس کی مشہور کتاب کا نام “صید لیہ ” یعنی دوا سازی pharmacy ہے۔اس کتاب کا انگریزی اور اردو ترجمہ فضل الدین قریشی نے پنجاب یونیورسٹی، لاہور کی سرپرستی میں کیا۔
چھٹی صدی ہجری /بارھویں صدی عیسوی میں ہم ایک ماہر طبیب کے طور پر ایران کے امام فخر الدین رازی(م 1209ء) کو دیکھتے ہیں ۔وہ جامع العلوم تھے۔تفسیر،کلام،حکمت اور فلسفہ،منطقی علوم وادب،تاریخ ،ہندسہ،اور طلسمات پر کتابیں لکھیں ۔طب پر ان کی سات کتابیں ہیں، ابن سینا کے بعض فلسفیانہ پر کڑی تنقید کی ہے لیکن اس کی القانون کے بہت سے مشکل مقامات کی شرح بھی لکھی ۔امام رازی پر ایک پوسٹ پہلے کر چکی ہوں ۔ میری ٹائم لائن پر موجود ہے ۔
مصر کی طرح اسپین میں مسلمان اطبا اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑ چکے تھے ۔اسپین میں اسلامی طب خاندان ابن زہر(لاطینی میں Avenzoar) کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکتا، دو نسلوں میں اس خاندان میں کئ ماہر طبیب پیدا ہوئے ۔اسی خاندان کا ایک مشہور طبیب ابو مروان عبد الملک(م1161) ہے،اشبیلیہ میں فوت ہوا، کئ طبی کتب کا مولف تاہم اس کی کتاب “التیسیر فی المداواتہ والتدبیر” سب سے زیادہ مشہور ہوئ ۔وہ علم الامراض میں اسپین کا بہت بڑا نام ہے ۔
اسپین کے طبیبوں میں ابن طفیل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑا فلاسفر تھا ۔۔۔قرون وسطی کے زیادہ تر طبیب اعلی پائے کے فلسفی بھی تھے ۔۔۔مجھے نہیں معلوم فلسفہ ان کے طبی تجربات میں کہاں تک ان کی مدد کرتا ہو گا، مگر ایسا تھا ۔ فلسفہ میں ابن طفیل کا جانشین ابن رشد تھا۔
ابن رشد کی شہرت بہ حیثیت فلسفی کے ہے، لیکن وہ ماہر طبیب بھی تھا، طب اس نے اپنے دوست ابن زہر سے سیکھا تھا ۔ابن رشد 1126ء میں قرطبہ میں پیدا ہوا، طب میں اس کی 16کتابوں کا پتا چلتا ہے ،جس میں سب سے زیادہ مشہور “الکلیات فی الطب ” ہے۔جس کا ترجمہ لاطینی زبان میں ایک یہودی عالم نے Colliget کے نام سے کیا ۔
ابن رشد کا ہمعصر عبداللطیف تھا،جس نے علم طب کے حصول کے لئے بغداد اور مصر کا سفر کیا ۔اس نے قدیم قاہرہ کے ایک قدیم قبرستان سے انسانی ہڈیاں حاصل کر کے اپنی تحقیق پیش کی ۔جالینوس نے زیریں جبڑے lower jaw اور مقعد کی ہڈیوں کے بارے میں جو لکھا تھا، عبداللطیف نے اس کی تصحیح کی۔
انسانی ہڈیوں کا حصول قدیم قاہرہ میں کس طرح ممکن ہوا، یہ ہم نے حالیہ دورہ مصر میں خود مشاہدہ کیا ہے ۔وہاں مردوں کو دفن کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہر خاندان کا ایک یا دو کمروں پر مشتمل ایک خاندانی قبرستان ہوتا ہے ۔خاندان کا کوئی شخص انتقال کرتا ہے تو اسے کفن پہنا کر اس کمرے میں رکھ دیتے ہیں ۔۔۔جیسے جیسے لوگ مرتے جاتے ہیں، ایک کے بعد ایک مردے کو لٹاتے جاتے ہیں ۔جو مردے گل کر محض ہڈیاں رہ جاتے ہیں ان ہڈیوں کو ایک طرف سمیٹ کر مزید جگہ بنا لیتے ہیں ۔ لہذا کسی بھی افتادہ مدفن سے انسانی ہڈیاں حاصل کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔
ساتویں صدی ہجری/تیرھویں صدی عیسوی سیاسی طور پر پر اشوب تھی۔منگولوں کے حملوں کی وجہ سے بہت سے مدرسے، اور شفاخانے تباہ ہو گئے، علمی مراکز کی سرگرمیوں پر بھی شدید اثر پڑا اس کے باوجود ابن قفطی۔۔۔ابن ابی اصیبعہ ۔۔۔ابن خلکان۔۔۔وغیرہ اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں ۔
