طب نبوی: تجزیہ اور تفہیم
- محمد رضی الاسلام ندوی
طب نبوی: سائنسی تجز یہ اور تفہیم کے مرکزی عنوان پر بین الاقوامی کانفرنس منعقدہ محمد یہ کالج مالیگاؤں مہاراشٹر ) ۱۱-۱۲/ دسمبر ۲۰۲۳ء میں راقم سطور کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا۔ اس میں پیش کردہ کلیدی خطبہ ذیل میں درج کیا جا رہا ہے۔
(مدیر)
خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ام انبیا ء کرام کے اس سلسلتہ الذہب کی آخری کڑی ہیں، جسے دنیا میں تبلیغ رسالت کے لیے مبعوث کیا گیا تھا۔ آپ نے اللہ کے بندوں تک اس کا پیغام پہنچایا ، انہیں راہ حق کی طرف رہ نمائی کی، کفر و شرک کی گم راہیوں سے روکا اور ان کا تزکیہ کیا۔ ساتھ ہی آپ نے انہیں صحیح طریقے سے زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا۔ آپ نے بتایا کہ صحت انسانی زندگی کے لیے اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے، جس کی قدر کی جانی چاہیے۔
آپ نے ان اصولوں کی نشان دہی کی جن پر عمل کر کے صحت کو قائم و دائم رکھا جا سکتا ہے۔ آپ نے کھانے پینے کی پاکیزہ چیزوں کی طرف رہ نمائی کی ، جو انسانوں کے لیے صحت بخش ہیں اور ان چیزوں کی مضرت بیان کی جو جسم انسانی کو نقصان پہنچانے والی اور اسے مرض میں مبتلا کرنے والی ہیں۔ ساتھ ہی آپ نے یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی مرض لاحق ہو جائے تو اس کا کس طرح علاج کیا جائے ؟ علاج کے غلط اور نا مناسب طریقے کیا ہیں؟ اور کن تدابیر کو اختیار کر کے امراض سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے؟ کبھی خود بیمار ہوئے تو بعض دوائیں لیں اور بعض طریقوں کو اپنایا، کبھی آپ کے اصحاب کسی مرض میں مبتلا ہوئے تو اس کی تشخیص کی، ان کے لیے کھانے پینے کی چیزیں، دوائیں اور علاج کے طریقے تجویزکیے، کبھی کسی ماہر طبیب سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔
آپ کے اصحاب اور ان کے بعد آنے والوں نے دیگر معاملات کے ساتھ صحت و مرض کے سلسلے میں آپ کے اقوال و افعال کو ضبط تحریر میں لا کر محفوظ کیا اور بعد کی نسلوں تک پہنچایا ۔ انہی کے مجموعے کو طب نبوی کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
بعثت نبوی کے وقت طب کی صورت حال
انسانوں نے ہر دور میں صحت و مرض اور علاج معالجہ کے معاملات میں دل چیپسی لی ہے۔ اس کی وجہ سے طبی معلومات کو جمع کر کے ان کی تحقیق کی طرف ان کی توجہ منعطف ہوئی ہے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں تمام تہذیبوں اور ملکوں میں علاج معالجہ کے مختلف طریقوں کا چلن رہا ہے۔ اس سلسلے میں مصر، میسو پوٹا میا، چین، یونان، روم اور ہندوستان کا متذکرہ بہ طور مثال کیا جا سکتا ہے۔
بعثت نبوی سے قبل کے دور میں طب کی تعلیم کے دو (۲) ادارے شہرت رکھتے تھے۔
ایک رومی سلطنت میں مصر کے شہر اسکندریہ میں قائم ادارہ، جہاں یونانی اطبا بقراط و جالینوس کے افکار و نظریات کے مطابق طب کی تعلیم دیتے تھے اور دوسرا ایران کے شہر جندی شاپور میں قائم ادارہ، جہاں با قاعدہ وقتی طور پر طب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود چھٹی صدی عیسوی میں افریقہ اور ایشیا کے تمام علاقوں میں ، جہاں رومیوں اور بازنطینیوں کا اقتدار تھا، عوام میں طلب اور علاج معالجہ سے بے رغبتی اور بے زاری پائی جاتی تھی ، دوا لینے کو نا مناسب خیال کیا جاتا تھا، امراض کو بھوت پر بہت اور آسیب کا اثر سمجھا جاتا تھا اور اس سے شفا پانے کے لیے جادو گروں اور پروہتوں کا سہارا لیا جاتا تھا، جنہوں نے جھاڑ پھونک، جادو ٹونا اور تعویذ گنڈے کو پیشہ بنا رکھا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک زیر دست ملیریا کی وبا نے رومی سلطنت کی بڑی آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور لاکھوں افراد کو جسمانی اور دماغی اعتبار سے مفلوج کر دیا تھا، لیکن صورت حال پر قابو پانے کے لیے کوئی طبیعی طریقہ نہیں اختیار کیا گیا تھا ۔
علاج معالجہ کے سلسلے میں یورپ کا حال بھی مشرقی ممالک: فارس ، عراق، شام اور مصر سے مختلف نہ تھا۔ وہاں بھی امراض سے نجات پانے کے لیے جادو ٹونا اور تعویذ گنڈا ہی رائج تھا۔
طب نبوی تجزیہ اور تقسیم
عہد جاہلی میں عربوں کے ہاں بھی طب کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ اس لیے کہ وہ تمدن سے بہت دور تھے۔ ان کا مزاج بداوت پر مبنی تھا۔ اگر چہ تمام انسانی سماجوں کی طرح وہ بھی امراض سے بچاؤ اور علاج کے طریقے تلاش کرتے تھے، لیکن بد اعتقادی کی وجہ سے امراض کو جتات، شیاطین اور بدروحوں کا اثر سمجھتے تھے ۔ چنانچہ بیمار ہونے پر عموماً کاہنوںسے رجوع کرتے ، جو تعویذ ، سحر اور جھاڑ پھونک کے ذریعے ان کا علاج کیا کرتے تھے۔
عربوں کے تجارتی اور سیاسی تعلقات پڑوسی ممالک ایران اور بازنطین وغیرہ سے قائم تھے، جس کی وجہ سے طب کی کسی قد رقمی معلومات ان تک پہنچنے لگی تھیں ۔ چنانچہ تاریخی روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ بعثت نبوی کے زمانے میں طائف میں رہنے والے قبیلے بنو ثقیف میں حارث بن کلدہ نامی ایک طبیب تھا،
جس نے ایران جا کر جندی شاپور کے طبی ادارے سے با قاعدہ تعلیم حاصل کی تھی ، پھر اپنے علاقے میں واپس آکر پیشہ ورانہ خدمت انجام دینے لگا تھا، لیکن عوام کا عمومی رجحان علاج معالجہ کرانے اور دوا لینے سے بے زاری کا تھا۔ وہ جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈے کے اسیر تھے۔