ابن ابی اصیبعہ 1203ء میں دمشق میں پیدا ہوا، وہ ابن بیطار کا شاگرد تھا، طب کی تعلیم اس نے مصر کے شفا خانہ ناصری سے حاصل کی، اس کی زندگی کا بیشتر حصہ مصر ہی میں گزرا ۔اس نے اپنی کتاب “طبقات الاطباء” میں 600سے زائد اطباء کے احوال اور تصانیف کے بارے میں لکھا ہے ۔اس کا ماخذ ایک تو وہ کتابیں ہیں جو اب معدوم ہو چکی ہیں اور دوسری وہ سینکڑوں طبی کتب جن سے مصنف پوری طرح باخبر تھا۔اس کا انتقال 1270ء میں ہوا
ساتویں صدی ہجری/تیرھویں صدی عیسوی میں طب کے حوالےسے ایک اور ممتاز نام ابن النفیس کا ہے۔وہ 607ھج/ 1210ء کے لگ بھگ دمشق میں پیدا ہوا، وہیں بیمارستان نوری میں طب کی تعلیم حاصل کی، اس ہسپتال کی بنیاد نور الدین زنگی نے رکھی تھی ۔ابن النفیس محض طبیب ہی نہیں بلکہ فقہ شافعی کا مستند عالم،اصول فقہ، منطق اور صرف و نحو کا بھی ماہر تھا ۔وہ اپنی طبی صلاحیتوں کو نکھارنے لے لئے قاہرہ چلا گیا جو عملی اور نظری طب کے اعلی مرکز کے طور پر خود کو صدیوں سے منوا چکا تھا ۔مصر میں ابن النفیس کو “رئیس الاطباء “کا خطاب دیا گیا،وہ وہاں بیمارستان ناصری سے وابسطہ ہوا اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ طب کی تعلیم بھی دیتا رہا۔اس کی سب سے بڑی طبی تصنیف ” الشامل فی الطب” ہے،جو مکمل نہیں ہو سکی اور اس کا ایک ضخیم مخطوطہ دمشق میں محفوظ ہے ۔
امراض چشم کے حوالےسے بھی ابن النفیس کی ایک قابل ذکر تصنیف ویٹیکن میں محفوظ ہے ۔ابن النفیس کی عظمت پچھلی صدی میں ظاہر ہوئی، ایک نوجوان عرب طبیب امین اسعد خیر اللہ نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ ابن النفیس نے اپنی شرح “تشریح ابن سینا” میں ابن سینا اور جالینوس سے اختلاف کرتے ہوئے پھیپھڑوں میں دوران خون Pulmonary circulation کا جو نظریہ دیا وہ اس کے مغربی دریافت کنندگان Michael servetus( م 1556)اور Realdo Colombo (م 1559) سے اندازا تین سو سال قبل تقریبا صحیح طور پر ابن النفیس بیان کر چکا تھا ۔مغربی دنیا کو اس نظریے کا علم اس لئے نہیں ہو سکا کہ ابن النفیس کی اس شرح کے تراجم نہ ہو سکے۔لاطینی میں صرف ایک ترجمہ ہوا تھا جو بہت ناقص تھا ۔
اس صدی کا ایک اور اہم نام ابن قفطی کا ہے۔اس کا انتقال دمشق میں 646ھج/ 1248ء میں ہوا، اس کی کتاب “تاریخ الفلاسفہ ” میں 414 یونانی، شامی اطبا، ہیئت دانوں اور فلسفیوں کی سوانح عمریاں شامل ہیں، جو طبی معلومات کا بھی ذخیرہ ہے ۔
چودھویں صدی عیسوی میں(جسے طب اور سائنسی علوم کے حوالے سے مسلمانوں کے آغاز زوال کی صدی کہا جاتا ہے ) مسلم اطباء کی طرف سے طاعون plague کو ایک متعدی مرض contiguous قرار دیا گیا، یہ اس صدی کا بہت بڑا طبی کارنامہ تھا ۔1348ء میں مسلم اسپین کے علاقے المیریا میں طاعون کی زبردست وبا پھوٹ پڑی، جس نے اس خوبصورت شہر کو ویران کر دیا ۔اب تک مسیحی علما اور اطبا اسے عذاب الہی سمجھتے تھے، اس موقع پر متعدد تجربات کے بعد مشہور عرب مورخ ،مدبر، اور طبیب ابن خطیب غرناطی (م 1374ء) نے اپنے رسالے ” المقنعہ السائل عن المرض الھائل ” میں اس کو متعدی مرض قرار دیا ۔ گویا خورد بین کی ایجاد سے پہلے اس نے جراثیم کے بارے میں خبر دی۔